عمر سلفی
رکن
- شمولیت
- اپریل 30، 2012
- پیغامات
- 39
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 52
میں آج اس سیشن کے آغاز میں ایک بہت ہی سلگتے ہوئے مسئلے پر بات کرنا چاہوں گا۔ ایسا مسئلہ جس کا سامنا بہت سے مسلمان نوجوانوں کو کرنا پڑ رہا ہے اور میں خود بھی زندگی میں ایک مرحلے پر اس سے دوچار رہ چکا ہوں۔ اپنے ملک گیر (امریکہ) دوروں کے دوران میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ صرف ایک کمیونٹی یا شہر کا نہیں، بلکہ پورے ملک یا یوں کہیے کل عالم ِ اسلام کا مسئلہ بن چکا ہے۔اور یہ مسئلہ دین ایمان کے سچے ہونے پر یقین و اعتماد نہ ہونے کا مسئلہ ہے!
الحمدللہ آج آپ میں یہاں موجود بیشتر لوگ مسلمان ہیں، اپنے دین کے متعلق جاننے اور اسکے پیغام کو آگے پھیلانے کے متعلق کمر بستہ ہیں اور انشاء اللہ آپ لوگوں سے ہی مستقبل میں امید کی جا سکتی ہے کہ آپ نہ صرف غیر مسلموں بلکہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کو بھی اسلام کی طرف لا سکیں گے جن کا آج دین ِ حق سے ناطہ کچے دھاگے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ آپ کا آج یہاں موجود ہونا ہی دین سے آپکی وابستگی کی دلیل ہے۔ آپ کو اپنی قدر وقیمت کا احساس ہو نہ ہو میرے نزدیک آپ لوگ مستقبل میں انشاء اللہ اسلام کے سفراء ہیں اللہ ہماری آج کی اس جیسی دوسری دینی مساعی کو قبول کرے اور ہمیں دینِ حق کے لیے مخلص کر دے۔
اب آتے ہیں عقیدے کے بحران کے اس مسئلے کی طرف ۔ پہلے میں آپ کو دو واقعات سناؤں گا پھر ہم عمومی گفتگو کریں گے۔ پہلا واقعہ دو تین سال پرانا ہے میں نے ایک شہر میں خطبہ دیا، خطبے کے اختتام پر ایک صاحب آکر مجھ سے درخواست کرنے لگے کہ آپ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ تناول کیجیے۔ میری بیٹی آپ سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ میرے پاس وقت تھا اس لیے میں انکے ساتھ چل پڑا ۔ اُنکا گھر مسجد کے بالکل ساتھ تھا ، گھر پہنچ کر وہ اپنی بیٹی کو میرے پاس لے کر آئے۔ اب جب وہ بچی میرے پاس آئی تو اس نے چہرہ مختلف جگہوں سے چھدوا رکھا تھا۔ ماتھے پر، آنکھوں کے اطراف میں اور ایسی ایسی جگہوں پر کہ انسان کو دیکھ کر جھر جھری آجاتی تھی اور یہ جدّی پشتی مسلمان گھرانے کی پیدائشی مسلمان لڑکی تھی۔ اسے دیکھ کر ہی میری طبیعت مکدّر ہو رہی تھی۔ تاہم میں نے اس سے استفسار کیا کہ وہ مجھ سے اسلام کے بارے میں جو پوچھنا چاہتی ہے پوچھے۔ اب اس نے یکے بعد دیگرے مجھ سے کوئی تیس سوال کیے۔ میں کسی ایک کا بھی جواب دیے بغیر بڑے تحمل سے اس سے پوچھتا رہا ، اور کچھ؟ ''وہ کہتی رہی'' ۔ ہائی اسکول میں میرے کچھ دوست ہم جنس پرست ہیں۔ مگر وہ برے لوگ نہیں۔ انہوں نے کسی کو جان سے تو مار نہیں ڈالا ، پھر ہم ان کے خلاف کیوں اتنا کیوں بولتے ہیں۔ خدا نے جہنّم کیوں بنائی ہے؟ اگر ہمیں آخرت میں خدا نے جلانا ہی تھا تو پھر بھلا ہمیں پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ بوائے فرینڈز بنانے میں آخر قباحت ہی کیا ہے۔ میں کوئی کسی کو قتل تو نہیں کر رہی۔ آخر ہم ہر چیز کا گناہ ثواب سر پر کیوں سوار کر لیتے ہیں۔
اب یہ چند باتیں سن کر اندر ہی اندر مجھے تین ہارٹ اٹیک ہو چکے تھے لیکن بظاہر میں خود پر جبر کرکے اس سے پوچھے جا رہا تھا ''اور کچھ؟'' ۔ اور وہ بچی اپنے باپ کی موجودگی سے بے پرواہ بے تکان بولے جا رہی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ میرے خدا! اگر یہ باتیں سن کر میں کٹ مر رہا ہوں تو اس وقت اس کے باپ کا کیا حشر ہو گا۔ مجھے واقعی باپ غریب پر ترس آرہا تھا۔ تیس سوالات کے بعد میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ ان سارے مسائلپر ڈسکشن کرنے کو تیار ہوں۔ پر پہلے تم صرف میرے ایک سوال کا جواب دے دو۔ وہاں کھانے والے کمرے کی میز پر قرآن مجید کا ایک نسخہ پڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے ہاتھ میں پکڑ کر بچی سے پوچھا۔ ''کیا تمہیں واقعی دل سے یقین ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ربّ العزّت کی جانب سے فرشتے کے ذریعے ایکبشر صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ قطعی اور حتمی طور پر بہترین ضابطہ حیات ہے۔ اگر ہم اس کتاب کے مطابق زندگی گذاریں گے تو دنیا وآخرت کی راحتیں پائیں گے وگرنہ صورتِ دیگر اسکو ٹھکرا کر ہمیشہ ہمیشہ کی ذلتوں کا شکار ہو جائیں گے۔ کیا تمہیں ان سب باتوں پر یقین ہے۔'' وہ فوراً کہنے لگی: ''نہیں مجھے ان باتوں پر بھی شک ہے۔'' میں نے جواب دیا کہ بس پھر تمہارے باقی سارے سوالوں کے جوابات دینا لا یعنی ہے۔ اس عقیدے کے نہ ہونے کے بعد ہر چیز بے معنی ہے۔
یہ وہ چیز، وہ مسئلہ ہے جسے میںایمان کے بحران کا نام دیتا ہوں اور یہ لڑکی اکیلی اس مرض کا شکار نہیں۔ ایسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ بس وہ سارے سوال نہیں کرتے اور ان میں لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی شامل ہیں۔ کسی شے کے حرام ہونے کے بارے میں سُن کر ان کے دل میں یہی سوال سر اُٹھاتے ہیں کہ بھلا یہ شے حرام کیوں ہے؟ فلاں کام سے کیوں منع کیا گیا ہے! اور جب انہیں جواباً کہا جائے کہ منع اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ کام شرعاً حرام ہے تو وہ لوگ اُکتا کر جواب دیتے ہیں کہ ''جی یہ بات تو ہر کام سے روکنے والے ہی کہتے ہیں۔'' ان کے نزدیک اسلام کی مختصر ترین تعریف ہی یہ بن جاتی ہے۔ ''کہ اسلام کا مطلب ہے، ہرشے حرام ہے! نہ ہنسو نہ مسکراؤ۔ زندگی سے لطف اٹھانے کی چنداں اجازت نہیں!'' اس خیال کو پروان چڑھانے میں ہمارے ملک (امریکہ) کی مسجدوں کے مخصوص ماحول کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ جہاں ہر جگہ کوئی نہ کوئی ماتھے پر تیوریاں چڑھائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ہر جگہ گویا نوٹس لگے ہوتے ہیں۔''ممنوع التبسم'' مسکرانا منع ہے۔ کوئی بچہبیچارہ تھوڑی سی کھیل کود کرلے یا کھلکھلانے لگے اسے فوراً گھورا جاتا ہے۔ تمہیں نظر نہیں آرہا یہ مسجد ہے۔ یہاں صرفسنجیدہ رہنے کی اجازت ہے۔ یہی ماحول بچے کو اسلامی سکولوں میں دیکھنا پڑتا ہے۔ میں کسی خاص سکول کا نام نہیں لوںگا مگر عام طور پر یہ اسلامی سکول کچھ نہایت غصیلی آنٹیاں چلا رہی ہوتی ہیں! بچے بیچارے وہاں چہار جانب ناراض ناراض خشک مزاج لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ جسکی جتنی لمبی داڑھی ہوتی ہے اُس کے ماتھے پر اُتنے ہی بل ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں لامحالہ بچے کے ذہن میں سوال کلبلانے لگتے ہیں۔ ''میں کیوں مسلمان ہوں؟ یہاں پر بندہ اتنا اداس کیوں ہے؟ بہر بطور مسلمان کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ جب کوئی دلچسپ کام سامنے آتا ہے اس پر کفر ہونے کا فتویٰ لگ جاتا ہے۔ میرے سارے غیر مسلم دوست ان لوگوں کے مطابق دوزخ کی آگ میں جلنے والے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے آخر کیا چاہتے ہیں؟' اسی طرح اندر ہی اندر نوجوان مسلمان لڑکے لڑکیاں اسلام سے متنفر ہونے لگتے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اکثر مسلمان ماں باپ امریکہ میں اپنے بچے اسلامی کی بجائے سرکاری سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔ اب ایسے والدین کو جب یہ احساسِ جرم ستاتا ہے کہ وہ بچے کی مذہبی تعلیم کی طرف سے غفلت برت رہے ہیں تو وہ ازالے کی خاطر اُسے ہر اتوار کو مسجد کی درس کلاس میں زبردستی بھیجنے لگتے ہیں۔ مگر کیا اسکا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ جی نہیں! اسکا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں نکلتا۔ حالانکہ ذاتی طور پر مجھے مساجد میں ہونے والے یہ اتوار کے دروس بہت پسند ہیں اور میں انہیں ہمارے مسلمان بچوں کے حق میں ایک نعمت خیال کرتا ہوں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ اتوار کے روز ان درسوں میں شریک کسی بچے، بالخصوص کسی نوجوان کو کونے میں لے جا کر پوچھیں کہ کیا واقعی چھٹی کا دن اس طرح گذارنا چاہتا ہے تو جواب ہمیشہ نفی میں آئے گا۔ وجہ بڑی سادہ ہے۔ یہ بچے پہلے ہی ہفتے میں ٥ دن سکولوں میں جیل کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایک بچے کی جیل اس کی پڑھائی والی میز کے پیچھے ہوتی ہے! اور پھر اگر ماں باپ زبردستی اسے چھٹی والے دن مسجد میں ایک اور کلاس میں بٹھا دیں تو اس نے دین سے بیزار ہی ہونا ہے۔ اصولی طور پر بچہ کلاسوں کو نا پسند کرتا ہے۔ میں جب سکول میں استاد تھا تو بدتمیزی کرنے والے بچوں کو یہی سزا دیتا تھا کہ آدھی چھٹی کے وقت انہیں مزید سوال حل کرنے کو دے دیتا تھا جیسے ہی آدھی چھٹی کی گھنٹی بجتی تھی بچے اسی طرح پہلو بدلتے تھے گویا ان کی نشستیں جلنے لگی ہیں۔اور دوسرے بچوں کو کلاس سے نکلتے دیکھ کر وہ جس طرح مچلتے تھے وہ تڑپ قابلِ دید ہوتی تھی۔ اس وقت وہ ہر قیمت پر کلاس سے نکل بھاگنے پر مصر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اگر انہیں زبردستی اتوار کے درسوں میں بٹھایا جائے گا تو وہ درس سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔
