کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ایک مثالی عالم ؛شیخ الحدیث مولانا محمدعلی جانبازؒ
پروفیسر رشیداحمد صدیقی اپنی کتاب ’گنج ہائے گراں مایہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’موت سے کسی کو مفر نہیں، لیکن جو لوگ ملی مقاصد کی تائید وحصول میں تادمِ آخر کام کرتے رہتے ہیں، وہ کتنی ہی طویل عمر کیوںنہ پائیں، ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔‘‘
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانبازؒ پر یہ جملہ مکمل طور پر صادق آتاہے جو ۱۳؍ دسمبر۲۰۰۸ء مطابق ۱۴؍ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ بروز ہفتہ رات آٹھ بجے سیالکوٹ میں اس دنیاے فانی سے رحلت فرماگئے۔ إنا ﷲ وإنا الیہ راجعون!
مولاناجانبازؒنے اپنی ساری زندگی دینِ اسلام کی نشرواشاعت،کتاب و سنت کی ترقی وترویج اور حفاظت، شرک و بدعت و محدثات کی تردید و توبیخ اور ادیانِ باطلہ کے ردّ میں وقف کردی تھی۔مولانا جانبازؒ علوم اسلامیہ کے بحرذخار تھے۔ وہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی، مؤرخ بھی تھے اور محقق بھی، مصنف بھی تھے اور صحافی بھی، دانشور بھی تھے اور نقاد بھی، ادیب بھی تھے اور مبصر بھی، معلّم بھی تھے اور متکلّم بھی، مقرر بھی تھے اور واعظ بھی، اور سب سے بڑھ کر آپ اہل حدیث کے نامو رمفتی بھی تھے۔
مولانا جانباز مرحوم اسلامی تاریخ کے اُن علماے سلف کی ایک زندہ یادگار تھے جو مسلمانوں کے عروج و زوال کے رموز سے آگاہ ہوچکے تھے۔مولانا جانبازپاکستان کے ان چند منتخب اور مختص علماء میںشامل تھے جنہیں علومِ اسلامیہ پر رسوخ حاصل تھا اور میں اس بات کی شہادت دیتاہوں کہ مولانا کو تفسیر، حدیث، تاریخ، اسماء الرجال اور فقہ میں جو عبورِ کامل تھا، شاید کسی اور عالم کو اتنا درک حاصل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حمیت ِ دینی کا جو جوہر عطا فرمایا تھا، وہ بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ مولانا دینی غیرت و حمیت سے مالامال تھے۔
مولانا جانباز قحط الرجال کے اس دور میں عام مسلمانوں کے لیے اور خاص کرجماعت اہلحدیث کے لیے گوہر شب چراغ اور اللہ تعالیٰ کی نشانی تھے۔ ان کی رحلت سے طبقہ علما میںجو خلاپیدا ہوا ہے، اس کا پُر ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن نظر آتا ہے۔مولانا جانباز جیسی نابغہ ٔروزگار اور نادر ہستیاں روزروز پیدا نہیں ہوتیں جو کتاب و سنت کی اشاعت اور فروغ میں دیوانہ وار مصروف ہوں
اب نہ آئے گا نظر ایسا کمالِ علم و فن ۔۔ گو بہت آئیں گے دنیا میں رجال علم و فن
مولانا محمد علی جانباز انتہائی منکسر مزاج، دوراندیش اور تعمیری ومثبت فکر رکھنے والے انسان تھے۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ جامعہ رحمانیہ (سابقہ جامعہ ابراہیمیہ) کا قیام ہے جس نے ملک کو سنجیدہ ، اچھے لکھنے والے اور خطیب حضرات دیئے۔
مولانا محمد علی جانباز کی رحلت موت العالِم موت العالَم کی مصداق ہے۔ وہ بیک وقت ایک عالم دین بھی تھے، مدرّس بھی تھے اور مفتی بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فہم وبصیرت سے نوازا تھااور فن تحریر کے ساتھ خطابت کی صلاحیت بھی دی تھی۔ آپ اخلاق و شرافت کا مجسمہ اور علم و حلم کے پیکر تھے۔ بڑے متواضع، زاہد و عابد اور مرتاض تھے۔ اتباعِ سنت میںان کی مثال نہیں ملتی۔ بڑے خوددار اور صابر و شاکر تھے۔ جاہ و ریاست کی کبھی خواہش نہیںکی،بہت خلیق اور ملنسار تھے۔ میرااُن سے ۱۹۸۰ء سے ذاتی تعلق تھا۔ہرماہ دو ماہ بعدان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔بڑی محبت اور شفقت سے ملتے اور مہمان نوازی میںکوئی کسر اٹھانہ رکھتے۔
