• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
ایک غلط فہمی کا ازالہ

تحرير: محمد آصف رياض (دهلى)

کل ایک صاحب نے ہمیں ایک میل بھیجا ۔ یہ میل لندن کے ایک خانساماں کے بارے میں تھا۔ وہ کھانا بنانے کے دوران قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ اسے قرآن پڑھتا ہوا دیکھ کر اس کے پوتے نے بھی قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن بچے نے اپنے دادا سے پوچھا کہ دادا آپ کے ساتھ میں بھی قرآن پڑھتا ہوں لیکن میں قرآن نہیں سمجھتا!

بچے کے اس سوال کے جواب میں اس کے دادا نے اس کے ہاتھ میں وہ باسکٹ تھما دیا جس میں وہ کوئیلا لا یا کرتا تھا اور کہا کہ جاﺅ اس میں پانی بھر کر لاﺅ۔ بچہ گیا اور باسکٹ میں پانی بھر کے چلا آیا ۔اس نے دیکھا کہ باسکٹ کا پانی وہیں گرگیا تھا ۔بچہ اپنے دادا کو باسکٹ تھما تے ہوئے بولا ۔ دادا باسکٹ کا پانی وہیں گر گیا!۔ باسکٹ میں پانی نہیں بھرا جا سکتا۔ دا دا نے کہا ایک بار اور جاﺅ اور دیکھو اس بار جلدی کرنا ، بھاگ کر آنا۔بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ گیا اور اس نے باسکٹ میں حسب معمول پانی بھرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس بار بھی اس نے اپنے دادا کے ہاتھ میں خالی باسکٹ تھما دیا۔ دا دا کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا دادا آپ نے دیکھا کہ میں نے جلدی کی لیکن با سکٹ میں پانی نہیں لا سکا۔ باسکٹ میں پانی نہیں لایا جا سکتا۔ ساری محنت رائیگاں گئی!

بچے کی بات سن کر دادا نے کہا کہ باسکٹ اٹھا کر دیکھو ،کیا اس میں اب بھی کوئلے کی دھول لگی ہوئی ہے؟ بچے نے کہا نہیں یہ تو پوری طرح صاف ہے۔ دادا نے جواب دیا بیٹا قرآن تلا وت کرنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے! بغیر سمجھے بھی تم تلا وت کرو گے تو اس سے تمہادا دل صاف ہوجائے گا۔جس طرح پانی تو نہیں آیا لیکن با سکٹ صاف ہوگیا۔

میل میں لکھا ہوا تھا کہ آپ ثواب کی نیت سے اس میل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا ئیں۔ لیکن اس کے برعکس میں نے اس میل کو ڈیلیٹ کردیا۔ آپ پوچھیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟

میں نے ایسا اس لئے کیا کیوں کہ یہ میل قرآن کو نہ سمجھ کر پڑھنے کا جھوٹا جواز فراہم کر رہا تھا۔ یہ میل اس بات کی تبلیغ کر رہا تھا کہ قرآن کو بغیر سمجھے بھی پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ حالانکہ خدا چاہتا ہے کہ اس کی کتاب کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ قرآن شریف میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں ،افلا یتدبرون ، افلا یتفکرون، افلا یعقلون: یعنی کیا وہ تدبر نہیں کرتے ،کیا وہ غور و فکر نہیں کرتے ،اور کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔ وہ بچہ جو باسکٹ میں پانی بھر کر لا رہا تھا وہ حقیقی بچہ نہیں تھا ۔وہ کہانی کار کا پیدا کیا ہوا جھوٹا بچہ تھا۔ وہ خدا کا پیدا کیا ہوا بچہ نہیں تھا ۔ خدا کی انڈسٹری سے تو با شعور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ایک بار نا دانی کر نے کے بعد دوسری بار نادانی نہیں کرتے۔ وہ باسکٹ میں پانی نہیں بھرتے ۔ وہ باسکٹ سے کھیلتے ہیں۔

