باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
ایمان ، قلبی یقین کا نام ہے۔
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم وإن تطيعوا الله ورسوله لا يلتكم من أعمالكم شيئا إن الله غفور رحيم
دیہاتی کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا ، بےشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
( سورة الحجرات : 49 ، آیت : 14 )
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
امام ابن ماجہ ، ابن مردویہ ، طبرانی اور بیہقی (رحمہم اللہ) نے شعب الایمان میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "ایمان سے مراد دل کے ساتھ معرفت رکھنا ، زبان کے ساتھ اقرار کرنا اور ارکان کے مطابق عمل کرنا ہے"۔
(تفسیر در منثور)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
یہاں یہ بتلاتے ہیں کہ ایمان و یقین پوری طرح جب دل میں راسخ ہو جائے اور جڑ پکڑ جائے ، اس وقت غیبت اور عیب جوئی کی خصلتیں آدمی سے دور ہو جاتی ہیں۔ جو شخص دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور آواز پہنچانے میں مبتلا ہو ، سمجھ لو کہ ابھی تک ایمان اس کے دل میں پوری طرح پیوست نہیں ہوا۔
(تفسیر عثمانی)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ :
ایک کہتا ہے ہم مسلمان ہیں یعنی دینِ مسلمانی ہم نے قبول کیا ، اس کا مضائقہ نہیں اور ایک کہتا ہے کہ ہم کو پورا یقین ہے ، جو یقین پورا ہے تو اس کے آثار کہاں؟ جبکہ واقعی پورا یقین حاصل ہو تو ایسے دعوے کرنے سے ڈرتا اور شرماتا۔
(تفسیر عثمانی)
اہل التشیع کے سید ناصر مکارم شیرازی لکھتے ہیں :
اب الحجرات آیت:14 کے مطابق "اسلام اور ایمان" میں فرق یہ ہے کہ اسلام ظاہری قانونی شکل رکھتا ہے اور جو شخص زبان پر شہادتین جاری کرتا ہے تو مسلمانوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اور اس پر اسلام کے احکام جاری ہو جاتے ہیں لیکن ایمان ایک واقعی اور باطنی امر ہے ، اس کی جگہ انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور اس کا ظاہر۔ ممکن ہے اسلام کے مختلف محرکات ہوں اور شخصی منافع لیکن "ایمان" حتمی طور پر معنوی محرکات سے علم و آگاہی سے غذا حاصل کرتا ہے اور وہی ہے کہ جس کی شاخوں پر تقویٰ کا حیات بخش پھل ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو پیغمبر گرامی اسلامی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک واضح اور ناطق عبارت میں منقول ہے کہ : "اسلام ایک آشکار اور ظاہری چیز ہے لیکن ایمان کی جگہ دل ہے"۔
(تفسیر البیان)
امام حمید الدین فراہی صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
پس وہ یقین جو خشیت ، توکل اور اعتقاد کے تمام لوازم و شرائط کے ساتھ پایا جائے ، ایمان ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر ، اس کی آیات پر ، اس کے احکام پر ایمان لائے ، اپنا سب کچھ اس کو سونپ دے اور اس کے فیصلوں پر راضی ہو جائے تو وہ مومن ہے۔
(مجموعہ تفاسیر فراہی)
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم وإن تطيعوا الله ورسوله لا يلتكم من أعمالكم شيئا إن الله غفور رحيم
دیہاتی کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا ، بےشک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
( سورة الحجرات : 49 ، آیت : 14 )
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
امام ابن ماجہ ، ابن مردویہ ، طبرانی اور بیہقی (رحمہم اللہ) نے شعب الایمان میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "ایمان سے مراد دل کے ساتھ معرفت رکھنا ، زبان کے ساتھ اقرار کرنا اور ارکان کے مطابق عمل کرنا ہے"۔
(تفسیر در منثور)
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
یہاں یہ بتلاتے ہیں کہ ایمان و یقین پوری طرح جب دل میں راسخ ہو جائے اور جڑ پکڑ جائے ، اس وقت غیبت اور عیب جوئی کی خصلتیں آدمی سے دور ہو جاتی ہیں۔ جو شخص دوسروں کے عیب ڈھونڈنے اور آواز پہنچانے میں مبتلا ہو ، سمجھ لو کہ ابھی تک ایمان اس کے دل میں پوری طرح پیوست نہیں ہوا۔
(تفسیر عثمانی)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ :
ایک کہتا ہے ہم مسلمان ہیں یعنی دینِ مسلمانی ہم نے قبول کیا ، اس کا مضائقہ نہیں اور ایک کہتا ہے کہ ہم کو پورا یقین ہے ، جو یقین پورا ہے تو اس کے آثار کہاں؟ جبکہ واقعی پورا یقین حاصل ہو تو ایسے دعوے کرنے سے ڈرتا اور شرماتا۔
(تفسیر عثمانی)
اہل التشیع کے سید ناصر مکارم شیرازی لکھتے ہیں :
اب الحجرات آیت:14 کے مطابق "اسلام اور ایمان" میں فرق یہ ہے کہ اسلام ظاہری قانونی شکل رکھتا ہے اور جو شخص زبان پر شہادتین جاری کرتا ہے تو مسلمانوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے اور اس پر اسلام کے احکام جاری ہو جاتے ہیں لیکن ایمان ایک واقعی اور باطنی امر ہے ، اس کی جگہ انسان کا دل ہے نہ کہ اس کی زبان اور اس کا ظاہر۔ ممکن ہے اسلام کے مختلف محرکات ہوں اور شخصی منافع لیکن "ایمان" حتمی طور پر معنوی محرکات سے علم و آگاہی سے غذا حاصل کرتا ہے اور وہی ہے کہ جس کی شاخوں پر تقویٰ کا حیات بخش پھل ظاہر ہوتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو پیغمبر گرامی اسلامی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک واضح اور ناطق عبارت میں منقول ہے کہ : "اسلام ایک آشکار اور ظاہری چیز ہے لیکن ایمان کی جگہ دل ہے"۔
(تفسیر البیان)
امام حمید الدین فراہی صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
پس وہ یقین جو خشیت ، توکل اور اعتقاد کے تمام لوازم و شرائط کے ساتھ پایا جائے ، ایمان ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر ، اس کی آیات پر ، اس کے احکام پر ایمان لائے ، اپنا سب کچھ اس کو سونپ دے اور اس کے فیصلوں پر راضی ہو جائے تو وہ مومن ہے۔
(مجموعہ تفاسیر فراہی)
(تحریر بشکریہ: عبدالمنان معاویہ)