• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان باللہ توحید ربوبیت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ایمان باللہ توحید ربوبیت

بسم الله الرحمن الرحیم

ایمان باللہ توحید ربوبیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ خالق و رازق، مالک و حاکم ہونے میں اور تصرف واختیار میں اکیلا ہے۔ ربوبیت لفظ"رب"سے ماخوذ ہے اور یہ لفظ"رب" کی شرح وتفصیل ہے۔

  • خالق ہونے میں یکتا

کائنات اور تمام مخلوقات کا خالق اللہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کرسکتا۔

ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے :

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ
۔(یونس:۳)
بے شک تمہار ارب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔

نیز ارشاد فرمایا :

هَٰذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ ۔(لقمان:۱۱)
یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے دکھاؤ کہ دوسروں نے کیا تخلیق کیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنه سے مروی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ
قیامت کے دن سب سے شدید عذاب ان لوگوں کو دیاجائے گا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کرتے ہیں۔(صحیح بخاری:۵۹۵۴)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ صَوَّرَ صُورَةً عُذِّبَ وَكُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا وَلَيْسَ بِنَافِخٍ
جو شخص دنیا میں کسی جانور کی تصویر بناتا ہے اسے حکم دیا جائے گا کہ اس تصویر میں روح پھونکے لیکن وہ اس میں روح نہ پھونک سکے گا۔(صحیح بخاری:۷۰۴۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
ابن آدم زمانے کو گالی دے کر مجھ کو ایذا پہنچاتا ہے۔کیونکہ زمانہ میں خود ہوں۔(یعنی زمانہ میرا پیدا کردہ ہے) میں ہی دن اور رات کو بدل بدل کر لاتا ہوں۔ (صحیح بخاری:۴۸۲۶)


  • رازق ہونے میں تنہا

ہر قسم کی بھلائی و رزق، تنگی وآسانی اور برکت اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اس کے علاوہ کوئی ذرا بھر بھی بھلائی وآسانی دینے پر قادر نہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہیں :

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ۔(ھود:۶)
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمے ہیں وہی ان کے رہنے سہنے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے، سب کچھ واضح کتاب میں ہے۔

أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَل لَّجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ ۔ (الملک:۲۱)
اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے جو پھر تمہیں روزی دے گا بلکہ وہ تو سرکشی اور سازش پر اڑے ہوئے ہیں۔


  • اولاد عطا کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے

فرمان باری تعالیٰ ہیں :

لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ۔(الشورٰی : ۴۹)
آسمان اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے، یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے وہ تو جاننے والا اور قدرت والا ہے۔

اس معاملے میں انبیاء بے اختیار ہیں تو اولیاء کس طرح بااختیار ہو سکتے ہیں۔ سیدنا زکریا علیہ السلام بڑھاپے تک بے اولاد ہیں اور اللہ سے اولاد طلب کرتے ہیں :

قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ۔(مریم:۴-۵)
عرض کیا اے میرے پروردگار میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک (سفید ہو) گیا ہے۔ اور اے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔


  • عزت وذلت عطا کرنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۔(آل عمران:۲۶)
(اے نبی) کہیے اے اللہ اے بادشاہت کے مالک تو جس کوچاہے بادشاہت دے جس سے چاہے بادشاہت چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے، ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قاد رہے۔


  • موت و زندگی، تنگی و آسانی، نفع و نقصان اور بیماری و شفا عطا کرنے والا صرف اللہ ہے

فرامین باری تعالیٰ ہیں :

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَيْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۔(الروم:۴۰)
اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر اس نے تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں مارے گا پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان کاموں میں سے کچھ کر سکے، اللہ ان کے شریک ٹھرانے سے پاک اور اعلیٰ ہے۔

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۔(العنکبوت:۶۲)
اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ۔(الفاطر:۱۵)
اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج وفقیر ہو اور اللہ ہی بے پروا اور سزاوار حمد و ثنا ہے۔

وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ۔(الشعرأ:۸۰)
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ ہی مجھے شفا دیتا ہے۔

حدیث میں بیمار کے لیے دعا مذکو رہے :

اللهم رب الناس، أذهب البأس، واشف، أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك، شفاءً لا يغادر سقماً
اے لوگوں کے رب اس بیماری کو دور کردے شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری نہ چھوڑے۔ (متفق عليه‏)

فرامین باری تعالیٰ ہیں :

مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ۔(التغابن:۱۱)
کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۔ (الاعراف:۱۹۰)
جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک صحیح سالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی بخشش وعنائت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھرانے لگے اللہ تعالیٰ بہت بلند وبرتر ہے ان مشرکانہ باتوں سے جو لوگ کرتے ہیں۔


اس آیت میں مذکور مشرکین اللہ کی بجائے خالق ورازق غیر اللہ کو نہ سمجھتے تھے بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ اولاد فلاں ہستی کے فیض اور وسیلہ سے ملی ہے اس لیے وہ ان بچوں کے نام ان سے موسوم کر کے رکھ دیتے تھے۔

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ۔(یونس:۱۰۶)
اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنه سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یہ بھی ایمان کی کمزوری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے انسانوں کا شکر ادا کرے یا ان کی تعریف کرے اور جو کچھ اللہ نے نہیں عطا فرمایا اس کی وجہ سے لوگوں کی مذمت کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا رزق نہ تو کسی کے حرص اور لالچ کی وجہ سے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ کسی کے ناپسند کرنے کی بنا پر رک سکتا ہے۔ (بحوالہ کتاب التوحید)

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي ۔ (حم سجدہ:۵۰)
جونہی سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں یہ کہتا ہے میں اس کا مستحق تھا۔


مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ آیت میں"ھذا لی"سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص کہتا ہے کہ یہ مال مجھے میری محنت اور کام کی بدولت ملا اور میں اس کا مستحق تھا۔

يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ ۔(النحل:۸۳)
یہ اللہ تعالیٰ کے احسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان میں اکثر انکار کرنے والے ہیں۔

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ یہ میرا مال ہے جو مجھے اپنے باپ دادا سے ورثہ میں ملا ہے۔
عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ جس طرح لوگ کہتے ہیں کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو یہ کام نہ ہوتا۔


  • برکت صرف اللہ کی طرف سے ہے یہ کسی چیز یا ہستی کے اختیار میں نہیں

عن أَبِیْ واقَدٍ اللَّیْثِیِّؓ أَنَّہُمْ خَرَجُوْا عَنْ مَکَّۃَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی حُنَیْنٍ قَالَ: وَکَانَ لِلْکُفَّارِ سِدْرَۃٌ یَعْکِفُوْنَ عِنْدَہَا وَیُعَلِّقُوْنَ بِہَا أَسْلِحَتَہُمْ یُقَالُ لَہَا ذَاتُ أَنْوَاطٍ، قَالَ: فَمَرَرْنَا بِسِدْرَۃٍ خَضْرَائَ عَظِیْمَۃٍ قَالَ: فَقُلْنَا: (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَقُلْتُ) یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَمَا لِلْکُفَّارِ ذَاتُ أَنْوَاطٍ) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: (( قُلْتُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ کَمَا قَالَ قَوْمُ مُوْسٰی: {اِجْعَلْ لَنَا اِلٰہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ، قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ} اِنَّہَا لَسُنَنٌ، لَتَرْکَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ سُنَّۃً سُنَّۃً۔))

سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ حنین کے لیے مکہ مکرمہ سے نکلے، کافروں کی ایک بیری تھی، وہ اس کے پاس قیام کرتے تھے اور اس کے ساتھ اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے (اور مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھتے تھے)، اس بیری کو ذات ِ انواط کہتے تھے، پس ہم سبز رنگ کی ایک بڑی بیری کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات ِ انواط بنائیں، جیسا کہ کافروں کی ذات ِ انواط ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کہی، جو موسیٰؑ کی قوم نے کہی تھی، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے موسی! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں، آپ نے کہا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔ (اعراف: ۱۳۸) یہ مختلف طریقے ہیں، البتہ تم ضرور ضرور اور ایک ایک کر کے پہلے والے لوگوں کے طریقوں کو اپناؤ گے۔ (مسند أحمد: ۳۴۹)


نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کویہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ(بیعت رضوان) والے درخت کے پاس آکر (برکت کے لیے) نمازیں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے ان کو ڈرایا دھمکایا پھر اسے کاٹنے کا حکم دیا، پس اسے کاٹ دیا گیا۔ (فتح الباری:۷-۴۴۸)

