• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک دن آئے گا یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی جسے چاہوں گا دوں گا

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
ایک دن آئے گا یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی جسے چاہوں گا دوں گا

إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿٥٨﴾
اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وه بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے (58)سورة النساء

تفسیر ابن کثیر :
امانت اور عدل و انصاف
''اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا۔ حجرا سود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہ بارہ طلب کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ فال کے تیر تھی آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان سیروں سے کیا سروکار؟ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا اس خطبہ کو پورا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہی تھے
جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہوگئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو سیدنا جبرائیل علیہ السلام نازل ہوے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی،
اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے
یہ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ وہی ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے ''۔

علامہ ابن سعد نے 'طبقات' میں عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کا
بیان نقل کیا ہے کہ
ہم خانہ کعبہ کا دروازہ ہفتہ میں سوموار اور جمعرات ، دو دن کھولا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اکرمﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہونے لگے، تو میں نے دروازہ بند کردیا اور آپﷺ کو کچھ نازیبا کہا۔ آپ ﷺ نے میری اس حرکت کو برداشت کیا اور فرمایا: ''عثمان! ایک دن آئے گا تو دیکھے گا کہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ میں جسے چاہوں گا، دوں گا۔ میں نے کہا: یہ تب ہوگا، جب قریش ہلاک ہوجائیں گے۔''
آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں! بلکہ اس دن قریش زندہ ہوں گے اور عزت پائیں گے۔''
آپﷺ خانہ کعبہ میں داخل توہ وگئے مگر آپﷺ کی یہ بات میرے دل میں جم گئی اور میں نے یقین کرلیا کہ جو آپﷺ نے فرمایا ہے، ایسا ہوکر رہے گا۔

جب مکہ فتح ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''عثمان ! چابی لاؤ''
میں نے چابی لاکر دے دی۔ آپﷺ نے وہ چابی اپنے ہاتھ میں لی،
پھر یہ کہتے ہوئے واپس کردی: ''یہ چابی لو، یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ اگر کوئی تم سے چھینے گا تو وہ ظالم ہوگا''۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
جزاک اللہ خیرا ۔
یہ سنتے ہی سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہ بارہ طلب کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں ن
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو فتح مکہ کا واقعہ شیخ امین اللہ پشاوری صاحب نے پشتو زبان میں یہاں پر فائل نمبر 76 کے اڑتالیسویں منٹ کے بعد کچھ اس طرح بیان کیا ہے ،
کہ جب نبی علیہ السلام نے عثمان بن طلحہ الحیّٰوی(جو کہ بعد میں مسلمان ہوگیا رضی اللہ عنہ) سے چابی کا مطالبہ کیا تو وہ گھر جاکر اپنی ماں سے چابی کا مطالبہ کرتا ہے تب ماں اسے کہتی کہ آپ کو یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ ایک دن یہ کعبہ کی چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور جس کو چاہو اس کو دے دوں گا ۔
ماں نے کہا اب وہ اگر آپ سے چابی لے کر کسی اور کو نہ دے۔ یعنی اس کی ماں چابی دینے میں ترددو پس پیش کرنے لگی کہ نہیں ہے گم ہوگئ ہے وغیرہ ۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اور اصحاب کرام رض کو بھیج دیا ، جس کے رعب سے اس کی ماں نے انھیں چابی حوالہ کردی ۔
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
آفریدی بھائی !
آپ کی بیان کردہ بات ٹھیک ہے
لیکن ایک وضاحت کردوں
سیدنا عثمان بن طلحہ ، سیدنا عمرو بن العاص اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنھم نے اکھٹے اسلام قبول کیا تھا اور یہ فتح مکہ سے پہلے کی بات ہے
اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا تھا کہ مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے حوالے کر دیئے ہیں
 
Top