محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
محترم ناظمین صاحبان اور قارئین کرام
ایک تحریری مکالمہ میرے اور میرے دوست کے درمیان ہوا تھا۔ جسے آپ کی نذر کرنا چاہ رہا ہوں۔ اگر کہیں غلطی ہو تو معاف فرما دیجیے۔ اور اگر انتظامیہ حذف کرنا چاہے تو بھی اس کو مکمل اختیار ہے۔
مکالمے کی روداد
میرے دوست نے لکھا
دوسری بات یہ کہ جمہوریت والے اپنے معبود کی بات نہیں مانتے۔ مقابلے میں مسلمان اپنے معبود کی بات نہیں مانتے۔
اپنے اپنے معبود کی بات نہ ماننے میں تو دونوں ہی مشترک ہیں۔
کیا کسی ’’اور‘‘ کی بات ماننے میں بھی مشترک ہیں؟ اور وہ ’’اور‘‘ کون ہے؟؟؟؟
چونکہ یہ اسلامی فورم ہے اور اسلام کی رو سے اس پر بات کرنا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے۔
عرض یہ ہے کہ اسلام برائی کو اس وقت ہاتھ سے منع کرنے، یا اس کے خلاف بات کرنے کا حکم دیتا ہے جب برائی ہو رہی ہو۔
دلیل:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (سورۃ النور:55)
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرماهے گاجیسا ان سے پہلے لوگوں کو بھی خلافت دے چکا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے اچھا ملک سعودی عرب ہے جہاں کے فرمانرواؤں نے توحید قائم کرنے اور حدود اللہ نافذ کرنے کے بعد بھی ’’خلیفہ‘‘ کا لقب اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اس کے معانی و مقام کو جانتے ہیں۔ ورنہ عباسیوں کی طرح وہ بھی ’’خلیفہ‘‘ کہلواتے۔
ہمارا کردار وہی ہونا چاہیے جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ جن کے کردار جیسے کردار کا تقاضا اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے:
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۰ۚ فَسَيَكْفِيْكَہُمُ اللہُ۰ۚ وَھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۱۳۷ۭ [٢:١٣٧]
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمہیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے ۔
طریقہ کار اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔
دلیل: رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کا فیصلہ کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا (مفہوم) ابوعبیدہ بن الجرح کو رسول اللہ ﷺ نے امین الامت قرار دیا ہے لہٰذا انہیں خلیفہ بنا لو۔ جبکہ ’’امین الامت‘‘ رضی اللہ عنہ نے ’’صدیق‘‘ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ابتدا فرمائی۔ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔
آج بھی انہی کے کردار کے حامل لوگ ہوں گے تو اللہ تعالی سے امید خلافت ہو سکتی ہے۔
کیونکہ
لوگوں کو گن گن کر حکومت کرنے والے آسمانی قانون کا مطالبہ کرنے والوں کو کیا کہتے ہیں ارشادِ باری تعالی ہے:
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَہُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا۰ۚ وَلَوْلَا رَہْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ۰ۡوَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ۹۱ [١١:٩١]
اُنہوں نے کہا کہ شعیب (علیہ السلام) تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو۔
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۰ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ۸۷ [١١:٨٧]
انہوں نے کہا شعیب (علیہ السلام) کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم ان کو ترک کر دیں یا اپنے مال میں تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو ۔
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا۰ۭ قَالَ اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِہِيْنَ۸۸ۣ [٧:٨٨]
(تو) ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے، وہ کہنے لگے کہ اے شعیب! (علیہ السلام) (یا تو) ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ انہوں نے کہا خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں (تو بھی؟)
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ۰ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَہَّرُوْنَ۵۶ [٢٧:٥٦]
تو ان کی قوم کے لوگ (بولے تو) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا کچھ جواب نہ تھا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کو اپنے شہر سے نکال دو۔ یہ لوگ پاک رہنا چاہتے ہیں۔
وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۰ۭ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۰ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۱۲۰ؔ [٢:١٢٠]
اور تم (ﷺ) سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔ (ان سے) کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور (اے پیغمبر ﷺ) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی الٰہی) کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو اللہ (کے عذاب) سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار ۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللہِ۰ۭ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّہَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ۷ۙ [٤٩:٧]
