السلام علیکم
امید ہے سب خیریت سے ہوں گے
کچھ دن پہلے ایک بھائی کے ساتھ بیٹھے تھے، بھائی نے ہمیں بایبل سے باتیں بتانا شروع کر دیں
میں نے ان سے کہا کہ ایک دفعہ آنحضرت نے حضرت عمر کو پڑھنے سے منع کر دیا تھا
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی تو کرتا ہے
میں نے کہا کہ بھائی وہ تو عیسائیوں سے بحث کی خاطر کرتا ہے
یہاں تو سبھی مسلمان بیٹھے ہیں
سوال یہ پوچھنا ہے کہ کیا اس طرح مسلمانوں کے سامنے بایبل وغیرہ سے باتیں نقل کرنا درست ہے؟
شکریہ ۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
بائبل وغیرہ کتب سے باتیں نقل کرنا صرف اسی کیلئے جائز۔اور ۔ٹھیک ہوسکتا ہے ،
جو ان کتب کا قرآن و حدیث سے تقابل کر کے حق و باطل کی تمیز کر سکتا ہو ،
اور اس نقل کا مقصد بھی اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا ،اور دیگر مذاہب کا بطلان نمایاں کرنا ہو ۔۔
اور ہم نے جو عرض کیا ہے اس کے دو بنیادی سبب ہیں ۔۔ایک تو یہ کہ ان کتب میں تحریف ہوچکی ہے ،
اور دوسرا یہ کہ ان کے کئی احکام منسوخ ،اور تبدیل کر دئے گئے ہیں ۔جن کی اب شرعی حیثیت ختم ہوچکی ہے ۔اور
ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کتب اگر دینی ،و شرعی لحاظ سے مفیدو معتبر ہوتیں ،تو انکی جگہ قرآن نازل کرنے ۔۔یا۔۔اسے ماننے کی کوئی وجہ جواز نہ ہوتی۔۔۔۔
آپ اس موضوع پر ایک محقق عالم (شيخ مقبل بن هادى الوادعي رحمة الله ) کا ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
هل يجوز الاطلاع على كتب الكفار المحرفة، مثل: التوراة والإنجيل؟
الجواب: لا ننصح بهذا، لأن النبي -صلى الله عليه وعلى آله وسلم- يقول كما في «صحيح البخاري» من حديث أبي هريرة: «لا تصدقوا أهل الكتاب ولا تكذبوهم، و﴿قولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا»﴾ الآية. وفي «مسند الإمام أحمد» من حديث جابر: «فإنكم إما أن تصدقوا بباطل أو تكذبوا بحق».
والله عز وجل يقول في كتابه الكريم: ﴿أفتطمعون أن يؤمنوا لكم وقد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه وهم يعلمون﴾سورة البقرة، الآية: 75. فأنا لا أنصح بهذا، ويجوز للعالم المتبحر في العلم الذي يريد أن يأخذها ويرد عليها، ويبين أخطاءها وتناقضها، فلا بأس، ويكون متضلعا من العقيدة الإسلامية، وفي باب الأسماء والصفات وتوحيد الألوهية، ولا يكون مقصوده أن يرد على أولئك حتى ولو خالف عقيدة المسلمين.
(من كتاب تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب للشيخ مقبل بن هادى الوادعي رحمة الله)
سوال کیا گیا کہ کیا کفار کی تحریف شدہ کتب مثلاً تورات و انجیل کا مطالعہ،اور ان میں غور کرنا جائز ہے ؟
جواب دیا کہ یہ جائز نہیں ،کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ۔۔
«لا تصدقوا أهل الكتاب ولا تكذبوهم، و﴿قولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا»﴾ الآية.
’’ کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو ۔اور بحکم قرآنی تم کہو : ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوا آخر آیت تک جو سورۃ البقرہ میں ہے۔‘‘
اور مسند احمد میں ارشاد نبوی ہے (اگر تم قرآن وحدیث کی رہنمائی کے بغیر )اہل کتاب کی کسی بات کی تصدیق کروگے تو ہوسکتا ہے تم کسی باطل چیز کی تصدیق کر بیٹھو ،اوراسی طرح اگر اگر کسی چیز کو جھٹلاو گے تو ہو سکتا تم کسی حق بات کو جھوٹا کہہ دو ،
اور قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے :﴿أفتطمعون أن يؤمنوا لكم وقد كان۔۔الخ
(مسلمانو!) کیا تم ان (یہود) سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری خاطر ایمان لائیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے ہیں ۔ پھر اس کو سمجھ لینے کے بعد دیدہ دانستہ اس میں تحریف کر ڈالتے ہیں ،‘‘ البقرہ ۷۴
ہاں وسیع علم اور تجربہ کار عالم کیلئے تورات و انجیل کا مطالعہ اور حوالہ لینا ، دینا جائز ہے،جس کا مقصد انکی باتوں کا تضاد و بطلان ،اور انکی غلطیاں
سامنے لانا ہو۔