• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک وہابی عالم کا کہناہے کہ دیوبندی ----- ؟؟؟؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
ایک وہابی عالم کا کہناہے کہ دیوبندی ----- ؟؟؟؟؟؟


ایک وہابی عالم کا کہناہے کہ دیوبندی ویسے تو کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام کی راہ پر چلتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے ہیں ۔ اگر صحابہ کرام کی راہ پرہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کس کے مقلد تھے؟ اسی طرح حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کس کے مقلد تھے؟ اور ان کے امام اعظم کون تھے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ؟

Apr 30,2008 Answer: 3534
فتوی: 326/ ل= 5/ تل

اس سوال کو سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی اور یہ دو گروہ تھے، مجتہد اور مقلد یہ سب صحابہ عربی داں تھے، لیکن بقول ابن القیم ان میں اصحابِ فتویٰ صرف ۱۴۹ تھے، جن میں سے سات مکثرین ہیں یعنی انھوں نے بہت زیادہ فتوے دیئے ۲۰/صحابہ متوسطین میں ہیں، جنھوں نے کئی ایک فتوے دیے ۔ ۱۲۲ مقلین ہیں، جنھوں نے بہت کم فتوے دیے، ان مفتی صحابہٴ کرام کے ہزاروں فتاویٰ مصنف ابن ابی شبیہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں ان مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطورِ دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہ نے بلا مطالبہ دلیل ان کے اجتہادی فتاویٰ پر عمل کیا، اسی کا نام تقلید ہے، ان مفتی صحابہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ثم إنھم تفرقوا فی البلاد وصار کل واحد مقتدی ناحیة من النواحي کہ صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہرعلاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ (الانصاف:۳) بحوالہ مطالعہ غیر مقلدیت۔ مثلاً مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینے میں حضرت زید بن ثابت کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی، اسی طرح تابعی عالم کا مذہب قرار پایا اور ہرشہر میں ایک امام ہوگیا، لوگ اس کی تقلید کرتے اور بعد میں چل کر پوری امت نے یا ان میں سے قابل لحاظ لوگوں نے (یعنی اہل حق نے) ان چارمدون و منقح مذاہب کی تقلید کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور یہ اجماع آج تک مستمر ہے اوراس تقلید میں وہ مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں، خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں پست ہوچکی ہیں اور نفوس میں خواہشات پلادیئے گئے اور ہرذی رائے اپنی رائے پر ناز کرتا ہے منھا أن ھذہ المذاہب الأربعة المدوّنة المحررة قد أجمعت الأمة أو من یعتد بہ منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا وفي ذلک من المصالح ما لا یخفی الخ (حجة اللہ البالغة ج۱ ص۴۳۱، ط دیوبند) مذکورہ بالا تحریرات سے پتہ چلا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے اور سوال میں درج اجلاء صحابہٴ کرام کے کسی کی تقلید کیے بغیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے مسائل استنباط کرکے ان پر عمل کرنے سے عام حکم لگادینا کہ تقلید ائمہ ضروری نہیں ہے، سراسر غلط اور کم علمی ہے کیونکہ یہ حضرات خود اجتہاد کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور دوسروں میں یہ بات نہیں ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اس سوال کو سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی اور یہ دو گروہ تھے، مجتہد اور مقلد یہ سب صحابہ عربی داں تھے
استغفراللہ
اس آدمی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو بھی "مقلد" کہہ دیا، مقلد وہ ہوتا ہے جو کسی فرد کی کتاب و سنت کے خلاف بات کو قبول کرے، کیا معاذاللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین بھی کسی کی بات کتاب و سنت کے خلاف مان لیتے تھے؟ دیکھیں کس قدر اس آدمی نے اپنے مذموم عقائد کو ثابت کرنے کے لئے صحابہ پر بھی بہتان لگانے سے گریز نہیں کیا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ایک وہابی عالم کا کہناہے کہ دیوبندی ----- ؟؟؟؟؟؟


ایک وہابی عالم کا کہناہے کہ دیوبندی ویسے تو کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام کی راہ پر چلتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے ہیں ۔ اگر صحابہ کرام کی راہ پرہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کس کے مقلد تھے؟ اسی طرح حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کس کے مقلد تھے؟ اور ان کے امام اعظم کون تھے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ؟

