• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک علامتی کہانی

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
''رضیہ'' بمقابلہ ”ناہید“: ”وقارکے لئے“​
تحریر:حافظ یوسف سراج، روزنامہ نئی بات​

غلط ،قطعاًغلط ،ساری چڑھا ئی غلط،چڑھائی کیااترائی بھی غلط ،بات جب وقارکی ہو توسن رکھو! انھیں سب کہنااور تمھیں سب سنناہوگا ۔سا ت خون کئے اور سات سوخون معاف کئے جاسکتے ہیں۔جی ہاں! اسی وقار کی خاطر۔نہیں سمجھے ؟ سمجھ جائیں گے !آپ ناہید سے ملئے ۔ اجڑی مانگ اوردریدہ دامن،بھوکی نظریں اور پھیلے ہاتھ ،تن فقیر اورمن لیرولیر،للچائے لب اوران پہ ترانہ ۔۔ع
جب جھکا تو غیر کے آگے تن تیرا نہ من!​

اپنوں کی اس نے چاہت ٹھکرائی اورملک بھر سے پائی رسوائی ۔یہ تھی ناہید ۔وہی ناہید کہ کبھی جس کی ہرتان تھی دیپک ۔ تورضیہ نے ناہید سے پوچھا،جی ہاں!وہی رضیہ جوباربار غنڈوں میں جاپھنستی ہے، اب کے وہ تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ آئی تھی ،تاکہ کم از کم ناہید سے اتنا ہی پوچھ لے :کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟اورکہا،تمھیں اندازہ بھی ہے کہ تمھاری اس باغیانہ 'کُو'سے کیابیتی تھی اہلِ خانہ کے تن من اوربدن پہ ؟اور کیاحال ہوگیاتھاتمھاری اس ادائے دلداری سے آئینِ وضعداری کا؟کوبہ کو پھیل گئی تھی بات رسوائی کی !ناہید اس پریوں اچھلی ،جیسے وہ شخص اچھلتاہے ،جوبوتل ہلائے بغیردوا پی لے اورپھر بجائے بے ہوش ہونے کے بوتل کا لیبل پڑھ لے ''shake well before use'' اورپھرمداوے کے طورپر بوتل کی جگہ خود ہلنے لگے،جی ہاں وہ ایسے ہی ہلی تھی اورتب ناہید کے چہرے پر بشاشت خیز سکون اتر آیااور اس نے صرف تین الفظ کہے :''وقارکے لئے !'' ۔یہ ہوتا ہے وقار!نہیں آپ نہیں سمجھے ،آپ سمجھ بھی کیسے سکتے ہیں؟آپ کیاجانیں ناہید کیا تھی؟وہ الہڑمٹیار تھی ،سروقد اورشاخ سارتھی ،سندر تھی اورسراپابہارتھی۔مگر تب جب یہ بیزارِاقتدار میرامطلب بیزارِ وقارتھی ۔اب جب کہ ماشااللہ ! طلبگارِوقار ہوئی ہے توغنڈوں سے لمحہ بھر کے لئے عاریتاً چھوٹی رضیہ کے نزدیک بے وقار ہی نہیں اصل میں بے کار ہوئی ہے !!بے چاری رضیہ !جب سوچ ایسی ہو تو غنڈوں میں نہ پھنسے گی تو کیابتی چوک کے رش میں پھنسے گی؟سچ پوچھئے توکبھی کبھی تواس بے وقار کردینے والے وقار سے باقاعدہ حسد ہونے لگتاہے اور کلف لگے کپڑے پہنے بے وجہ اور بے میڈل ہی باوقارہونے کوجی چاہنے لگتاہے ۔کیاقسمت اور محبوبیت اور کیا مطلوبیت پائی ہے اس نگوڑے وقار نے بھی کتنے لوگ بے وقار ہوئے اسی ایک وقارکی خاطر!ساری دنیا اسی کی دیوانی۔امریکی مخلو ق تک اسی پہ مرمٹنے والی ۔وقار مجروح نہ ہونے دیں گے !وقارکاخیال رکھاجائے !وقار پہ آنچ نہ آنے دیں گے!جانیں لٹائیں گے ،گردنیں کٹائیں گے ،قوم جائے بھاڑمیں،ہم تو اپناوقار بچائیں گے!

