• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سوال۔۔۔

شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
السلام علیکم،
کیا زنا بالجبر کے معاملے میں(یا اس جیسے اور معاملات میں بھی) DNA رپورٹ شاہدی کو طور پر قابل قبول ہوگی؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
زنا كى حد ميں صرف چار گواہ !

زنا كے ثبوت كے ليے چار گواہوں كى گواہى ميں شرط يہ ہے كہ: ـ مسلمان اور آزاد اور عادل ہونے كے علاوہ ـ انہوں نے اپنى آنكھوں سے ديكھا ہو اور پورى وضاحت اور دقيق وصف كے ساتھ بيان كريں، اس ميں مرد اور اجنبى عورت كا ايك جگہ جمع ہونے كو ديكھ كر بيان كرنا كافى نہيں، چاہے انہيں اس نے بے لباس بھى ديكھا ہو، اور اس گواہى كى خصوصيت ميں يہ شامل ہے.

ابن رشد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور گواہوں سے زنا كا ثبوت:

علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ گواہوں سے زنا ثابت ہوجاتا ہے، اور باقى سارے حقوق كے برخلاف اس ميں چار گواہوں كى شرط ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ پھر وہ چار گواہ پيش نہ كر سكيں }.

اور وہ گواہ عادل ہوں، اور اس گواہى كى شرط يہ ہے كہ انہوں نے مرد كى شرمگاہ كو عورت كى شرمگاہ ميں ديكھا ہو، اور پھر يہ صراحت كے ساتھ بيان كيا جائے نہ كہ اشارہ كنايہ كے ساتھ " انتہى.

ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 2 / 439 ).

اور امام الماوردى كہتے ہيں:

" اور زنا ميں گواہى كا طريقہ اور وصف يہ ہے كہ: اس ميں گواہوں كا يہ كہنا كافى نہيں: ہم نے اسے زنا كرتے ديكھا، بلكہ انہيں وہ وصف بيان كرنا ہو گا جس زنا كا انہوں نےمشاہدہ كيا ہے، اور وہ اس طرح كہيں: ہم نے مرد كا عضو تناسل عورت كى شرمگاہ ميں اس طرح داخل ہوتے ديكھا جس طرح سرمہ ڈالنے كى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہوتى ہے.

ايسا تين امور كى بنا پر كيا جائيگا:

اول:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز رضى اللہ تعالى عنہ كے اقرار كو ثابت كرنے كے ليے فرمايا:

كيا تو نے اس طرح دخول كيا جس طرح كہ سرمہ ڈالنے والى سلائى سرمہ دانى ميں داخل ہو جاتى ہے، اور پانى كا ڈول كنوئيں ميں ؟

تو اس نے كہا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے رجم كرنے كا حكم ديا "

تو يہ چيز اقرار ميں بطور ثبوت پوچھى گئى تو پھر گواہى ميں بالاولى يہ طريقہ ہو گا.

دوم:

جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس گواہوں نے مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كے خلاف زنا كى گواہى دى اور وہ گواہ: ابو بكرہ، اور نافع، اور نفيع، اور زياد تھے تو ابو بكرہ اور نافع اور نفيع نے صراحت كے ساتھ بيان كيا، ليكن زياد كو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:

تمہارے پاس جو كچھ ہے وہ بيان كرو، اور مجھے اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى تيرى زبان سے صحابى كى ہتك نہيں كريگا.

تو زيادہ كہنے لگا: ميں نے ايك نفس كو اوپر ہوتے ديكھا، يا دو سرين اوپر ديكھے، اور ميں نے اس عورت كى ٹانگيں اس كى گردن پر ديكھيں گويا كہ وہ دونوں ٹانگيں گدھے كے كان ہوں.

اے امير المومنين ميں نے جانتا كہ اس كے پيچھے كيا تھا.

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نعرہ تكبير بلند كرتے ہوئے اللہ اكبر كہا، اور گواہى ساقط كر دى اور اسے مكمل نہ سمجھا "

مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ كى اس تہمت سے برات كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 120030 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

سوم:

زنا لفظ مشترك ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" آنكھيں زنا كرتى ہيں، اور ان كا زنا ديكھنا ہے، اور ہاتھ بھى زنا كرتے ہيں، اور ان كا زنا پكڑنا اور چھونا ہے، اور اس سب كى تصديق يا تكذيب شرمگاہ كرتى ہے "

اس ليے زنا كے ثبوت كى گواہى ميں اس احتمال كى نفى كے ليے لازم ہے زہ انہوں نے جو كچھ ديكھا ہے وہ بيان كريں، كہ مرد كى شرمگاہ عورت كى شرمگاہ ميں داخل تھى " انتہى.