میرا ایک بچہ ہے جو ابھی ایک سال کا ہوا ہے۔ جب وہ سات آٹھ مہینے کا تھا تو میں نے اسے مسہری پربیٹھا دیا تھا ۔ وہ مسہری پر ہاتھ پاﺅں مارنے لگا اور نیچے گر گیا ۔ میں نے دوبارہ اسے مسہری پر بیٹھا دیا لیکن دوبارہ وہ اس پر سے نہیں گرا ۔اب جب بھی وہ مسہری کے کنارے آتا ہے زور سے رونے لگتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ مسہری پر اس کی ایک حد ہے۔ اگر وہ اس سے آگے بڑھا تو اسے چوٹ کھانی پڑے گی۔ میرا یہ ماننا ہے کہ میرا بچہ کو ئی استثنائی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ دنیا کے تمام بچے اسی طرح باشعور ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ خدا کا پیدا کیا ہوا بچہ ہووہ کہانی کار کا فرضی بچہ نہ ہو۔ بچے تو بے شعوری میں بھی شعور رکھتے ہیں۔ آپ سینکڑوں خواتین کو جمع کریں اور ان کے درمیان کسی بچے کو چھوڑ دیں وہ بچہ اپنی ماں کو اس بھیڑ میں پہچان لے گا۔ وہ اسی عورت کے پاس جائے گا جو اس کی ماں ہے۔

بہر کیف !میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ اسٹوری جھوٹی تھی ۔وہ صرف اس لئے بنائی گئی تھی تا کہ قرآن کو نہ سمجھ کر پڑھنے کا جواز فراہم كیا جائے۔ حالانکہ اللہ کو قرآن فہمی مطلوب ہے نہ کہ قرآن خوانی! میں یہاں قرآن کی سورہ الفرقان سے ایک مثال پیش کروں گا:

”کیاتم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے سایہ کو کس طرح پھیلا دیا۔ اگر وہ چاہتا تو اسے روک لیتا، لیکن اس نے سورج کو اس کے اوپر دلیل بنا یا (تاکہ تم سورج اور سایہ کے درمیان فرق کو جانو)۔ پھر رفتہ رفتہ وہ اسے اپنی طرف سمیٹ لیتا ہے ۔اور اسی نے تمہارے لئے رات کو لباس بنا یا اور نیند کو راحت کا سبب اور صبح کو رزق کمانے کا ذریعہ ، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ آدمی ہیں! نہیں، وہ تو جانور ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر!(الفرقان) یعنی اگر وہ آدمی ہوتے تو رات، دن، سایہ، اور نیند پر غور کرتے، لیکن وہ تو جانور سے بھی بدتر ہیں کہ جانور اپنی ضرورت کی چیزوں کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اس کے بر عکس انسان اپنے اوپر آسمان دیکھتا ہے لیکن وہ اس پر غور نہیں کرتا۔ وہ زمین پر چلتا پھر تا ہے لیکن وہ اس پر دھیان نہیں دیتا، وہ سورج کے نیچے رہتا ہے جو کہ آگ کا گولہ ہے لیکن اس کے بارے میں تفکر نہیں کرتا۔ وہ کائنات کی تخلیق کو اپنا کنسرن نہیں بنا تا ۔ حالانکہ خدا چاہتا ہے کہ انسان اس کی تخلیق پر غور و فکر کرے تاکہ اسے اپنے رب کی پہچان ہوجائے ۔

قرآن شریف میں ہے “یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور لیٹ کر خدا کویاد کرتے ہیں، جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور وفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب آپ نے ان کو یوں ہی پیدا نہیں کیا ۔ساری تعریف آپ ہی کے لئے، پس تو مجھے جہنم کے عذاب سے بچالے!”