اب آئیں میرے دوسرے واقعے کی طرف۔ اسکا تعلق بھی مسجد میں ہونے والے اتوار کے درس سے ہی ہے۔ یہ درس ١٢ ۔١٣ سال کے بچوں کے لیے ہوتا تھا۔ ایک دن اُن کے مدرس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج میں آپ کو دنیا کا بہترین قصّہ سناؤں گا۔ کسی کو پتا ہے یہ کون سا قصّہ ہے؟ یہ کہنا تھا کہ کلاس میں بحث چھڑ گئی ، ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا اور بولا: 'ڈریگن بانر' دوسرا فوراً اس کی بات کاٹ کر کسی اور چینی جاپانی کارٹونوں کا نام لینے لگا۔ اب وہ سارے بچے آپس میں بحث کرنے لگے کہ کس کارٹون کی کہانی زیادہ مزے کی ہے۔ کس کی ویڈیو گیم زیادہ دلچسپ ہے۔ کس کا Sequel سب سے اچھا ہے۔ اب اُن کو درس دینے والے امام صاحب حیرت سے منہ کھولے یہ منظر دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ '' میرا اشارہ تو یوسف علیہ سلام کے قصے کی طرف تھا۔ کیونکہ قرآن میں خود اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے بتایا ہے کہ ہم آپکوتمام قصّوں میں سے بہترین قصّہ حضرت یوسف علیہ سلام کا سناتے ہیں۔'' یہ سن کر سب بچوں کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔ اچھا ! چلیں آپ کہتے ہیں تو ہو سکتا ہے یہی سب سے اچھی کہانی ہو! یہ قصّہ ہم نے پہلے سن رکھا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ بچے اس قصّے کو سب سے زیادہ بہترین خیال کرتے ہیں! یہی تو ایمان کا سب سے بڑا خطرناک بحران ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک بات فرمائے اور ہمارے مسجدوں میں بیٹھے بچے ہمارے ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر بھی اس پر دل سے ایمان نہ لائیں۔ ہمارے بچے یہ سمجھنے لگیں کہ اسلام ان کی زندگی کی ہر چیز کو فتنہ قرار دیتا ہے۔ فیس بک فتنہ ہے، سکول فتنہ ہے، سکول کے دوست فتنہ ہیں، بازار فتنہ ہیں، موبائل فون فتنہ ہیں، گاڑیاں فتنہ ہیں یہاں تک کہ وہ تنگ آکر پکار اٹھیں کہ اسلام میں سب کچھ فتنہ ہے یہاں تک کہ آکسیجن میں سانس لینا بھی فتنہ ہے!
ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا اور اس کی جڑ تک پہنچنا ہو گا۔ اس بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے آج کے مسلم نوجوان کو اپنے اسلامی تشخص پر فخر، خوشی اور طمانیت نہیں۔ اسے اسلام سے قلبی محبت نہیں۔ قرآن پر پورا یقین نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا کے کامل ترین انسان ہونے اور واحد قابلِ تقلید شخصیت ہونے کے بارے میں نعوذ باللہ شک ہے۔
اب تیسری کہانی سن لیجیے۔ اسکا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ میں کسی اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے تمام خاندان سمیت ہوائی سفر کر رہا تھا۔ اب جہاز میں میرے بچے اپنے چھوٹے قدوں کی وجہ سے نشستوں سے اوپر نہیں جھانک سکتے تھے لیکن ٹی وی سکرین میری اور میری بیوی کی آنکھوں کے عین سامنے تھی اور لا محالہ ہماری نظر اس پر پڑ ہی جاتی تھی۔ الحمدللہ ہیڈ فونز نہ ہونے کی وجہ سے ہم تک اس فلم کی آواز اور گانے نہیں پہنچ رہے تھے۔ یہ Justin Bieber کی زندگی پر بنی ہوئی ایک ڈاکو منٹری فلم تھی۔ اب میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس فلم کے مناظر دیکھنے پر مجبور تھا کہ کس طرح یہ نوجوان لڑکا سٹیج پر گانے گا رہا ہے اور حاضرین میں موجود لڑکیاں فرطِ جذبات سے رو رہی ہیں، وہ اس نوجوان سِنگر کی محبت میں مری جا رہی ہیں۔ مائیں خود اپنی بیٹیوں کو اس کنسرٹ میں لائی ہوئی تھیں۔ پھر حاضرین میں سے ایک خاندان سے جب کہا جاتا ہے کہ انہیں اسٹیج کے پیچھے لے جا کر اس گلوکار سے بالمشافہ ملوایا جائے گا تو وہ خوشی کے مارے آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔ میں یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ میرے خدا یہ لوگ کس سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ یہ اس معمولی بات پر اتنے خوش کیوں ہو رہے ہیں اور پھر اس ڈاکومنٹری میں ایک حجاب اوڑھے مسلمان لڑکی دکھائی گئی جو اس گلوکار سے ملنے جا رہی ہے اور وہ اس خوشی میں درختوں کے گرد گول گول گھوم رہی ہے۔ اب آپ استغفراللہ کہہ کر یہ مت سمجھئے گا کہ کس خاندان کی بگڑی ہوئی مسلمان لڑکی ہے؟ جی نہیں جناب ہمارے معاشرے کی ہر عام مسلمان لڑکی کا یہی حال ہے۔
لہٰذا ہم اب نہ صرف عقیدے کے بحران کا شکار ہیں بلکہ اس عقیدے کے ثمرات سے بھی محروم ہیں۔ عقیدہ تو یہ ہے کہ آپ کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہو۔ اس کے ثمرات یہ ہیں کہ پھر آپ کے دل سے ہر غیر اسلامی شے کی محبت اور کشش ختم ہو جائے۔ آپ نہ صرف ہر غیر اسلامی چیزوں سے کراہیت محسوس کریں۔ بلکہ ان مسلمان بھائی بہنوں پر ترس کھائیں جو ان چیزوں کو پسند کرتے ہوں۔ یہ چیزیں آپ کو اپنی شان کے منافی لگیں۔
اب میں آپ کو اس مسئلے سے نمٹنے کے کچھ حل بتانے کی کوشش کروں گا کیونکہ مسئلوں کی نشاندہی کرنا آسان اور ان کے حل ڈھونڈنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ میں اس سلسلے میں اپنے ذاتی تجزیے کی بنیاد پر کچھ تجاویز پیش کر سکتا ہوں جن پر میں علماء اور نوجوانوں سے گفتگو کرکے پہنچا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں میں گہری پائیدار دوستیوں کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔ آپ کی پہچان آپ کے گرد و پےش کی چیزوں سے ہوتی ہے جن کے گرد آپکی زندگی گھومتی ہے یا اُن لوگوں سے ہوتی ہے جن کے ساتھ آپ وقت گذارتے ہیں۔ جب آپ بہت دیر تک کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہتے ہیں تو اس پر دیکھی پڑھی جانے والی چیزیں لا محالہ آپ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ آپ کی سوچوں کا محور بن جاتی ہیں۔ اسی طرح آپ کے گرد و پیش کے لوگ بھی آپ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کا مطالعہ کرنے والے ہوں تو آپ بھی مطالعہ کرنے لگتے ہیں۔ اگر وہ ہر وقت باسکٹ بال کھیلتے رہتے ہوں تو آپ بھی یہی کرنے لگتے ہیں۔ وہ فلموں کے رسیا ہوں تو آپ کا دل بھی فلموں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ ہمیں اس چیز کا اسلامی کمیونٹی میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اپنے چھوٹے بچوں کو ان کے کالج یونیورسٹی پڑھنے والے ایسے دیندار بڑے بھائی بہنوں کے قریب لانا چاہیے جو دین کے معاملے میں ان کے رول ماڈل بن سکیں۔ ہمیں اپنی ١٣۔١٤ سال کی لڑکیوں کو ١٧۔١٨ سال کی لڑکیوں کے ساتھ وقت گذارنے کا موقع دینا چاہیے۔ جو کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے باوجود اپنے دین سے پیوستہ اور اس کی اقدار پر عمل پیرا ہیں۔ یہی قدم کم عمر لڑکوں کے سلسلے میں بھی اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ ہم عمر بچے ایک دوسرے کے دین کے بارے میں خاطر خواہ رہنمائی نہیں کر سکتے اور الحمدللہ ہمارے پاس ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے اس راستے پر مشعلِ راہ کا کردار ادا کر سکیں۔ ایسے لوگ جو بہترین شکل صورت، کیریئر، نوجوانی، توانائی کو اور چیزوں میں صرف کرنے کے بجائے اسلام کی خدمت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اور اسلام کے داعی بننے کے لیے ان کا مائیک پکڑ پکڑ کر لمبے لمبے لیکچر دینا ضروری نہیں۔
ان نوجوانوں کو رہنمائی کا فرض دینے کے دو فائدے ہوں گے: ان کے چھوٹوں کو رہنمائی ملے گی اور خود ان نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہو گا۔ جب سب نگاہیں ان پر مرکوز ہوں گی تو وہ اپنے معیارِ دین کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا یہ کا م ہمیں فی الفور خاندانی اور سماجی سطح پر شروع کر دینا چاہیے۔ یہ تو ہو گئی ایک تجویز!