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے پیغمبر ﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن اللہ نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۱۱۶ [٦:١١٦]
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں، اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں اللہ کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں ۔
بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ یعنی سبھی گنہگار ہوں گے سوائے اُن کے جنہوں نے خلافت کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق عمل کیا، کوشش جاری رکھی، لوگوں کو بتایا اور اپنی زندگی کو اس سانچے میں ڈھال لیا۔ اللہ تعالی ہمیں انہی میں سے کرے۔ اس کا دوسرا رُخ سوالوں کے جواب کے بعد عرض کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
آپ کے سوال کا دوسرا جز ہے کہ اس (یعنی خلافت راشدہ) کے بعد اتنا لمبا عرصہ اور اب کا دور اس (خلافت) سے کیوں محروم رہا۔
عرض ہے کہ جو لوگ گزر گئے اُن پر بات کرنے سے پہلے ہمیں اپنا طرز عمل دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ اور ہم سے ہمارے اعمال کا سوال ہو گا اور اللہ تعالی بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ خلافت کے متعلق اگر ہمیں آگاہی ہو گئی ہے تو پھر ہمارے اعمال ہی اس کا فیصلہ کریں گے کہ ہم اسلامی نظام حکومت کے ساتھ کتنے مخلص تھے، ہیں اور ہوں گے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے دین کا فہم، اس پر عمل اور اس کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔
کیا ہم اسے قائم کرنے والے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر اللہ کے حکم سے اکثر چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ سمجھنے سمجھانے کے لئے تو بہت کچھ ہے۔ عمل اصل بات ہے۔
اب اس نکتے کی طرف آتا ہوں جس کا تذکرہ شروع میں کیا تھا کہ
’’اس کا دوسرا رُخ سوالوں کے جواب کے بعد عرض کروں گا‘‘۔
محترم بھائی: اللہ تعالی اپنی اس کتاب میں ارشاد فرماتا ہے جسے اُس وحدہ لا شریک نے ہماری طرف بھیجا ہے:
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۰ۭ (سورۃ المآئد:69)
کہو کہ اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔
اگر ہم سے پہلے لوگ آسمانی کتابوں (تورات و انجیل وغیرہ) کو اپنی زندگیوں میں قائم نہ کریں تو وہ صراطِ مستقیم سے دُور ہٹے ہوئے نظر آتے ہیں، اُن پر اللہ تعالی کی نعمتیں سایہ فگن نہ رہیں پوری دنیا پر اُن کی فضیلت اُن سے چھن جائے
تو سوچنا یہ ہو گا
کہ تورات و انجیل کی قرآن بھی اللہ تعالی کی کتاب ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی کوئی کتاب نازل نہیں ہو گی قیامت تک یہی دستورِ حیات پسند کیا گیا اور چلے گا۔ جب یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ آج کے مسلمان اللہ کی کتاب (قرآن اور اس کی شرح سنت نبوی ﷺ) کو قائم کئے بغیر اُس فضیلت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں جسے اللہ کی کتاب میں لکھا گیا تھا کہ
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (سورۃ آل عمران:110)
اسی سے متعلق دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ
آج ہمارے مبلغین کرام کم و بیش ہر خطبے میں
وخير الهدي هدي محمد (ﷺ)
کہتے ہیں اور عام طور پر دلیل کے طور پر جب یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں تو موضوع بحث نماز روزہ حج و زکوٰۃ وغیرہ ہی ہوتے ہیں۔
اسلامی نظام حکومت کے لئے دلیل دیتے وقت
وخير الهدي هدي محمد (ﷺ)
کے الفاظ صرف نظر کر دیتے ہیں۔
پوری حدیث اس طرح سے ہے۔
ويقول صلى الله عليه وعلى اله وسلم: "أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد وشر الأمور محدثاتها وكل محدثةٍ بدعة وكل بدعة ضلالة"(1) أخرجه مسلم وفى رواية للنسائي: "وكل ضلالة في النار"(2)
(1) أخرجه الإمام أحمد في مسنده في مسند المكثرين من الصحابة (14455)، ومسلم في كتاب الجمعة (1435)، والنسائي في كتاب صلاة العيدين (1560)، وابن ماجه في كتاب المقدمة (44)، والدارمي في كتاب المقدمة (208)، من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما.
(2) أخرجه النسائي في سننه، في كتاب صلاة العيدين، باب كيف الخطبة (1560)، من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنه.
کہنا تو اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اکتاہٹ کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ وحدہ لا شریک اللہ ہمیں ضرور بھر ضرور اس راستے پر چلائے گا جو اسلامی نظام حکومت پر منتج ہو گا۔ اللہ تعالی قبول و منظور فرما لے۔ آمین
ایک تحریری مکالمہ میرے اور میرے دوست کے درمیان ہوا تھا۔ جسے آپ کی نذر کرنا چاہ رہا ہوں۔ اگر کہیں غلطی ہو تو معاف فرما دیجیے۔ اور اگر انتظامیہ حذف کرنا چاہے تو بھی اس کو مکمل اختیار ہے۔
مکالمے کی روداد
میرے دوست نے لکھا
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آج کل جمہوریت کے حوالے سے کافی مثبت گفتگو ہو رہی ہے .
اس میں کوئی شک نہی کہ قران و حدیث ہی اسلامی طرز حکومت کا منبع ہونا چاہیے. میرا موضوع شروع کرنے مقصد کچھ اپنے ذہن میں آنے والے سوالات کا جواب حاصل کرنا ہے. امید ہے اہل علم ضرور روشنی ڈالیں گے. انشااللہ
اسلامی حکومت
اسلامی طرز حکومت کیا ہے؟
کیا مشاورت ہی اس کا حل ہے؟ اور مشاورت کے لیے لوگوں کو کون منتخب کرے گا؟
اس موجودہ دور میں کوئی صحیح اسلامی ریاست اپنا کوئی وجود رکھتی ہے؟
پاکستان میں اسلامی حکومت
پاکستان میں صحیح اسلامی حکومت کیسے آ سکتی ہے ؟ اس میں ھمارا کیا کردار ہونا چاہیے؟
پاکستان میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رھتے ہیں، اس صورت میں ایک نکتہ پر عملی طور پر کس طرح اکٹھے ہوا جا سکتا ہے؟
ملک میں صحیح اسلامی حکومت قائم کرنے کا کم سے کم وقت میں کیا طریقہ ہو گا؟
ملک میں کونسے افراد یہ فیصلہ کریں گے کہ فلاں فلاں افراد حکومت سنبھالنے کے اھل ہیں؟
کیا علما نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے لیے افراد تیار کرنے کی کوشش کی ہے؟
اگر کوئی جمہوریت کا حامی نہ ہو تو وہ کس قسم کی جدوجہد کرے کہ اسلامی حکومت کی راہ ھموار ہو؟
اگر موجودہ جمہوریت سے اچھے افراد آجائيں اور وہ قران حدیث کا قانون نافذ کر دیں تو کیا یہ صحیح ہو گا؟
][size="4 نے کہا ہے:
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
محترم اسحاق بھائی!
اللہ تعالی آپ کو خوش و خرم رکھے اور ہم سب کو حق بات سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
پوری دنیا کے انسانوں کا علم وقت کے کسی ایک نبی علیہ کے علم کے برابر نہیں ہوتا۔ اور تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام کا تمام علم محمد رسول اللہ ﷺ کے علم کے برابر نہیں۔
علم کی وجہ ہی سے آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت ملی۔ مثلاً: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ كُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰىِٕكَۃِ۰ فَقَالَ اَنْۢبِــُٔـوْنِىْ بِاَسْمَاءِ ھٰٓؤُلَاءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (سورة البقرة :۳۱)
اور بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت ملی۔ چنانچہ ارشاد ہے:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ۰ (سورة البقرة:۲۵۳)
اسی طرح عام انسانوں میں بعض کو بعض پر فضیلت کی ایک وجہ علم بھی ہے۔ بعض انسان حساب و کتاب کے ماہر ہیں لیکن تاریخ، جغرافیہ، ادب سے ناواقف۔ بعض کا شعبہ طب ہے، وہ طبیب ہیں تو بہت سے اس فن سے نابلد۔ طبیب کو انجینئرنگ کی خبر نہیں۔ علی ھذا القیاس۔ بعض لوگوں کو عطیہ الٰہی کی شکل میں سیاسی سوجھ بوجھ عطا ہوتی ہے حالانکہ وہ دین کا علم برائے نام ہی رکھتے ہیں جبکہ دنیاوی علوم سے بالکل ہی بے بہرہ۔
اللہ رب العزت نے نفاذ اسلام کے فرمان کو جن آیات میں بیان فرمایا وہ ہیں:
(1) ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا (سورة الفتح:۲۸)
(اللہ!) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر (ﷺ) کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ (ترجمہ فتح محمد جالندھری)
(2) ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ (سورة الصف:۹)
(اللہ!) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے باقی سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔ (ترجمہ فتح محمد جالندھری)
(3) ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ (سورة التوبہ:۳۳)
(اللہ!) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے۔ اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔ (ترجمہ فتح محمد جالندھری)
