- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
''رضیہ'' بمقابلہ ”ناہید“: ”وقارکے لئے“
تحریر:حافظ یوسف سراج، روزنامہ نئی بات
غلط ،قطعاًغلط ،ساری چڑھا ئی غلط،چڑھائی کیااترائی بھی غلط ،بات جب وقارکی ہو توسن رکھو! انھیں سب کہنااور تمھیں سب سنناہوگا ۔سا ت خون کئے اور سات سوخون معاف کئے جاسکتے ہیں۔جی ہاں! اسی وقار کی خاطر۔نہیں سمجھے ؟ سمجھ جائیں گے !آپ ناہید سے ملئے ۔ اجڑی مانگ اوردریدہ دامن،بھوکی نظریں اور پھیلے ہاتھ ،تن فقیر اورمن لیرولیر،للچائے لب اوران پہ ترانہ ۔۔ع
جب جھکا تو غیر کے آگے تن تیرا نہ من!
اپنوں کی اس نے چاہت ٹھکرائی اورملک بھر سے پائی رسوائی ۔یہ تھی ناہید ۔وہی ناہید کہ کبھی جس کی ہرتان تھی دیپک ۔ تورضیہ نے ناہید سے پوچھا،جی ہاں!وہی رضیہ جوباربار غنڈوں میں جاپھنستی ہے، اب کے وہ تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ آئی تھی ،تاکہ کم از کم ناہید سے اتنا ہی پوچھ لے :کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟اورکہا،تمھیں اندازہ بھی ہے کہ تمھاری اس باغیانہ 'کُو'سے کیابیتی تھی اہلِ خانہ کے تن من اوربدن پہ ؟اور کیاحال ہوگیاتھاتمھاری اس ادائے دلداری سے آئینِ وضعداری کا؟کوبہ کو پھیل گئی تھی بات رسوائی کی !ناہید اس پریوں اچھلی ،جیسے وہ شخص اچھلتاہے ،جوبوتل ہلائے بغیردوا پی لے اورپھر بجائے بے ہوش ہونے کے بوتل کا لیبل پڑھ لے ''shake well before use'' اورپھرمداوے کے طورپر بوتل کی جگہ خود ہلنے لگے،جی ہاں وہ ایسے ہی ہلی تھی اورتب ناہید کے چہرے پر بشاشت خیز سکون اتر آیااور اس نے صرف تین الفظ کہے :''وقارکے لئے !'' ۔یہ ہوتا ہے وقار!نہیں آپ نہیں سمجھے ،آپ سمجھ بھی کیسے سکتے ہیں؟آپ کیاجانیں ناہید کیا تھی؟وہ الہڑمٹیار تھی ،سروقد اورشاخ سارتھی ،سندر تھی اورسراپابہارتھی۔مگر تب جب یہ بیزارِاقتدار میرامطلب بیزارِ وقارتھی ۔اب جب کہ ماشااللہ ! طلبگارِوقار ہوئی ہے توغنڈوں سے لمحہ بھر کے لئے عاریتاً چھوٹی رضیہ کے نزدیک بے وقار ہی نہیں اصل میں بے کار ہوئی ہے !!بے چاری رضیہ !جب سوچ ایسی ہو تو غنڈوں میں نہ پھنسے گی تو کیابتی چوک کے رش میں پھنسے گی؟سچ پوچھئے توکبھی کبھی تواس بے وقار کردینے والے وقار سے باقاعدہ حسد ہونے لگتاہے اور کلف لگے کپڑے پہنے بے وجہ اور بے میڈل ہی باوقارہونے کوجی چاہنے لگتاہے ۔کیاقسمت اور محبوبیت اور کیا مطلوبیت پائی ہے اس نگوڑے وقار نے بھی کتنے لوگ بے وقار ہوئے اسی ایک وقارکی خاطر!ساری دنیا اسی کی دیوانی۔امریکی مخلو ق تک اسی پہ مرمٹنے والی ۔وقار مجروح نہ ہونے دیں گے !وقارکاخیال رکھاجائے !وقار پہ آنچ نہ آنے دیں گے!جانیں لٹائیں گے ،گردنیں کٹائیں گے ،قوم جائے بھاڑمیں،ہم تو اپناوقار بچائیں گے!
