• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
مسئلہ طلاق کی تفہیم کے لئے ایک سوال۔ امید ہے ٹھنڈے مزاج سے جواب دینے والے جواب دیں گے۔
سوال
ایک شخص نے یکم شعبان کو اپنی زوجہ کو بحالتِ طہر طلاق دی۔ دوسری دوسرے طہر میں اور تیسری تیسرے طہر میں۔اس عورت کی عدت کس مہینہ کی کس تاریخ کو پوری ہوگی؟
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
احناف حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جب اسں قسم کے مسئلہ کے بارہ میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔'' (صحیح مسلم, کتاب الطلاق)

جواب: اَحناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں جیسے ''تجھ کو تین طلاق ہے۔'' یا متعدد الفاظ سے ہوں ، جیسے ''تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔''یہ دونوں صورتیں تین طلاق کے حکم میں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کامذکورہ فیصلہ ان کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ان کا یہ جملہ کہ ''تم نے ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی'' اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کایہ فیصلہ اکٹھی تین طلاقوں کے بارے میں نہیں بلکہ متفرق طور پر طلاقیں دینے کے بارے میں ہے۔ یہ قرینہبھی اس کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: ''فإن النبي! أمرني بھذا'' کہ'' رسول اﷲ صلیاللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم دیاتھا۔'' ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم نہیں دیاتھاجو کہ بدعت ہے بلکہ متفرق طور پر طلاق دینے کا حکم دیاتھا۔ (جو کہ جائز بلکہحسن طلاق ہے)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
احناف حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جب اسں قسم کے مسئلہ کے بارہ میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔'' (صحیح مسلم, کتاب الطلاق)

جواب: اَحناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں جیسے ''تجھ کو تین طلاق ہے۔'' یا متعدد الفاظ سے ہوں ، جیسے ''تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔''یہ دونوں صورتیں تین طلاق کے حکم میں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کامذکورہ فیصلہ ان کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ان کا یہ جملہ کہ ''تم نے ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی'' اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کایہ فیصلہ اکٹھی تین طلاقوں کے بارے میں نہیں بلکہ متفرق طور پر طلاقیں دینے کے بارے میں ہے۔ یہ قرینہبھی اس کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: ''فإن النبي! أمرني بھذا'' کہ'' رسول اﷲ صلیاللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم دیاتھا۔'' ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم نہیں دیاتھاجو کہ بدعت ہے بلکہ متفرق طور پر طلاق دینے کا حکم دیاتھا۔ (جو کہ جائز بلکہحسن طلاق ہے)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

پیارے بھائی جان جو روایت میں نے پیش کی ہے اس روایت میں اصل اعتراض اس بات پر کیا جاتا ہے کہ اگر وقفے سے تین طلاقیں دی تو یہ اللہ تعالی کی نافرمانی کیسے ہے؟

میری پیش کردہ روایت کے الفاظ
اور اگر تو نے اسے تین طلاقیں دے دیں تو تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس حکم میں جو اس نے تجھے تیری بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں دیا اور وہ تجھ سے بائنہ (جدا) ہوجائے گی