ایک دور تھاجب یہ وقار پیدانہ ہواتھا۔کتناسکون تھاتب !تب اس کے دو بڑے بھائی ہوتے تھے ۔عدل او رخوفِ خدا! یہ اتنے خوبرو ،جوان اور طاقتور ہوتے تھے کہ کوئی وقار کانام تک نہ لیتاتھا۔اس وقت خواہ کوئی کچھ بھی ہوتااور اسے کوئی بھی معاملہ درپیش ہوتا،ان دونوں بھائیوں میں سے جو بھی ملتااسے گلے لگالیتا۔پھریہ بے وقار کر دیتاوقار پیداہوااور اس کی بڑی بہن شرم تواسی دن مر گئی تھی ، جس دن اس نے زمانے کایہ چلن دیکھاکہ دونوں بڑے بھائیوں کو کوئی پوچھتابھی نہ تھا اور سبھی کچھ اسی وقارکی خاطر ہونے لگاتھا۔اچھے اچھوں پہ کیسے کیسے برے دن آتے ہیں!اور ایسے ہی دنوں میں 'آتے ہیں غیب سے مضامیں خیال میں !'شرم 'اٹھ گئی تو لوگ تو بالکل ہی کھل کھیلنے لگے ،آخراس خاندانِ تقویٰ کے بڑے نے ایسے تونہیں کہہ دیاتھاکہ شرم نہ رہے گی توکوئی رکاوٹ بھی نہ رہے گی ،تب جو چاہو سو کرو گے ۔انھی دنوں کا ذکر ہے جب سب کچھ وقارکے لئے نہ ہوتاتھا۔ایک عرب کمانڈرتھے ،کیاعرب وعجم ،کیارستم و سہراب اورکیانجاشی وہرقل سبھی ان کاپانی بھرتے تھے ۔کوئی نہ تھاجو ان کالوہانہ مانتاہواورکہیں نہ تھاکہ ان کاسکہ نہ چلتاہو۔لوگ تواس قدر ان کی شخصیت سے مرعوب ہوئے کہ انھوں نے انھی کانام اپناوقاررکھ دیا۔پھر مگر ایک دن اس کبھی اورکہیں نہ زیر ہونے والی اور سب کاوقار سمجھی جانے والی شخصیت پہ کڑا وقت آیا۔ بھری مجلس میں ان کے سر سے پگڑی اتارلی گئی ۔مطلب تھااس عمل کاکہ آپ سپہ سالاری سے معزول ہوئے ! یہ روئے نہ سٹپٹائے ،چیخے نہ بلبلائے ۔نہ کوئی بریگیڈآیا اورنہ کوئی 'کو' ہوا۔ تاریخ نے کبھی اس سے بڑے سپہ سالار کویوں بآسانی اور بہ رضاورغبت معزول ہوتے نہ دیکھا تھا اور اب کبھی نہ دیکھے گی ۔یہ کمبخت بے وقار کر دیتا ''وقار'' وجو پیدا ہو گیا ہے ! شرم زندہ ہوتی توبتاتی کہ وقار نہ لفظوں سے آتاہے اورنہ مانگے سے ملتاہے ۔یہ معاہدوں پہ بے لوث عمل کرنے والوں کامقدر ہوتاہے اور بس!ہر آزادانسان کی آزادی بہت سے معاہدوں سے بندھی ہوتی ہے۔ صرف نیچ اور غلام ہی خواہش پرستی کی' آزادی' میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔جسے آزادی اور وقار عزیز ہووہ لکھے ہوئے معاہدے تو کیامنہ زبانی کہے لفظوں سے بھی نہیں پھرتا۔ سقراط نے ریاست سے معاہدے کی خاطر گھونٹ گھونٹ زہر پیالہ پی لیاتھا۔ہمیشہ اس کے سامنے کسی دوسری ریاست میں جابسنے کاآپشن موجودرہاتھامگر اس نے کہا تھا، جب میں نے ریاست کے قانون کومان لیا تو ہر صورت مجھے اسی سے بندھے رہنااور اسے ہی بالاتر رکھنا ہے۔ دیوان سنگھ مفتون اخبار 'ریاست ' کے مدیر تھے ۔'ریاست میں' ریاستوں کے راجاؤں کوبے نقاب کرناان کامشن تھا اور مقدمات اس مشن کا لازمی صلہ !ریاست بھوپال کے مقدمے میں مفتون نے اس دورکے مہنگے اورمصروف ترین وکیل سترسالہ مسٹر پٹ مین کی خدمات حاصل کیں۔

