- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
جماعت اسلامی کو مولانا فضل الرحمٰن سے تو اتنے "اختلافات" ہیں کہ ایم ایم اے میں شمولیت گوارا نہیں کیا لیکن قبل ازیں یہی جماعت ہر سیاسی اتحاد میں شیعہ پارٹی کی "سرپرستی" اپنا فرض عین سمجھتی رہی ہے۔ ایران میں خمینی کےانقلاب کو پاکستان میں "خیر مقدم " کرانے کا سہرا بھی جماعت اسلامی ہی کے سر ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کے بغیر اسی علامہ ساجد نقوی نے "ایم ایم اے" کو بخوشی نہ صرف یہ کہ قبول کرلیا بلکہ جماعت اسلامی سے باہر نکل کر "کاغذی پارٹی" بننے والی "تحریک اسلامی" کو ہی "متبادل جماعت اسلامی " کے طور پر قبول کرلیا۔ ایم ایم اے کی دوسری اہم اور نمایاں بات "شیعہ اور اہل حدیث" کا ملی یکجہتی کونسل کی طرح شانہ بہ شانہ ایک دوسرے کو اخلاقی، سیاسی اور دینی سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ تقریباؐ ایک جیسی "دینی جماعتوں" کا ملی یکجہتی کونسل میں جماعت اسلامی کے ساتھ بلکہ اس کی "قیادت" میں اور ایم ایم اے میں جماعت اسلامی کے بغیر شمولیت کے ذریعہ عوام الناس کو آخر کیا "پیغام" دیا جارہا ہے؟ ملی یکجہتی کونسل اور ایم ایم اے کی یہ "موجودہ روش " کہیں "دینی جماعتوں کے آئندہ اتحاد" میں بوہری جماعت، آغاخانی جماعت اور احمدی برادری کی "متوقع شمولیت" کا پیش خیمہ تو نہیں۔ جب دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ جیسے "متضاد مذہبی گروپ " کا اتحاد ہوسکتا ہے تو بوہری ، آغاخانی اور احمدی برادریوں کا مستقبل کے "دینی سیاسی اتحاد" میں شمولیت کوئی خارج از امکان بات تو نہیںمولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کو فعال کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ مکمل بحالی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت اسلام آباد میں ایم ایم اے کی بحالی کے معاملے پر غور کیا گیا۔ بعد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ ایم ایم اے کو فعال کرنے پر اصولی اتفاق کر لیا گیا۔ جمیعت علماء پاکستان کے رہنما صاحبزادہ ابوالخیر زبیر کا کہنا تھا کہ ایم ایم اے کی مکمل بحالی کے لئے مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی جس کا ایک ماہ کےا ندر اجلاس ہوگا۔ اجلاس میں ایم ایم اے کے آئین اور منشور کی روشنی میں تنظیم سازی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ آج کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے معاملے پر بات نہیں ہوئی اگر جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے رابطہ کیا تو اس پر غور کیا جائے گا۔ جنرل مشرف کا ساتھ دینے کے حوالے سے سوال پر مولانا نے کہا کہ کبھی حکومت کو اور کبھی ریاست کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کے خلاف ہیں اور یہ طے شدہ نظریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد میں بھی کسی بھی نئے آپریشن پر قدغن لگائی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی فوجیوں نے 3 گولیاں ماری اس کا گردہ ضائع ہوگیا لیکن اس کی کسی نے مذمت نہیں کی۔ ہم ہر ظلم کے خلاف ہیں چاہے وہ ملالہ پر ہو یا عافیہ پر ہم سب کی مذمت کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں حکومت نے قومی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تو منہ کی کھانا پڑے گی۔ طالبان غلط کام کرتے ہیں تو اسے اچھالا جاتا ہے جبکہ کراچی میں روزانہ دس قتل ہورہے ہیں اس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے سلسلے میں ہونے والے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان، علامہ ساجد نقوی، ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، پروفیسر ساجد میر اور عبدالرحیم نقش بندی اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے :(