عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
یادِ رفتگاں
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
راقم الحروف کا محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد سے پہلا شعوری تعارف گریجویشن کے دوران ۱۹۹۸ء میں ہوا۔ اور اس کا ذریعہ، شرک پر ان کی چھ عدد آڈیو کیسٹس بنیں۔ توحید و شرک کے موضوع پر ان کا یہ خطاب اس قدر جامع مانع تھا کہ اس نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے ایک تعلق قائم کردیا۔ اس کے بعداپنے گاؤں پنڈی گھیپ، ضلع اٹک میں ہی ڈاکٹر صاحب کی قائم کردہ تنظیم اسلامی کی چھوٹی سی لائبریری سے رابطہ قائم ہوا اور ان کی اکثر و بیشتر کتابیں اور خطبات نہ صرف اَزبر کر لیے بلکہ چھوٹے موٹے دروسِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
گریجویشن کے بعد میرا پروگرام علم ریاضی میں M.Scکرنے کا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کے خطبات نے ذہن تبدیل کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم قرآن کی تعلیم و تعلّم پر بہت زور دیتے تھے بلکہ مغربی تعلیم یافتہ افراد کے لیے تو قرآن کی تعلیم کو فرض قرار دیتے تھے۔ سو راقم نے بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے گریجویشن کے بعد ۱۹۹۹ء میں قرآن اکیڈمی، لاہور میں ایک سالہ کورس کے لیے داخلہ لے لیا۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں رعب اور دبدبے کا عنصرغالب تھا۔ اس لیے ان سے براہِ راست ملاقات یا بات کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ بہر حال ایک سالہ کورس کے دوران ڈاکٹر صاحب سے کسی انتظامی مسئلے کے حوالے سے ایک ہی دفعہ ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے راقم کو تعلیم پر توجہ دینے کی نصیحت کی۔مئی ۲۰۰۰ء میں ایک سالہ کورس کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے کلاس کے ساتھ الوداعی ملاقات کی جس میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ راقم نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا کہ ایک سال پڑھنے کے بعد بعض طلبا میں قرآن وسنت اور دین کا مزید علم حاصل کرنے کی خواہش بڑھ گئی ہے، اب آپ کے پاس اس بارے میں کیا پروگرام ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: فی الحال تو ہمارے پاس ایک ہی سال کا پروگرام ہے۔ آپ مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو اسلامی یونیورسٹی چلیں جائیں۔جب راقم نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا کہ آپ کا درسِ نظامی کے بارے کیا خیال ہے تو اُنہوں نے جواباً کہا: درسِ نظامی سے گزرنے کے بعد تمہارے اندر تحریکیت ختم ہو جائے گی اور جمود کا شکار ہو جاؤ گے کیونکہ مدارس میں مذہبی تعصب بہت ہے۔ تقریباًہر مدرسہ اپنے مکتب ِفکر کی تعداد بڑھانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب میں یہ کمزوری ہے کہ اس کے نصاب کی تیاری میں تحریکی پہلو کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے، الا ماشاء اللہ!