انسان کی زبان سے اس قسم کی دعا اسی وقت نکلتی ہے جب کہ وہ خدا کی تخلیق پر غورو فکر کرے۔جب تک انسان تفکر کے عمل سے نہیں گزرے گا تب تک اسے خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی !۔
 

ناظم شهزاد٢٠١٢

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 07، 2012
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
1,533
پوائنٹ
120
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
(محمد47:24) نيز(النساء:82)
کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں؟
بغیر سمجھے پڑھنا اندھوں اور بہروں کی طرح گر پڑنا
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (الفرقان:73)
رحمن کے بندے تو وہ ہیں جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اندھوں اور بہروں کی طرح ان پر نہیں گر پڑتے(بلکہ غور وفکر کرتے ہیں)
اگر صرف ثواب کے لیے ہی پڑھنا ہے تو

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رضى الله عنه قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - لأَصْحَابِهِ « أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِى لَيْلَةٍ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا أَيُّنَا يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ « اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ الْقُرْآنِ
(بخاري:كتاب66 - فضائل القرآن،13باب فَضْلِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حديث:5015)
مفہوم حدیث:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ ’’کیا تم اس بات سے عاجز آگے ہو کے رات کو ١٠پارے پڑھ کر سو جاؤ؟‘‘
صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول!ہم میں سےاتنی طاقت کس کےپاس ہے؟
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سورت اخلاص کا ثواب ١٠ پاروں کے برابر ہے۔‘‘
بھائی اگر صرف ثواب کے لیے پڑھنا ہے تو یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔
کیوں اتنی مشقت میں پڑتے ہو۔
لیکن نہیں۔
قرآن صرف ثواب کی نہیں بلکہ سمجھنے کی کتاب ہے۔
اس کے دلائل میں پورا مضمون لکھا جاسکتا ہے؟
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا
(محمد47:24) نيز(النساء:82)
کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں؟
بغیر سمجھے پڑھنا اندھوں اور بہروں کی طرح گر پڑنا
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (الفرقان:73)
رحمن کے بندے تو وہ ہیں جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اندھوں اور بہروں کی طرح ان پر نہیں گر پڑتے(بلکہ غور وفکر کرتے ہیں)
اگر صرف ثواب کے لیے ہی پڑھنا ہے تو

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ رضى الله عنه قَالَ قَالَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - لأَصْحَابِهِ « أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فِى لَيْلَةٍ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ وَقَالُوا أَيُّنَا يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ « اللَّهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ ثُلُثُ الْقُرْآنِ
(بخاري:كتاب66 - فضائل القرآن،13باب فَضْلِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حديث:5015)
مفہوم حدیث:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ ’’کیا تم اس بات سے عاجز آگے ہو کے رات کو ١٠پارے پڑھ کر سو جاؤ؟‘‘
صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول!ہم میں سےاتنی طاقت کس کےپاس ہے؟
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سورت اخلاص کا ثواب ١٠ پاروں کے برابر ہے۔‘‘
بھائی اگر صرف ثواب کے لیے پڑھنا ہے تو یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔
کیوں اتنی مشقت میں پڑتے ہو۔
لیکن نہیں۔
قرآن صرف ثواب کی نہیں بلکہ سمجھنے کی کتاب ہے۔
اس کے دلائل میں پورا مضمون لکھا جاسکتا ہے؟
جزاک اللہ خیرا بھائی
بیشک قرآن سمجھنے کی اور اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کی کتاب ہے
آپ ضرور لکھیں اس سے کافی لوگوں کو فائدہ ہوگا ان شاء الله
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ایک غلط فہمی کا ازالہ


تحرير: محمد آصف رياض (دهلى)

کل ایک صاحب نے ہمیں ایک میل بھیجا ۔ یہ میل لندن کے ایک خانساماں کے بارے میں تھا۔ وہ کھانا بنانے کے دوران قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ اسے قرآن پڑھتا ہوا دیکھ کر اس کے پوتے نے بھی قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن بچے نے اپنے دادا سے پوچھا کہ دادا آپ کے ساتھ میں بھی قرآن پڑھتا ہوں لیکن میں قرآن نہیں سمجھتا!