مولانا جانباز کی شخصیت اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ صفت ہے۔ جس کی مثال شاید اس زمانے میں ناپید ہے۔ آپ ایک شب ِزندہ دار بزرگ بھی تھے اور عالم ربانی بھی، اوربے مثال اہل قلم بھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی دینی فہم بھی عطا کی تھی اور دنیاوی شعور بھی۔ آپ پاکیزہ اخلاق کا مجسمہ تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے کردار میں صحابہ کرامؓ کی اتباع کی پوری جھلک دکھائی دیتی تھی۔ مولانا جانباز کی ذاتِ گرامی قدیم روایاتِ صالحہ کی قیمتی یادگار تھی۔ عالمانہ تہذیب و شائستگی کی ایک فلک بوس عمارت آپ کے انتقال سے زمین پر آرہی جو بڑی دلکش، بڑی بلند اور قابل حفاظت تھی۔ان کی رحلت سے اُمت اسلامیہ ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
مولدومسکن
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز ۱۹۲۴ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروزپور کے قصبہ چک بدھر میں پیدا ہوئے، والد کا نام حاجی نظام الدین اور راجپوت وٹو برادری سے تعلق تھا۔
ابتدائی تعلیم
اپنے قصبہ میں ہی تعلیم کا آغاز قرآنِ مجید سے کیا۔ قرآنِ مجید میں آپ کے استاد مولانا محمدتھے جو دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے فارغ التحصیل تھے۔ قرآن مجید کے علاوہ ابتدائی دینی کتابیں بھی مولانا محمد سے پڑھیں۔ اس کے بعد مولانا محمد کی ترغیب سے آپ مدرسہ راجووال تشریف لائے، جہاں آپ تین ماہ زیر تعلیم رہے۔
۱۹۵۱ء میں مولانا جانباز صوفی محمد عبداللہ وزیرآبادیؒ کے مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ میںداخل ہوگئے اور اس مدرسہ میں آپ نے دو سال تک تعلیم حاصل کی۔ اوڈانوالہ میں آپ کے اساتذہ مولانا محمد صادق خلیل اور مولانا پیر محمد یعقوب قریشی تھے۔
۱۹۵۲ء میں آپ وزیرآباد تشریف لائے اور دارالحدیث میں مولانا عبداللہ مظفرگڑھی سے علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔ اس کے ساتھ آپ مولانا محمدرمضان سندھی جن کا تعلق دیوبندی مکتب ِفکر سے تھا اور جامع مسجد حنفیہ مین بازار وزیرآباد میں خطیب تھے،اُن سے مقاماتِ حریری اور شرح تہذیب کا درس لیا۔
۱۹۵۲ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی، علماے کرام حکومت کے خلاف تقریریں کرتے تھے اور اپنی گرفتاریاںپیش کرتے تھے۔چنانچہ آپ کوبھی گرفتار کرلیاگیا، لیکن چھ گھنٹے حراست میں رکھ کر رہا کردیاگیا۔
۱۹۵۲ء میں وزیرآباد سے جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ آگئے۔ اس وقت جامعہ اسلامیہ میں حضرت العلام شیخ العرب والعجم حافظ محمد محدث گوندلویؒ شیخ الحدیث تھے اور مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی نائب شیخ الحدیث تھے۔ آپ نے علومِ اسلامیہ کی تحصیل ان دونوں علماے کرام سے کی۔ مولانا فاروق احمد راشدی اور مولانا عطاء الرحمن اشرف آپ کے ہم درس تھے۔
۱۹۵۵ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد (لائل پور) کا قیام عمل میں آیااور ۱۹۵۸ء میں جامعہ سلفیہ اپنی بلڈنگ میں منتقل ہوا اور حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلوی ؒکو جامعہ سلفیہ کا صدر مدرس مقرر کیاگیا تو مولانا جانباز نے جامعہ سلفیہ میں داخلہ لے لیا اور حضرت محدث گوندلویؒ سے دوبارہ صحیح بخاری، موطا امام مالک اور حجۃ اللہ البالغہ کا درس لیا۔ان کے علاوہ آپ نے جامعہ سلفیہ میں مولانا شریف اللہ خان سواتی اور مولاناغلام احمد حریری سے بھی بعض درسی کتابیں پڑھیں۔