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: أَخْبَرَنِی عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ أَنَّ النَّبِیَّ صلى الله عليه وآله وسلم أَبْصَرَ عَلٰی عَضُدِ رَجُلٍ حَلْقَۃً أُرَاہُ قَالَ مِنْ صُفْرٍ فَقَالَ: ((وَیْحَکَ مَا ہٰذِہِ؟)) قَالَ: مِنَ الْوَاہِنَۃِ قَالَ: ((أَمَا إِنَّہَا لَا تَزِیدُکَ إِلَّا وَہْنًا انْبِذْہَا عَنْکَ فَإِنَّکَ لَوْ مِتَّ وَہِیَ عَلَیْکَ مَا أَفْلَحْتَ أَبَدًا۔))

سیدنا عمران بن حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کے بازو پر پیتل کا کڑا دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو جائے، یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ واہنہ کی وجہ سے ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیری اس بیماری میں اور اضافہ کرے گا، پھینک دے اس کو، اگر تو اس حال میں مرا کہ یہ تجھ پر ہوگا تو تو کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ (مسند احمد: ۷۷۳۸، ضعیف)


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لِمَ تَقُولُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَتْ عَيْنِي تَقْذِفُ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أَخْتَلِفُ إِلَى فُلَانٍ الْيَهُودِيِّ يَرْقِينِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَقَانِي سَكَنَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ إِنَّمَا ذَاكَ عَمَلُ الشَّيْطَانِ كَانَ يَنْخُسُهَا بِيَدِهِ فَإِذَا رَقَاهَا كَفَّ عَنْهَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكِ أَنْ تَقُولِي كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، ‏‏‏‏‏‏لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، ‏‏‏‏‏‏شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا.

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: جھاڑ پھونک ( منتر ) ۱؎ گنڈا ( تعویذ ) اور تولہ ۲؎ شرک ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی میری آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی تھا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «ذهب الباس رب الناس اشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے ۔ (ابوداؤد: ۳۸۸۳، ضعیف)

  • مالک ہونے میں یکتا

آسمان و زمین پر ملکیت و حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔

فرامین باری تعالیٰ ہیں :

لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ۔ (البقرہ:۲۸۴)
آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔ (الشوریٰ:۴۹)
آسمانوں اور زمین کی ملکیت اللہ ہی کے لیے ہے۔

وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا ۔(آل عمران:۸۳)
آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اللہ کا فرمانبردار ہے۔

جس طرح آسمان پر ملکیت وحاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے اس کو لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح زمین کی ملکیت وحاکمیت بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَٰهٌ ۔ (الزخرف:۸۴)
اور وہی آسمان میں بھی الٰہ ہے اور زمین میں بھی الٰہ ہے۔

آج لوگوں نے زمین پر اللہ کی ملکیت وحاکمیت کوتسلیم نہیں کیا۔ اور وہ اس کی شریعت اور احکام وقوانین کو چھوڑ کر انسانوں کو حاکم وقانون ساز سمجھتے ہیں اور ان کے وضع کردہ قوانین کی اپنے ملک ومعاشرے میں اطاعت کرتے ہیں۔

يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ۔ (آل عمران:۱۵۴)
وہ کہتے ہیں کیا اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے کہہ دیجئے سب اختیار اللہ ہی کا ہے۔

بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا۔ (الرعد:۳۱)
یقیناً سارا امر کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔

أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۔ (الاعراف:۵۴)
آگاہ رہو پیدا کرنا اور حکم صادر کرنا اسی کے لیے روا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ومن زعم ان اللّٰہ جعل للعباد شیاء من الامر فقد کفر بما انزل اللّٰہ علی انبیائه لقوله الا له الخلق و الامر۔ (تفسیر طبری وابن کثیر)

اور جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے امر کی صفت میں سے بندوں کے لیے کچھ اختیار دیا تو تحقیق اس نے کفر کیا ان تمام باتوں کا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمائی ہیں اللہ کے اس قول کی روسے کہ خبرادار پیدا کرنا اورحکم صادر کرنا اسی کے لیے روا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنه سے مروی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَخْنَى الْأَسْمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ . (صحیح بخاری: ۶۲۰۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اس کا ہو گا جو اپنا نام ملک الاملاک ( شہنشاہ ) رکھے۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی جن کی کنیت ابو الحکم تھی اس کوتبدیل کرنے کاحکم دیا اور فرمایا :

ان اللّٰہ ھوالحکم والیه الحکم۔ (ابوداؤد:۴۹۵۵)
بے شک اللہ حکم (مالک وقانون ساز)ہے اورحکم اسی کی طرف لوٹتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی صرف نام کی حد تک خودکو ملک الاملاک یا ابوالحکم کہلائے۔ تو جو کوئی خود قانون سازی کا دعویٰ کرے یا اس کے بغیر اسلام کے مخالف قانون وضع کرے، اور اللہ کی شریعت کو نافذ نہ کرے تو وہ یقیناً اللہ اکیلے مالک وحاکم کی ربوبیت میں شریک ٹھہرا رہا ہے۔