بچے کے اس سوال کے جواب میں اس کے دادا نے اس کے ہاتھ میں وہ باسکٹ تھما دیا جس میں وہ کوئیلا لا یا کرتا تھا اور کہا کہ جاﺅ اس میں پانی بھر کر لاﺅ۔ بچہ گیا اور باسکٹ میں پانی بھر کے چلا آیا ۔اس نے دیکھا کہ باسکٹ کا پانی وہیں گرگیا تھا ۔بچہ اپنے دادا کو باسکٹ تھما تے ہوئے بولا ۔ دادا باسکٹ کا پانی وہیں گر گیا!۔ باسکٹ میں پانی نہیں بھرا جا سکتا۔ دا دا نے کہا ایک بار اور جاﺅ اور دیکھو اس بار جلدی کرنا ، بھاگ کر آنا۔بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ گیا اور اس نے باسکٹ میں حسب معمول پانی بھرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس بار بھی اس نے اپنے دادا کے ہاتھ میں خالی باسکٹ تھما دیا۔ دا دا کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا دادا آپ نے دیکھا کہ میں نے جلدی کی لیکن با سکٹ میں پانی نہیں لا سکا۔ باسکٹ میں پانی نہیں لایا جا سکتا۔ ساری محنت رائیگاں گئی!

بچے کی بات سن کر دادا نے کہا کہ باسکٹ اٹھا کر دیکھو ،کیا اس میں اب بھی کوئلے کی دھول لگی ہوئی ہے؟ بچے نے کہا نہیں یہ تو پوری طرح صاف ہے۔ دادا نے جواب دیا بیٹا قرآن تلا وت کرنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے! بغیر سمجھے بھی تم تلا وت کرو گے تو اس سے تمہادا دل صاف ہوجائے گا۔جس طرح پانی تو نہیں آیا لیکن با سکٹ صاف ہوگیا۔

میل میں لکھا ہوا تھا کہ آپ ثواب کی نیت سے اس میل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا ئیں۔ لیکن اس کے برعکس میں نے اس میل کو ڈیلیٹ کردیا۔ آپ پوچھیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟

میں نے ایسا اس لئے کیا کیوں کہ یہ میل قرآن کو نہ سمجھ کر پڑھنے کا جھوٹا جواز فراہم کر رہا تھا۔ یہ میل اس بات کی تبلیغ کر رہا تھا کہ قرآن کو بغیر سمجھے بھی پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ حالانکہ خدا چاہتا ہے کہ اس کی کتاب کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ قرآن شریف میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں ،افلا یتدبرون ، افلا یتفکرون، افلا یعقلون: یعنی کیا وہ تدبر نہیں کرتے ،کیا وہ غور و فکر نہیں کرتے ،اور کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔ وہ بچہ جو باسکٹ میں پانی بھر کر لا رہا تھا وہ حقیقی بچہ نہیں تھا ۔وہ کہانی کار کا پیدا کیا ہوا جھوٹا بچہ تھا۔ وہ خدا کا پیدا کیا ہوا بچہ نہیں تھا ۔ خدا کی انڈسٹری سے تو با شعور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ایک بار نا دانی کر نے کے بعد دوسری بار نادانی نہیں کرتے۔ وہ باسکٹ میں پانی نہیں بھرتے ۔ وہ باسکٹ سے کھیلتے ہیں۔