بس اسی کا جواب چاہئے اس پر کچھ روشنی ڈال دیں جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اس حدیث میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد حالتِ حیض میں دی گئی تین متفرق طلاقیں ہیں جس کے بعد بیوی بائنہ یعنی ہمیشہ کے لئےجدا ہو جائیگی۔ اس طرح حالت حیض میں تین متفرق طلاقیں دینا بھی رب کی نافرمانی ہے۔ اسلئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حالت طہر میں تین متفرق طلاقیں دینے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ ابن عمر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اُس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے حالت حیض میں طلاق دی ہو تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث میں مذکورہ جواب دیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
صحیح مسلم کی اس روایت سے تین طلاق کے تین ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے اس پر روشنی ڈال دیں
Sahih Muslim Hadees # 3555:
"و حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَی ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَتِلْکَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ قَالَ فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنْ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ يَقُولُ أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوْ اثْنَتَيْنِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَی ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا وَأَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ عَصَيْتَ رَبَّکَ فِيمَا أَمَرَکَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِکَ وَبَانَتْ مِنْکَ"
زہیر بن حرب، اسماعیل، ایوب، حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرلے۔ پھر اسے چھوڑے رکھے۔ یہاں تک کہ اسے دوسرا حیض آئے۔ پھر بھی اسے چھونے سے پہلے طلاق دیدے۔ پس یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ عزوجل نے ان عورتوں کو حکم دیا ہے جنہیں طلاق دی گئی ہو ۔ نافع کہتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آدمی کے بارے میں پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی ہوتی تو وہ فرماتے تو نے ایک طلاق دی یا دو؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اسے حکم دیارجوع کرنے کا پھر اسے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ اسے دوسرا حیض آئے۔ پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ پاک ہوجائے۔ پھر اسے چھونے سے پہلے طلاق دے اور اگر تو نے اسے تین طلاقیں دے دیں تو تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس حکم میں جو اس نے تجھے تیری بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں دیا اور وہ تجھ سے بائنہ (جدا) ہوجائے گی۔
جزاک اللہ خیراً
شاید آپ نے اوپر والی تحریر ملاحظہ نہیں کی ، کیونکہ پوسٹ نمبر 5 میں دلیل نمبر 6 کے تحت بھی اس کا تفصیلی جواب گزر چکاتھا ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مگر ہمارے زمانے میں جہالت اور نا واقفیت اور شرعی تعلیمات سے دوری کے باعث صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہی اس وقت ہوتی ہے جب تین بار طلاق کا لفظ کہا جائے۔جس کی وجہ سے تین کے عدد کے ساتھ طلاق دیتے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوتو ہے تو کہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں ایسے شخص کی تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کرکے ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگانا چائیے۔
متفق۔
لیکن دیکھا جائے تو حضرت عمر رض کے فیصلے کی جو علت ہے وہ بھی بطریق اولی موجود ہے۔ اور حرام میں پڑنے سے احتیاط بھی اسی میں ہے۔ (از راہ کرم اس بات پر حلالہ کی بحث نہ کی جائے، میں سنجیدہ بات کر رہا ہوں۔)
تو میرا یہ خیال ہے کہ سائل کی حالت دیکھ کر فتوی دینا چاہیے۔ اگر وہ ظاہرا باشرع، عاقل اور دین دار معلوم ہوتا ہے تو ایک کا فتوی دینا چاہیے اور اگر اس کے یا اس کی بات کے ظاہر سے یہ لگتا ہے کہ اس نے غصے میں آ کر تین طلاقیں دی ہیں اور اب اپنی نیت کا اظہار غلط کر کے ایک کا فتوی لینا چاہ رہا ہے تو تین کا فتوی دینا چاہیے۔

لیکن یہ یاد رہے کہ یہ سب اس وقت ہے جب اس نے "طلاق، طلاق، طلاق" کہا ہو۔ اگر اس نے صراحت سے "تجھے تین طلاق ہے" کہا ہو تو اس میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ کے ہاں تین ہی ہوں گی۔
اہل حدیث حضرات کا موقف مجھے معلوم نہیں۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
شاید آپ نے اوپر والی تحریر ملاحظہ نہیں کی ، کیونکہ پوسٹ نمبر 5 میں دلیل نمبر 6 کے تحت بھی اس کا تفصیلی جواب گزر چکاتھا ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جی بھائی جان میں نے پڑھا لیکن پوسٹ نمبر ۵ میں دلیل نمبر ۶ کے تحت میری پیش کردہ روایت نہیں ہے بلکہ اس سے ملتی جلتی ہے میری روایت کا آخری حصہ ملاحظہ کریں

" اور اگر تو نے اسے تین طلاقیں دے دیں تو تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس حکم میں جو اس نے تجھے تیری بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں دیا اور وہ تجھ سے بائنہ (جدا) ہوجائے گی"

جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جی بھائی جان میں نے پڑھا لیکن پوسٹ نمبر ۵ میں دلیل نمبر ۶ کے تحت میری پیش کردہ روایت نہیں ہے بلکہ اس سے ملتی جلتی ہے میری روایت کا آخری حصہ ملاحظہ کریں

" اور اگر تو نے اسے تین طلاقیں دے دیں تو تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس حکم میں جو اس نے تجھے تیری بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں دیا اور وہ تجھ سے بائنہ (جدا) ہوجائے گی"

جزاک اللہ خیراً
وعلیکمالسلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اس حدیث میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد حالتِ حیض میں دی گئی تین متفرق طلاقیں ہیں جس کے بعد بیوی بائنہ یعنی ہمیشہ کے لئےجدا ہو جائیگی۔ اس طرح حالت حیض میں تین متفرق طلاقیں دینا بھی رب کی نافرمانی ہے۔ اسلئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حالت طہر میں تین متفرق طلاقیں دینے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ ابن عمر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اُس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے حالت حیض میں طلاق دی ہو تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث میں مذکورہ جواب دیا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
وعلیکمالسلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
اس حدیث میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد حالتِ حیض میں دی گئی تین متفرق طلاقیں ہیں جس کے بعد بیوی بائنہ یعنی ہمیشہ کے لئےجدا ہو جائیگی۔ اس طرح حالت حیض میں تین متفرق طلاقیں دینا بھی رب کی نافرمانی ہے۔ اسلئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حالت طہر میں تین متفرق طلاقیں دینے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ ابن عمر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اُس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا تھا جس نے حالت حیض میں طلاق دی ہو تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث میں مذکورہ جواب دیا۔
یہ مراد کیسے معلوم ہو رہی ہے؟
 
Top