اور اب دوسری تجویز کی طرف آئیے۔ یہ تھوڑی سی طویل المیعاد منصوبہ بندی کے متعلق ہے۔ ہمیں ایسے فورم تیار کرنے چاہئیںجن پر آکر ہمارے نوجوان اپنی ایسی الجھنیں بے جھجک بیان کر سکیں جو وہ ماں باپ، اساتذہ اور امام مسجد کے سامنے نہیں بیان کر سکتے۔کسی بھی خطیب یا امام مسجد کو کبھی بھی ان نوجوانوں کو برملا نہیں کہنا چاہیے کہ ''تم تو اسلام کی راہ سے بالکل ہی ہٹ گئے ہو یا یہ کہ تمہاری باتیں تو اسقدر کفریہ ہیں کہ تمہیں فوراً اللہ سے استغفار کرنا یا اس کی راہ میں قربانی کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی تم سے کوئی اور بات ہو سکے گی!'' یہ رویہ تو انہیں اسقدر متوحش کر دے گا کہ پھر تو وہ اسلام کے بارے میں سوال پوچھنے سے بھی کترائیں گے۔ ہمیں انہیں کوئی ایسی جگہ مہیا کرنی چاہیے جہاں وہ اسلام سے متعلق اپنے سوالات بے جھجک پوچھ سکیں۔ اور یہ تجویز میں اپنے تجربے کی بنیاد پر دے رہا ہوں۔ دراصل مسلمان معاشرے میں ہم بہت حد تک قدامت پسند (Conservative ) ہوتے ہیں اور ہر مسلمان بچے، بوڑھے سے معاشرے کے دوسرے لوگوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اب آپ کے خاندان میں ہی اگر کوئی لڑکی آپ کے بیٹے سے راہ رسم بڑھانے کی کوشش کرے گی یا اسے کسی فنکشن پر اپنے ساتھ چلنے کو کہے گی تو وہ خود تو اس معاملے کے بارے میں بار بار سوچے گا مگر کبھی بھی ماں باپ کو بتانے کی جرأت نہیں کر پائے گا کیوں؟ کیونکہ اس غریب کو پتہ ہو گا کہ باپ کو بتانے کا نتیجہ کیا ہو گا! (انّا للہ و انّا الیہ راجعون! ) اس کا جنازہ ہی اٹھے گا پھر! نہ ہی کوئی مسلمان لڑکی اس قسم کے مسئلوں پر بے جھجک ماں باپ حتی کہ امام مسجد سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ امام مسجد اگلے ہی جمعے کے خطبے میں بھری مسجد کے سامنے پول کھول دیں گے کہ ''جی آپ کو پتہ ہے کہ پچھلے ہفتے فلاں بہن نے آکر مجھ سے یہ بات پوچھی تھی! یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان سوال پوچھنے سے لوگوں کی نظروں میں آنے سے بدکتے ہیں۔
چنانچہ ہمیں ان کے سوالوں کے شافی جواب دینے کے لیے کوئی فورم بنانا چاہیے۔ اور ہمیں اپنے داعیوں اور خطیبوں کو ان سوالوں کے جواب دلسوزی سے دینے کی تربیت دینی چاہیے۔ اور اُن کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانی چاہیے کہ یہ مسائل کسی خیالی مخلوق کے نہیں بلکہ جیتے جاگتے ، حساس انسانوں کے ہیں اور ان مسائل کے حل ڈھونڈنے کے لیے جس ماحول میں یہ سب انسان رہ رہے ہیں اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ ان مسئلوں کے جواب کے طور پر صرف دو سطروں کا فتویٰ نہیں جاری کر سکتے کہ ''یہ چیز غلط ہے! فلاں شے حرام ہے۔'' آپ کو نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے پہلے خود سمجھنا ہو گا کہ آخر وہ اس غلط شے، حرام شے سے کیوں متاثر ہو رہے ہیں! کیوں اُس کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔
میں آپ کو اپنے ایک بہت عزیز دوست عبدالرحمن مرفی کا واقعہ سناتا ہوں وہ پہلے شکاگو میں شعبہئ امورِ نوجواناں کے نگران تھے پھر میں الحمدللہ بصد اصرار اپنے ساتھ ڈلاس لے آیا جہاں وہ دوبارہ اسی شعبے کے ذمہ دار بنائے گئے۔ ڈلاس کی مسجد (الحمدللہ) بہت بڑی ہے جہاں جمعے کے جمعے تقریباًایک ہزار اور ہر روز مغرب و عشاء کی جماعت میں ٥٠٠ سے ٦٠٠ لوگ ہوتے ہیں۔ وہاں کی مسلمان کمیونٹی میں نوجوانوں کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے۔ وہاں جب عبدالرحمن مرفی نے نوجوانوں کے انچارج کے طور پر جب یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی نوجوان کسی مسئلے پر رہنمائی چاہے تو بلا جھجک ان کے دفتر میں آسکتا ہے۔ تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا اعلان تھا۔ پہلے ہفتے نوجوان طرح طرح کے مسئلے لے کر آتے رہے۔''مجھے لگ رہا ہے میں اپنے آپ کو مار رہا ہوں! مجھے لگ رہا ہے میں ہم جنسی پرستی کی طرف مائل ہو رہا ہوں! میں نے گناہِ کبیرہ کر دیا ہے ، اب کیا کروں! غرض کہ اسی قسم کے ہزاروں مسئلے! پہلے ہی ہفتے میں ایسے کئی سو لوگوں کے مسئلے سن کر میرے دوست خود ڈپریشن میں چلے گئے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ معاشرے میں حالات کس حد تک خراب ہو چکے تھے! اور یہ خالی ڈلاس اکیلے کے حالات نہیں۔ ہر شہر میں اب تقریباً یہی صورتحال ہے۔
میری آپ لوگوں سے جو کسی نہ کسی طریقے سے اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، گزارش ہے کہ آپ اس مسئلے پر ضرور غور کریں۔ ہمیں آج علمائ، خطبائ، داعیوں، مقرروں کی ضرورت تو ہے ہی لیکن سب سے زیادہ ہمیں ان لوگوں کے ، خاص طور پر ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دوسرے مسلمانوں کو مخلص مشورے دے سکیں۔ ان کی رہنمائی کر سکیں۔ ان میں اسلام کی محبت اور اپنے دین پر اعتماد پیدا کر سکیں۔ میرے لیے یہ کام باقی تمام کاموں سے بڑھ کر اہم ہے۔
اور جب یہ کام ہونا شروع ہو جائے گا تب ہی اسلامی تعلیم دینے کا فائدہ سامنے آئے گا۔ آج تک ہم لوگ یہی سمجھتے آئے ہیں کہ اگر ہم بچوں کو اسلامیات کی درسی کتب پڑھائیں گے تو وہ خودبخود اسلام کی حقانیت کے قائل ہو جائیں گے۔ مگر دراصل یہ بات / خیال درست نہیں۔ ہمارے بچے بہت ذہین اور بہت اچھے قاری ہیں۔ وہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات فر فر سنا سکتے ہیں۔ جس طرح ان کے انگلش، سوشل سٹڈیز میں کتابیں پڑھ کر اچھے گریڈ آتے ہیں اسی طرح وہ اسلامیات کو رٹا لگا کر سو فیصد نمبر لے سکتے ہیں مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسلام واقعی ان کے اندر جذب ہو رہا ہے۔ یہ بیچارے تو بس بہت اچھے قاری ہیں۔ جو سال کے اختتام پر اسلامیات میں بہت اچھے نمبروں سے پاس تو ہو سکتے ہیںمگر دین ان کی روحوں تک نہیں پہنچ پا رہا۔ دراصل ہمارے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے طریقے بہت ہی سطحی ہیں۔ دوسری طرف بچے بہت ہوشیار اور سمجھدار ہیں۔ وہ بڑوں کو مطمئن کرنے کے لیے اُن کو انکی پسند کے جواب دینا جانتے ہیں۔ آپ ان سے پوچھیں گے کہ ''سب سے اچھی کہانی پھر کون سی ہے؟ تو ہمیشہ یہی جواب دیں گے، حضرت یوسف علیہ السلام کی! '' کبھی آپ کو دوبارہ ناراض ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔ میرے دوست عبدالرحمن مرفی نے ایک دفعہ درس میں نوجوان سے پوچھا: جن لوگوں کو یقین ہے کہ جب ہم دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو اللہ واقعی ہماری فریاد سن رہا ہوتا ہے۔وہ ہاتھ کھڑا کریں! ایک سیکنڈ میں سب کے ہاتھ کھڑے تھے۔ پھر اس نے کہا، اب ایک منٹ غور کریں پھر سچ سچ بتائیں ۔ واقعی آپ کو دل سے اس بات پر ایمان ہے۔ ایک منٹ بعد پورے مجمع میں صرف ٣ لوگوں کے ہاتھ کھڑے تھے! یہ صورتحال بہت ہی سنگین، بہت ہی ہلا دینے والی ہے۔ اور ہمیں اب آج اسی ایمان کے بحران سے نمٹنا ہے۔
یہ تو ہو گئی چھوٹے بچوں کی بات۔ اب ذرا نسبتاً بڑے بچوں کی طرف آئیے۔ یہ بچے بھی انتشار کا شکار ہیں۔ اور ان کا انتشار نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آج ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں چہار جانب سے مسلسل اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔ آپ خود بھی اگر اسلام کے بارے میں سوچنا شروع کریں تو سب سے پہلے وہ الزامات ذہن میں آتے ہیں جو آج کل پے در پے اسلام پر لگائے جا رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کی نگاہوں کے آگے ''شریعت'' کا لفظ سنتے ہی سر اُڑا دینے، ہاتھ کاٹ دینے، سنگساری اور بربریت کے مناظر گھومنے لگتے ہیں۔ یہی آج کل عام رحجان ہے۔ یہ محض خام خیالی ہے کہ کوئی مسلمان مسلسل ایسے معاشرے بلکہ ایسی دنیا میں زندہ ہو اور اس پر یہ طعن و تشنیع اثر انداز نہ ہو۔ چناچہ ہمارے آج کے نوجوان بہت زیادہ ذہنی ابتری کا شکار ہیں۔ دین کے بارے میں ان کے عقائد ان کے اپنے دینی علم اور غیر مسلموں کے اعتراضات کا ایک ملغوبہ ہےں۔ اور اکثر اوقات تو ان میں سے بیشتر کے پاس کوئی دینی بنیاد بھی نہیں ہوتی۔ یہ اپنے سکولوں کالجوں میں اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہوتے، خجل ہوتے، صفائیاں دیتے پھرتے ہیں اور پھر انہیں اپنے کالجوں میں فلاسفی، اور مشرقِ وسطیٰ کے علوم سے متعلق کورسز پڑھنے پڑتے ہیںاور آپ کو پتہ ہے ان کورسز کا کیا نتیجہ نکلتا ہے! یہ نوجوان بیچارے جو پہلے ہی دین پر شرمندہ ہوتے، چور بنے پھر رہے ہوتے ہیں، ان کے ہاتھ بودی فلسفیانہ دلیلوں کا ایک پلندہ آجاتا ہے۔ ''کہ جی واقعی! ہمیں اب اسلام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی، واقعی ہمیں کیا پتہ خدا کا واقعی کوئی وجود ہے یا نہیں، اور دیکھیں اب ہمارے پاس کتنی دلیلیں ہیں!'' ایسے نوجوانوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ ان کے پاس عجیب و غریب نئی دلیلیں آگئی ہیں۔ ان کا المیہ تو یہ ہے کہ یہ کبھی اپنے دین سے صحیح الفت، محبت اور وابستگی محسوس ہی نہیں کر پائے۔ ان کے کورسز نے تو انہیں بس کھوکھلی فلسفیانہ دلیلوں کی ایک ایسی آڑ دے دی ہے جس کے پیچھے چھپ کر یہ اسلام سے اپنی جان چھڑا سکیں۔ اور پھر ان لوگوں کے حالات بھی ملاحظہ کریں جو عالمِ مغرب میں دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کیلیفورنیا یونیورسٹی، جارج میس یونیورسٹی میں اسلامیات میں ماسٹرز کرنے جاتے ہیں۔ اور ایسے کئی کورسز پورے ملک (امریکہ) میں ہو رہے ہیں۔ مگر میں آپ کو بتاؤں یہ اسلامک کورسز اصل میں اسلام دشمن کورسز ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے۔ تنقید! صرف اور صرف اسلام پر تنقید کرنا سکھانا! وہ دین جس سے آپ نے محبت کرنی تھی، جسکو اپنی زندگی کا محور بنانا تھا، اس میں اگر آپ ان یونیورسٹیوں سے ایم اے کریں گے تو آپ کے اساتذہ تمام وقت آپ کو ایک ہی بات سکھائیں پڑھائیں گے! تنقید! تنقید! صرف اور صرف اسلام پر تنقید۔ اور یہ تنقید بالآخر آپ پر اثر کرکے دم لے گی۔ میرے ایک دوست ہیں جو اپنے ہائی اسکول کے دنوں میں اسلام سے بہت متاثر ہوئے چناچہ انہوں نے پہلے شام جا کر دین کی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکہ واپس آکر اسلامیات میں ایم اے کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ پہلے سمسٹر میں ان لوگوں کو ''علمِ حدیث سے تعارف'' پر لیکچر سننے تھے۔ اب بظاہر یہ عنوان نہایت روح پرور لگتا ہے لیکن آپ کو پتا ہے اُن لوگوں کو پڑھائی جانے والی درسی کتب کا لبِ لباب کیا تھا۔ یہ کہ اسلام میں جس حدیث کا درجہ جتنا صحیح ہو اور جس حدیث پر جس حد تک امام بخاری اور امام مسلم کا اجماع ہو وہ درحقیقت اتنی ہی ضعیف اور نعوذ باللہ جھوٹی ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی پورا ایک سمسٹر اس بات کو سنتا رہے تو اس کے ایمان کا کیا حشر ہو گا! کوئی بھی مسلمان راہ سے بھٹک جائے گا۔ یہ جو میں صورتحال بیان کر رہا ہوں وہ آجکل ہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے نوجوان ایسے کورسز کا حصّہ ہیں نتیجتاً وہ اسلام کے بارے میں نہایت عجیب و غریب خیالات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور کل کو یہی لوگ دنیا کے کرتا دھرتا ہوں گے۔ اگر آپ کو CNN پر آنے والے مسلمان یا ارشادمنجی جیسے کردار عجیب و غریب لگتے ہیں تو ایسے مخبوط الحواس لوگوں کو ایک پورا قافلہ ہے جو انکے پیچھے چلا آ رہا ہے۔ ابھی تو صرف ابتدا ہے!