چند منٹ مسل پڑھنے پہ لگتے،دوگھنٹے کی ایک پیشی کا یہ کام ہوتا،سو پانچ سو روپے معاوضہ طے ہوگیا ۔مسل پہنچی تو ہزار صفحات سے زیادہ پرپھیلی ہوئی۔ پورے سات روزتو اسی کا مطالعہ کھاگیا ۔مضمحل وکیل بوکھلا اٹھا،کہاپہلے دیکھ لیتاتو پانچ ہزار سے کم پرقطعاً بات نہ کرتا۔ظاہرہے ،وکیل او رڈاکٹر کی ناراضی سے اپنانقصان !ناچارمفتون نے پوچھااب کم ازکم کیالوگے ؟اس نے کہا،ایک لاکھ بھی دو تو ہرگز نہیں ،بات زبان اورکریکٹرکی ہے ،جو کہااس سے ایک پیسہ بھی زائد نہیں ۔ہمارے ہاں مگرلاقانونیت کے فروغ کے لئے کوشاں ' فروغ 'ہیں ۔شخصیات اور اداروں کے وزن کے مطابق تجزیہ کرنے والے تجزیہ کارہیں اورباقی جو ہیں وہ وقار والے ہیں ۔رہی یہ رضیہ !اس ففے کٹنی کے مکرسے بھی اللہ بچائے !اسے ناہیدکادامن تو تارتار نظر آتا ہے مگر اپنے دامن کے دھبے کون دیکھے ؟آمر درست کہتے ہیں ۔کیاہے آئین؟کاغذوں کا ایک پلندہ !کہ جب عمل کا تقدس اسے حاصل نہ ہو!کیامحض قانون کی بیساکھیوں سے بھی کبھی کوئی حکمراں ہوا؟جب تک کہ اخلاقی حمایت ان بیساکھیوں کی سپورٹ میں مہیانہ ہو؟اور یہاں توکوئی قانون بھی نہیں !اوروں کے لئے توہے مگراپنے لئے کوئی نہیں ۔سیاستدانو!جب تک پارٹیوں کی 'منجی تھلے ڈانگ پھیری نہیں جاتی 'سر پر سے ڈیڑھ فٹ کی چھڑی ہٹ نہ سکے گی ۔کیابھول گئے پچھلی بار جب چھڑی چلی تھی تو مٹھائیاں بٹی تھیں۔اٹھارہ کروڑ عوام سے کئے گئے قانونی معاہدے کاآپ کوکتنااحترام ہے؟ ضمیر اگردستیاب نہیں تو حوالے دینابھی بے کار ہے ۔عمل سے زندگی بنتی ہے ۔یہ اقبالؒ نے کہاتھا۔ہمیں مگر 'ع'عقل کے لئے دستیاب نہیں ،عمل کے لئے کہاں سے ہوگی؟
وہ مفلسی ہے کہ تیمم کو گھر میں خاک نہیں​

