کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
ایک مجلس کی تین طلاقوں کاشرعی حکم کتاب وسنت کی روشنی میں
ابوالحسن علوی
طلاق دینے کا صحیح طریق کار:شریعت اسلامیہ میں طلاق دینے کا صحیح شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ
پس ایسے طہر میں کہ جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی ہو، ایک طلاق دیناطلاق سنی کہلاتا ہے جبکہ ایک وقت میں تین طلاقیں دینا یا حیض و نفاس کی حالت میں طلاق دینا یا جس طہر میں بیوی سے تعلق قائم کیا ہو، اس میں طلاق دینا ، طلاق بدعی ہے یعنی سنت کے مطابق نہیں ہے اور بدعت ہے۔1۔ بیوی کو ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔
2۔ اور یہ طلاق بھی حالت طہر میں ہو۔
2۔ اور اس طہر میں ہو کہ جس میں بیوی سے مباشرت یا تعلق زوجیت قائم نہ کیا ہو۔
جب عورت کو حالت طہر میں ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تویہ طلاق، طلاق رجعی کہلاتی ہے اور اس کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ : ۲۲۸) اگر اس عد ت میں خاوند رجوع کر لے توعورت اس کے نکاح میں باقی رہے گی ۔ اور اگر خاوند حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے خاوند سے جدا ہو جاتی ہے لیکن اس صورت میں عورت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں :
طلاق کی یہ صورت طلاق احسن کہلاتی ہے کہ جس میں ایک طلاق کے ذریعے دوران عدت رجوع نہ کر کے بیوی کو فارغ کر دیا جاتا ہے اور اس میں آپس میں دوبارہ نکاح کا آپشن بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں جہالت کے سبب سے عوام، بلکہ عرضی نویس اور وکلاء تک بھی اپنے کلائنٹ (client) ذریعے ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے تحریری نوٹس بھجوا دیتے ہیں حالانکہ یہ طرزعمل سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:1۔ چاہے تواپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کر لے۔
2۔ اگر چاہے تو کسی اور مرد سے نکاح کر لے۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے :محمود بن لبید قال : أخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال : أیلعب بکتاب اللہ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال : یا رسول اللہ ألاأقتلہ۔(سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعۃومافیہ من التغلیظ)
’’ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو ایک شخص کے بارے خبر دی گئی کہ جس نے ایک ہی ساتھ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ آپﷺ (یہ سن کر ) غصے سے کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے فرمایا : کیا کتاب اللہ کو کھیل تماشہ بنا لیا گیا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ (اللہ کے رسول ﷺ کو اس قدر شدید غصے میں دیکھ کر حاضرین مجلس میں سے) ایک شخص نے کہا: کیا میں اسے (یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والے کو) قتل کر دوں؟‘‘
اس آیت مبارکہ میں’طلقتان‘ یعنی دو طلاقیں نہیں کہا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی ایک بار ایک طلاق ہے اور پھر دوسری بار کسی دوسرے وقت میں دوسری طلاق ہو گی۔ پس ایک وقت میں ایک ہی طلاق جائز ہے ۔(تفسیر احسن البیان : ص ۹۴، مولانا صلاح الدین یوسف، مطبع شاہ فہد کمپلیکس، مدینہ منورہ، مملکت سعودی عرب)الطلاق مرتان (البقرۃ : ۲۲۹)
’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ ‘‘