مندرجہ بالا آیات میں پائی جانے والی تنفیذ دین کی بات کو سمجھنا ہر عاقل و بالغ، مسلم، مرد و عورت، عالم و عوام الناس کو اپنے اپنے حصے کے مطابق ضروری ہے۔ عورت کو اگر گھر میں بیٹھنے کا حکم دیا ہے تو ساتھ میں دین کے بہت سے احکامات بھی دیئے ہیں کہ گھر میں رہ کر عورت یہ یہ کام کرے اور فلاں فلاں کام کی نگران ہے جس کی اس سے بازپرس کی جائے گی۔ اس اس چیز کی امین ہے اور وہ اس امانت کو ادا کرنے پر ثواب کی مستحق ہو گی۔ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح سے مسلم مرد کے ذمے عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داریاں قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہیں۔ نماز باجماعت سے شروع کر کے اُمور خلافت سب کی سب ذمہ داریاں مردوں پر ڈالی گئی ہیں۔ ان کے درمیان میں جتنے احکامات ہیں وہ بھی مردوں نے ہی انجام دینے ہیں۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انسانوں کا علم ایک جیسا نہیں، طبیعت، مزاج ایک جیسا نہیں، سوچ فکر اور سعی و کوشش وغیرہ وغیرہ ایک نہیں جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: اِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتّٰى۴ۭ [٩٢:٤] کہ تم لوگوں کی کوششں طرح طرح کی ہے۔ تو پھر ایک نظام میں سب کو جکڑ دینا کیسے ممکن ہے۔
میرے خیال میں اس کا جواب کچھ اس طرح سے بھی دیا جا سکتا ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین نے تمام انسانوں کو تخلیق کیا اور انسانوں کی فطرت و عادات اور صلاحیتوں کے مطابق ہی اپنا آخری نظام محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف یہ کہ خود ہی اس پر عمل کیا بلکہ مختلف قسم کے لوگ اور مختلف ثقافت و رنگ و نسل کے لوگوں کو اللہ تعالی کا نظام سکھایا اور اس دنیا میں اللہ کی نصرت و حکم سے نافذ فرمایا۔
ایک سوال ذہن میں اس طرح بھی اُبھرتا ہے کہ پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ نے اگر اسلام کو نافذ کیا تو کیا اس لئے کیا کہ لوگ کی اکثریت چاہتی تھی؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کیا رسول اللہ ﷺ نے اپنی چاہت سے نظام اسلام نافذ فرمایا؟ میرے خیال میں اس کا صحیح جواب کچھ اس طرح ہو گا کہ ہرگز ہرگز ایسی بات نہیں بلکہ تاجدارِ انبیاء محمد رسول اللہ ﷺ نے نظام اسلام اللہ تعالی جل جلالہ کے حکم سے نافذ فرمایا۔
میرے خیال میں آپ کو میں نے ایک نکتہ سمجھا دیا ہے۔
اگر آپ پسند کریں تو مثال اس طرح سے دے سکتا ہوں کہ ایک شخص نماز اس لئے پڑھے کہ اس کا دل چاہتا ہے جبکہ دوسرا شخص نماز اس لئے پڑھے کہ یہ اللہ تعالی کا حکم ہے اور مجھ پر فرض ہے تو دونوں نے کام تو ایک ہی کیا لیکن اجر ایک جیسا نہیں۔ جس نے دل کے کہے سے نماز پڑھی ہو گی وہ اسے چھوڑ بھی سکتا ہے۔ اور دل کی چاہت سے کسی بھی مروجہ مسلک کی طرح نماز پڑھ سکتا ہے۔ اس کے اجر و ثواب پر میں بحث نہیں کرتا، وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہاں جس نے اللہ کے لئے نماز پڑھی ہے وہ ہاتھ اُٹھا کر اللہ کے حضور اس طرح سے دُعا ضرور کر سکتا ہے مالک الملک تیرا حکم مان کر تیرے نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق نماز ادا کی ہے تو قبول فرما لے۔ گویا کہ نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق نماز پڑھنا دلیل ہے اللہ کے حکم کو ماننے کی۔ اور ایسا شخص اللہ تعالی سے ڈر اور محبت کی وجہ سے ہمیشہ نماز پڑھے گا جب بھی اس کی زندگی میں نماز کا وقت ہو گا۔ کنڈیشن بھلے کچھ بھی ہو۔ خطہ ارضی کوئی سا بھی ہو۔ غمی ہو یا خوشی ہو۔ سردی ہو یا گرمی۔ وقت پر نماز اللہ کا فریضہ سمجھ کر ادا کرنے سے ہی فرض ادا ہو گا اور اللہ تعالی کا ڈر اور اس سے محبت کی دلیل کا دعوی ہو گا۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص، ادارہ، گروہ جماعت وغیرہ وغیرہ نظام اسلام اس لئے نافذ کریں کہ یہ لوگوں کی ڈیمانڈ ہے تو ان کا معاملہ کچھ اور ہو گا۔ جبکہ اس نظام کو اگر اللہ کا حکم جان کر نافذ کیا جائے تو مندرجہ بالا مثال کی طرح اللہ کے خوف اور اس کی محبت کی خاطر جب اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے گا تو اُس کا طریقہ صرف اور صرف وہی قابل قبول ہو گا جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور محمد رسول اللہ ﷺ نے عملاً نافذ کیا۔ ھذا ما عندی۔ و اللہ اعلم بالصواب۔
یہاں تک تو مثبت باتیں تھیں۔ اور ’’ٹو۔ دی۔ پوائنٹ‘‘ جواب نہیں دیا گیا۔ اگر یہ فورم اس چیز کا متحمل ہو تو بتا دیں کہ مثبت کی ضد سے اسلامی نظام حکومت کے قیام کو بیان کر دیتے ہیں کیونکہ چیزیں اپنی ضد سے بھی جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ مثلاً غصہ اور پیار۔ دھوپ اور چھاؤں۔ زندہ اور مردہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یا اگر آپ ’’ٹو۔ دی۔ پوائنٹ‘‘ جواب پسند کریں تو اس طرح بھی لکھا جا سکتا ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔
[/size]
چلیے ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ
اسلام میں معبود کا نام اللہ اور جمہوریت کے معبود کا نام عوام ہے۔ میں نے جمہوریت کو بدترین سیاسی نظام کہا ہے۔ اس لیے کہ اس میں عوام کا نام لے کر عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے جمہوریت عوام کی حاکمیت ہے، حالانکہ دنیا کے کسی خطے میں عوام کی حاکمیت ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہیں ہوسکی۔
سوال یہ ہے کہ کیا برصغیر میں مسلمانوں نے اپنے معاشرے میں قرون اولی کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی خلافت الٰہیہ قائم کی ہے؟ یا خلافت کا حصے رہے ہیں؟][color="navy نے کہا ہے:
حالانکہ دنیا کے کسی خطے میں عوام کی حاکمیت ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہیں ہوسکی۔
[/color]
دوسری بات یہ کہ جمہوریت والے اپنے معبود کی بات نہیں مانتے۔ مقابلے میں مسلمان اپنے معبود کی بات نہیں مانتے۔
اپنے اپنے معبود کی بات نہ ماننے میں تو دونوں ہی مشترک ہیں۔
کیا کسی ’’اور‘‘ کی بات ماننے میں بھی مشترک ہیں؟ اور وہ ’’اور‘‘ کون ہے؟؟؟؟
ابتسامہ ۔ چلو جی ۔ قصہ ہی ختم ۔ اب محمد علی جناح کے بھی کچھ ایسے الفاظ تلاش کیے جائیں توکہانی بالکل ختم ہو سکتی ہے ۔ ۔
اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال جمہوریت کے خلاف تھے تو پھر وہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کے مفکر کیسے ٹھہرے؟
شاید عبدالقہار محسن صاحب کے الفاظ سبقت نظر کا شکار ہو گئے ہیں۔
عبدالقہار صاحب کے کہنے کا مطلب تھا کہ
اقبال نے صرف ’’پاکستان‘‘ کا تصور پیش کیا تھا۔
’’اسلامی جمہوریہ ‘‘ کے الفاظ مفکر پاکستان اقبال کے تصورِ پاکستان میں کس طرح، کب، کیسے اور کہاں سے آئے۔
سوال دہرایا جاتا ہے؟بہت بہت شکریہ،
آپ ضرور لکھیں،
بہت بہت شکریہ جناب۔
اگر آپ ’’ٹو۔ دی۔ پوائنٹ‘‘ جواب پسند کریں تو اس طرح بھی لکھا جا سکتا ہے۔
چونکہ یہ اسلامی فورم ہے اور اسلام کی رو سے اس پر بات کرنا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے۔
عرض یہ ہے کہ اسلام برائی کو اس وقت ہاتھ سے منع کرنے، یا اس کے خلاف بات کرنے کا حکم دیتا ہے جب برائی ہو رہی ہو۔
خلافت ہی اسلامی حکومت اور اسلامی طرز حکومت ہےاسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
آج کل جمہوریت کے حوالے سے کافی مثبت گفتگو ہو رھی ہے .