چنانچہ ہمار ی زندگی 'عمل 'کے بجائے 'حمل ' سے بنتی ہے ۔حمل یعنی بوجھ !تو جس کابوجھ زیادہ ،اسی کاوقار زیادہ!آؤ لڑیں ،سب کے نہیں ،صرف اپنے اپنے وقارکے لئے !کبھی وقت ملے تو خود وقار سے بھی پوچھناکہ وہ ہے کیااور ملتاکسے ہے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اگریہ علامتی یا ملامتی کہانی کسی کی سمجھ آجائے تو ہمیں ضرور سمجھائے کہ ہمارے ہم نام کالم نگار آخر کہنا کیا چاہتے ہیں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اگریہ علامتی یا ملامتی کہانی کسی کی سمجھ آجائے تو ہمیں ضرور سمجھائے کہ ہمارے ہم نام کالم نگار آخر کہنا کیا چاہتے ہیں
ہم بھی منتظر ہیں۔
ویسے آپ کو سمجھ نہ آئی توکم ہی چانس ہے کہ اس کا سر پیر کسی کو ملے۔۔!
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
اگر میر صاحب سراج صاحب کو نھیں سمجھ سکے

تو عامی کسی اور امام کی طرف دیکھنا شروع کر

دیں گے۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
وقار کی جنگ۔۔۔
کہیں وقار شخصیت ہے تو کہیں صفت، کہیں تلاش ہے تو کہیں ناپید۔۔۔اور اگر ہے تو بے وقار!!!
بس مضمون نگار اسے ہی گھماتے رہے ہیں۔۔۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شوق سے پڑھنا شروع کی تھی بے زاری سے چھوڑ دی کیونکہ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا الفاظ میں کچھ ایسے الجھایا ہے کہ بس ہوگئی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وقار تو کچھ کچھ سمجھ میں آیا ہے ۔ لیکن ’’ رضیہ ‘‘ اور ’’ ناہید ‘‘ یہ کیا بلا ہیں کوئی پتہ نہیں چلا ۔
مجموعی طور موضوع اچھا تھا جو کالم نگار کہنا چاہتے ہیں وہ بھی یقینا اگر میرے جیسے کو سمجھ آگیا ہے تو دیگر لوگوں کو بھی سمجھ آہی گیا ہوگا کہ
’’ہم وقار بحال رکھنے کے نام پر عدل و انصاف اور دیگر تمام اچھائیوں کا قلع قمع کردیتے ہیں نتیجتا وقار بھی ہم سے کوسوں دور نظر آتا ہے ۔ چاہیے یہ کہ اچھے کاموں کو اپنائیں اور برے کاموں کو ترک کریں ، وقار خود بخود آ جائے گا ‘‘ ۔
ایک مسئلہ باقی رہ جاتا ہے کہ ’’ ادب ‘‘ شاید اس چیز کا نام ہے کہ عام آدمی جس بات کو بہت لمبے جملے میں صحیح طریقہ سے نہیں سمجھا سکتا ایک ادیب دو لفظوں میں اس کو بہترین انداز میں دوسرے تک پہنچادیتا ہے ۔
اس کالم میں یہ دونوں باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس دونوں خامیاں ہیں : ایک تو بے جا طوالت دوسرا بات کو سمجھانے کی بجائے الجھ گئی ہے ۔ واللہ اعلم ۔

معذرت کے ساتھ ادب کیا ہے کیا نہیں ؟ اس پر لائق اعتناء رائے دینے کا حق ادیبوں کے لیے محفوظ ہے ۔ اگر آپ نے کسی ’’ بے ادب ‘‘ کی بات پر توجہ دی تو خطرہ ہےکہ ’’ ادب ‘‘ اور ’’ ادباء ‘‘ کا ’’وقار ‘‘ مجروح کرنے کے جرم میں مستحق سزا ٹھہریں گے۔ مسکراہٹ
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
غالباً سپاہ پر تنقید ہے؛صحابہ ؓکی نہیں ،ارض پاک کی۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ہم بھی منتظر ہیں۔
ویسے آپ کو سمجھ نہ آئی توکم ہی چانس ہے کہ اس کا سر پیر کسی کو ملے۔۔!
محترم بھائی شاید رضیہ سے مراد جمہوریت اور ناہید سے مراد آمریت اور عرب کمانڈر سے مراد تھوڑی سی مشکوک ہے شاید جہاد مراد ہے یا سعودی عرب- باقی ناہید کے بڑے دو بھائیوں (عدل اور خوف خدا) سے مراد بھی پرانے پاکستان کی آج کے پاکستان سے موازنہ کریں تو شاید پرانے دور میں وہ دو بھائی نظر آ جائیں ورنہ صاحب مضمون کا حسن ظن ہی ہے اور وقار سے مراد تو آپ سب کو پتا ہی ہو گا کہ جس کی وجہ سے ہم نے عرب مجاہد کی پگڑی اتاری اور اپنے کے پیٹ میں چھرا گھونپا