اس کے بعد راقم الحروف نے جامعہ اشرفیہ، لاہور میں درسِ نظامی کے سہ سالہ کورس میں داخلہ لے لیا، لیکن وہاں تشفی نہ ہوئی،لہٰذا کچھ عرصہ بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں داخلہ لے لیا جہاں سے میں نے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور کچھ عرصہ وہاںتدریس بھی کرتا رہا۔ اس دوران قرآن اکیڈمی سے تعلق تقریباً منقطع ہی رہا۔پھر دسمبر ۲۰۰۵ء میں راقم’قرآن اکیڈمی‘ کے شعبۂ ’تحقیق و تدریس‘ سے وابستہ ہو گیا تو ایک دفعہ پھر اکیڈمی سے رابطہ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم سے گاہے بگاہے ملاقات رہتی تھی اور اکثر و بیشتر ملاقات ان کے بلانے پر ہی ہوتی تھی۔ وہ خطبہ جمعہ کی تیاری کے لیے اکثر و بیشتر احادیث کی تخریج و تحقیق کا کام بندئہ ناچیز سے لیتے تھے،کیونکہ وہ خود کمپیوٹر کے استعمال سے بالکل نا واقف تھے۔
حافظ محمد زبیر
ایک خادمِ قرآن کی کچھ یادیں،کچھ باتیں
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
راقم الحروف کا محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد سے پہلا شعوری تعارف گریجویشن کے دوران ۱۹۹۸ء میں ہوا۔ اور اس کا ذریعہ، شرک پر ان کی چھ عدد آڈیو کیسٹس بنیں۔ توحید و شرک کے موضوع پر ان کا یہ خطاب اس قدر جامع مانع تھا کہ اس نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے ایک تعلق قائم کردیا۔ اس کے بعداپنے گاؤں پنڈی گھیپ، ضلع اٹک میں ہی ڈاکٹر صاحب کی قائم کردہ تنظیم اسلامی کی چھوٹی سی لائبریری سے رابطہ قائم ہوا اور ان کی اکثر و بیشتر کتابیں اور خطبات نہ صرف اَزبر کر لیے بلکہ چھوٹے موٹے دروسِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
گریجویشن کے بعد میرا پروگرام علم ریاضی میں M.Scکرنے کا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کے خطبات نے ذہن تبدیل کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم قرآن کی تعلیم و تعلّم پر بہت زور دیتے تھے بلکہ مغربی تعلیم یافتہ افراد کے لیے تو قرآن کی تعلیم کو فرض قرار دیتے تھے۔ سو راقم نے بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے گریجویشن کے بعد ۱۹۹۹ء میں قرآن اکیڈمی، لاہور میں ایک سالہ کورس کے لیے داخلہ لے لیا۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں رعب اور دبدبے کا عنصرغالب تھا۔ اس لیے ان سے براہِ راست ملاقات یا بات کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ بہر حال ایک سالہ کورس کے دوران ڈاکٹر صاحب سے کسی انتظامی مسئلے کے حوالے سے ایک ہی دفعہ ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے راقم کو تعلیم پر توجہ دینے کی نصیحت کی۔مئی ۲۰۰۰ء میں ایک سالہ کورس کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے کلاس کے ساتھ الوداعی ملاقات کی جس میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ راقم نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا کہ ایک سال پڑھنے کے بعد بعض طلبا میں قرآن وسنت اور دین کا مزید علم حاصل کرنے کی خواہش بڑھ گئی ہے، اب آپ کے پاس اس بارے میں کیا پروگرام ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: فی الحال تو ہمارے پاس ایک ہی سال کا پروگرام ہے۔ آپ مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو اسلامی یونیورسٹی چلیں جائیں۔جب راقم نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا کہ آپ کا درسِ نظامی کے بارے کیا خیال ہے تو اُنہوں نے جواباً کہا: درسِ نظامی سے گزرنے کے بعد تمہارے اندر تحریکیت ختم ہو جائے گی اور جمود کا شکار ہو جاؤ گے کیونکہ مدارس میں مذہبی تعصب بہت ہے۔ تقریباًہر مدرسہ اپنے مکتب ِفکر کی تعداد بڑھانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب میں یہ کمزوری ہے کہ اس کے نصاب کی تیاری میں تحریکی پہلو کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے، الا ماشاء اللہ!
اس کے بعد راقم الحروف نے جامعہ اشرفیہ، لاہور میں درسِ نظامی کے سہ سالہ کورس میں داخلہ لے لیا، لیکن وہاں تشفی نہ ہوئی،لہٰذا کچھ عرصہ بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں داخلہ لے لیا جہاں سے میں نے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور کچھ عرصہ وہاںتدریس بھی کرتا رہا۔ اس دوران قرآن اکیڈمی سے تعلق تقریباً منقطع ہی رہا۔پھر دسمبر ۲۰۰۵ء میں راقم’قرآن اکیڈمی‘ کے شعبۂ ’تحقیق و تدریس‘ سے وابستہ ہو گیا تو ایک دفعہ پھر اکیڈمی سے رابطہ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم سے گاہے بگاہے ملاقات رہتی تھی اور اکثر و بیشتر ملاقات ان کے بلانے پر ہی ہوتی تھی۔ وہ خطبہ جمعہ کی تیاری کے لیے اکثر و بیشتر احادیث کی تخریج و تحقیق کا کام بندئہ ناچیز سے لیتے تھے،کیونکہ وہ خود کمپیوٹر کے استعمال سے بالکل نا واقف تھے۔