میرا ایک بچہ ہے جو ابھی ایک سال کا ہوا ہے۔ جب وہ سات آٹھ مہینے کا تھا تو میں نے اسے مسہری پربیٹھا دیا تھا ۔ وہ مسہری پر ہاتھ پاﺅں مارنے لگا اور نیچے گر گیا ۔ میں نے دوبارہ اسے مسہری پر بیٹھا دیا لیکن دوبارہ وہ اس پر سے نہیں گرا ۔اب جب بھی وہ مسہری کے کنارے آتا ہے زور سے رونے لگتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ مسہری پر اس کی ایک حد ہے۔ اگر وہ اس سے آگے بڑھا تو اسے چوٹ کھانی پڑے گی۔ میرا یہ ماننا ہے کہ میرا بچہ کو ئی استثنائی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ دنیا کے تمام بچے اسی طرح باشعور ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ خدا کا پیدا کیا ہوا بچہ ہووہ کہانی کار کا فرضی بچہ نہ ہو۔ بچے تو بے شعوری میں بھی شعور رکھتے ہیں۔ آپ سینکڑوں خواتین کو جمع کریں اور ان کے درمیان کسی بچے کو چھوڑ دیں وہ بچہ اپنی ماں کو اس بھیڑ میں پہچان لے گا۔ وہ اسی عورت کے پاس جائے گا جو اس کی ماں ہے۔

بہر کیف !میں یہ کہہ رہا تھا کہ وہ اسٹوری جھوٹی تھی ۔وہ صرف اس لئے بنائی گئی تھی تا کہ قرآن کو نہ سمجھ کر پڑھنے کا جواز فراہم كیا جائے۔ حالانکہ اللہ کو قرآن فہمی مطلوب ہے نہ کہ قرآن خوانی! میں یہاں قرآن کی سورہ الفرقان سے ایک مثال پیش کروں گا:

”کیاتم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے سایہ کو کس طرح پھیلا دیا۔ اگر وہ چاہتا تو اسے روک لیتا، لیکن اس نے سورج کو اس کے اوپر دلیل بنا یا (تاکہ تم سورج اور سایہ کے درمیان فرق کو جانو)۔ پھر رفتہ رفتہ وہ اسے اپنی طرف سمیٹ لیتا ہے ۔اور اسی نے تمہارے لئے رات کو لباس بنا یا اور نیند کو راحت کا سبب اور صبح کو رزق کمانے کا ذریعہ ، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ آدمی ہیں! نہیں، وہ تو جانور ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر!(الفرقان) یعنی اگر وہ آدمی ہوتے تو رات، دن، سایہ، اور نیند پر غور کرتے، لیکن وہ تو جانور سے بھی بدتر ہیں کہ جانور اپنی ضرورت کی چیزوں کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اس کے بر عکس انسان اپنے اوپر آسمان دیکھتا ہے لیکن وہ اس پر غور نہیں کرتا۔ وہ زمین پر چلتا پھر تا ہے لیکن وہ اس پر دھیان نہیں دیتا، وہ سورج کے نیچے رہتا ہے جو کہ آگ کا گولہ ہے لیکن اس کے بارے میں تفکر نہیں کرتا۔ وہ کائنات کی تخلیق کو اپنا کنسرن نہیں بنا تا ۔ حالانکہ خدا چاہتا ہے کہ انسان اس کی تخلیق پر غور و فکر کرے تاکہ اسے اپنے رب کی پہچان ہوجائے ۔

قرآن شریف میں ہے “یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور لیٹ کر خدا کویاد کرتے ہیں، جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور وفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب آپ نے ان کو یوں ہی پیدا نہیں کیا ۔ساری تعریف آپ ہی کے لئے، پس تو مجھے جہنم کے عذاب سے بچالے!”


انسان کی زبان سے اس قسم کی دعا اسی وقت نکلتی ہے جب کہ وہ خدا کی تخلیق پر غورو فکر کرے۔جب تک انسان تفکر کے عمل سے نہیں گزرے گا تب تک اسے خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی !۔
جزاکم اللہ خیرا!