اب کٹ پیس دیکھتے ہیں
''رضیہ'' بمقابلہ ”ناہید“: ”وقارکے لئے“​
جمہوریت بمقابلہ آمریت

بات جب وقارکی ہو توسن رکھو! انھیں سب کہنااور تمھیں سب سنناہوگا ۔سا ت خون کئے اور سات سوخون معاف کئے جاسکتے ہیں۔جی ہاں! اسی وقار کی خاطر۔نہیں سمجھے ؟ سمجھ جائیں گے !آپ ناہید سے ملئے ۔ اجڑی مانگ اوردریدہ دامن،بھوکی نظریں اور پھیلے ہاتھ ،تن فقیر اورمن لیرولیر،للچائے لب اوران پہ ترانہ ۔۔ع
جب جھکا تو غیر کے آگے تن تیرا نہ من!
اپنوں کی اس نے چاہت ٹھکرائی اورملک بھر سے پائی رسوائی ۔یہ تھی ناہید ۔وہی ناہید کہ کبھی جس کی ہرتان تھی دیپک
ناہید یعنی سپاہ

تورضیہ نے ناہید سے پوچھا،جی ہاں!وہی رضیہ جوباربار غنڈوں میں جاپھنستی ہے، اب کے وہ تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ آئی تھی ،تاکہ کم از کم ناہید سے اتنا ہی پوچھ لے :کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟اورکہا،تمھیں اندازہ بھی ہے کہ تمھاری اس باغیانہ 'کُو'سے کیابیتی تھی اہلِ خانہ کے تن من اوربدن پہ ؟اور کیاحال ہوگیاتھاتمھاری اس ادائے دلداری سے آئینِ وضعداری کا؟کوبہ کو پھیل گئی تھی بات رسوائی کی
رضیہ یعنی جمہوریت جو اب عارضی طور پر غنڈوں سے چھوٹ کر آئی ہے ناہید اس سے اسکی اداؤں کے آفٹر افیکٹس کا پوچھ رہی ہے

تب ناہید کے چہرے پر بشاشت خیز سکون اتر آیااور اس نے صرف تین الفظ کہے :''وقارکے لئے !'' ۔یہ ہوتا ہے وقار!نہیں آپ نہیں سمجھے ،آپ سمجھ بھی کیسے سکتے ہیں؟آپ کیاجانیں ناہید کیا تھی؟وہ الہڑمٹیار تھی ،سروقد اورشاخ سارتھی ،سندر تھی اورسراپابہارتھی۔مگر تب جب یہ بیزارِاقتدار میرامطلب بیزارِ وقارتھی ۔اب جب کہ ماشااللہ ! طلبگارِوقار ہوئی ہے توغنڈوں سے لمحہ بھر کے لئے عاریتاً چھوٹی رضیہ کے نزدیک بے وقار ہی نہیں اصل میں بے کار ہوئی ہے
یعنی یہ سپاہ پہلے الہڑ مٹیار تھی مگر جب طلبگار اقتدار ہوئی تو رضیہ (جمہوریت والوں) کی نظر میں بے وقار ہو گئی

سچ پوچھئے توکبھی کبھی تواس بے وقار کردینے والے وقار سے باقاعدہ حسد ہونے لگتاہے اور کلف لگے کپڑے پہنے بے وجہ اور بے میڈل ہی باوقارہونے کوجی چاہنے لگتاہے ۔
سمجھ گئے ہوں گے اسی وقار کو بنیاد بنا کر سب کچھ کیا گیا