دراصل ہم نے خود نفسیاتی طور پر اپنے نوجوانوں کی کوئی تربیت نہیں کی۔ ہمارے اسلامی سکولوں کو بچوں کو 'دارالکفر' سے بچا بچا کر رکھنے کی بجائے انہیں سکھانا اور بتانا چاہیے کہ باہر کی دنیا میں انہیں کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُن کا کیا جواب دینا ہو گا۔ انہیں بتانا ہو گا کہ باہر کی دنیا میں انہیں اسلام کے بارے صفائیاں نہیں دیتے پھرنا بلکہ سنتِ ابراہیمیعلیہ سلام کی پیروی کرتے ہوئے دوسروں کے عقائد پر سوالات اٹھانے ہوں گے۔ دوسروں کو ان کے دین ، ان کے عقائد کے بارے میں متزلزل کرنا ہو گا۔ ہماری اسلام اور اسلامی تعلیم کے بارے میں ساری حکمتِ عملی مدافعانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ باہر فتنہ بہت ہے۔ ہمیں اپنے بچے باہر کی دنیا سے بچا کر گھروں میں رکھنے چاہئیں۔ انہیں کالج نہیں بھیجنا چاہیے۔ نہیں، کام اس کے برعکس ہونا چاہیے۔ دنیا کو کانپنا چاہیے جب کوئی مسلمان نوجوان کالج جائے۔ ہمیں شرمندہ ہونے، جھینپنے کے بجائے استقامت سے اپنے دین کا پرچم دکھانا ہے۔ مدافعانہ پن اور معذرت خواہانہ انداز ترک کرنا ہے!
یہی میرا اختتامی نکتہ ہے۔ ہمیں اب یہ معذرت خواہانہ انداز چھوڑنا ہو گا۔ میں ذاتی طور پر اس رویے سے اب آوازار (بیزار) ہو چکا ہوں۔ ہم ہی کیوں آخر ہر وقت صفائیاں پیش کرتے رہیں۔ یہ تو اِن کفار کی بہت پرانی حکمتِ عملی رہی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی آزمائی تھی۔ کثرتِ سوال کی حکمتِ عملی: کہ اللہ کے نبی ؐ سے مسلسل سوال پوچھتے رہو تاکہ انہیں تم سے تمہارے عقائد کے متعلق سوال کرنے کا وقت نہ مل پائے۔ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے: اچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کون لاتا ہے؟ جبرائیل۔ اچھا! حیرت ہے۔ اچھا بھلا اصحابِ کہف کون تھے؟ او ہو! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا پتہ ہے۔ بھلا یہ تو بتائیں روح کیا ہوتی ہے؟ ہائیں، اس کا جواب بھی دے دیا! چلیں یہ سمجھائیں کہ کبھی لڑکی کیوںپیدا ہوتی ہے اور کبھی لڑکا کیوں؟ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال کا بھی جواب دے دیتے تو انہوں نے مزید سوالات کی بوچھاڑ کر دینی تھی۔ اور یہ وضاحتوں کا سلسلہ چلتا رہنا تھا۔ تاہم اللہ نے ان کے چند سوالات کے تو جواب دیے مگر جب وہ لایعنی سوالوں پر اتر آئے کہ ''جب ہماری ہڈیاں بھر بھرا جائیں گی تو ہمیں دوبارہ کیسے اٹھایا جائے گا۔'' تو اللہ نے کسی طریقہ کار کی وضاحت نہیں کی بلکہ حضرت جبرائیل کی حقیقت بیان کرنے، اصحابِ کہف کا قصّہ تفصیل سے بتانے کے برعکس اس دفعہ صاف صاف جواب دے دیا۔ ہڈیوں کو چھوڑ کر اگر تم لوگ پتھروں اور لوہے میں تبدیل ہو جاؤ گے تو اللہ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے چھوڑے گا! جس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ : زیادہ کج بحثی کرنے کی اور اللہ کے آگے فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ جاؤ اپنی اوقات کے مطابق جس مرضی سخت چیز کے مالک بن جاؤ ، اللہ تمہیں روزِ حشر دوبارہ اٹھا کر ہی چھوڑے گا۔ جب انہوں نے پوچھا کہ اچھا پھر دوبارہ زندہ کون کرے گا؟ منہ توڑ جواب آیا ، وہی کرے گا جس نے پہلی دفعہ زندہ پیدا کیا تھا۔
ہمیں اب اپنے نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ اس نصب العین کو اپنے تعلیمی نظام کا حصّہ بنانا ہو گا۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو آنے والوں چند سالوں میں ہمیں اسکی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اور یہ میں آپ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں کے طور پر ہم اس مسئلے کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو اس بحران سے نکال نہیں پا رہے، جب وہ نفسیاتی مسائل کا، فلسفیانہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم انہیں وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرنے اور خصوصی دعاؤں کا ورد کرنے پر لگا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی مسئلے کا حل ہے۔
اگر وہ کسی منطقی مسئلے کا شکار ہیںتو آپ اس کا روحانی علاج تو ضرور کریں مگر ساتھ ساتھ ان کو منطقی طور پر مسئلے کا جواب بھی سمجھائیں۔ ہمارا تو پورا دین ہی منطقی ہے۔ یہ بہت طاقتور دین ہے۔ یہی عقیدہ ہم نے آج کے پر فتن دور میں اپنے بچوں کے دلوں میں راسخ کرنا ہے۔ اب تو ان عیسائیوں نے بھی اسلام پر پنجے تیز کرنے شروع کر دیے ہیں۔ میں ایک جنوبی ریاست میں رہتا ہوں اور وہاں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میرا مشغلہ عیسائی مشنریوں کے تبلیغی پروگرام سننا ہے۔ اب ان عیسائیوں کے پاس اپنے دین کے متعلق تو کوئی زیادہ باتیں ہیں نہیں لہٰذا یہ پروگرام چلانے کے لیے اسلام پر تنقید کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ مسلمان! ان کا قرآن کہتا ہے کہ ہم اہلِ کتاب ، اہلِ ایمان دراصل مشرک ہیں۔ آج ہمارے ساتھ قرآن کے ایک ماہر موجود ہیں جو اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے۔ اور اس طرح گھنٹے کا پورا پروگرام ہوتا ہے۔ میں سنتا جاتا ہوں اور ان کی بچگانہ باتوں پر، مضحکہ خیز اعتراضات پر ہنستا جاتا ہوں۔ خاص طور پر جب بزعمِ خود قرآن میں موجود تضادات اور گرائمر کی غلطیوں کو بیان کرنے کی کوششیں کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ میں ہنستا رہتا ہوں لیکن پھر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی اور مسلمان بھی اس ویڈیو پروگرام کو سن رہا ہو گا۔ اور کیونکہ اسے خود اپنے دین کے بارے میں کچھ نہیں پتا تو وہ ان کی باتیں سن کر سوچ رہا ہو گا: ''میرے خدا یہ شخص تو ٹھیک کہہ رہا ہے، اس کی باتیں تو بالکل صحیح ہیں!''