ديكھيں: الحاوى ( 13 / 227 ).

تيسرا معاملہ:

زنا كے معاملہ ميں اس شدت كے ساتھ گواہى كى تخصيص ميں عزت و ناموس كى حفاظت ميں مزيد احتياط ہے، تا كہ لوگ طعن اور تہمت لگانا آسان نہ سمجھيں.

اور اس باريكى اور دقيق وصف كے ساتھ گواہى كى شرط ہونے كى بنا پر كسى شخص پر زنا كى حد كا جارى ہونا بہت مشكل ہے، الا يہ كہ وہ خود اعتراف كر لے، اور جس شخص پر اتنى دقيق اور باريكى سے گواہى ديے جانے پر حد جارى ہو تو يہ اس جرات اور شنيع فعل كى دليل ہے جس كى سزا ميں وہ عبرت ناك سزا كا مستحق ٹھرتا ہے.

امام مارودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس معاملے كى گواہى دى جارہى ہے اس كے سخت ہونے اور شديد ہونے كے اعتبار سے گواہى بھى شديد ہو گى، جب زنا اور لواطت و بدكارى سب سے برے اور فحش كام ميں شامل ہوتى ہے جس سے منع كيا گيا ہے تو اس كے آخر ميں گواہى بھى اتنى ہى شديد ركھى گئى، تا كہ حرمت كى بےپردگى نہ ہو، اور اسے ختم كرنے كا باعث بنے " انتہى.

ديكھيں: الحاوى ( 13 / 226 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" زنا پر گواہى كى وجہ سے كوئى حد نہيں لگائى جا سكتى، اور ميرے علم كے مطابق تو گواہى كے ساتھ زنا كى حد لگائى ہى نہيں گئى، بلكہ يہ يا تو اعتراف يا پھر حيلہ كے ساتھ لگائى جاتى ہيں "

ديكھيں: منھاج السنۃ ( 6 / 95 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب


http://islamqa.info/ur/114877

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم،
کیا زنا بالجبر کے معاملے میں(یا اس جیسے اور معاملات میں بھی) DNA رپورٹ شاہدی کو طور پر قابل قبول ہوگی؟
وعلیکم السلام سلفی بھائی

السلام علیکم اسحاق سلفی بھائی !

@اسحاق سلفی بھائی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم،
کیا زنا بالجبر کے معاملے میں(یا اس جیسے اور معاملات میں بھی) DNA رپورٹ شاہدی کو طور پر قابل قبول ہوگی؟
وعلیکم السلام
جن جرائم کی شرعی حدود مقرر ہے، ان جرائم کے لئے وہی ”ثبوت“ قابل قبول ہوگا جو شریعت اسلامی میں مقرر ہے۔ تاہم ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ یا اس جیسے دیگر مصدقہ شواہد کو ”اضافی ثبوت“ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حدود والے جرائم بالخصوص چوری، زنا وغیرہ کی سزا انتہائی سخت ہے اور ان جرائم میں ”سزا یافتہ فرد“ کی پوری زندگی شدید متاثر ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام سلفی بھائی

السلام علیکم اسحاق سلفی بھائی !

@اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
آپ کے سوال کا جواب (جسے فتوی نہ سمجھا جائے )
ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔ کیا ہے؟

جسطرح کمپیوٹر کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ کے پیچھے HTML کے کوڈز
Codes کارفرما ہوتے ہیں اسی طرح زمین پر چلتی پھرتی زندگی کے پیچھے DNA کے کوڈز ہوتے ہیں ۔ یعنی کسی جاندار کی ظاہری شکل و صورت اور رویہ ( phenotype) دراصل اسکے خلیات میں موجود ڈی این اے کے اندر پوشیدہ وراثی کوڈز (جینیٹک کوڈ)
سے بنتا ہے ، ڈی این اے میں لکھا گیا پوری زندگی کا یہ افسانہ طرز وراثی genotype ۔کہلاتا ہے ۔ طرزظاہری اور طرزوراثی کے فرق کی وضاحت ایسی ہے کہ جیسے ایک ٹی وی کی اسکرین پر نظر آنے والا ڈرامہ ہو جو مکمل طور پر اپنے لئے لکھے گئے اسکرپٹ پر چلتا ہے ، گویا ڈرامہ خود طرزظاہری کی مثال ہو اور اسکے لئے لکھا گیا
اسکرپٹ طرزوراثی کی مثال ہو۔
ہر انسان کا مکمل ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ ہاں کچھ نمبرز اپنے والدین سے مل جاتے ہیں۔ جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کس کی اولاد ہے۔ مغرب میں ڈی این اے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

امریکہ میں ہرمجرم کے ڈی این اے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اور اگر ایک ہی مجرم دوبارہ جرم کرے اور کسی وجہ سے اس کے ڈی این کے شواہد مل جائیں۔جیسے اس کا بال یا تھوک یا خون وغیرہ تو اس کی چند دن میں ہی شناخت ہو جاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مصر کے مشہور مجلہ ’’مجلة دار الإفتاء المصرية ‘‘
میں ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں :

والأمور المستحدثة والوسائل العلمية المتقدمة التي
ظهرت ويمكن الاستعانة بها كأدلة إثبات في هذا
الباب؛ كتحليل البصمة الوراثية (DNA)، وكالتصوير
المرئي، والتسجيل الصوتي، لا تعدو أن تكون مجرد
قرائن لا ترقى لأنْ تستقل بالإثبات في هذا الباب
الذي ضيّقه الشرعُ، بل إن تحليل البصمة الوراثية
الذي هو أقوى هذه الوسائل يرى الخبراء القانونيون
أنه دليل غير مباشر على ارتكاب الجريمة، وأنه
قرينة تقبل إثبات العكس، وهذا صحيح؛ لأن هذه
التحاليل يعتريها الخطأ البشرى المحتمل. وحتى لو
دلَّت البصمة الوراثية في نفسها على نفى النسب أو
إثباته يقينًا، فإنَّ ذلك اليقين في نفسه يقع
الظنُّ في طريق إثباته، مما يجعل تقرير البصمة
الوراثية غير قادر على إثبات جريمة الزنا إثباتًا
يقينيًّا، مما يجعل إثبات جريمة الزنا بذلك موضع
شبهة وتردد، وغاية هذا التحليل أنْ يُثبِت أنَّ
الماء المستقر في رحم المرأة هو ماء الرجل
الفلاني، أو أنَّ هذا الحمل منه أو من غيره، وهذا
إن ثبت لم يلزم منه ثبوت الزنا بالتعريف الشرعي
السابق؛ لأنَّ مَنِيّ الرجل قد ينتقل إلى رحم
المرأة عمدًا أو خَطَأً أو عن قصد أو غير قصد؛ بأن
يَتَشَرَّبه فرجُ المرأة من طريق استعمال ملابس أو
أشياء ملوثة به مثلا، أو تكون المرأة قد لابست
المُحَرَّم ولكن دون حصول الإيلاج، وكل هذا لا
يُعَد زنا شرعًا. وقد ذكر العلماء شيئًا من ذلك،
ومنه ما جاء في تبصرة الحكام لابن فَرحون المالكي
[2/ 97، ط. دار الكتب العلمية]: "إن قالت:
وُطِئْتُ بين الفخذين ودخل الماء إلى فرجي, فكان
الحمل عن ذلك فينبغي أن يُدرأ الحَدُّ عنها؛ لأنَّ
ذلك ممكن، وقال صلى الله عليه وآله وسلم: (ادرؤوا
الحدود بالشبهات)" اهـ.
ولا يَعني هذا إنكارَ إفادةِ الوسائل العلمية
للعلم الظني أو اليقيني -كُلٌّ بحسبه-، بل إن
الشروط والصفات الواجب توافرها لإثبات حصول جريمة
الزنا وما يستتبعه من آثار لا تقف عند حد ثبوت
الجماع أو الحمل مثلا وحسب، بل لا بُدَّ من شروط
أخرى نحو: ألا يكون الوطء وطءَ شبهة مثلا، وأن
يكون قد حدث جماع حقيقي كامل، وليس مجرد استدخال
لمني الرجل في فرج المرأة بأي حيلة أو وسيلة.
والشرع إنما يراعي فيما يعتبره من أسباب الإثباتِ
العديدَ من الأبعاد النفسية والاجتماعية والأسرية،
ولهذا قد تتداخل الأسباب وقد تتساقط، ولا يعني ذلك
عدم كونها أسبابًا، ولا يعني تساقطُها إلا عدمَ
اعتبارها في موضع سقوطها، وكونَ غيرها مقدَّما
عليها بالاعتبار في هذه الحالة. وهنا قد نَصَّ
الشارع على أسباب مُحَدَّدة لإثبات جريمة الزنا،
وأسقط اعتبار غيرها مما اعتبره هو نفسه في أبواب
أخرى. فدَلَّ ذلك على أنَّ الشارع قاصدٌ لعدم
اعتبارها في هذا الباب بخصوصه، لا مطلقًا، فما
توسع فيه الشارع توسعنا فيه بإذنه لنا في التوسع،