ایک دور تھاجب یہ وقار پیدانہ ہواتھا۔کتناسکون تھاتب !تب اس کے دو بڑے بھائی ہوتے تھے ۔عدل او رخوفِ خدا! یہ اتنے خوبرو ،جوان اور طاقتور ہوتے تھے کہ کوئی وقار کانام تک نہ لیتاتھا۔اس وقت خواہ کوئی کچھ بھی ہوتااور اسے کوئی بھی معاملہ درپیش ہوتا،ان دونوں بھائیوں میں سے جو بھی ملتااسے گلے لگالیتا۔پھریہ بے وقار کر دیتاوقار پیداہوااور اس کی بڑی بہن شرم تواسی دن مر گئی تھی ، جس دن اس نے زمانے کایہ چلن دیکھاکہ دونوں بڑے بھائیوں کو کوئی پوچھتابھی نہ تھا اور سبھی کچھ اسی وقارکی خاطر ہونے لگاتھا۔اچھے اچھوں پہ کیسے کیسے برے دن آتے ہیں!اور ایسے ہی دنوں میں 'آتے ہیں غیب سے مضامیں خیال میں !'شرم 'اٹھ گئی تو لوگ تو بالکل ہی کھل کھیلنے لگے ،آخراس خاندانِ تقویٰ کے بڑے نے ایسے تونہیں کہہ دیاتھاکہ شرم نہ رہے گی توکوئی رکاوٹ بھی نہ رہے گی ،تب جو چاہو سو کرو گے ۔انھی دنوں کا ذکر ہے جب سب کچھ وقارکے لئے نہ ہوتاتھا۔ایک عرب کمانڈرتھے ،کیاعرب وعجم ،کیارستم و سہراب اورکیانجاشی وہرقل سبھی ان کاپانی بھرتے تھے ۔کوئی نہ تھاجو ان کالوہانہ مانتاہواورکہیں نہ تھاکہ ان کاسکہ نہ چلتاہو۔لوگ تواس قدر ان کی شخصیت سے مرعوب ہوئے کہ انھوں نے انھی کانام اپناوقاررکھ دیا۔پھر مگر ایک دن اس کبھی اورکہیں نہ زیر ہونے والی اور سب کاوقار سمجھی جانے والی شخصیت پہ کڑا وقت آیا۔ بھری مجلس میں ان کے سر سے پگڑی اتارلی گئی ۔مطلب تھااس عمل کاکہ آپ سپہ سالاری سے معزول ہوئے ! یہ روئے نہ سٹپٹائے ،چیخے نہ بلبلائے ۔نہ کوئی بریگیڈآیا اورنہ کوئی 'کو' ہوا۔ تاریخ نے کبھی اس سے بڑے سپہ سالار کویوں بآسانی اور بہ رضاورغبت معزول ہوتے نہ دیکھا تھا اور اب کبھی نہ دیکھے گی ۔یہ کمبخت بے وقار کر دیتا ''وقار'' وجو پیدا ہو گیا ہے ! شرم زندہ ہوتی توبتاتی کہ وقار نہ لفظوں سے آتاہے اورنہ مانگے سے ملتاہے ۔یہ معاہدوں پہ بے لوث عمل کرنے والوں کامقدر ہوتاہے اور بس!ہر آزادانسان کی آزادی بہت سے معاہدوں سے بندھی ہوتی ہے۔ صرف نیچ اور غلام ہی خواہش پرستی کی' آزادی' میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔جسے آزادی اور وقار عزیز ہووہ لکھے ہوئے معاہدے تو کیامنہ زبانی کہے لفظوں سے بھی نہیں پھرتا۔ سقراط نے ریاست سے معاہدے کی خاطر گھونٹ گھونٹ زہر پیالہ پی لیاتھا۔