میں آپ کو سچی بات بتاؤں، ہم نے اپنے بیج صحیح نہیں بوئے۔ یہی میرا واحد نکتہ ہے۔ ہمیں بہت چھوٹی عمر سے ہی اپنے بچوں کو 'ینگ مسلمز' اور ایسی دوسری تنظیموں کے تحت ہونے والے درسوں میں لانا چاہیے۔ ان میں وہ اعتماد پیدا کرنا چاہیے جو ان کے اردگرد کے لوگوں کو اپنے ادیان اور عقائد پر ہے۔ اس طرح ایک باہمی اعتماد کی فضاء پروان چڑھے گی۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمیں اب مزید پلاننگ کرنی ہوگی۔ ہمیں مرض کی علامتوں کا بغور مطالعہ کر کے بیماری کی جڑ تک پہنچنا ہو گا۔ زیادہ تر وقت ہم بیماری کی علامات پر بحثا بحثی کرتے رہتے ہیں۔ مگر اصل بیماری کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بیماری کو سمجھنے اور قرآن و سنت کے مطابق اسکا علاج کرنے کی صلاحیت عطا کرے، آمین۔
ایقاظ - ایمان کا بحران
الحمدللہ آج آپ میں یہاں موجود بیشتر لوگ مسلمان ہیں، اپنے دین کے متعلق جاننے اور اسکے پیغام کو آگے پھیلانے کے متعلق کمر بستہ ہیں اور انشاء اللہ آپ لوگوں سے ہی مستقبل میں امید کی جا سکتی ہے کہ آپ نہ صرف غیر مسلموں بلکہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کو بھی اسلام کی طرف لا سکیں گے جن کا آج دین ِ حق سے ناطہ کچے دھاگے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ آپ کا آج یہاں موجود ہونا ہی دین سے آپکی وابستگی کی دلیل ہے۔ آپ کو اپنی قدر وقیمت کا احساس ہو نہ ہو میرے نزدیک آپ لوگ مستقبل میں انشاء اللہ اسلام کے سفراء ہیں اللہ ہماری آج کی اس جیسی دوسری دینی مساعی کو قبول کرے اور ہمیں دینِ حق کے لیے مخلص کر دے۔
اب آتے ہیں عقیدے کے بحران کے اس مسئلے کی طرف ۔ پہلے میں آپ کو دو واقعات سناؤں گا پھر ہم عمومی گفتگو کریں گے۔ پہلا واقعہ دو تین سال پرانا ہے میں نے ایک شہر میں خطبہ دیا، خطبے کے اختتام پر ایک صاحب آکر مجھ سے درخواست کرنے لگے کہ آپ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ تناول کیجیے۔ میری بیٹی آپ سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔ میرے پاس وقت تھا اس لیے میں انکے ساتھ چل پڑا ۔ اُنکا گھر مسجد کے بالکل ساتھ تھا ، گھر پہنچ کر وہ اپنی بیٹی کو میرے پاس لے کر آئے۔ اب جب وہ بچی میرے پاس آئی تو اس نے چہرہ مختلف جگہوں سے چھدوا رکھا تھا۔ ماتھے پر، آنکھوں کے اطراف میں اور ایسی ایسی جگہوں پر کہ انسان کو دیکھ کر جھر جھری آجاتی تھی اور یہ جدّی پشتی مسلمان گھرانے کی پیدائشی مسلمان لڑکی تھی۔ اسے دیکھ کر ہی میری طبیعت مکدّر ہو رہی تھی۔ تاہم میں نے اس سے استفسار کیا کہ وہ مجھ سے اسلام کے بارے میں جو پوچھنا چاہتی ہے پوچھے۔ اب اس نے یکے بعد دیگرے مجھ سے کوئی تیس سوال کیے۔ میں کسی ایک کا بھی جواب دیے بغیر بڑے تحمل سے اس سے پوچھتا رہا ، اور کچھ؟ ''وہ کہتی رہی'' ۔ ہائی اسکول میں میرے کچھ دوست ہم جنس پرست ہیں۔ مگر وہ برے لوگ نہیں۔ انہوں نے کسی کو جان سے تو مار نہیں ڈالا ، پھر ہم ان کے خلاف کیوں اتنا کیوں بولتے ہیں۔ خدا نے جہنّم کیوں بنائی ہے؟ اگر ہمیں آخرت میں خدا نے جلانا ہی تھا تو پھر بھلا ہمیں پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ بوائے فرینڈز بنانے میں آخر قباحت ہی کیا ہے۔ میں کوئی کسی کو قتل تو نہیں کر رہی۔ آخر ہم ہر چیز کا گناہ ثواب سر پر کیوں سوار کر لیتے ہیں۔
اب یہ چند باتیں سن کر اندر ہی اندر مجھے تین ہارٹ اٹیک ہو چکے تھے لیکن بظاہر میں خود پر جبر کرکے اس سے پوچھے جا رہا تھا ''اور کچھ؟'' ۔ اور وہ بچی اپنے باپ کی موجودگی سے بے پرواہ بے تکان بولے جا رہی تھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ میرے خدا! اگر یہ باتیں سن کر میں کٹ مر رہا ہوں تو اس وقت اس کے باپ کا کیا حشر ہو گا۔ مجھے واقعی باپ غریب پر ترس آرہا تھا۔ تیس سوالات کے بعد میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ ان سارے مسائلپر ڈسکشن کرنے کو تیار ہوں۔ پر پہلے تم صرف میرے ایک سوال کا جواب دے دو۔ وہاں کھانے والے کمرے کی میز پر قرآن مجید کا ایک نسخہ پڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے ہاتھ میں پکڑ کر بچی سے پوچھا۔ ''کیا تمہیں واقعی دل سے یقین ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ربّ العزّت کی جانب سے فرشتے کے ذریعے ایکبشر صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ قطعی اور حتمی طور پر بہترین ضابطہ حیات ہے۔ اگر ہم اس کتاب کے مطابق زندگی گذاریں گے تو دنیا وآخرت کی راحتیں پائیں گے وگرنہ صورتِ دیگر اسکو ٹھکرا کر ہمیشہ ہمیشہ کی ذلتوں کا شکار ہو جائیں گے۔ کیا تمہیں ان سب باتوں پر یقین ہے۔'' وہ فوراً کہنے لگی: ''نہیں مجھے ان باتوں پر بھی شک ہے۔'' میں نے جواب دیا کہ بس پھر تمہارے باقی سارے سوالوں کے جوابات دینا لا یعنی ہے۔ اس عقیدے کے نہ ہونے کے بعد ہر چیز بے معنی ہے۔
یہ وہ چیز، وہ مسئلہ ہے جسے میںایمان کے بحران کا نام دیتا ہوں اور یہ لڑکی اکیلی اس مرض کا شکار نہیں۔ ایسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ بس وہ سارے سوال نہیں کرتے اور ان میں لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی شامل ہیں۔ کسی شے کے حرام ہونے کے بارے میں سُن کر ان کے دل میں یہی سوال سر اُٹھاتے ہیں کہ بھلا یہ شے حرام کیوں ہے؟ فلاں کام سے کیوں منع کیا گیا ہے! اور جب انہیں جواباً کہا جائے کہ منع اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ کام شرعاً حرام ہے تو وہ لوگ اُکتا کر جواب دیتے ہیں کہ ''جی یہ بات تو ہر کام سے روکنے والے ہی کہتے ہیں۔'' ان کے نزدیک اسلام کی مختصر ترین تعریف ہی یہ بن جاتی ہے۔ ''کہ اسلام کا مطلب ہے، ہرشے حرام ہے! نہ ہنسو نہ مسکراؤ۔ زندگی سے لطف اٹھانے کی چنداں اجازت نہیں!'' اس خیال کو پروان چڑھانے میں ہمارے ملک (امریکہ) کی مسجدوں کے مخصوص ماحول کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ جہاں ہر جگہ کوئی نہ کوئی ماتھے پر تیوریاں چڑھائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ہر جگہ گویا نوٹس لگے ہوتے ہیں۔''ممنوع التبسم'' مسکرانا منع ہے۔ کوئی بچہبیچارہ تھوڑی سی کھیل کود کرلے یا کھلکھلانے لگے اسے فوراً گھورا جاتا ہے۔ تمہیں نظر نہیں آرہا یہ مسجد ہے۔ یہاں صرفسنجیدہ رہنے کی اجازت ہے۔ یہی ماحول بچے کو اسلامی سکولوں میں دیکھنا پڑتا ہے۔ میں کسی خاص سکول کا نام نہیں لوںگا مگر عام طور پر یہ اسلامی سکول کچھ نہایت غصیلی آنٹیاں چلا رہی ہوتی ہیں! بچے بیچارے وہاں چہار جانب ناراض ناراض خشک مزاج لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ جسکی جتنی لمبی داڑھی ہوتی ہے اُس کے ماتھے پر اُتنے ہی بل ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں لامحالہ بچے کے ذہن میں سوال کلبلانے لگتے ہیں۔ ''میں کیوں مسلمان ہوں؟ یہاں پر بندہ اتنا اداس کیوں ہے؟ بہر بطور مسلمان کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ جب کوئی دلچسپ کام سامنے آتا ہے اس پر کفر ہونے کا فتویٰ لگ جاتا ہے۔ میرے سارے غیر مسلم دوست ان لوگوں کے مطابق دوزخ کی آگ میں جلنے والے ہیں۔ یہ لوگ مجھ سے آخر کیا چاہتے ہیں؟' اسی طرح اندر ہی اندر نوجوان مسلمان لڑکے لڑکیاں اسلام سے متنفر ہونے لگتے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے اکثر مسلمان ماں باپ امریکہ میں اپنے بچے اسلامی کی بجائے سرکاری سکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔ اب ایسے والدین کو جب یہ احساسِ جرم ستاتا ہے کہ وہ بچے کی مذہبی تعلیم کی طرف سے غفلت برت رہے ہیں تو وہ ازالے کی خاطر اُسے ہر اتوار کو مسجد کی درس کلاس میں زبردستی بھیجنے لگتے ہیں۔ مگر کیا اسکا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ جی نہیں! اسکا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں نکلتا۔ حالانکہ ذاتی طور پر مجھے مساجد میں ہونے والے یہ اتوار کے دروس بہت پسند ہیں اور میں انہیں ہمارے مسلمان بچوں کے حق میں ایک نعمت خیال کرتا ہوں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ اتوار کے روز ان درسوں میں شریک کسی بچے، بالخصوص کسی نوجوان کو کونے میں لے جا کر پوچھیں کہ کیا واقعی چھٹی کا دن اس طرح گذارنا چاہتا ہے تو جواب ہمیشہ نفی میں آئے گا۔ وجہ بڑی سادہ ہے۔ یہ بچے پہلے ہی ہفتے میں ٥ دن سکولوں میں جیل کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایک بچے کی جیل اس کی پڑھائی والی میز کے پیچھے ہوتی ہے! اور پھر اگر ماں باپ زبردستی اسے چھٹی والے دن مسجد میں ایک اور کلاس میں بٹھا دیں تو اس نے دین سے بیزار ہی ہونا ہے۔ اصولی طور پر بچہ کلاسوں کو نا پسند کرتا ہے۔ میں جب سکول میں استاد تھا تو بدتمیزی کرنے والے بچوں کو یہی سزا دیتا تھا کہ آدھی چھٹی کے وقت انہیں مزید سوال حل کرنے کو دے دیتا تھا جیسے ہی آدھی چھٹی کی گھنٹی بجتی تھی بچے اسی طرح پہلو بدلتے تھے گویا ان کی نشستیں جلنے لگی ہیں۔اور دوسرے بچوں کو کلاس سے نکلتے دیکھ کر وہ جس طرح مچلتے تھے وہ تڑپ قابلِ دید ہوتی تھی۔ اس وقت وہ ہر قیمت پر کلاس سے نکل بھاگنے پر مصر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اگر انہیں زبردستی اتوار کے درسوں میں بٹھایا جائے گا تو وہ درس سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔
اب آئیں میرے دوسرے واقعے کی طرف۔ اسکا تعلق بھی مسجد میں ہونے والے اتوار کے درس سے ہی ہے۔ یہ درس ١٢ ۔١٣ سال کے بچوں کے لیے ہوتا تھا۔ ایک دن اُن کے مدرس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج میں آپ کو دنیا کا بہترین قصّہ سناؤں گا۔ کسی کو پتا ہے یہ کون سا قصّہ ہے؟ یہ کہنا تھا کہ کلاس میں بحث چھڑ گئی ، ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا اور بولا: 'ڈریگن بانر' دوسرا فوراً اس کی بات کاٹ کر کسی اور چینی جاپانی کارٹونوں کا نام لینے لگا۔ اب وہ سارے بچے آپس میں بحث کرنے لگے کہ کس کارٹون کی کہانی زیادہ مزے کی ہے۔ کس کی ویڈیو گیم زیادہ دلچسپ ہے۔ کس کا Sequel سب سے اچھا ہے۔ اب اُن کو درس دینے والے امام صاحب حیرت سے منہ کھولے یہ منظر دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ '' میرا اشارہ تو یوسف علیہ سلام کے قصے کی طرف تھا۔ کیونکہ قرآن میں خود اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے بتایا ہے کہ ہم آپکوتمام قصّوں میں سے بہترین قصّہ حضرت یوسف علیہ سلام کا سناتے ہیں۔'' یہ سن کر سب بچوں کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔ اچھا ! چلیں آپ کہتے ہیں تو ہو سکتا ہے یہی سب سے اچھی کہانی ہو! یہ قصّہ ہم نے پہلے سن رکھا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ بچے اس قصّے کو سب سے زیادہ بہترین خیال کرتے ہیں! یہی تو ایمان کا سب سے بڑا خطرناک بحران ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک بات فرمائے اور ہمارے مسجدوں میں بیٹھے بچے ہمارے ایڑی چوٹی کا زور لگانے پر بھی اس پر دل سے ایمان نہ لائیں۔ ہمارے بچے یہ سمجھنے لگیں کہ اسلام ان کی زندگی کی ہر چیز کو فتنہ قرار دیتا ہے۔ فیس بک فتنہ ہے، سکول فتنہ ہے، سکول کے دوست فتنہ ہیں، بازار فتنہ ہیں، موبائل فون فتنہ ہیں، گاڑیاں فتنہ ہیں یہاں تک کہ وہ تنگ آکر پکار اٹھیں کہ اسلام میں سب کچھ فتنہ ہے یہاں تک کہ آکسیجن میں سانس لینا بھی فتنہ ہے!
ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا اور اس کی جڑ تک پہنچنا ہو گا۔ اس بحران کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے آج کے مسلم نوجوان کو اپنے اسلامی تشخص پر فخر، خوشی اور طمانیت نہیں۔ اسے اسلام سے قلبی محبت نہیں۔ قرآن پر پورا یقین نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا کے کامل ترین انسان ہونے اور واحد قابلِ تقلید شخصیت ہونے کے بارے میں نعوذ باللہ شک ہے۔
اب تیسری کہانی سن لیجیے۔ اسکا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ میں کسی اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے تمام خاندان سمیت ہوائی سفر کر رہا تھا۔ اب جہاز میں میرے بچے اپنے چھوٹے قدوں کی وجہ سے نشستوں سے اوپر نہیں جھانک سکتے تھے لیکن ٹی وی سکرین میری اور میری بیوی کی آنکھوں کے عین سامنے تھی اور لا محالہ ہماری نظر اس پر پڑ ہی جاتی تھی۔ الحمدللہ ہیڈ فونز نہ ہونے کی وجہ سے ہم تک اس فلم کی آواز اور گانے نہیں پہنچ رہے تھے۔ یہ Justin Bieber کی زندگی پر بنی ہوئی ایک ڈاکو منٹری فلم تھی۔ اب میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس فلم کے مناظر دیکھنے پر مجبور تھا کہ کس طرح یہ نوجوان لڑکا سٹیج پر گانے گا رہا ہے اور حاضرین میں موجود لڑکیاں فرطِ جذبات سے رو رہی ہیں، وہ اس نوجوان سِنگر کی محبت میں مری جا رہی ہیں۔ مائیں خود اپنی بیٹیوں کو اس کنسرٹ میں لائی ہوئی تھیں۔ پھر حاضرین میں سے ایک خاندان سے جب کہا جاتا ہے کہ انہیں اسٹیج کے پیچھے لے جا کر اس گلوکار سے بالمشافہ ملوایا جائے گا تو وہ خوشی کے مارے آپے سے باہر ہونے لگتا ہے۔ میں یہ ویڈیو دیکھتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ میرے خدا یہ لوگ کس سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ یہ اس معمولی بات پر اتنے خوش کیوں ہو رہے ہیں اور پھر اس ڈاکومنٹری میں ایک حجاب اوڑھے مسلمان لڑکی دکھائی گئی جو اس گلوکار سے ملنے جا رہی ہے اور وہ اس خوشی میں درختوں کے گرد گول گول گھوم رہی ہے۔ اب آپ استغفراللہ کہہ کر یہ مت سمجھئے گا کہ کس خاندان کی بگڑی ہوئی مسلمان لڑکی ہے؟ جی نہیں جناب ہمارے معاشرے کی ہر عام مسلمان لڑکی کا یہی حال ہے۔
لہٰذا ہم اب نہ صرف عقیدے کے بحران کا شکار ہیں بلکہ اس عقیدے کے ثمرات سے بھی محروم ہیں۔ عقیدہ تو یہ ہے کہ آپ کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہو۔ اس کے ثمرات یہ ہیں کہ پھر آپ کے دل سے ہر غیر اسلامی شے کی محبت اور کشش ختم ہو جائے۔ آپ نہ صرف ہر غیر اسلامی چیزوں سے کراہیت محسوس کریں۔ بلکہ ان مسلمان بھائی بہنوں پر ترس کھائیں جو ان چیزوں کو پسند کرتے ہوں۔ یہ چیزیں آپ کو اپنی شان کے منافی لگیں۔
اب میں آپ کو اس مسئلے سے نمٹنے کے کچھ حل بتانے کی کوشش کروں گا کیونکہ مسئلوں کی نشاندہی کرنا آسان اور ان کے حل ڈھونڈنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ میں اس سلسلے میں اپنے ذاتی تجزیے کی بنیاد پر کچھ تجاویز پیش کر سکتا ہوں جن پر میں علماء اور نوجوانوں سے گفتگو کرکے پہنچا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں میں گہری پائیدار دوستیوں کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔ آپ کی پہچان آپ کے گرد و پےش کی چیزوں سے ہوتی ہے جن کے گرد آپکی زندگی گھومتی ہے یا اُن لوگوں سے ہوتی ہے جن کے ساتھ آپ وقت گذارتے ہیں۔ جب آپ بہت دیر تک کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہتے ہیں تو اس پر دیکھی پڑھی جانے والی چیزیں لا محالہ آپ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ آپ کی سوچوں کا محور بن جاتی ہیں۔ اسی طرح آپ کے گرد و پیش کے لوگ بھی آپ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر وہ اسلام کا مطالعہ کرنے والے ہوں تو آپ بھی مطالعہ کرنے لگتے ہیں۔ اگر وہ ہر وقت باسکٹ بال کھیلتے رہتے ہوں تو آپ بھی یہی کرنے لگتے ہیں۔ وہ فلموں کے رسیا ہوں تو آپ کا دل بھی فلموں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ ہمیں اس چیز کا اسلامی کمیونٹی میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے اپنے چھوٹے بچوں کو ان کے کالج یونیورسٹی پڑھنے والے ایسے دیندار بڑے بھائی بہنوں کے قریب لانا چاہیے جو دین کے معاملے میں ان کے رول ماڈل بن سکیں۔ ہمیں اپنی ١٣۔١٤ سال کی لڑکیوں کو ١٧۔١٨ سال کی لڑکیوں کے ساتھ وقت گذارنے کا موقع دینا چاہیے۔ جو کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے باوجود اپنے دین سے پیوستہ اور اس کی اقدار پر عمل پیرا ہیں۔ یہی قدم کم عمر لڑکوں کے سلسلے میں بھی اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ ہم عمر بچے ایک دوسرے کے دین کے بارے میں خاطر خواہ رہنمائی نہیں کر سکتے اور الحمدللہ ہمارے پاس ایسے نوجوانوں کی کمی نہیں جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے اس راستے پر مشعلِ راہ کا کردار ادا کر سکیں۔ ایسے لوگ جو بہترین شکل صورت، کیریئر، نوجوانی، توانائی کو اور چیزوں میں صرف کرنے کے بجائے اسلام کی خدمت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اور اسلام کے داعی بننے کے لیے ان کا مائیک پکڑ پکڑ کر لمبے لمبے لیکچر دینا ضروری نہیں۔
ان نوجوانوں کو رہنمائی کا فرض دینے کے دو فائدے ہوں گے: ان کے چھوٹوں کو رہنمائی ملے گی اور خود ان نوجوانوں میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہو گا۔ جب سب نگاہیں ان پر مرکوز ہوں گی تو وہ اپنے معیارِ دین کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا یہ کا م ہمیں فی الفور خاندانی اور سماجی سطح پر شروع کر دینا چاہیے۔ یہ تو ہو گئی ایک تجویز!