اَساتذہ کرام
مولاناجانباز نے مختلف اوقات میں جن علماے کرام سے اکتسابِ فیض کیا، ان کے نام درج ذیل ہیں:
مولانا محمد رحمانیؒ ، مولانا محمد صادق خلیل ؒ ، مولانا پیر محمد یعقوب قریشیؒ ، مولانا عبداللہ مظفرگڑھیؒ ، مولانا ابوالبرکات احمد مدراسیؒ مولاناپروفیسر غلام احمد حریریؒ ، مولانا شریف اللہ خان سواتی ، حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلویؒ
فراغت ِتعلیم اور تدریس
۱۹۵۷ء میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے فارغ ہوئے اور ۱۹۵۸ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے سند ِفراغت حاصل کی۔
۱۹۵۹ء میں مولانا محمد اسحاق چیمہ جامعہ سلفیہ کے مہتمم تھے۔ ان کی سفارش پر شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ نے آپ کو جامعہ سلفیہ میں استاد مقرر کیا۔ اور اس کے ساتھ جامعہ سلفیہ کی لائبریری کی فہرست مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔علاوہ ازیں اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر جملہ انتظامی اُمور بھی آپ کے سپرد تھے۔ جامعہ سلفیہ میں آپ۱۹۶۲ء تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
سیالکوٹ آمد :۱۹۶۲ء میں مولانا جانباز مولانا حافظ محمد شریف مرحوم کی درخواست پر سیالکوٹ تشریف لائے اور جامع مسجد اہلحدیث ڈپٹی باغ میںدرس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اورایک سال تک آپ اسی مسجد میںتدریس فرماتے رہے۔ ۱۹۶۲ء میں آپ مسجد اہلحدیث میانہ پورہ تشریف لے گئے۔
جامعہ ابراہیمیہ کا قیام
۱۹۶۴ء میں مسجد اہلحدیث میانہ پورہ میں جامعہ ابراہیمیہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس مدرسہ کو قائم کرنے میں حاجی خدا بخش مرحوم پیش پیش تھے اور مدرسہ کے تمام اخراجات حاجی صاحب خود برداشت کرتے تھے۔ اس مدرسہ (جامعہ ابراہیمیہ) کا صدر مدرس مولانا جانباز کو مقرر کیاگیا اورمولانا عطاء الرحمن اشرف صاحب کو نائب مدرّس مقرر کیاگیا۔ ۱۹۷۰ء میں حاجی خدا بخش مرحوم نے مدرسہ کے اخراجات پورے کرنے سے انکار کردیا اور مدرسہ بند کرنے کا اعلان کردیا۔
میانہ پورہ میں مدرسہ بند ہونے کے بعد مولاناجانباز جامع مسجد اہلحدیث ناصر روڈ منتقل ہوگئے اور اس مسجد میں جامعہ ابراہیمیہ کے زیراہتمام مولانا عطاء الرحمن اشرف کے تعاون سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور ۱۹۷۹ء تک یہ دونوں علماے کرام اسی مسجدمیں تدریس فرماتے رہے۔
جامع مسجد اہلحدیث ناصر روڈ میں تشریف لانے کے بعد مولانا جانباز نے علیحدہ مدرسہ کی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے کوشش شروع کردی تھی۔ چنانچہ پہلے زمین خریدی گئی اور اس کے بعد ساتھ ساتھ تعمیر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ چنانچہ ۱۹۸۰ء میںتعمیر مکمل ہوئی اور مدرسہ اپنی بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلویؒ نے افتتاح کیا ۔ اسی سال تقریب ِصحیح بخاری میں حضرت محدث گوندلوی نے آخری حدیث کا درس دیا اور سیرتِ امام بخاری پر علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ نے بڑی جامع و علمی تقریر ارشاد فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب اس مدرسہ کا نام بعض وجوہ کی بنا پر جامعہ ابراہیمیہ کی بجائے ’جامعہ رحمانیہ‘ ہوگیا ہے ۔
فطری مواہب اور ذاتی خصوصیات
اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا جانباز نہایت پاکیزہ انسان تھے۔عزت، شرافت، قناعت اور وجاہت ان کی سیرت کا جوہر خاص تھی۔ زہد و ورع، تقویٰ و مہارت اور شمائل و اخلاق میںسلف صالحین اور علمائے ربانیین کے اوصاف کے حامل تھے۔ اتباعِ سنت میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔
مولانا جانباز قدرت کی طرف سے بڑا اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ روشن فکر، دردمند دل اور سلجھا ہوا دماغ پایاتھا۔ ذہانت و ذکاوت کے ساتھ غیر معمولی حافظہ کی نعمت سے اللہ تعالیٰ نے سرفراز فرمایاتھا۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایۂ علم تھا۔ علمی و دینی مسائل کی تحقیق میں ان کویدطولیٰ حاصل تھا اورتاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر،امام شوکانی اورمولانا سید نواب صدیق حسن خان رحمہم اللہ اجمعین کی تصانیف کے شیدائی تھے۔ علمائے اہلحدیث میں مولانا شمس الحق ڈیانوی، مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری، شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، حضرت العلام مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف اور مولانا محمد حنیف ندوی رحمہم اللہ اجمعین سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان علماے کرام کی دینی و علمی اور قومی و ملّی خدمات کے بہت زیادہ معترف تھے۔اپنے اساتذہ میں حضرت العلام محدث گوندلویؒ اور مولانا ابوالبرکات احمدؒ کے علم و فضل کے بہت زیادہ معترف تھے اور ان ہر دو علمائے کرام کا تذکرہ بڑی عقیدت اور محبت سے کیا کرتے تھے۔
دورِ حاضر کے علما میں مولاناارشاد الحق اثری، مولانا محمداسحق بھٹی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی اورمولانا فاروق راشدی کے علم و فضل اور ان کی علمی و دینی خدمات کا اعتراف کرتے رہتے ۔ مولانا جانباز کے خصائل میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ شروع ہی سے سادہ لباس استعمال کرتے تھے اور نمائش سے سخت نفرت کرتے تھے۔
تصانیف
مولانا جانباز عربی و اُردو کے بلندپایہ مصنف تھے۔ ان کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے:
اہمیت ِنماز ، صلوٰۃ مصطفیﷺ ، معراج مصطفیﷺ ، آل مصطفیﷺ ، احکام سفرحرمت متعہ ، عورت کا سیاست میں حصہ لینے کی شرعی حیثیت ، نفحات العطر فی تحقیق مسائل عید الفطر ، احکام دعا و توسل ، ارکان اسلام ، توہین رسالت کی شرعی سزا ، تحفۃ الوریٰ فی تحقیق مسائل عیدالاضحی ، دوران خطبہ دو رکعت پڑھنے کا حکم ، صفات المؤمنین ، احکام نکاح ، احکام عدت ، حرمت متعہ بجواب حلت متعہ ، احکام طلاق ، اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت ، احکام وقف و ہبہ ، رزق حلال اور رشوت ، احکام قسم و نذر ، مشورہ اور استخارہ کی شرعی حیثیت ، اسلام میں ووٹ کی شرعی حیثیت ، تحریک پاکستان اور موجودہ حکمران ، شرح اربعین ابراہیمی ، شرح اربعین ثنائیہ ، رمضان کیسے گزاریں؟ ، شرح نخبۃ الاحادیث از مولانا سید محمدداؤد غزنوی ، إنجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ (عربی) ۱۲؍ مجلدات
علالت اور وفات
مولانا جانباز ۲۰۰۷ء کے شروع سے ہی علیل چلے آرہے تھے، لیکن علاج سے اُنہیں خاص افاقہ ہوگیاتھا۔جامعہ رحمانیہ میں باقاعدہ آناشروع کردیا اور تدریس کا سلسلہ بھی شروع کردیا تھا۔رمضان ۱۴۲۹ھ شروع ہوا تو مولانا نے روزے رکھنا شروع کردیئے۔ صرف گیارہ روزے رکھے تو دوبارہ بیماری کا حملہ ہوا۔ پہلے سیالکوٹ ہسپتال میں زیرعلاج رہے، بعد میں لاہور ہسپتال میں بھی داخل کرا دیئے گئے، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
چنانچہ مولاناکو سیالکوٹ واپس لایا گیا۔دوائیاں استعمال کرتے رہے، لیکن کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔
راقم مولانا کی وفات سے تین ہفتہ قبل عیادت کے لیے حاضر ہوا۔اتفاق سے مولانا عارف جاوید محمدی(کویت) بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔مولانا کے صاحبزادے پروفیسر عبدالعظیم نے تکیہ کے سہارا سے بٹھایا تو مولاناعارف جاوید اور راقم سے مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی۔راقم نے عرض کیا کہ آپ کو یہ تکلیف روزوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ فرمایا: صرف گیارہ روزے رکھے تھے۔
اسکے بعدجناب عارف جاویدصاحب سے فرمایا کہ میں مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی کی کتاب ’خیر المامون‘ (جودو جلدوں میں ہے) چھپوانا چاہتا ہوں۔ اس کی دوسری جلد میں نے کمپوز کرالی ہے اور پہلی جلد مجھے نہیں مل رہی۔مجھے کہیں سے اصل کتاب یا اس کی فوٹو کاپی مہیاکرا دیں تاکہ میں دونوں جلدیں اکٹھی شائع کرسکوں۔
مولانا عارف جاوید محمدی صاحب نے فرمایا کہ
’’مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامبارکپوری کے ۹؍ رسائل اکٹھے ایک جلد میں شائع کررہے ہیں، جس میں ’خیر المامون‘ بھی شامل ہے۔‘‘
مولانااثری صاحب بے شک شائع کریں مگر میں بھی یہ رسالہ ضرور شائع کروں گا۔مولانا عارف جاوید صاحب نے اسی وقت بیگ سے سی ڈی CD نکال کر مولانا جانباز کے حوالے کردی تو بہت خوش ہوئے اور اُنہیں دعائیں دیں۔اس کے بعد محمدی صاحب نے مولانا جانباز سے آٹو گراف لیا، مولانا جانباز نے اپنے بھتیجے حافظ عبدالرحمن سے فرمایا کہ
’’انجاز الحاجہ کا مکمل سیٹ (۱۲ جلد) اور دوسری میری جو تصانیف اس وقت موجود ہیں، مولانا عارف صاحب کو دی جائیں۔‘‘
چنانچہ حافظ عبدالرحمن صاحب إنجاز الحاجۃ کا مکمل سیٹ اور دوسری تصانیف اندازاً آٹھ عدد مولانا عارف کولا کردیں اور إنجاز الحاجۃکی پہلی جلد پر اپنے دستخط بھی کئے۔
۵ دسمبر ۲۰۰۸ء کو راقم دوبارہ عیادت کے لیے گیا۔پروفیسر عبدالعظیم صاحب نے ملاقات کرائی اور اُنہوںنے سہارا دے کربٹھایا۔دیکھتے رہے، لیکن گفتگو نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے بعد روزانہ ٹیلی فون پر خیریت دریافت کرتا رہا، لیکن تسلی بخش جواب نہیں ملتاتھا اور یہی اندازہ ہوتا تھا کہ کسی وقت یہ شمع گل ہوجائے گی۔
ہفتہ کی رات گیارہ بجے حافظ عبدالرحمن صاحب کاٹیلی فون آیا۔ میں سویاہوا تھا، میرے بیٹے نے ٹیلی فون سنا۔حافظ صاحب نے مولانا جانباز کی وفات کی اطلاع دی اور دو بجے دوپہر جنازہ کی نماز کاذکر کیا۔ مجھے میرے بیٹے نے صبح نمازِ فجر کے بعد بتایا۔إنا ﷲ وإنا الیہ راجعون پڑھا۔ میں اپنے ایک دوست مولانا عبدالعزیز سیال کے ہمراہ تقریباً ۱۲ بجے جامعہ رحمانیہ پہنچ گیا۔اس وقت مولانا کو غسل دیا جارہا تھا۔
مولانا کے صاحبزادگان عبدالحلیم اور عبدالعظیم صاحبان اور بھتیجے حافظ عبدالرحمن صاحب اور مولانا مرحوم کے دیرینہ رفیق مولانا عطاء الرحمن اشرف سے ملے، تعزیت کی۔ اس کے بعد نمازِ ظہر ادا کرنے کے بعد پولیس گراؤنڈ (جہاں نماز جنازہ ادا ہونی تھی) جنازہ کے ہمراہ گیا۔ گراؤنڈ میں ایک جم غفیر تھا۔ راقم نے اپنے ساتھی مولانا عبدالعزیز سیال سے دریافت کیا کہ آدمیوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ دس ہزار کے قریب ہوں گے۔
مولاناجانباز کی وصیت کے مطابق نمازِجنازہ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی برادرِ اصغر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒنے پڑھائی اور قبرستان حسین شاہ میں دفن ہوئے۔
اللہم اغفرہ وارحمہ واجعل مثواہ الجنۃ الفردوس!
(حوالہ نمبر :ماہنامہ محدث اپریل 2010 مضمون بائے عبدالرشید عراقی )