ایک دور تھاجب یہ وقار پیدانہ ہواتھا۔کتناسکون تھاتب !تب اس کے دو بڑے بھائی ہوتے تھے ۔عدل او رخوفِ خدا! یہ اتنے خوبرو ،جوان اور طاقتور ہوتے تھے کہ کوئی وقار کانام تک نہ لیتاتھا۔اس وقت خواہ کوئی کچھ بھی ہوتااور اسے کوئی بھی معاملہ درپیش ہوتا،ان دونوں بھائیوں میں سے جو بھی ملتااسے گلے لگالیتا۔
پھریہ بے وقار کر دیتاوقار پیداہوااور اس کی بڑی بہن شرم تواسی دن مر گئی تھی ، جس دن اس نے زمانے کایہ چلن دیکھاکہ دونوں بڑے بھائیوں کو کوئی پوچھتابھی نہ تھا اور سبھی کچھ اسی وقارکی خاطر ہونے لگاتھا۔
عدل اور خوف خدا آج کے دور کے مقابلے میں واقعی تھا مگر اب تو بڑی بہن شرم انکی مر گئی ہے جو ان دونوں بھائیوں کا خیال رکھتی تھی کیونکہ وہ انکی سگی بہن تھی باقی تو سوتیلے بہن بھائی ہیں چاہے وقار ہو چاہے ناہید ہو چاہے رضیہ ہو

انھی دنوں کا ذکر ہے جب سب کچھ وقارکے لئے نہ ہوتاتھا۔ایک عرب کمانڈرتھے ،کیاعرب وعجم ،کیارستم و سہراب اورکیانجاشی وہرقل سبھی ان کاپانی بھرتے تھے ۔کوئی نہ تھاجو ان کالوہانہ مانتاہواورکہیں نہ تھاکہ ان کاسکہ نہ چلتاہو۔لوگ تواس قدر ان کی شخصیت سے مرعوب ہوئے کہ انھوں نے انھی کانام اپناوقاررکھ دیا۔پھر مگر ایک دن اس کبھی اورکہیں نہ زیر ہونے والی اور سب کاوقار سمجھی جانے والی شخصیت پہ کڑا وقت آیا۔
بھری مجلس میں ان کے سر سے پگڑی اتارلی گئی ۔مطلب تھااس عمل کاکہ آپ سپہ سالاری سے معزول ہوئے !
اشارات واضح نہیں شاید جہاد مراد ہو

شرم زندہ ہوتی توبتاتی کہ وقار نہ لفظوں سے آتاہے اورنہ مانگے سے ملتاہے ۔یہ معاہدوں پہ بے لوث عمل کرنے والوں کامقدر ہوتاہے اور بس! ہر آزادانسان کی آزادی بہت سے معاہدوں سے بندھی ہوتی ہے۔ صرف نیچ اور غلام ہی خواہش پرستی کی' آزادی' میں مبتلا ہو سکتے ہیں
۔جسے آزادی اور وقار عزیز ہووہ لکھے ہوئے معاہدے تو کیامنہ زبانی کہے لفظوں سے بھی نہیں پھرتا۔
سگی بہن فوت ہو گئی تھی

ہمارے ہاں مگرلاقانونیت کے فروغ کے لئے کوشاں ' فروغ 'ہیں ۔شخصیات اور اداروں کے وزن کے مطابق تجزیہ کرنے والے تجزیہ کارہیں اورباقی جو ہیں وہ وقار والے ہیں ۔رہی یہ رضیہ !اس ففے کٹنی کے مکرسے بھی اللہ بچائے !اسے ناہیدکادامن تو تارتار نظر آتا ہے مگر اپنے دامن کے دھبے کون دیکھے ؟
رضیہ یعنی جمہوریت خود بھی حاجن نہیں جو ناہید (آمریت) پر باتیں کرتی ہے بلکہ اس میں بھی بہت سی خرابیاں موجود ہیں

