ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 583
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
ایمان باللہ' توحید اور طاغوت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
- طاغوت کے لغوی معنی :
طاغوت کا مصدر"طغی" ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں"حدوں کو توڑنے والا"۔(مفردات القرآن)
- طاغوت کا شرعی مفہوم :
اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں اور بندوں کے اس کے لیے خاص افعال بندگی میں تصرف و شرکت کرنے والا یا اس کا دعویٰ کرنے والا طاغوت کہلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے خصائص ربوبیت، الوہیت اور صفات کا کسی اور کو بھی اہل جاننا شرک ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص صفات میں سے کسی کو اپنے لیے جائز ٹھرانے والا طاغوت ہے۔ چنانچہ کسی شخص کا اپنے لیے اللہ کی بعض خصوصیات کا دعویٰ کرنا خود جھوٹا الٰہ بننے کے مترادف ہے۔ شریعت میں ایسے شخص کو طاغوت (باطل دعوے دارخدائی) کہا جاتا ہے۔
طاغوت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی صفات کا یا خود الٰہ ہونے کا دعویٰ کرے بلکہ اگر کوئی دعویٰ کیے بغیر محض اللہ کے لیے خاص افعال میں تصرف کرے وہ بھی طاغوت کہلاتا ہے۔
- طاغوت کے دلائل قرآن وحدیث سے :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ (التوبہ: ۳۱)
انہوں نے اپنے علماء اور رہبان کو اللہ کے علاوہ رب بنالیا۔
یہود و نصاریٰ کے علماء اپنے لوگوں کے لیے حکم الٰہی سے مخالف شریعت و قانون بناتے تھے۔ جبکہ شریعت و قانون بنانا صرف اللہ کا خاص حق ربوبیت ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں"ارباب من دون اللہ" کے علاوہ طاغوت بھی قرار دیا ہے۔
چنانچہ فرمایا :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ (النساء: ۶۰)
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ بے شک وہ اس پر ایمان لائے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت سے کرائیں۔
اس آیت کے شان نزول میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کا جھگڑا ہوگیا تو یہودی نے کہا کہ اس کے حل کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتے ہیں جبکہ مسلمان نے کہا کہ نہیں کعب بن اشرف کے پاس چلتے ہیں۔
(تفسیرابن کثیر)
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو اللہ کے خاص حق فیصلہ و قانون سازی میں تصرف کرے وہ طاغوت ہے۔
وقال جابر کانت الطواغیت التی یتحاکمون الیھا فی جھینة واحد' وفی اسلم واحد' وفی کل واحد' کھان ینزل علیھم الشیطان۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :طاغوت وہ ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لے کر جاتے ہیں۔جہینہ قبیلے میں ایک طاغوت تھا، اسلم قبیلے میں ایک طاغوت تھا اور اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا تھا۔ یہ طاغوت کاہن ہوتے ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں۔
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر: ۴۳)
- طاغوت کے متعلق سلف صالحین کے اقوال :
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طاغوت وہ ہوتا ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے۔
(تفسیرابن کثیر)
امام مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طاغوت صاحب اثر انسانوں کی شکل میں شیطان ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لے کر جاتے ہیں۔
(ابن ابی حاتم:۳-۹۹۴)
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طاغوت کے بارے میرے نزدیک درست قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے خلاف سرکشی کرے اور اسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجا جارہا ہو۔ اس کی پوجا یا تو اس کی زبردستی یا قہر کی وجہ سے کی جاتی ہو جوکہ اسے پوجنے والوں کے دلوں پر چھائی ہو یا پوجنے والوں کی طرف سے اطاعت کے جزبہ کے تحت اس کی پوجا کی جارہی ہو۔ یہ معبود خواہ کوئی انسان، شیطان، بت ہو یا دنیا کی کوئی بھی چیز ہو۔
(تفسیر الطبری: ۳-۲۱)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جارہی ہو اور وہ اس پر راضی ہو وہ طاغوت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں جس کی بات مانی جارہی ہو، اور دین حق اور یدایت کے راستے کی اتباع کی بجائے جس کی غیر مشروط اطاعت کی جارہی ہو ایسا شخص طاغوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے اس شخص کو بھی طاغوت کہا جاتا ہے جس کے پاس کوئی فیصلہ کروانے کے لئے آئے اور اس کا معمول یہ ہوکہ وہ کتاب اللہ کے بغیر ہی فیصلہ کرتا ہو۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ:۲۸-۲۰۰)
امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طاغوت ایک عام لفظ ہے، ہر وہ چیز یا ذات جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو اور وہ اس عبادت پر راضی بھی ہو خواہ وہ معبود ہو یا متبوع اور مطاع ہو وہ طاغوت کے زمرے میں آتا ہے۔
(مجموعۃ التوحید: ۹)
جن چیزوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں :
بے جان: مثلاًبت، قبریں، پتھر، درخت، سورج اورچاند وغیرہ
جاندار: عاقل مثلاً انسان، جنات، فرشتے اور عاقل جانور، پرندے اور حشرات وغیرہ
وہ عاقل جاندار جو اپنی بندگی واطاعت کروانے پر راضی ہیں۔جیسے انسان اور شیطان وغیرہ یہ سب طاغوت کے زمرے میں ہیں۔
وہ عاقل جاندار جو اپنی بندگی کراونے پر راضی نہیں ہیں کہ ان کو اللہ کا شریک بنایا جائے جیسے نصرانی عیسٰی علیہ السلام کو الٰہ کا درجہ دیتے ہیں، کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مشکلات کے حل کے لئے پکارتے ہیں اور کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مدد کی فریاد کرتے ہیں۔
یہ اپنی یا اللہ کے علاوہ ہرک سی کی بندگی سے برأت کرنے والے ہیں اور یہ اللہ کی بجائے اپنی عبادت پر راضی نہیں اس لئے انہیں طاغوت کہنا جائز نہیں۔ ایسی صورت میں شیطان ہی طاغوت ہے جس نے مشرکوں کو اس کام پر لگایا ہے۔