  • تصرف و اختیار میں یکتا

ساری کائنات زمین وآسمان اور تمام مخلوقات کے امور میں تصرف کرنے اور سنبھالنے والا اور قدرت و اختیار رکھنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ۔ (یس:۸۲)
بے شک جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ : صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ : هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ؟ قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ : أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ . (صحیح بخاری:۸۴۶)

حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔


  • ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے

ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۔ (الانعام:۸۸)
یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۔ (القصص:۵۴)
(اے رسول) بے شک آپ جس کو چاہتے ہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔


  • مدد کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے

أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ۔(الاعراف:۱۹۱)
کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھراتے ہیں جو کسی چیز کوبھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں جو نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی مددکرنے پرہی قادر ہیں۔

وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ۔ (فاطر:۱۳)

جنہیں تم اس کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گھٹلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔

حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كسرت رباعيته يوم احد وشج في راسه فجعل يسلت الدم عنه، ويقول: كيف يفلح قوم شجوا نبيهم وكسروا رباعيته وهو يدعوهم إلى الله، فانزل الله عز وجل ليس لك من الامر شيء سورة آل عمران آية ١٢٨ ".

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے دانت مبارک شہید ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔"وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جواپنے نبی کو زخمی کردے" تو اس موقع پرقرآن مجیدکی یہ آیت نازل ہوئی'لیس لک من الامرشئ۔(اے پیغمبر فیصلے کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں)۔ (صحیح مسلم:۹۱-۱۷)


  • معجزہ دکھانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے

فرامین باری تعالیٰ ہیں :

وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۔ (الرعد:۳۸)
اور کسی رسول کے اختیار میں نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیرکوئی نشانی لائے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی اس بات کا اعلان فرمایا:

أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ ۔ (آل عمران:۴۹)

(میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی لایا ہوں) میں تمہارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتاہے اور اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو اورکوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردہ کو زندگی دیتا ہوں اور جو تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرو، میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اعلان فرمایا:

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ ۔ (الانعام:۵۰)
کہہ دو، میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۔ (یونس:۴۹)

کہہ دو، میں تو اپنے لیے نفع ونقصان کا کچھ بھی اختیارنہیں رکھتا مگر جتنا اللہ تعالیٰ چاہے۔

قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ۔ (الجن:۲۱-۲۲)
کہہ دو، کہ میں تمہارے لیے نفع ونقصان کا اختیارنہیں رکھتا، کہہ دیجئے، کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ تعالیٰ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں پا سکتا۔

اس لئے یہ عقیدہ رکھنا کہ انبیاء و اولیاء اللہ کے اذن سے تصرف کرتے ہیں اور حاجات پوری کرنے پرقادر ہیں، اللہ کے لیے خاص تصرف و اختیار میں شرک ہے۔

ححدثنا ابو نعيم، قال‏:‏ حدثنا سفيان، عن الاجلح، عن يزيد، عن ابن عباس‏:‏ قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ ما شاء الله وشئت، قال‏:‏ ”جعلت لله ندا، ما شاء الله وحده‏.‏“

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جیسے اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اللہ تعالیٰ کا ند اور شریک بنا دیا۔ یوں کہے کہ جو اکیلا اللہ چاہے۔“ (الادب المفرد حدیث نمبر: ٦٨٣، أحمد: ٢٥٦١)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ نُمَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کی نسبت بہتر اور زیادہ محبوب ہے ، جبکہ خیر دونوں میں ( موجود ) ہے ۔ جس چیز سے تمہیں ( حقیقی ) نفع پہنچے اس میں حرص کرو اور اللہ سے مدد مانگو اور کمزور نہ پڑو ( مایوس ہو کر نہ بیٹھ ) جاؤ ، اگر تمہیں کوئی ( نقصان ) پہنچے تو یہ نہ کہو : کاش! میں ( اس طرح ) کرتا تو ایسا ایسا ہوتا ، بلکہ یہ کہو : ( یہ ) اللہ کی تقدیر ہے ، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس لیے کہ ( حسرت کرتے ہوئے ) کاش ( کہنا ) شیطان کے عمل ( کے دروازے ) کو کھول دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم:۲۶۶۴)
 
Top