Apr 30,2008 Answer: 3534
فتوی: 326/ ل= 5/ تل

اس سوال کو سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی اور یہ دو گروہ تھے، مجتہد اور مقلد یہ سب صحابہ عربی داں تھے، لیکن بقول ابن القیم ان میں اصحابِ فتویٰ صرف ۱۴۹ تھے، جن میں سے سات مکثرین ہیں یعنی انھوں نے بہت زیادہ فتوے دیئے ۲۰/صحابہ متوسطین میں ہیں، جنھوں نے کئی ایک فتوے دیے ۔ ۱۲۲ مقلین ہیں، جنھوں نے بہت کم فتوے دیے، ان مفتی صحابہٴ کرام کے ہزاروں فتاویٰ مصنف ابن ابی شبیہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں ان مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطورِ دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہ نے بلا مطالبہ دلیل ان کے اجتہادی فتاویٰ پر عمل کیا، اسی کا نام تقلید ہے، ان مفتی صحابہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ثم إنھم تفرقوا فی البلاد وصار کل واحد مقتدی ناحیة من النواحي کہ صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہرعلاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ (الانصاف:۳) بحوالہ مطالعہ غیر مقلدیت۔ مثلاً مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینے میں حضرت زید بن ثابت کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی، اسی طرح تابعی عالم کا مذہب قرار پایا اور ہرشہر میں ایک امام ہوگیا، لوگ اس کی تقلید کرتے اور بعد میں چل کر پوری امت نے یا ان میں سے قابل لحاظ لوگوں نے (یعنی اہل حق نے) ان چارمدون و منقح مذاہب کی تقلید کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور یہ اجماع آج تک مستمر ہے اوراس تقلید میں وہ مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں، خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں پست ہوچکی ہیں اور نفوس میں خواہشات پلادیئے گئے اور ہرذی رائے اپنی رائے پر ناز کرتا ہے منھا أن ھذہ المذاہب الأربعة المدوّنة المحررة قد أجمعت الأمة أو من یعتد بہ منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا وفي ذلک من المصالح ما لا یخفی الخ (حجة اللہ البالغة ج۱ ص۴۳۱، ط دیوبند) مذکورہ بالا تحریرات سے پتہ چلا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے اور سوال میں درج اجلاء صحابہٴ کرام کے کسی کی تقلید کیے بغیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے مسائل استنباط کرکے ان پر عمل کرنے سے عام حکم لگادینا کہ تقلید ائمہ ضروری نہیں ہے، سراسر غلط اور کم علمی ہے کیونکہ یہ حضرات خود اجتہاد کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور دوسروں میں یہ بات نہیں ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
امام ابن قیم کی یہ چیز تو آپ کے سامنے آ گئی لیکن جو باتیں انھوں نے تقلید کے رد میں کہی ہیں وہ بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم ارسلان صاحب
ابن ھمام حنفي نے تقلید کی تعریف یوں کی ہے
بأنه العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة
ایسے شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا جس کا قول دلائل شرعیہ نہ ہو
عمل بلا دلیل ہوگا یعنی عمل کرنے والے کے لئیے لازمی نہیں کہ وہ دلیل پر واقف ہو
عمل بلا دلیل ہوگا نہ کہ قول بلا دلیل ہوگا

آپ کس طرح کہ رہے ہیں قول کتاب و سنت کے مخالف ہو ، قول کے متعلق تو کسی نے نہیں کہا کہ وہ بغیر دلیل کے ہو ۔ ابن ھمام نے عمل کے متعلق کہا کہ وہ بغیر دلیل کے ہوگا یعنی عامل بغیر دلیل پر مطلع ہوئے بغیر عمل کرے گا ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین و تابعین اور اسلاف کے دور سے متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جب سائل نے سوال کیا تو جواب دینے والے نے فتوی تو دیا لیکن دلیل ذکر نہ کی اور عامل نے بغیر دلیل کے اس قول پر عمل کیا
نوٹ : تمام احباب سے گذارش ہے جواب يونیکوڈ میں دیں تاکہ اقتباس لینے میں آسانی ہو ۔ جو تصاویر اپلوڈڈ کی جاتی ہیں ان کے جواب کی مجھ سے توقع نہ رکھا کریں
 
Top