ہمیشہ اس کے سامنے کسی دوسری ریاست میں جابسنے کاآپشن موجودرہاتھامگر اس نے کہا تھا، جب میں نے ریاست کے قانون کومان لیا تو ہر صورت مجھے اسی سے بندھے رہنااور اسے ہی بالاتر رکھنا ہے۔ دیوان سنگھ مفتون اخبار 'ریاست ' کے مدیر تھے ۔'ریاست میں' ریاستوں کے راجاؤں کوبے نقاب کرناان کامشن تھا اور مقدمات اس مشن کا لازمی صلہ !ریاست بھوپال کے مقدمے میں مفتون نے اس دورکے مہنگے اورمصروف ترین وکیل سترسالہ مسٹر پٹ مین کی خدمات حاصل کیں۔
چند منٹ مسل پڑھنے پہ لگتے،دوگھنٹے کی ایک پیشی کا یہ کام ہوتا،سو پانچ سو روپے معاوضہ طے ہوگیا ۔مسل پہنچی تو ہزار صفحات سے زیادہ پرپھیلی ہوئی۔ پورے سات روزتو اسی کا مطالعہ کھاگیا ۔مضمحل وکیل بوکھلا اٹھا،کہاپہلے دیکھ لیتاتو پانچ ہزار سے کم پرقطعاً بات نہ کرتا۔ظاہرہے ،وکیل او رڈاکٹر کی ناراضی سے اپنانقصان !ناچارمفتون نے پوچھااب کم ازکم کیالوگے ؟اس نے کہا،ایک لاکھ بھی دو تو ہرگز نہیں ،بات زبان اورکریکٹرکی ہے ،جو کہااس سے ایک پیسہ بھی زائد نہیں ۔ہمارے ہاں مگرلاقانونیت کے فروغ کے لئے کوشاں ' فروغ 'ہیں ۔شخصیات اور اداروں کے وزن کے مطابق تجزیہ کرنے والے تجزیہ کارہیں اورباقی جو ہیں وہ وقار والے ہیں ۔رہی یہ رضیہ !اس ففے کٹنی کے مکرسے بھی اللہ بچائے !اسے ناہیدکادامن تو تارتار نظر آتا ہے مگر اپنے دامن کے دھبے کون دیکھے ؟آمر درست کہتے ہیں ۔کیاہے آئین؟کاغذوں کا ایک پلندہ !کہ جب عمل کا تقدس اسے حاصل نہ ہو!کیامحض قانون کی بیساکھیوں سے بھی کبھی کوئی حکمراں ہوا؟جب تک کہ اخلاقی حمایت ان بیساکھیوں کی سپورٹ میں مہیانہ ہو؟اور یہاں توکوئی قانون بھی نہیں !اوروں کے لئے توہے مگراپنے لئے کوئی نہیں ۔سیاستدانو!جب تک پارٹیوں کی 'منجی تھلے ڈانگ پھیری نہیں جاتی 'سر پر سے ڈیڑھ فٹ کی چھڑی ہٹ نہ سکے گی ۔کیابھول گئے پچھلی بار جب چھڑی چلی تھی تو مٹھائیاں بٹی تھیں۔اٹھارہ کروڑ عوام سے کئے گئے قانونی معاہدے کاآپ کوکتنااحترام ہے؟ ضمیر اگردستیاب نہیں تو حوالے دینابھی بے کار ہے ۔عمل سے زندگی بنتی ہے ۔یہ اقبالؒ نے کہاتھا۔ہمیں مگر 'ع'عقل کے لئے دستیاب نہیں ،عمل کے لئے کہاں سے ہوگی؟
وہ مفلسی ہے کہ تیمم کو گھر میں خاک نہیں
چنانچہ ہمار ی زندگی 'عمل 'کے بجائے 'حمل ' سے بنتی ہے ۔حمل یعنی بوجھ !تو جس کابوجھ زیادہ ،اسی کاوقار زیادہ!آؤ لڑیں ،سب کے نہیں ،صرف اپنے اپنے وقارکے لئے !کبھی وقت ملے تو خود وقار سے بھی پوچھناکہ وہ ہے کیااور ملتاکسے ہے؟