وما ضَيَّقَه ضَيَّقناه ولم يكن لنا التوسع فيه،
وإلا كان أخذنا بما لم يقبله الشارع من باب
الافتئات عليه والعمل على خلاف قصده.
ومِن ثَم فإن عدم الاعتداد بهذه الوسائل في إثبات
جريمة الزنا إما لأنها لا يتحقق معها إثباتُ
أركانِ الجريمة كاملة بحسب ما يقوله الشرع، كما في
تحليل الحامض النووي، وإما لأنها لا تعتبر قرينةً
كافية، كما في التصوير بسائر أنواعه الضوئي
والفيديو وغيرهما.
وغاية ما يمكن أن يقال في الوسائل العلمية أنها
أقيمت مقام الأربعة الشهداء، والمقرر في قواعد
الإثبات الشرعية أنَّ "ما أقيم مقام الغير لا يوجب
إثبات الزنا به" كما نص عليه الإمام الكرابيسي
الحنفي في كتابه الفروق [1/ 297]، وعليه فلا توجب
الوسائل العلمية الحديثة -كتحليل الحامض النووي
وغيره- إثبات جريمة الزنا.
وقاعدة الاستصحاب الكلية الشرعية تؤيد أيضًا عدم
اعتبار هذه الوسائل بما يندرج تحتها من قواعد:
كقاعدة: اليقين لا يزول بالشك؛ فاليقين عدم الزنا
وهو لا يزال بالشك، وقاعدة: الأصل بقاء ما كان على
ما كان عليه؛ فالأصل هو عدم الزنا وصحة الفراش،
وقاعدة: الأصل براءة الذمة؛ فالأصل براءة ذمة
المتهم بالزنا عنه حتى يثبت ببينة أو إقرار،
وقاعدة: الأصل العدم؛ فالأصل عدم حصول الزنا.
وهذا الذي قررناه هو ما ذهب إليه أيضًا مجمع الفقه
الإسلامي التابع لرابطة العالم الإسلامي في القرار
السابع (الدورة 16، لسنة 1422 هـ / 2002 م)، وجاء
في قراره ما نصه: لا مانع شرعًا من الاعتماد على
البصمة الوراثية في التحقيق الجنائي واعتبارها
وسيلة إثبات في الجرائم التي ليس فيها حَدٌّ شرعي
ولا قصاص؛ لخبر (ادرءوا الحدود بالشبهات).والله
سبحانه وتعالى أعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ :
جدید سائنسی ایجادات۔اور جدید مادی وسائل جو اس موجود ہیں ۔ان سے بھی جرم زنا کے ثبوت میں مدد لی جاسکتی ہے ۔
جیسے ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔کا لیباٹری ٹیسٹ ۔اور آڈیو ،ویڈیو ثبوت ۔
لیکن یہ وسائل و ذرائع محض قرائن اور معاون کی حیثیت سے کام آسکتے ہیں۔مستقل ثبوت نہیں ،
اصل ثبوت اور دلائل اس باب میں وہی ہونگے ، جو شریعت نے مقرر فرمائے ہیں
اور ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔ٹیسٹ جو جدید وسائل میں سب سے مضبوط وسیلہ ہے ،
وہ بھی براہ راست کسی کے گناہ گار ہونے کی دلیل اور ثبوت نہیں بن سکتا ۔کیونکہ اس میں بھی بشری خطا کا پوراحتمال پایا جاتا ہے ۔
کیونکہ اگر ۔۔ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔ سے کسی عورت کے رحم میں ملزم کا ۔مادہ ۔یا حمل ۔ثابت بھی ہوجائے ،
تو پھر بھی یہ شبہ اور تردد موجود رہے گا کہ ایسا واقعی اس صورت میں ہوا ہے جسے شریعت زنا مانتی ہے ۔،
کیونکہ ہو سکتا ہے۔۔مرد کی منی ،عورت کی فرج میں جانے کی کئی صورتیں ہیں
عمداً ۔۔خطاً ۔۔ارادی ۔۔غیر ارادی ۔
شرمگاہوں کے ملاپ کے بغیر بھی ایسا ممکن ہے جسے شریعت ۔۔زنا۔۔ نہیں مانتی۔
یعنی کئی ممکنہ صورتیں (جو (DNA) سے پتا نہیں چلتیں ۔تو اسطرح یقینی صورت حال سامنے نہیں آتی ۔شبہ یقینی ہے ۔
اور حدیث میں حکم ہے کہ (ادرءوا الحدود بالشبهات)
’’ شبہات کی صورت شرعی حدود کو نافذ نہ کرو ‘‘
 
Top