آمر درست کہتے ہیں ۔کیاہے آئین؟کاغذوں کا ایک پلندہ !کہ جب عمل کا تقدس اسے حاصل نہ ہو!کیامحض قانون کی بیساکھیوں سے بھی کبھی کوئی حکمراں ہوا؟جب تک کہ اخلاقی حمایت ان بیساکھیوں کی سپورٹ میں مہیانہ ہو؟اور یہاں توکوئی قانون بھی نہیں !اوروں کے لئے توہے مگراپنے لئے کوئی نہیں ۔سیاستدانو!جب تک پارٹیوں کی 'منجی تھلے ڈانگ پھیری نہیں جاتی 'سر پر سے ڈیڑھ فٹ کی چھڑی ہٹ نہ سکے گی ۔
یعنی جب تک حکمرانوں کو اخلاقی سپورٹ نہ ہو گی تو وہ بھی آمریت کی طرح ڈنڈے کے حکمران ہی کہلائیں گے

چنانچہ ہمار ی زندگی 'عمل 'کے بجائے 'حمل ' سے بنتی ہے ۔حمل یعنی بوجھ !تو جس کابوجھ زیادہ ،اسی کاوقار زیادہ!آؤ لڑیں ،سب کے نہیں ،صرف اپنے اپنے وقارکے لئے !کبھی وقت ملے تو خود وقار سے بھی پوچھناکہ وہ ہے کیااور ملتاکسے ہے؟
جی اب سارے بھائی اس وقار پر اپنی اپنی رائے دیں جزاکم اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
عرب کمانڈر سے مراد تھوڑی سی مشکوک ہے شاید جہاد مراد ہے یا سعودی عرب-
----------------
اشارات واضح نہیں شاید جہاد مراد ہو
پہلے غور سے نہ دیکھنے پر اشارات نہ سمجھ سکا مگر میرے خیال میں عرب کمانڈر کے بارے میں ایسے اشارات ملتے ہیں کہ اس سے مراد اسلام ہے
نیچے اقتباس دیکھیں
ایک عرب کمانڈرتھے ،کیاعرب وعجم ،کیارستم و سہراب اورکیانجاشی وہرقل سبھی ان کاپانی بھرتے تھے ۔کوئی نہ تھاجو ان کالوہانہ مانتاہواورکہیں نہ تھاکہ ان کاسکہ نہ چلتاہو۔لوگ تواس قدر ان کی شخصیت سے مرعوب ہوئے کہ انھوں نے انھی کانام اپناوقاررکھ دیا۔پھر مگر ایک دن اس کبھی اورکہیں نہ زیر ہونے والی اور سب کاوقار سمجھی جانے والی شخصیت پہ کڑا وقت آیا۔ بھری مجلس میں ان کے سر سے پگڑی اتارلی گئی ۔مطلب تھااس عمل کاکہ آپ سپہ سالاری سے معزول ہوئے ! یہ روئے نہ سٹپٹائے ،چیخے نہ بلبلائے ۔نہ کوئی بریگیڈآیا اورنہ کوئی 'کو' ہوا۔ تاریخ نے کبھی اس سے بڑے سپہ سالار کویوں بآسانی اور بہ رضاورغبت معزول ہوتے نہ دیکھا تھا اور اب کبھی نہ دیکھے گی ۔یہ کمبخت بے وقار کر دیتا ''وقار'' وجو پیدا ہو گیا ہے !
جیسا کہ اوپر ہرقل رستم وغیرہ کا ذکر ملتا ہے جن کے سامنے اس عرب کمانڈر نے سکہ منوایا تھا تو وہ اسلام ہی تھا جو عرب سے شروع ہوا پس اسکو عرب کمانڈر کہا گیا ہے
یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لوگوں نے اسی اسلام کا نام ہی وقار رکھ لیا تھا کہ اسلام ہے تو وقار ہے ورنہ بے وقار- پس اوپر جو میں نے وقار پر سب بھائیوں سے رائے مانگی تھی تو میری رائے یہی ہے کہ اصل ہمارا وقار اسلام ہے اور کچھ نہیں پس سب سے پہلے اسلام نہ کہ کچھ اور
 
Top