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و حدیث ہی اسلامی طرز حکومت کا منبع ہونا چاہیے۔ میرا موضوع شروع کرنے مقصد کچھ اپنے ذہن میں آنے والے سوالات کا جواب حاصل کرنا ہے. امید ہے اہل علم ضرور روشنی ڈالیں گے. انشااللہ
اسلامی حکومت
اسلامی طرز حکومت کیا ہے؟
دلیل:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ (سورۃ النور:55)
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا فرماهے گاجیسا ان سے پہلے لوگوں کو بھی خلافت دے چکا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
جی بالکل بجا فرمایا آپ نے کہ مشاورت ہی اس کا حل ہے۔ دلیل: امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مشاورت کے لئے چنا جس وقت کہ لشکر اسامہ کی روانگی تذبذب کا شکار ہو رہی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ فرما دیا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے ایسے لوگوں کو مشیر مقرر فرمایا جو قرآن و سنت کے سب سے زیادہ عالم باعمل تھے اور کسی جاہ و جلال حکومت وغیرہ کو اللہ کے احکامات کے مقابلے میں خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ مثلاً سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیگر بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مقدم کرنا اور مشیر بنانا۔ وغیرہ وغیرہ۔کیا مشاورت ہی اس کا حل ہے؟ اور مشاورت کے لیے لوگوں کو کون منتخب کرے گا؟
یہ ایک ایسا فتوی ہے جس پر آج اُمت مسلمہ کے بہترین لوگ ’’اہل الحدیث‘‘ بھی تذبذب کا شکار اور چشم پوشی کرتے نظر آتے ہیں۔اس موجودہ دور میں کوئی صحیح اسلامی ریاست اپنا کوئی وجود رکھتی ہے؟۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے اچھا ملک سعودی عرب ہے جہاں کے فرمانرواؤں نے توحید قائم کرنے اور حدود اللہ نافذ کرنے کے بعد بھی ’’خلیفہ‘‘ کا لقب اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اس کے معانی و مقام کو جانتے ہیں۔ ورنہ عباسیوں کی طرح وہ بھی ’’خلیفہ‘‘ کہلواتے۔
اللہ کرے ہم اسلامی حکومت قائم کرنے والے بن جائیں۔ کیا آپ تیار ہیں؟پاکستان میں اسلامی حکومت
اسی طریقے سے جس طریقے پر چل کر محمد رسول اللہ ﷺ نے اسلامی حکومت قائم کی۔پاکستان میں صحیح اسلامی حکومت کیسے آ سکتی ہے ؟ اس میں ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے؟
ہمارا کردار وہی ہونا چاہیے جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تھا۔ جن کے کردار جیسے کردار کا تقاضا اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے:
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۰ۚ فَسَيَكْفِيْكَہُمُ اللہُ۰ۚ وَھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۱۳۷ۭ [٢:١٣٧]
تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمہیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے ۔
نکتہ توحید ہی وہ نکتہ ہے جس پر لوگ جمع ہو سکتے ہیں۔ اور یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اسی نکتہ پر مختلف قبائل اور رنگ و نسل کے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ کوئی کر کے تو دیکھے۔پاکستان میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے ہیں، اس صورت میں ایک نکتہ پر عملی طور پر کس طرح اکٹھے ہوا جا سکتا ہے؟
کس کے حصے میں کیا آتا ہے اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ وقت کے وہم سے نکل کر اپنے حصے کا کام کیجیے۔ اللہ جب چاہے گا مقصود حاصل ہو جائے گا۔ملک میں صحیح اسلامی حکومت قائم کرنے کا کم سے کم وقت میں کیا طریقہ ہو گا؟
طریقہ کار اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔
صادق و امین قسم کے لوگ یہ فیصلہ کریں گے۔ملک میں کونسے افراد یہ فیصلہ کریں گے کہ فلاں فلاں افراد حکومت سنبھالنے کے اہل ہیں؟
دلیل: رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کا فیصلہ کرتے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا (مفہوم) ابوعبیدہ بن الجرح کو رسول اللہ ﷺ نے امین الامت قرار دیا ہے لہٰذا انہیں خلیفہ بنا لو۔ جبکہ ’’امین الامت‘‘ رضی اللہ عنہ نے ’’صدیق‘‘ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ابتدا فرمائی۔ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔
آج بھی انہی کے کردار کے حامل لوگ ہوں گے تو اللہ تعالی سے امید خلافت ہو سکتی ہے۔
سوال و جواب کے زمرے میں یہ سوال پوچھئے۔ جواب ملے تو ٹھیک ورنہ خود مطالعہ کیجیے۔ ڈھونڈ نکالیے ایسے لوگوں کو۔ اور ایسا کرنے سے ہی ہو گا صرف سلوگن سے بات نہیں بنے گی۔کیا علما نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے لیے افراد تیار کرنے کی کوشش کی ہے؟
اس کا جواب سابقہ سوالوں کے جواب میں آ چکا ہے ملاحظہ فرمائیے۔اگر کوئی جمہوریت کا حامی نہ ہو تو وہ کس قسم کی جدوجہد کرے کہ اسلامی حکومت کی راہ ہموار ہو؟
شاید اسی طرح کی باتیں سوچ سوچ کر ہی کوئی انسان شیخ چلی کا لقب پا چکا ہے۔اگر موجودہ جمہوریت سے اچھے افراد آجائيں اور وہ قرآن حدیث کا قانون نافذ کر دیں تو کیا یہ صحیح ہو گا؟
کیونکہ
لوگوں کو گن گن کر حکومت کرنے والے آسمانی قانون کا مطالبہ کرنے والوں کو کیا کہتے ہیں ارشادِ باری تعالی ہے:
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَہُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا۰ۚ وَلَوْلَا رَہْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ۰ۡوَمَآ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ۹۱ [١١:٩١]
اُنہوں نے کہا کہ شعیب (علیہ السلام) تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو۔
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۰ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ۸۷ [١١:٨٧]
انہوں نے کہا شعیب (علیہ السلام) کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم ان کو ترک کر دیں یا اپنے مال میں تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو ۔
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا۰ۭ قَالَ اَوَلَوْ كُنَّا كٰرِہِيْنَ۸۸ۣ [٧:٨٨]
(تو) ان کی قوم میں جو لوگ سردار اور بڑے آدمی تھے، وہ کہنے لگے کہ اے شعیب! (علیہ السلام) (یا تو) ہم تم کو اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں، ان کو اپنے شہر سے نکال دیں گے۔ یا تم ہمارے مذہب میں آجاؤ۔ انہوں نے کہا خواہ ہم (تمہارے دین سے) بیزار ہی ہوں (تو بھی؟)
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ۰ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَہَّرُوْنَ۵۶ [٢٧:٥٦]
تو ان کی قوم کے لوگ (بولے تو) یہ بولے اور اس کے سوا ان کا کچھ جواب نہ تھا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کو اپنے شہر سے نکال دو۔ یہ لوگ پاک رہنا چاہتے ہیں۔
وَلَنْ تَرْضٰى عَنْكَ الْيَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ۰ۭ قُلْ اِنَّ ھُدَى اللہِ ھُوَالْہُدٰى۰ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۱۲۰ؔ [٢:١٢٠]
اور تم (ﷺ) سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔ (ان سے) کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور (اے پیغمبر ﷺ) اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی الٰہی) کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو اللہ (کے عذاب) سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار ۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللہِ۰ۭ لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰكِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّہَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ۷ۙ [٤٩:٧]
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے پیغمبر ﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن اللہ نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں۔
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ۱۱۶ [٦:١١٦]
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں، اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں اللہ کا رستہ بھلا دیں گے یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں ۔
تکرار سے بچنے کے لئے صرف نئی چیز پر اپنی فہم کے مطابق عرض کروں گا کہاس ریاست کی تشکیل تک کیا سبھی گناہگار ہونگے؟
بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ یعنی سبھی گنہگار ہوں گے سوائے اُن کے جنہوں نے خلافت کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق عمل کیا، کوشش جاری رکھی، لوگوں کو بتایا اور اپنی زندگی کو اس سانچے میں ڈھال لیا۔ اللہ تعالی ہمیں انہی میں سے کرے۔ اس کا دوسرا رُخ سوالوں کے جواب کے بعد عرض کروں گا۔ ان شاء اللہ۔
یہ دراصل دو سوال ہیں۔ پہلا یہ کہ خلافت راشدہ ہی صحیح اسلامی نظام حکومت کی اعلی ترین شکل ہے۔ اور قیامت تک یہ مثال ہی رہے گی۔ بعد میں جس جس حکمران نے خلافت راشدہ کو مشعل راہ بنایا اللہ تعالی نے اُن کی عزت و تکریم دنیا میں باقی رکھی ہے۔ مثلاً عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ۔ وغیرہ۔ایک اور سوال اٹھتا ہے، کیا اسلام کا آفاقی نظام خلافت راشدہ یا اس کے بعد کچھ عرصہ تک ہی محدود رھا؟ اس کے بعد کا اتنا لمبا عرصہ اور اب کا دور اس سے کیوں محروم رھا؟
