وعلیکم السلام سلفی بھائی
السلام علیکم اسحاق سلفی بھائی !
@اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
آپ کے سوال کا جواب (جسے فتوی نہ سمجھا جائے )
ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔ کیا ہے؟
جسطرح کمپیوٹر کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ کے پیچھے HTML کے کوڈز
Codes کارفرما ہوتے ہیں اسی طرح زمین پر چلتی پھرتی زندگی کے پیچھے DNA کے کوڈز ہوتے ہیں ۔ یعنی کسی جاندار کی ظاہری شکل و صورت اور رویہ ( phenotype) دراصل اسکے خلیات میں موجود ڈی این اے کے اندر پوشیدہ وراثی کوڈز (جینیٹک کوڈ)
سے بنتا ہے ، ڈی این اے میں لکھا گیا پوری زندگی کا یہ افسانہ طرز وراثی genotype ۔کہلاتا ہے ۔ طرزظاہری اور طرزوراثی کے فرق کی وضاحت ایسی ہے کہ جیسے ایک ٹی وی کی اسکرین پر نظر آنے والا ڈرامہ ہو جو مکمل طور پر اپنے لئے لکھے گئے اسکرپٹ پر چلتا ہے ، گویا ڈرامہ خود طرزظاہری کی مثال ہو اور اسکے لئے لکھا گیا
اسکرپٹ طرزوراثی کی مثال ہو۔
ہر انسان کا مکمل ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ ہاں کچھ نمبرز اپنے والدین سے مل جاتے ہیں۔ جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کس کی اولاد ہے۔ مغرب میں ڈی این اے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
امریکہ میں ہرمجرم کے ڈی این اے کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اور اگر ایک ہی مجرم دوبارہ جرم کرے اور کسی وجہ سے اس کے ڈی این کے شواہد مل جائیں۔جیسے اس کا بال یا تھوک یا خون وغیرہ تو اس کی چند دن میں ہی شناخت ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مصر کے مشہور مجلہ ’’مجلة دار الإفتاء المصرية ‘‘
میں ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں :
والأمور المستحدثة والوسائل العلمية المتقدمة التي
ظهرت ويمكن الاستعانة بها كأدلة إثبات في هذا
الباب؛ كتحليل البصمة الوراثية (DNA)، وكالتصوير
المرئي، والتسجيل الصوتي، لا تعدو أن تكون مجرد
قرائن لا ترقى لأنْ تستقل بالإثبات في هذا الباب
الذي ضيّقه الشرعُ، بل إن تحليل البصمة الوراثية
الذي هو أقوى هذه الوسائل يرى الخبراء القانونيون
أنه دليل غير مباشر على ارتكاب الجريمة، وأنه
قرينة تقبل إثبات العكس، وهذا صحيح؛ لأن هذه
التحاليل يعتريها الخطأ البشرى المحتمل. وحتى لو
دلَّت البصمة الوراثية في نفسها على نفى النسب أو
إثباته يقينًا، فإنَّ ذلك اليقين في نفسه يقع
الظنُّ في طريق إثباته، مما يجعل تقرير البصمة
الوراثية غير قادر على إثبات جريمة الزنا إثباتًا
يقينيًّا، مما يجعل إثبات جريمة الزنا بذلك موضع
شبهة وتردد، وغاية هذا التحليل أنْ يُثبِت أنَّ
الماء المستقر في رحم المرأة هو ماء الرجل
الفلاني، أو أنَّ هذا الحمل منه أو من غيره، وهذا
إن ثبت لم يلزم منه ثبوت الزنا بالتعريف الشرعي
السابق؛ لأنَّ مَنِيّ الرجل قد ينتقل إلى رحم
المرأة عمدًا أو خَطَأً أو عن قصد أو غير قصد؛ بأن
يَتَشَرَّبه فرجُ المرأة من طريق استعمال ملابس أو
أشياء ملوثة به مثلا، أو تكون المرأة قد لابست
المُحَرَّم ولكن دون حصول الإيلاج، وكل هذا لا
يُعَد زنا شرعًا. وقد ذكر العلماء شيئًا من ذلك،
ومنه ما جاء في تبصرة الحكام لابن فَرحون المالكي
[2/ 97، ط. دار الكتب العلمية]: "إن قالت:
وُطِئْتُ بين الفخذين ودخل الماء إلى فرجي, فكان
الحمل عن ذلك فينبغي أن يُدرأ الحَدُّ عنها؛ لأنَّ
ذلك ممكن، وقال صلى الله عليه وآله وسلم: (ادرؤوا
الحدود بالشبهات)" اهـ.
ولا يَعني هذا إنكارَ إفادةِ الوسائل العلمية
للعلم الظني أو اليقيني -كُلٌّ بحسبه-، بل إن
الشروط والصفات الواجب توافرها لإثبات حصول جريمة
الزنا وما يستتبعه من آثار لا تقف عند حد ثبوت
الجماع أو الحمل مثلا وحسب، بل لا بُدَّ من شروط
أخرى نحو: ألا يكون الوطء وطءَ شبهة مثلا، وأن
يكون قد حدث جماع حقيقي كامل، وليس مجرد استدخال
لمني الرجل في فرج المرأة بأي حيلة أو وسيلة.
