• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کا جواب مطلوب ہے ۔

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
_ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی_

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

☘ *يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِالۡقَوۡلِ الثَّابِتِ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَفِى الۡاٰخِرَةِ‌ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيۡنَ‌ ۙ وَيَفۡعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَآءُ*

ترجمہ

_ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (1) ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔_

☀تفسیر

27۔ 1 اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ' موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) 14 ۔ ابراہیم :27) کا (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں ہے کہ ' جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لئے جنت میں ٹھکانا بنادیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کردی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے ' (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے مَنْ رَبُّکَ ؟ دِیْنُکَ ؟ مَنْ نَّبِّکَ ؟ تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے ؟ پس اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے) ، وَ دِیْنِیَ الاِ سْلَامُ (میرا دین اسلام ہے) وَ نَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں) (تفسیر ابن کثیر)

[Ahsan ul Bayan 14:27]

سورہ ابراھیم نمبر 14
آیت نمبر 27

اسپر اعتراض اٹھایا ہے کسی نے کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر درود پڑھتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ سنتے نہیں اور اگر مردے نہیں سنتے توپھر اس حدیث میں کیوں ؟؟؟

رہنمائی فرمائیں بھائی

@اسحاق سلفی
@خضر حیات
@Amirab313
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسپر اعتراض اٹھایا ہے کسی نے کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر درود پڑھتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ سنتے نہیں اور اگر مردے نہیں سنتے توپھر اس حدیث میں کیوں ؟؟؟
یہ حدیث اصل میں صحیح بخاری میں ہے :
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(العبد إذا وضع في قبرہ وتُوُلِّيٍَ وذھب أصحابہ حتی أنہ لیسمع قرع نعالھم،أتاہ ملکان فأقعداہ فیقولان: ما کنت تقول في ھذا الرجل محمد ﷺ؟ فیقول : أشھد أنہ عبد اﷲ ورسولہ،فیقال: اُنظر إلی مقعدک من النار اَبدلک اﷲ بہ مقعدا من الجنة) قال النبي ! (فیراھما جمیعا، وأما الکافر أو المنافق فیقول: لا أدري کنت أقول ما یقول الناس، فیقال: لا دریت ولا تلیت، ثم یضرب بمِطرقة من حدید ضربةً بین أذنیہ فیصیح صیحة یسمعھا من یلیہ إلا الثقلین) 34
ترجمہ :
''جب بندہ قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس پلٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں : ''تو اس آدمی کے بارے میں کیاکہتا تھا؟'' (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) بندہ کہتا ہے :''میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسولؐ ہیں ۔'' پھراسے کہا جاتا ہے: ''دیکھ جہنم میں تیری جگہ یہ تھی جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں جگہ عنایت فرما دی۔'' چنانچہ وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور کافر یا منافق (منکرنکیر کے جواب مںی ) کہتا ہے: ''مجھے معلوم نہیں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں ؟) میں وہی کچھ کہتا تھا جولوگ کہتے تھے۔ ''چنانچہ اسے کہا جاتا ہے: ''تو نے (قرآن و حدیث کو)سمجھا،نہ پڑھا ۔'' پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے اور وہ بُری طرح چیخ اُٹھتا ہے۔ اس کی آواز جن و انس کے علاوہ آس پاس کی ساری مخلوق سنتی ہے۔'' (صحیح البخاری )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
عام قانون اور معاملہ تو یہی ہے کہ مردے زندوں کی آواز اور پکار نہیں سنتے ،جیسا قرآن و احادیث سے ثابت ہے
قرآن مجید میں ہے :
(إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ (النمل80)
اے محبوب نبی ! آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جبکہ وه پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں۔ (80)
اور دوسرے مقام پر فرمایا :

( وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ (فاطر22)
زنده اور مردے برابر نہیں فہوسکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔ (22)
ــــــــــــــــــــــــــــ
تو واضح ہے کہ عمومی قانون تو یہ ہے اس دنیا سے اگلے جہان چلے جانے والوں کو اس دنیا کے عام لوگ تو کیا خود نبی مکرم ﷺ بھی کچھ نہیں سنا سکتے
لیکن مردہ کا دفنا کر واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سننا
یہ ایک استثناء ہےـ ان احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے سن نہیں سکتےـ مردوں کے نہ سن سکنے کا قانون اپنی جگہ مستقل ہےـ اگر وہ ہر وقت سن سکتے ہوتے تو
"حین یولون عنه" (جب لوگ میت کو دفنا کر واپس ہو رہے ہوتے ہیں) اور"إذا انصرفوا" (جب لوگ لوٹتے ہیں) کی قید لگا کر مخصوص وقت بیان کرنے کا کیا فائدہ تھا؟ مطلب یہ ہے کہ قانون اور اصول تو یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا، تاہم اس حدیث نے ایک موقع خاص کر دیا کہ دفن کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں،ان کی واپسی کے وقت میت ان لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنتی ہے ـ
پھر عربی گرائمر کا اصول ہے کہ جب فعل مضارع پر لام داخل ہو تو معنی حال کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے یعنی
"لیسمع" وہ خاص اس حال میں سنتے ہیں ،
اس تحقیق کی تائید اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے جس کو امام طحاوی حنفی رح نے نقل کیا ہے


والذى نفسي بيده! انه ليسمع خفق نعالهم،حين تولون عنه مدبرين
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً جب لوگ میت کو دفن کر کے واپس جا رہے ہوتے ہو تو وہ ان جوتوں کی آواز سنتی ہے ـ (شرح معانی الآثار للطحاوی ج ۱ ص ۵۱۰ وسند حسن)

مشہور عرب،اہل حدیث عالم شیخ محمد بن صالح العثیمین رح (متوفی ۱۴۲۱ ھ) فرماتے ہیں

فهو وارد في وقت خاص،وهو انصراف المشيعين بعد الدفن
کہ مردوں کا یہ سننا ایک خاص وقت میں ہوتا ہے اور وہ دفن کرنے والوں کا تدفین کے بعد واپس لوٹنے کا وقت ہے ـ (القول المفید علی کتاب التوحید ج ۱ ص ۲۸۹)
یعنی یہ خاص اور استثنائی صورت ہے ، تو مردوں کے سننے کو صرف صرف اسی صورت تک محدود رکھاجائے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
جزاک اللہ خیرا فی الدارین بھائی اسحاق
 
Top