آپ کے سوال کا دوسرا جز ہے کہ اس (یعنی خلافت راشدہ) کے بعد اتنا لمبا عرصہ اور اب کا دور اس (خلافت) سے کیوں محروم رہا۔
عرض ہے کہ جو لوگ گزر گئے اُن پر بات کرنے سے پہلے ہمیں اپنا طرز عمل دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ اور ہم سے ہمارے اعمال کا سوال ہو گا اور اللہ تعالی بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ خلافت کے متعلق اگر ہمیں آگاہی ہو گئی ہے تو پھر ہمارے اعمال ہی اس کا فیصلہ کریں گے کہ ہم اسلامی نظام حکومت کے ساتھ کتنے مخلص تھے، ہیں اور ہوں گے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنے دین کا فہم، اس پر عمل اور اس کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔
میرے خیال میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اسلام کل بھی غالب تھا۔ اس کی تعلیمات آج بھی غالب ہیں۔ اور قیامت تک رہیں گی۔ اسلام کو ماننے والوں کی بداعمالیاں اور اسلامی نظام حکومت سے دو رُخی، دُوری اور بیزاری اصل وجوہ ہیں۔ اسلام نہ تو کبھی جھکا ہے اور نہ جھکے گا۔ اسلام کو ماننے والے جھک جائیں تو اور بات ہے۔ اسلامی نظام حکومت کل بھی اظہر من الشمس تھا آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔کیا خلافت یا اسلامی ریاست کے خلاف قوتیں ھمیشہ سے ہی غالب رھی ہیں اور رھیں گی؟
کیا ہم اسے قائم کرنے والے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر اللہ کے حکم سے اکثر چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔ سمجھنے سمجھانے کے لئے تو بہت کچھ ہے۔ عمل اصل بات ہے۔
اب اس نکتے کی طرف آتا ہوں جس کا تذکرہ شروع میں کیا تھا کہ
’’اس کا دوسرا رُخ سوالوں کے جواب کے بعد عرض کروں گا‘‘۔
محترم بھائی: اللہ تعالی اپنی اس کتاب میں ارشاد فرماتا ہے جسے اُس وحدہ لا شریک نے ہماری طرف بھیجا ہے:
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۰ۭ (سورۃ المآئد:69)
کہو کہ اے اہل کتاب! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔
اگر ہم سے پہلے لوگ آسمانی کتابوں (تورات و انجیل وغیرہ) کو اپنی زندگیوں میں قائم نہ کریں تو وہ صراطِ مستقیم سے دُور ہٹے ہوئے نظر آتے ہیں، اُن پر اللہ تعالی کی نعمتیں سایہ فگن نہ رہیں پوری دنیا پر اُن کی فضیلت اُن سے چھن جائے
تو سوچنا یہ ہو گا
کہ تورات و انجیل کی قرآن بھی اللہ تعالی کی کتاب ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی کوئی کتاب نازل نہیں ہو گی قیامت تک یہی دستورِ حیات پسند کیا گیا اور چلے گا۔ جب یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ آج کے مسلمان اللہ کی کتاب (قرآن اور اس کی شرح سنت نبوی ﷺ) کو قائم کئے بغیر اُس فضیلت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں جسے اللہ کی کتاب میں لکھا گیا تھا کہ
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (سورۃ آل عمران:110)
اسی سے متعلق دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ
آج ہمارے مبلغین کرام کم و بیش ہر خطبے میں
وخير الهدي هدي محمد (ﷺ)
کہتے ہیں اور عام طور پر دلیل کے طور پر جب یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں تو موضوع بحث نماز روزہ حج و زکوٰۃ وغیرہ ہی ہوتے ہیں۔
اسلامی نظام حکومت کے لئے دلیل دیتے وقت
وخير الهدي هدي محمد (ﷺ)
کے الفاظ صرف نظر کر دیتے ہیں۔
پوری حدیث اس طرح سے ہے۔
ويقول صلى الله عليه وعلى اله وسلم: "أما بعد فإن خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد وشر الأمور محدثاتها وكل محدثةٍ بدعة وكل بدعة ضلالة"(1) أخرجه مسلم وفى رواية للنسائي: "وكل ضلالة في النار"(2)
(1) أخرجه الإمام أحمد في مسنده في مسند المكثرين من الصحابة (14455)، ومسلم في كتاب الجمعة (1435)، والنسائي في كتاب صلاة العيدين (1560)، وابن ماجه في كتاب المقدمة (44)، والدارمي في كتاب المقدمة (208)، من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما.
(2) أخرجه النسائي في سننه، في كتاب صلاة العيدين، باب كيف الخطبة (1560)، من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنه.
کہنا تو اور بھی بہت کچھ تھا لیکن اکتاہٹ کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ وحدہ لا شریک اللہ ہمیں ضرور بھر ضرور اس راستے پر چلائے گا جو اسلامی نظام حکومت پر منتج ہو گا۔ اللہ تعالی قبول و منظور فرما لے۔ آمین