اور اب دوسری تجویز کی طرف آئیے۔ یہ تھوڑی سی طویل المیعاد منصوبہ بندی کے متعلق ہے۔ ہمیں ایسے فورم تیار کرنے چاہئیںجن پر آکر ہمارے نوجوان اپنی ایسی الجھنیں بے جھجک بیان کر سکیں جو وہ ماں باپ، اساتذہ اور امام مسجد کے سامنے نہیں بیان کر سکتے۔کسی بھی خطیب یا امام مسجد کو کبھی بھی ان نوجوانوں کو برملا نہیں کہنا چاہیے کہ ''تم تو اسلام کی راہ سے بالکل ہی ہٹ گئے ہو یا یہ کہ تمہاری باتیں تو اسقدر کفریہ ہیں کہ تمہیں فوراً اللہ سے استغفار کرنا یا اس کی راہ میں قربانی کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی تم سے کوئی اور بات ہو سکے گی!'' یہ رویہ تو انہیں اسقدر متوحش کر دے گا کہ پھر تو وہ اسلام کے بارے میں سوال پوچھنے سے بھی کترائیں گے۔ ہمیں انہیں کوئی ایسی جگہ مہیا کرنی چاہیے جہاں وہ اسلام سے متعلق اپنے سوالات بے جھجک پوچھ سکیں۔ اور یہ تجویز میں اپنے تجربے کی بنیاد پر دے رہا ہوں۔ دراصل مسلمان معاشرے میں ہم بہت حد تک قدامت پسند (Conservative ) ہوتے ہیں اور ہر مسلمان بچے، بوڑھے سے معاشرے کے دوسرے لوگوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ اب آپ کے خاندان میں ہی اگر کوئی لڑکی آپ کے بیٹے سے راہ رسم بڑھانے کی کوشش کرے گی یا اسے کسی فنکشن پر اپنے ساتھ چلنے کو کہے گی تو وہ خود تو اس معاملے کے بارے میں بار بار سوچے گا مگر کبھی بھی ماں باپ کو بتانے کی جرأت نہیں کر پائے گا کیوں؟ کیونکہ اس غریب کو پتہ ہو گا کہ باپ کو بتانے کا نتیجہ کیا ہو گا! (انّا للہ و انّا الیہ راجعون! ) اس کا جنازہ ہی اٹھے گا پھر! نہ ہی کوئی مسلمان لڑکی اس قسم کے مسئلوں پر بے جھجک ماں باپ حتی کہ امام مسجد سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ امام مسجد اگلے ہی جمعے کے خطبے میں بھری مسجد کے سامنے پول کھول دیں گے کہ ''جی آپ کو پتہ ہے کہ پچھلے ہفتے فلاں بہن نے آکر مجھ سے یہ بات پوچھی تھی! یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان سوال پوچھنے سے لوگوں کی نظروں میں آنے سے بدکتے ہیں۔
چنانچہ ہمیں ان کے سوالوں کے شافی جواب دینے کے لیے کوئی فورم بنانا چاہیے۔ اور ہمیں اپنے داعیوں اور خطیبوں کو ان سوالوں کے جواب دلسوزی سے دینے کی تربیت دینی چاہیے۔ اور اُن کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانی چاہیے کہ یہ مسائل کسی خیالی مخلوق کے نہیں بلکہ جیتے جاگتے ، حساس انسانوں کے ہیں اور ان مسائل کے حل ڈھونڈنے کے لیے جس ماحول میں یہ سب انسان رہ رہے ہیں اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ ان مسئلوں کے جواب کے طور پر صرف دو سطروں کا فتویٰ نہیں جاری کر سکتے کہ ''یہ چیز غلط ہے! فلاں شے حرام ہے۔'' آپ کو نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے پہلے خود سمجھنا ہو گا کہ آخر وہ اس غلط شے، حرام شے سے کیوں متاثر ہو رہے ہیں! کیوں اُس کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔
میں آپ کو اپنے ایک بہت عزیز دوست عبدالرحمن مرفی کا واقعہ سناتا ہوں وہ پہلے شکاگو میں شعبہئ امورِ نوجواناں کے نگران تھے پھر میں الحمدللہ بصد اصرار اپنے ساتھ ڈلاس لے آیا جہاں وہ دوبارہ اسی شعبے کے ذمہ دار بنائے گئے۔ ڈلاس کی مسجد (الحمدللہ) بہت بڑی ہے جہاں جمعے کے جمعے تقریباًایک ہزار اور ہر روز مغرب و عشاء کی جماعت میں ٥٠٠ سے ٦٠٠ لوگ ہوتے ہیں۔ وہاں کی مسلمان کمیونٹی میں نوجوانوں کی خاطر خواہ تعداد موجود ہے۔ وہاں جب عبدالرحمن مرفی نے نوجوانوں کے انچارج کے طور پر جب یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی نوجوان کسی مسئلے پر رہنمائی چاہے تو بلا جھجک ان کے دفتر میں آسکتا ہے۔ تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا اعلان تھا۔ پہلے ہفتے نوجوان طرح طرح کے مسئلے لے کر آتے رہے۔''مجھے لگ رہا ہے میں اپنے آپ کو مار رہا ہوں! مجھے لگ رہا ہے میں ہم جنسی پرستی کی طرف مائل ہو رہا ہوں! میں نے گناہِ کبیرہ کر دیا ہے ، اب کیا کروں! غرض کہ اسی قسم کے ہزاروں مسئلے! پہلے ہی ہفتے میں ایسے کئی سو لوگوں کے مسئلے سن کر میرے دوست خود ڈپریشن میں چلے گئے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ معاشرے میں حالات کس حد تک خراب ہو چکے تھے! اور یہ خالی ڈلاس اکیلے کے حالات نہیں۔ ہر شہر میں اب تقریباً یہی صورتحال ہے۔
میری آپ لوگوں سے جو کسی نہ کسی طریقے سے اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، گزارش ہے کہ آپ اس مسئلے پر ضرور غور کریں۔ ہمیں آج علمائ، خطبائ، داعیوں، مقرروں کی ضرورت تو ہے ہی لیکن سب سے زیادہ ہمیں ان لوگوں کے ، خاص طور پر ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو دوسرے مسلمانوں کو مخلص مشورے دے سکیں۔ ان کی رہنمائی کر سکیں۔ ان میں اسلام کی محبت اور اپنے دین پر اعتماد پیدا کر سکیں۔ میرے لیے یہ کام باقی تمام کاموں سے بڑھ کر اہم ہے۔
اور جب یہ کام ہونا شروع ہو جائے گا تب ہی اسلامی تعلیم دینے کا فائدہ سامنے آئے گا۔ آج تک ہم لوگ یہی سمجھتے آئے ہیں کہ اگر ہم بچوں کو اسلامیات کی درسی کتب پڑھائیں گے تو وہ خودبخود اسلام کی حقانیت کے قائل ہو جائیں گے۔ مگر دراصل یہ بات / خیال درست نہیں۔ ہمارے بچے بہت ذہین اور بہت اچھے قاری ہیں۔ وہ آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات فر فر سنا سکتے ہیں۔ جس طرح ان کے انگلش، سوشل سٹڈیز میں کتابیں پڑھ کر اچھے گریڈ آتے ہیں اسی طرح وہ اسلامیات کو رٹا لگا کر سو فیصد نمبر لے سکتے ہیں مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسلام واقعی ان کے اندر جذب ہو رہا ہے۔ یہ بیچارے تو بس بہت اچھے قاری ہیں۔ جو سال کے اختتام پر اسلامیات میں بہت اچھے نمبروں سے پاس تو ہو سکتے ہیںمگر دین ان کی روحوں تک نہیں پہنچ پا رہا۔ دراصل ہمارے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے طریقے بہت ہی سطحی ہیں۔ دوسری طرف بچے بہت ہوشیار اور سمجھدار ہیں۔ وہ بڑوں کو مطمئن کرنے کے لیے اُن کو انکی پسند کے جواب دینا جانتے ہیں۔ آپ ان سے پوچھیں گے کہ ''سب سے اچھی کہانی پھر کون سی ہے؟ تو ہمیشہ یہی جواب دیں گے، حضرت یوسف علیہ السلام کی! '' کبھی آپ کو دوبارہ ناراض ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔ میرے دوست عبدالرحمن مرفی نے ایک دفعہ درس میں نوجوان سے پوچھا: جن لوگوں کو یقین ہے کہ جب ہم دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو اللہ واقعی ہماری فریاد سن رہا ہوتا ہے۔وہ ہاتھ کھڑا کریں! ایک سیکنڈ میں سب کے ہاتھ کھڑے تھے۔ پھر اس نے کہا، اب ایک منٹ غور کریں پھر سچ سچ بتائیں ۔ واقعی آپ کو دل سے اس بات پر ایمان ہے۔ ایک منٹ بعد پورے مجمع میں صرف ٣ لوگوں کے ہاتھ کھڑے تھے! یہ صورتحال بہت ہی سنگین، بہت ہی ہلا دینے والی ہے۔ اور ہمیں اب آج اسی ایمان کے بحران سے نمٹنا ہے۔
یہ تو ہو گئی چھوٹے بچوں کی بات۔ اب ذرا نسبتاً بڑے بچوں کی طرف آئیے۔ یہ بچے بھی انتشار کا شکار ہیں۔ اور ان کا انتشار نفسیاتی نوعیت کا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آج ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہاں چہار جانب سے مسلسل اسلام پر حملے ہو رہے ہیں۔ آپ خود بھی اگر اسلام کے بارے میں سوچنا شروع کریں تو سب سے پہلے وہ الزامات ذہن میں آتے ہیں جو آج کل پے در پے اسلام پر لگائے جا رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کی نگاہوں کے آگے ''شریعت'' کا لفظ سنتے ہی سر اُڑا دینے، ہاتھ کاٹ دینے، سنگساری اور بربریت کے مناظر گھومنے لگتے ہیں۔ یہی آج کل عام رحجان ہے۔ یہ محض خام خیالی ہے کہ کوئی مسلمان مسلسل ایسے معاشرے بلکہ ایسی دنیا میں زندہ ہو اور اس پر یہ طعن و تشنیع اثر انداز نہ ہو۔ چناچہ ہمارے آج کے نوجوان بہت زیادہ ذہنی ابتری کا شکار ہیں۔ دین کے بارے میں ان کے عقائد ان کے اپنے دینی علم اور غیر مسلموں کے اعتراضات کا ایک ملغوبہ ہےں۔ اور اکثر اوقات تو ان میں سے بیشتر کے پاس کوئی دینی بنیاد بھی نہیں ہوتی۔ یہ اپنے سکولوں کالجوں میں اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہوتے، خجل ہوتے، صفائیاں دیتے پھرتے ہیں اور پھر انہیں اپنے کالجوں میں فلاسفی، اور مشرقِ وسطیٰ کے علوم سے متعلق کورسز پڑھنے پڑتے ہیںاور آپ کو پتہ ہے ان کورسز کا کیا نتیجہ نکلتا ہے! یہ نوجوان بیچارے جو پہلے ہی دین پر شرمندہ ہوتے، چور بنے پھر رہے ہوتے ہیں، ان کے ہاتھ بودی فلسفیانہ دلیلوں کا ایک پلندہ آجاتا ہے۔ ''کہ جی واقعی! ہمیں اب اسلام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی، واقعی ہمیں کیا پتہ خدا کا واقعی کوئی وجود ہے یا نہیں، اور دیکھیں اب ہمارے پاس کتنی دلیلیں ہیں!'' ایسے نوجوانوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ ان کے پاس عجیب و غریب نئی دلیلیں آگئی ہیں۔ ان کا المیہ تو یہ ہے کہ یہ کبھی اپنے دین سے صحیح الفت، محبت اور وابستگی محسوس ہی نہیں کر پائے۔ ان کے کورسز نے تو انہیں بس کھوکھلی فلسفیانہ دلیلوں کی ایک ایسی آڑ دے دی ہے جس کے پیچھے چھپ کر یہ اسلام سے اپنی جان چھڑا سکیں۔ اور پھر ان لوگوں کے حالات بھی ملاحظہ کریں جو عالمِ مغرب میں دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کیلیفورنیا یونیورسٹی، جارج میس یونیورسٹی میں اسلامیات میں ماسٹرز کرنے جاتے ہیں۔ اور ایسے کئی کورسز پورے ملک (امریکہ) میں ہو رہے ہیں۔ مگر میں آپ کو بتاؤں یہ اسلامک کورسز اصل میں اسلام دشمن کورسز ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے۔ تنقید! صرف اور صرف اسلام پر تنقید کرنا سکھانا! وہ دین جس سے آپ نے محبت کرنی تھی، جسکو اپنی زندگی کا محور بنانا تھا، اس میں اگر آپ ان یونیورسٹیوں سے ایم اے کریں گے تو آپ کے اساتذہ تمام وقت آپ کو ایک ہی بات سکھائیں پڑھائیں گے! تنقید! تنقید! صرف اور صرف اسلام پر تنقید۔ اور یہ تنقید بالآخر آپ پر اثر کرکے دم لے گی۔ میرے ایک دوست ہیں جو اپنے ہائی اسکول کے دنوں میں اسلام سے بہت متاثر ہوئے چناچہ انہوں نے پہلے شام جا کر دین کی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکہ واپس آکر اسلامیات میں ایم اے کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ پہلے سمسٹر میں ان لوگوں کو ''علمِ حدیث سے تعارف'' پر لیکچر سننے تھے۔ اب بظاہر یہ عنوان نہایت روح پرور لگتا ہے لیکن آپ کو پتا ہے اُن لوگوں کو پڑھائی جانے والی درسی کتب کا لبِ لباب کیا تھا۔ یہ کہ اسلام میں جس حدیث کا درجہ جتنا صحیح ہو اور جس حدیث پر جس حد تک امام بخاری اور امام مسلم کا اجماع ہو وہ درحقیقت اتنی ہی ضعیف اور نعوذ باللہ جھوٹی ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی پورا ایک سمسٹر اس بات کو سنتا رہے تو اس کے ایمان کا کیا حشر ہو گا! کوئی بھی مسلمان راہ سے بھٹک جائے گا۔ یہ جو میں صورتحال بیان کر رہا ہوں وہ آجکل ہی کی ہے۔ ہمارے بہت سے نوجوان ایسے کورسز کا حصّہ ہیں نتیجتاً وہ اسلام کے بارے میں نہایت عجیب و غریب خیالات کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور کل کو یہی لوگ دنیا کے کرتا دھرتا ہوں گے۔ اگر آپ کو CNN پر آنے والے مسلمان یا ارشادمنجی جیسے کردار عجیب و غریب لگتے ہیں تو ایسے مخبوط الحواس لوگوں کو ایک پورا قافلہ ہے جو انکے پیچھے چلا آ رہا ہے۔ ابھی تو صرف ابتدا ہے!