بہت ہی اچھی بات کی طرف آپ نے توجہ دلائی۔

واقعی ہی قرآن کریم کو نازل کرنے کا اصل مقصد اس میں غور وفکر کرنا اور اپنی اصلاح کرنا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ إِلَيْكَ مُبَـٰرَ‌كٌ لِّيَدَّبَّرُ‌وٓا۟ ءَايَـٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ‌ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَـٰبِ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة ص
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں (29)

ليكن میرے بھائی! قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہے، اس لئے اسے بغیر سمجھے بھی پڑھنے کی اپنی فضیلت ہے۔ اور یہ فضیلت کلام اللہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ البتہ اس کو اتارنے کا اصل مقصد اس میں غور وفکر ہی ہے۔

اس لئے اگر کوئی شخص قرآن کریم کو بغیر سمجھے بھی پڑھے تو اس پر بھی اسے ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ملیں گی، فرمانِ نبوی ہے:
« من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة ، والحسنة بعشر أمثالها لا أقول : آلم حرف ، ولكن ألف حرف وميم حرف » ۔۔۔ صحيح جامع الترمذي
درج بالا حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ نے مثال ألم کی دی ہے، اس سے محدثین کرام﷭ نے استدلال کیا ہے کہ ہر ہر حرف پر دس نیکیاں صرف الفاظ کی تلاوت پر ہیں، کیونکہ ألم حروف مقطعات ہیں، جن کا معنیٰ اللہ کے علاوہ کسی کو علم نہیں۔

اور اگر کوئی شخص قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھے، پھر تو نیکیوں کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔

اگر کوئی شخص قرآن کریم کا معنیٰ سمجھتا ہے، تو اسے یہی کہا جائے گا کہ اسے غور وفکر کرکے پڑھو۔

لیکن اگر کوئی شخص قرآن کا معنیٰ نہیں جانتا تو قرآن پڑھنے سے روکا نہیں جائے گا، البتہ اسے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دلائی جائے گی۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
جزاکم اللہ خیرا!

بہت ہی اچھی بات کی طرف آپ نے توجہ دلائی۔

واقعی ہی قرآن کریم کو نازل کرنے کا اصل مقصد اس میں غور وفکر کرنا اور اپنی اصلاح کرنا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ إِلَيْكَ مُبَـٰرَ‌كٌ لِّيَدَّبَّرُ‌وٓا۟ ءَايَـٰتِهِۦ وَلِيَتَذَكَّرَ‌ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَـٰبِ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة ص
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں (29)

ليكن میرے بھائی! قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہے، اس لئے اسے بغیر سمجھے بھی پڑھنے کی اپنی فضیلت ہے۔ اور یہ فضیلت کلام اللہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ البتہ اس کو اتارنے کا اصل مقصد اس میں غور وفکر ہی ہے۔


اس لئے اگر کوئی شخص قرآن کریم کو بغیر سمجھے بھی پڑھے تو اس پر بھی اسے ہر ہر حرف پر دس نیکیاں ملیں گی، فرمانِ نبوی ہے:
« من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة ، والحسنة بعشر أمثالها لا أقول : آلم حرف ، ولكن ألف حرف وميم حرف » ۔۔۔ صحيح جامع الترمذي
درج بالا حدیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ نے مثال ألم کی دی ہے، اس سے محدثین کرام﷭ نے استدلال کیا ہے کہ ہر ہر حرف پر دس نیکیاں صرف الفاظ کی تلاوت پر ہیں، کیونکہ ألم حروف مقطعات ہیں، جن کا معنیٰ اللہ کے علاوہ کسی کو علم نہیں۔

اور اگر کوئی شخص قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھے، پھر تو نیکیوں کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔

اگر کوئی شخص قرآن کریم کا معنیٰ سمجھتا ہے، تو اسے یہی کہا جائے گا کہ اسے غور وفکر کرکے پڑھو۔

لیکن اگر کوئی شخص قرآن کا معنیٰ نہیں جانتا تو قرآن پڑھنے سے روکا نہیں جائے گا، البتہ اسے قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دلائی جائے گی۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
جی بلکل یہ تحریر کا مقصد بھی یہی ہے
 
Top