والشرع إنما يراعي فيما يعتبره من أسباب الإثباتِ
العديدَ من الأبعاد النفسية والاجتماعية والأسرية،
ولهذا قد تتداخل الأسباب وقد تتساقط، ولا يعني ذلك
عدم كونها أسبابًا، ولا يعني تساقطُها إلا عدمَ
اعتبارها في موضع سقوطها، وكونَ غيرها مقدَّما
عليها بالاعتبار في هذه الحالة. وهنا قد نَصَّ
الشارع على أسباب مُحَدَّدة لإثبات جريمة الزنا،
وأسقط اعتبار غيرها مما اعتبره هو نفسه في أبواب
أخرى. فدَلَّ ذلك على أنَّ الشارع قاصدٌ لعدم
اعتبارها في هذا الباب بخصوصه، لا مطلقًا، فما
توسع فيه الشارع توسعنا فيه بإذنه لنا في التوسع،
وما ضَيَّقَه ضَيَّقناه ولم يكن لنا التوسع فيه،
وإلا كان أخذنا بما لم يقبله الشارع من باب
الافتئات عليه والعمل على خلاف قصده.
ومِن ثَم فإن عدم الاعتداد بهذه الوسائل في إثبات
جريمة الزنا إما لأنها لا يتحقق معها إثباتُ
أركانِ الجريمة كاملة بحسب ما يقوله الشرع، كما في
تحليل الحامض النووي، وإما لأنها لا تعتبر قرينةً
كافية، كما في التصوير بسائر أنواعه الضوئي
والفيديو وغيرهما.
وغاية ما يمكن أن يقال في الوسائل العلمية أنها
أقيمت مقام الأربعة الشهداء، والمقرر في قواعد
الإثبات الشرعية أنَّ "ما أقيم مقام الغير لا يوجب
إثبات الزنا به" كما نص عليه الإمام الكرابيسي
الحنفي في كتابه الفروق [1/ 297]، وعليه فلا توجب
الوسائل العلمية الحديثة -كتحليل الحامض النووي
وغيره- إثبات جريمة الزنا.
وقاعدة الاستصحاب الكلية الشرعية تؤيد أيضًا عدم
اعتبار هذه الوسائل بما يندرج تحتها من قواعد:
كقاعدة: اليقين لا يزول بالشك؛ فاليقين عدم الزنا
وهو لا يزال بالشك، وقاعدة: الأصل بقاء ما كان على
ما كان عليه؛ فالأصل هو عدم الزنا وصحة الفراش،
وقاعدة: الأصل براءة الذمة؛ فالأصل براءة ذمة
المتهم بالزنا عنه حتى يثبت ببينة أو إقرار،
وقاعدة: الأصل العدم؛ فالأصل عدم حصول الزنا.
وهذا الذي قررناه هو ما ذهب إليه أيضًا مجمع الفقه
الإسلامي التابع لرابطة العالم الإسلامي في القرار
السابع (الدورة 16، لسنة 1422 هـ / 2002 م)، وجاء
في قراره ما نصه: لا مانع شرعًا من الاعتماد على
البصمة الوراثية في التحقيق الجنائي واعتبارها
وسيلة إثبات في الجرائم التي ليس فيها حَدٌّ شرعي
ولا قصاص؛ لخبر (ادرءوا الحدود بالشبهات).والله
سبحانه وتعالى أعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ :
جدید سائنسی ایجادات۔اور جدید مادی وسائل جو اس موجود ہیں ۔ان سے بھی جرم زنا کے ثبوت میں مدد لی جاسکتی ہے ۔
جیسے ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔کا لیباٹری ٹیسٹ ۔اور آڈیو ،ویڈیو ثبوت ۔
لیکن یہ وسائل و ذرائع محض قرائن اور معاون کی حیثیت سے کام آسکتے ہیں۔مستقل ثبوت نہیں ،
اصل ثبوت اور دلائل اس باب میں وہی ہونگے ، جو شریعت نے مقرر فرمائے ہیں
اور ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔ٹیسٹ جو جدید وسائل میں سب سے مضبوط وسیلہ ہے ،
وہ بھی براہ راست کسی کے گناہ گار ہونے کی دلیل اور ثبوت نہیں بن سکتا ۔کیونکہ اس میں بھی بشری خطا کا پوراحتمال پایا جاتا ہے ۔
کیونکہ اگر ۔۔ڈی۔ این۔ اے۔ (DNA)۔ سے کسی عورت کے رحم میں ملزم کا ۔مادہ ۔یا حمل ۔ثابت بھی ہوجائے ،
تو پھر بھی یہ شبہ اور تردد موجود رہے گا کہ ایسا واقعی اس صورت میں ہوا ہے جسے شریعت زنا مانتی ہے ۔،
کیونکہ ہو سکتا ہے۔۔مرد کی منی ،عورت کی فرج میں جانے کی کئی صورتیں ہیں
عمداً ۔۔خطاً ۔۔ارادی ۔۔غیر ارادی ۔
شرمگاہوں کے ملاپ کے بغیر بھی ایسا ممکن ہے جسے شریعت ۔۔زنا۔۔ نہیں مانتی۔
یعنی کئی ممکنہ صورتیں (جو (DNA) سے پتا نہیں چلتیں ۔تو اسطرح یقینی صورت حال سامنے نہیں آتی ۔شبہ یقینی ہے ۔
اور حدیث میں حکم ہے کہ (ادرءوا الحدود بالشبهات)
’’ شبہات کی صورت شرعی حدود کو نافذ نہ کرو ‘‘