دراصل ہم نے خود نفسیاتی طور پر اپنے نوجوانوں کی کوئی تربیت نہیں کی۔ ہمارے اسلامی سکولوں کو بچوں کو 'دارالکفر' سے بچا بچا کر رکھنے کی بجائے انہیں سکھانا اور بتانا چاہیے کہ باہر کی دنیا میں انہیں کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُن کا کیا جواب دینا ہو گا۔ انہیں بتانا ہو گا کہ باہر کی دنیا میں انہیں اسلام کے بارے صفائیاں نہیں دیتے پھرنا بلکہ سنتِ ابراہیمیعلیہ سلام کی پیروی کرتے ہوئے دوسروں کے عقائد پر سوالات اٹھانے ہوں گے۔ دوسروں کو ان کے دین ، ان کے عقائد کے بارے میں متزلزل کرنا ہو گا۔ ہماری اسلام اور اسلامی تعلیم کے بارے میں ساری حکمتِ عملی مدافعانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ باہر فتنہ بہت ہے۔ ہمیں اپنے بچے باہر کی دنیا سے بچا کر گھروں میں رکھنے چاہئیں۔ انہیں کالج نہیں بھیجنا چاہیے۔ نہیں، کام اس کے برعکس ہونا چاہیے۔ دنیا کو کانپنا چاہیے جب کوئی مسلمان نوجوان کالج جائے۔ ہمیں شرمندہ ہونے، جھینپنے کے بجائے استقامت سے اپنے دین کا پرچم دکھانا ہے۔ مدافعانہ پن اور معذرت خواہانہ انداز ترک کرنا ہے!
یہی میرا اختتامی نکتہ ہے۔ ہمیں اب یہ معذرت خواہانہ انداز چھوڑنا ہو گا۔ میں ذاتی طور پر اس رویے سے اب آوازار (بیزار) ہو چکا ہوں۔ ہم ہی کیوں آخر ہر وقت صفائیاں پیش کرتے رہیں۔ یہ تو اِن کفار کی بہت پرانی حکمتِ عملی رہی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھی آزمائی تھی۔ کثرتِ سوال کی حکمتِ عملی: کہ اللہ کے نبی ؐ سے مسلسل سوال پوچھتے رہو تاکہ انہیں تم سے تمہارے عقائد کے متعلق سوال کرنے کا وقت نہ مل پائے۔ یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کرتے تھے: اچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کون لاتا ہے؟ جبرائیل۔ اچھا! حیرت ہے۔ اچھا بھلا اصحابِ کہف کون تھے؟ او ہو! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا پتہ ہے۔ بھلا یہ تو بتائیں روح کیا ہوتی ہے؟ ہائیں، اس کا جواب بھی دے دیا! چلیں یہ سمجھائیں کہ کبھی لڑکی کیوںپیدا ہوتی ہے اور کبھی لڑکا کیوں؟ اب اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال کا بھی جواب دے دیتے تو انہوں نے مزید سوالات کی بوچھاڑ کر دینی تھی۔ اور یہ وضاحتوں کا سلسلہ چلتا رہنا تھا۔ تاہم اللہ نے ان کے چند سوالات کے تو جواب دیے مگر جب وہ لایعنی سوالوں پر اتر آئے کہ ''جب ہماری ہڈیاں بھر بھرا جائیں گی تو ہمیں دوبارہ کیسے اٹھایا جائے گا۔'' تو اللہ نے کسی طریقہ کار کی وضاحت نہیں کی بلکہ حضرت جبرائیل کی حقیقت بیان کرنے، اصحابِ کہف کا قصّہ تفصیل سے بتانے کے برعکس اس دفعہ صاف صاف جواب دے دیا۔ ہڈیوں کو چھوڑ کر اگر تم لوگ پتھروں اور لوہے میں تبدیل ہو جاؤ گے تو اللہ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے چھوڑے گا! جس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ : زیادہ کج بحثی کرنے کی اور اللہ کے آگے فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔ جاؤ اپنی اوقات کے مطابق جس مرضی سخت چیز کے مالک بن جاؤ ، اللہ تمہیں روزِ حشر دوبارہ اٹھا کر ہی چھوڑے گا۔ جب انہوں نے پوچھا کہ اچھا پھر دوبارہ زندہ کون کرے گا؟ منہ توڑ جواب آیا ، وہی کرے گا جس نے پہلی دفعہ زندہ پیدا کیا تھا۔
ہمیں اب اپنے نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ اس نصب العین کو اپنے تعلیمی نظام کا حصّہ بنانا ہو گا۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو آنے والوں چند سالوں میں ہمیں اسکی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اور یہ میں آپ کو بہت زیادہ سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ مسلمان کمیونٹی کے رہنماؤں کے طور پر ہم اس مسئلے کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو اس بحران سے نکال نہیں پا رہے، جب وہ نفسیاتی مسائل کا، فلسفیانہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ہم انہیں وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرنے اور خصوصی دعاؤں کا ورد کرنے پر لگا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی مسئلے کا حل ہے۔
اگر وہ کسی منطقی مسئلے کا شکار ہیںتو آپ اس کا روحانی علاج تو ضرور کریں مگر ساتھ ساتھ ان کو منطقی طور پر مسئلے کا جواب بھی سمجھائیں۔ ہمارا تو پورا دین ہی منطقی ہے۔ یہ بہت طاقتور دین ہے۔ یہی عقیدہ ہم نے آج کے پر فتن دور میں اپنے بچوں کے دلوں میں راسخ کرنا ہے۔ اب تو ان عیسائیوں نے بھی اسلام پر پنجے تیز کرنے شروع کر دیے ہیں۔ میں ایک جنوبی ریاست میں رہتا ہوں اور وہاں ڈرائیونگ کرتے ہوئے میرا مشغلہ عیسائی مشنریوں کے تبلیغی پروگرام سننا ہے۔ اب ان عیسائیوں کے پاس اپنے دین کے متعلق تو کوئی زیادہ باتیں ہیں نہیں لہٰذا یہ پروگرام چلانے کے لیے اسلام پر تنقید کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ مسلمان! ان کا قرآن کہتا ہے کہ ہم اہلِ کتاب ، اہلِ ایمان دراصل مشرک ہیں۔ آج ہمارے ساتھ قرآن کے ایک ماہر موجود ہیں جو اس مسئلے پر روشنی ڈالیں گے۔ اور اس طرح گھنٹے کا پورا پروگرام ہوتا ہے۔ میں سنتا جاتا ہوں اور ان کی بچگانہ باتوں پر، مضحکہ خیز اعتراضات پر ہنستا جاتا ہوں۔ خاص طور پر جب بزعمِ خود قرآن میں موجود تضادات اور گرائمر کی غلطیوں کو بیان کرنے کی کوششیں کرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ میں ہنستا رہتا ہوں لیکن پھر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی اور مسلمان بھی اس ویڈیو پروگرام کو سن رہا ہو گا۔ اور کیونکہ اسے خود اپنے دین کے بارے میں کچھ نہیں پتا تو وہ ان کی باتیں سن کر سوچ رہا ہو گا: ''میرے خدا یہ شخص تو ٹھیک کہہ رہا ہے، اس کی باتیں تو بالکل صحیح ہیں!''
میں آپ کو سچی بات بتاؤں، ہم نے اپنے بیج صحیح نہیں بوئے۔ یہی میرا واحد نکتہ ہے۔ ہمیں بہت چھوٹی عمر سے ہی اپنے بچوں کو 'ینگ مسلمز' اور ایسی دوسری تنظیموں کے تحت ہونے والے درسوں میں لانا چاہیے۔ ان میں وہ اعتماد پیدا کرنا چاہیے جو ان کے اردگرد کے لوگوں کو اپنے ادیان اور عقائد پر ہے۔ اس طرح ایک باہمی اعتماد کی فضاء پروان چڑھے گی۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمیں اب مزید پلاننگ کرنی ہوگی۔ ہمیں مرض کی علامتوں کا بغور مطالعہ کر کے بیماری کی جڑ تک پہنچنا ہو گا۔ زیادہ تر وقت ہم بیماری کی علامات پر بحثا بحثی کرتے رہتے ہیں۔ مگر اصل بیماری کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بیماری کو سمجھنے اور قرآن و سنت کے مطابق اسکا علاج کرنے کی صلاحیت عطا کرے، آمین۔
ایقاظ - ایمان کا بحران