محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآ اَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللہِ شَئًْا۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ۱۰ۙ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۰ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰ۭ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۰ۚ فَاَخَذَھُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ۰ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۱۱ قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ۰ۭ وَبِئْسَ الْمِہَادُ۱۲
دیکھ لو فرعون کس جاہ وحشم اور کس ٹھاٹھ سے رہتا تھا مگر ضرب موسوی کی تاب نہ لاسکا اور بنی اسرائیل کے سامنے دریا میں ڈوب گیا۔
ستر اونٹ، دو گھوڑے،سات زرہیں اور آٹھ تلواریں زاد حرب سمجھیے۔ دوسری طرف کفار کا لشکر جرار پوری تیاری کے ساتھ صف آرا تھا۔
جس کے تمام سرداروں نے اس میں فراخ دلی اور فیاضی کے ساتھ حصہ لیاتھا۔ فخر وغرور، کبروتمکنت اورقوت وکثرت کا یہ طوفان مسلمانوں کو '' مشت غبار'' کی طرح منتشر کردینا چاہتا تھا۔ کفر وضلالت کے تاریک اور سیاہ بادل آمادہ تھے کہ خرمن ایمان وبصیرت پر بجلیاں گرائیں۔ کفر وایمان کی یہ پہلی اورخطرناک سازش تھی۔ ایمان کی بے بضاعتی ارباب کفر کے لیے باعث صد خندہ تھی۔شیطان ہنس رہا تھا اورخوش تھا کہ اللہ والے آج مٹنے کو ہیں مگر رب ذوانتقام کی قاہر فوجیں مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ تائید غیبی نے ان کے دلوں کو فولادی بنادیا۔ وہ لڑے اور اس بے جگری کے ساتھ کہ کفر بایں کثرت وحشمت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوا۔ ایمان ہمیشہ کے لیے سربلند ہوگیا اور کفر سرنگوں۔
کیا یہ واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایمان بجائے خود فاتح ومنصور ہے اور کفر مغلوب ومقہور۔
۱؎ ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ کذب وافترا کی آخری حد عذاب الٰہی ہے ۔ وہ لوگ جو اب تک اسلام کے پیغام صداقت شعار کا انکار کرتے چلے آرہے ہیں، وہ متنبہ رہیں کہ ان کا مال ودولت انھیں ہرگز اللہ کی پکڑ سے نہ بچاسکے گا۔ یہ خدا کا قانون ہے ۔ اس کی سنت ہے ۔ وہ نافرمانوں کو ہمیشہ سخت سزائیں دیتا رہا ہے۔بے شک جو کافر ہیں خدا کے سامنے ان کے مال اور بال بچے کچھ کام نہ آئیں گے اور وہی دوزخ کا ایندھن ہیں۔(۱۰) جیسے فرعونیوں اور ان سے پہلوں کا حال تھا کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا توخدا نے ان کو ان کے گناہوں میں پکڑا اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔۱؎(۱۱) کافروں سے کہہ دے کہ ابھی تم مغلوب ہوگے اور دوزخ کی طرف ہانکے جاؤگے اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے۔۲؎(۱۲)
دیکھ لو فرعون کس جاہ وحشم اور کس ٹھاٹھ سے رہتا تھا مگر ضرب موسوی کی تاب نہ لاسکا اور بنی اسرائیل کے سامنے دریا میں ڈوب گیا۔
۲؎ قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ میں یہود کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ تم عنقریب مسلمانوں کے غلبہ واقتدار کے قائل ہوجاؤگے۔تمھیں تمہاری بستیوں سے نکال دیا جائے گا اور تمہارے باغات ویران کردیے جائیں گے ۔یہ اس لیے کہ یہود کو اپنے مال ودولت پر بہت ناز تھا اور وہ قوت وعظمت کے نشہ میں سرشار تھے۔ ضرورت تھی کہ انھیں خواب غفلت سے بیدار کیا جائے ۔ ضمناً اس آیت میں کفر کی دائمی مغلوبیت کی طرف اشارہ کیا۔ یعنی علوو اقتدار ،بلندی وقوت صرف ایمان کے حصہ میں آئی ہے ۔ کفر ہمیشہ پست اور ذلیل رہے گا۔ چنانچہ ان کے سامنے بدر کا نقشہ رکھا۔ مسلمان کل تین سو تیرہ تھے۔ایمان کی فتح اورکفر کی شکست
ستر اونٹ، دو گھوڑے،سات زرہیں اور آٹھ تلواریں زاد حرب سمجھیے۔ دوسری طرف کفار کا لشکر جرار پوری تیاری کے ساتھ صف آرا تھا۔
جس کے تمام سرداروں نے اس میں فراخ دلی اور فیاضی کے ساتھ حصہ لیاتھا۔ فخر وغرور، کبروتمکنت اورقوت وکثرت کا یہ طوفان مسلمانوں کو '' مشت غبار'' کی طرح منتشر کردینا چاہتا تھا۔ کفر وضلالت کے تاریک اور سیاہ بادل آمادہ تھے کہ خرمن ایمان وبصیرت پر بجلیاں گرائیں۔ کفر وایمان کی یہ پہلی اورخطرناک سازش تھی۔ ایمان کی بے بضاعتی ارباب کفر کے لیے باعث صد خندہ تھی۔شیطان ہنس رہا تھا اورخوش تھا کہ اللہ والے آج مٹنے کو ہیں مگر رب ذوانتقام کی قاہر فوجیں مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ تائید غیبی نے ان کے دلوں کو فولادی بنادیا۔ وہ لڑے اور اس بے جگری کے ساتھ کہ کفر بایں کثرت وحشمت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوا۔ ایمان ہمیشہ کے لیے سربلند ہوگیا اور کفر سرنگوں۔
کیا یہ واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایمان بجائے خود فاتح ومنصور ہے اور کفر مغلوب ومقہور۔