وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
(002:115)
ترجمہ : اور مشرق ومغرب تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے سو جس طرف تم منہ کرو تو اللہ تعالیٰ کا رخ بھی ادھر ہی ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ وسعت والا خبردار ہے ۔
---------------------------------------------------
تفسیر :
(آیت) وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۤ” اللہ ہی کے لئے ہے مشرق اور مغرب“ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق و مغرب کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ یہ روشنی کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ کا محل و مقام ہیں اور جب وہ مشارق و مغارب کا مالک ہے، تو تمام جہات اسی کی ملکیت ہیں۔
(آیت) فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا۔ پس ان جہات میں سے جس کسی جہت کی طرف بھی تم اپنا منہ پھیر لو گے، بشرطیکہ تمہارا اس کی طرف منہ پھیرنا اللہ کے حکم سے ہو یا تو وہ تمہیں حکم دے کہ خانہ کعبہ کی طرف تم منہ پھیر لو، جب کہ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے پابند تھے یا سفر میں تمہیں سواری کے اوپر نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے، اس صورت میں اس کا قبلہ وہی ہوگا جس کی طرف وہ منہ کرے گا، یا (انجان جگہ میں) قبلے کا رخ معلوم نہ ہو، پس اپنے انداز سے نما زپڑھ لی، بعد میں معلوم ہوا کہ اندازہ غلط تھا یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے قبلہ رخ ہونا مشکل ہو۔ ان تمام صورتوں میں وہ یا تو مامور ہے (یعنی اللہ کے حکم پر قبلے کی طرف رخ کرنے والا ہے) یا معذور ہے۔
ہر حال میں بندہ جس جہت کی طرف بھی منہ کرتا ہے وہ جہت اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں۔ (آیت) فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ” جدھر بھی تم رخ کرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے بے شک اللہ وسعت علم والا ہے“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات ہوتا ہے مگر جیسے اس کی ذات اقدس کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے مگر مخلوق کے چہروں کے مشابہ نہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس مشابہت سے بلند و برتر ہے) وہ وسیع فضل اور عظیم صفات کا مالک ہے اور تمہارے سینوں کے بھید اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ اس نے وسعت علم و فضل کی بنا پر تمہارے لئے احکام میں وسعت بخشی ہے اور تم سے مامورات کو قبول فرمایا۔ ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر صرف اسی کی ذات کے لئے ہے۔
( تفسیر السعدی )
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
(002:115)
ترجمہ : 115-2 اور اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، تو تم جس طرف رخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ بے شک اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
---------------------------------------------------
تفسیر : وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ : اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں، بلکہ مراد خاص صورتوں میں قبلہ کی پابندی ختم کرنا ہے، کیونکہ اس سے پہلے ان ظالموں کا ذکر ہے جو اللہ کی مسجدوں سے روکتے ہیں، یعنی ان ظالموں کی اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور انھیں ویران کرنے کی کوشش اللہ تعالیٰ کی عبادت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے، سو انسان کو قبلہ کی طرف رخ کرنے میں اگر کوئی دشواری ہو، دشمن کا خوف ہو یا قبلہ معلوم نہ ہو سکے تو جس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے درست ہے۔ ارشاد فرمایا : (قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىھَا ۠فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭوَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَهٗ) [ البقرۃ : ١٤٤] ” یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو ہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے، سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں بھی ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو۔“
فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ : سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ جا رہے تھے، دوران سفر میں آپ اپنی سواری پر جدھر بھی اس کا رخ ہوتا نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں، اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے : (فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ) ” تم جدھر بھی منہ کرو گے ادھر اللہ کا منہ ہوگا۔“ [ مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جواز صلوۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث تو جھت : ٣٣؍٧٠٠ ]
سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفل نماز سواری پر پڑھ لیا کرتے تھے، اگرچہ سواری کا منہ کسی طرف بھی ہوتا اور وتر بھی اسی پر پڑھ لیا کرتے تھے، البتہ فرض نماز سواری پر نہیں پڑھتے تھے۔ [ بخاری، کتاب التقصیر، باب ینزل للمکتوبۃ : ١٠٩٨۔ مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جواز صلوۃ النافلۃ۔۔ الخ : ٣٩؍٧٠٠ ]
سیدنا جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی سواری پر مشرق (غیر قبلہ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیا کرتے تھے، پھر جب آپ فرض نماز پڑھنے کا ارادہ کرتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کرتے۔ [ بخاری، کتاب التقصیر، باب ینزل للمکتوبۃ : ١٠٩٩ ]
انس بن سیرین (رض) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا انس (رض) جب شام سے آئے تو ہم نے ان کا استقبال کیا۔ ہم نے ان سے عین التمر میں ملاقات کی، میں نے دیکھا کہ وہ گدھے پر قبلہ کی بائیں جانب منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں۔ (وہ نماز پڑھ چکے تو) میں نے ان سے پوچھا کہ میں نے آپ کو غیر قبلہ کی جانب منہ کر کے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (اس کی کیا وجہ ہے؟) انھوں نے فرمایا، اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی ایسا نہ کرتا۔ [ بخاری، کتاب التقصیر، باب صلوۃ التطوع علی الحمار : ١١٠٠۔ مسلم، کتاب صلٰوۃ المسافرین، باب جواز صلوۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجہت : ٧٠٢ ]
نافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) سے نماز خوف کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اس کی کیفیت بیان کی، پھر فرمایا، اگر خوف اس سے بھی زیادہ شدید ہو تو پاپیادہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر یا سواریوں پر نماز پڑھ لو، خواہ رخ قبلے کی طرف ہو یا نہ ہو۔ نافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابن عمر (رض) نے یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے ہی سے بیان فرمائی تھی۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ ( فإن خفتم فرجالاً أو رکبانًا فإذا أمنتہم) ۔
( تفسیر دعوۃ القرآن )
ایک بھائی نے سورہ بقرہ آیت ۱۱۵ دی اور کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے لیے قبلہ ڈھونڈنا مشکل ہوجائے ، یا وہ قبلہ رخ ہو نہ سکتا ہو ، تو پھر اللہ تعالی کو ایسی کوئی مجبوری نہیں ، یہ مجبوریاں صرف انسانوں کے لیے ہیں ، اللہ تعالی کے لیے ہر طرف قبلہ ہے ۔