- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو تعلیم دی تھی ،کہ :
کوئی چیز بیچنے ۔۔اور خریدنے والا جب تک جدا نہ ہوں ۔اس وقت تک انہیں یہ سودا منسوخ کرنے یعنی واپسی کا اختیار ہے ۔
اس پر کئی احادیث موجود ہیں:
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " المتبايعان بالخيار ما لم يفترقا إلا ان تكون صفقة خيار ولا يحل له ان يفارق صاحبه خشية ان يستقيله ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر جب بیع خیار ہو، (تو جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) بائع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے“۔
(سنن ابی داود حدیث نمبر: 3456 )
نیز ملاحظہ ہو : سنن الترمذی/البیوع ۲۶ (۱۲۴۷)، سنن النسائی/البیوع ۹ (۴۴۸۸)، (تحفة الأشراف: ۸۷۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۳) (حسن)
اور سنن ترمذی میں سیدنا ابن عمر سے یہی ارشاد نبوی موجود ہے :
عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يختارا»
«حديث ابن عمر حديث حسن صحيح»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن حنفی مقلدین نے اس کے الٹ ہی قانون وضع فرما لیا ہے :
اور علی الاعلان کہتے ہیں ۔کہ ہم اس مسئلہ میں نہ حدیث کی مانتے ہیں ،اور نہ جمہور امت کی ؛؛
مولوی محمود الحسن صاحب فرماتے ہیں :
’’ بیع خیار ‘‘ کے مسئلہ میں جو کہ اہم مسائل میں ایک ہے ، اس میں ابو حنیفہ نے جمہور امت کے خلاف فتوی دیا ہے ؛
اور بہت سارے علماء نے اس مسئلہ پر ان کے مذہب کی تردید میں رسائل و کتب لکھی ہیں ؛
اور ہمارے ’’ مولا ‘‘ شاہ ولی اللہ نے شرعی دلائل اور احادیث کی بناء پر امام شافعی ؒ کے قول کو ترجیح دی ہے ؛
اور ہمارے شیخ مد ظلہ نے بھی نصوص کے حوالے سے انہی کے مذہب کو ترجیح دی ہے ،،اور فرمایا ہے کہ :
حق اور انصاف تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کا قول و مذہب لائق ترجیح ہے۔۔۔۔لیکن ہم ٹھہرے امام ابو حنیفہ کے مقلد ۔۔
ہم پر ( ان کا مقلد ہونے کے ناطے ۔۔دلیل کی نہیں بلکہ ) اپنے امام کی تقلید واجب ہے؛؛
کوئی چیز بیچنے ۔۔اور خریدنے والا جب تک جدا نہ ہوں ۔اس وقت تک انہیں یہ سودا منسوخ کرنے یعنی واپسی کا اختیار ہے ۔
اس پر کئی احادیث موجود ہیں:
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " المتبايعان بالخيار ما لم يفترقا إلا ان تكون صفقة خيار ولا يحل له ان يفارق صاحبه خشية ان يستقيله ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرید و فروخت کرنے والے دونوں جب تک جدا نہ ہوں معاملہ ختم کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں، مگر جب بیع خیار ہو، (تو جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے) بائع و مشتری دونوں میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ چیز کو پھیر دینے کے ڈر سے اپنے ساتھی کے پاس سے اٹھ کر چلا جائے“۔
(سنن ابی داود حدیث نمبر: 3456 )
نیز ملاحظہ ہو : سنن الترمذی/البیوع ۲۶ (۱۲۴۷)، سنن النسائی/البیوع ۹ (۴۴۸۸)، (تحفة الأشراف: ۸۷۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۳) (حسن)
اور سنن ترمذی میں سیدنا ابن عمر سے یہی ارشاد نبوی موجود ہے :
عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «البيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو يختارا»
«حديث ابن عمر حديث حسن صحيح»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن حنفی مقلدین نے اس کے الٹ ہی قانون وضع فرما لیا ہے :
اور علی الاعلان کہتے ہیں ۔کہ ہم اس مسئلہ میں نہ حدیث کی مانتے ہیں ،اور نہ جمہور امت کی ؛؛
مولوی محمود الحسن صاحب فرماتے ہیں :
’’ بیع خیار ‘‘ کے مسئلہ میں جو کہ اہم مسائل میں ایک ہے ، اس میں ابو حنیفہ نے جمہور امت کے خلاف فتوی دیا ہے ؛
اور بہت سارے علماء نے اس مسئلہ پر ان کے مذہب کی تردید میں رسائل و کتب لکھی ہیں ؛
اور ہمارے ’’ مولا ‘‘ شاہ ولی اللہ نے شرعی دلائل اور احادیث کی بناء پر امام شافعی ؒ کے قول کو ترجیح دی ہے ؛
اور ہمارے شیخ مد ظلہ نے بھی نصوص کے حوالے سے انہی کے مذہب کو ترجیح دی ہے ،،اور فرمایا ہے کہ :
حق اور انصاف تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کا قول و مذہب لائق ترجیح ہے۔۔۔۔لیکن ہم ٹھہرے امام ابو حنیفہ کے مقلد ۔۔
ہم پر ( ان کا مقلد ہونے کے ناطے ۔۔دلیل کی نہیں بلکہ ) اپنے امام کی تقلید واجب ہے؛؛
Last edited: