تحریکی خدمات
مولانا محمدعبداللہ صاحب نے سیاست میں تو زیادہ حصہ نہیں لیا، البتہ مذہبی تحریکوں میں سرگرم عمل رہے۔ فتنہ مرزائیت کے خلاف اُنہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بھی خوب کام کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی وہ قادیانیوں کے خلاف پیش پیش رہے۔ اس راہ میں اُنہیں مصائب و آلام سے بھی دو چار ہونا پڑا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ وہ ہر موقع پر ثابت قدم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور انہوں نے دھڑلے سے قادیانی نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کے ڈھول کا پول کھولا۔ مولانا عبداللہ صاحب نے 1935ء میں جب وہ مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں زیر تعلیم تھے توقادیانیت کے خلاف پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا ۔پون صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مولانامحمد عبداللہ سال میں ایک بار اس خطبے کی تجدید کرتے تھے۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب پہلی بار 1939ء میں جیل گئے تھے۔ اُنہوں نے بٹالہ سے چھ میل دور دیال گڑھ کے قریبی گاؤں ’ہرسیاں‘میں مرزائیوں کے خلاف تقریر کی تھی۔ اس کی پاداش میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک ہفتے بعد ان کی ضمانت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی مولانا محمدعبداللہ صاحب سرگرم عمل رہے اور انہیں کراچی جیل میں ایک ماہ گزار نا پڑا۔ 1955ء میں اُنہوں نے خانیوال میں تقریر کی اور ختم نبوت کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ اس ضمن میں قادیانی مذہب بھی زیر بحث لائے۔ اس جرم میں اُنہیں جیل بھیج دیا گیا اور ایک ماہ دس دن بعد ضمانت ہوئی۔ مولانامحمد عبداللہ اس دور کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بٹالہ اور امر تسر قریب قریب ہونے کی وجہ سے اکثر فاتح قادیان کی زیارت و ملاقات ہوتی رہی اور ان کے بیانات اور مناظرات دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ تقریباً زندگی کا گیارہ سالہ بہترین دور اُن کی رفاقت اور قرب میں بسر کرنے کا موقع ملا۔ الحمد للہ!‘‘
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے دس سالہ دورِ خطابت ، توحید و سنت، اصلاح معاشرہ اور سیرتِ مصطفی ﷺ کی تبلیغ اور ردّ قادیانیت میں بسر کرنے کا موقع ملا، اس دوران کئی مرزائیوں سے مناظرےبھی ہوئے۔ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا، بوریوالا ضلع ملتان(حال ضلع وہاڑی) ختم نبوت کے پروانوں کا جو پہلا قافلہ کراچی روانہ ہوا، اس میں بحیثیت ِقائد قافلہ جانے کا موقع ملا۔ کراچی جیل میں ایک ماہ تک قیام پذیر ہو کر اللہ تعالیٰ نے سنتِ انبیا کی اتباع کا موقع فراہم کیا۔کیونکہ دین کی خاطر جیل میں جانا بھی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔
پھر اس کے بعد 1995ء میں ردّ قادیانیت کے سلسلہ میں خانیوال ضلع ملتان (اب خانیوال خود ایک ضلع ہے) ایک تقریر کی وجہ سے ملتان جیل میں جانا پڑا، جب مجھے خانیوال کی پولیس گرفتار کر کے اور ہتھکڑی لگا کر ملتان لے کر گئی تو ایک سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبل ساتھ تھے۔ پھر وہ مجھے جیل کے دفتر میں لے گئے ۔یہاں سے اُنہوں نے مجھے کسی بارک میں بھیجنا تھا میں وہاں کلرک کے پاس کھڑا ہو گیا اور وہ اپنے رجسٹر کھول کر دیکھنے لگا اور اسی دوران اس کے میز پر پڑے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ اس نے فون اٹھایا اور فون پر کسی سے بات کرنے لگا، بات کرتے کرتے کہنے لگا کہ مولوی صاحب! آپ کے لیے فون آیا ہے، فون پکڑیں اور بات سنیں، میں نے جب ٹیلیفون کان سے لگایا تو وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا فون تھا۔ اس نے کہا :مولوی صاحب السلام علیکم۔ میں نے جواب میں وعلیکم السلام کہا، کہنے لگا میں سپرنٹنڈنٹ جیل بول رہا ہوں۔ میں نے کہا: حکم کریں، کہنے لگا حکم نہیں گذارش ہے کہ ہمارے خطیب صاحب جو جیل میں خطبہ جمعہ دینے آیا کرتے، ان کی آج درخواست آ گئی ہے کہ وہ بیمار ہیں اس لیے جمعہ کی خطابت کا انتظام کر لیں۔اس دن چونکہ جمعہ تھا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے شیشے کی کھڑکی میں سے دیکھ لیا تھا، اس لیے مجھے ایک عالم دین سمجھ کر ٹیلیفون کیا۔ دفتر میں کلرک کے پاس میں ابھی پہنچا تھا۔ کہنے لگا:مولوی صاحب آج آپ خطبہ جمعہ ارشاد فرما دیں۔ میں نے ان سے انکار کیا اور کہاکہ جون کا مہینہ گرم ترین مہینہ ہے میں کئی دن حوالات میں رہا ہوں، میرے کپڑے بھی پسینے سے خراب ہیں اور جسم بھی گندا ہے اس لئے میں جمعہ نہیں پڑھا سکتا۔ اس نے کہا: مولوی صاحب ! گذارش قبول فرمائیں، میں کپڑے بھی نئے بھیجتا ہوں، اور پانی بھی غسل کرنے کے لئے اور آپ کے لئے ناشتہ وغیرہ بھی بھیجتا ہوں آپ میری گذارش قبول کریں اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمائیں، کلرک مجھے آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا کہ صاحب کی بات مان جائیں، میں نے کہا: آپ مجبور کرتے ہیں تو آپ کے کہنے پر خطبہ جمعہ دے دیتا ہوں۔ میں ابھی وہاں ہی بیٹھا تھا ایک قیدی اپنے سر پر پانی کا ٹین رکھ کر لا رہا تھا اور صابن دھنیا کا تیل بھی ساتھ تھا، اس کے بعد ایک قیدی کپڑوں کا نیا جوڑا اور اس کے ساتھ 376کی ململ کی پگڑی، کرتا، بنیان، ملتانی لاچہ ، جرابیں وغیرہ لے کر آ گیا۔ پھر اس کے بعد ایک اور قیدی آ گیا اور اس کے ہاتھ میں ایک بڑی ٹرے تھی جس میں دو پراٹھے، تین انڈے ، دہی، مکھن اور چائے تھی۔ کہنے لگا کہ یہ آپ کا ناشتہ ہے۔ میں نے کلرک سے کہا کہ دیکھو جب میں جیل میں داخل ہونے لگا تو آپ کے پولیس والوں نے میری مکمل تلاشی لی اور پان بھی نکال لیا، لیکن وہ میرے سینے سے قرآن نہ نکال سکے ، اور یہ سب قرآن کی برکت سے ہے۔
میں نے غسل کیا، نئے کپڑے پہنے، پھر ناشتہ کیا تو جمعہ کی اذان ہو گئی، میری عمر اس وقت تقریباً چالیس سال تھی، جیل کے تمام قیدی اور افسران بڑی تعداد سے جمعہ کی نمازپڑھنے کے لئے آئے۔میں نے حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے سنا تھا کہ سورہ یوسف جیل میں پڑھنے کا بڑا مزا آتا ہے۔ میں نے خطبہ جمعہ میں ﴿رب السجن أحب إلی مما یدعوننی إليه﴾ کی تشریح کی، اللہ تعالیٰ نے اس قدر توفیق بخشی کے پونے دو گھنٹے خطبہ جمعہ دیا جو اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ قیدی نعرے مار رہے تھے اور سورہ یوسف کا ترجمہ اور تفسیر سن کر رو رہے تھے، جیل کی فضا نعرہ تکبیر سے گونج رہی تھی۔ اب جیل کے افسران پریشان تھے کہ قیدی کہیں بغاوت نہ کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے عزت عطا کر دی، اور یہ سب کچھ قرآن کی برکت ہے۔جب نماز جمعۃ المبارک ادا کی تو میرے پیچھے ملتان کے دو نوجوان رئیس زادے بھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے اور وہ کسی کے قتل کے جرم میں قید تھے اور انہوں نے اپنا کھانا گھر سے منظور کروایا ہوا تھا۔ وہ بڑے احترام سے ملے اور پوچھا مولانا کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس سلسلہ میں جیل میں آ گئے؟
میں نے کہا کہ میں بورے والا کی مرکزی جامع مسجد اہلحدیث کا خطیب ہوں اور خانیوال میں ختم نبوت کے موضوع پر ایک تقریر کی اور جس میں کھل کر مرزائیت کی تردید کی ہے۔ وہاں کا تھانیدار مرزائی تھا اور رپورٹر بھی مرزائی۔ انہوں نے رات ہی کو میرے وارنٹ گرفتاری جاری کروا کر مجھے گرفتار کروا لیا، اگلے دن انتظامیہ جلسہ نے ضمانت کی درخواست دی، لیکن اس وقت پتہ چلا کہ ملتان کا سیشن جج بھی مرزائی ہے اور اُس نے میری ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس کی وجہ سے پولیس مجھے آج ہی جیل لائی ہے او ریہ میری اور آپ کی ملاقات کا سبب بنا ہے۔ وہ دونوں نوجوان حضرت مولانا محمد علی جالندھری کے مقتدی تھے۔ وہ کہنے لگے مولوی صاحب آپ کھانا ہمارے ساتھ کھایا کریں ۔ہمارا کھانا گھر سے آتا ہے میں نے انکار کیا، لیکن ان کا اصرار غالب آ گیا میں نے ان کی دعوت قبول کر لی، ان میں سے ایک پھر کہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ تو پان بھی کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں پان کھاتا ہوں، لیکن جب پولیس والوں نے تلاشی لیتے وقت میرا پان نکال لیا تو میں نے اپنے نفس سے کہا تھا کہ دیکھو یہاں کتنی پابندی ہے، اب پان مت مانگنا، کہنے لگے ان سے مانگیں کیوں؟ ہمارے دونوں بھائیوں کے سولہ پان روزانہ گھرسے آتے ہیں۔ اب آج سے آٹھ پان آپ کے بھی آیا کریں گے ۔ میں ایک ماہ اور تین دن ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں رہا اور ان نوجوانوں کا صبح کا ناشتہ ، دوپہر کو کھانا، بعد نماز عصر چائے، رات کا کھانا آتا اور بہت پُرتکلّف کھانا ہوتا۔ جیل میں میرے ساتھ ملاقات کرنے جو بھی آتا، میں کہتا کہ ابھی دو چار ماہ میری ضمانت نہ کروانا، کیونکہ یہاں بہت آرام ہے۔ لیکن آخر کار حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے میاں محمود علی صاحب قصوری کو کہہ کر میری لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت کروا دی۔ اسی طرح پوری زندگی اسی انداز سے گزری ہے،یہ ایک مختصر سا تعارف ہے۔‘‘(ماہنامہ ضیائے حدیث لاہور ختم نبوت نمبر بنام ’قندیل‘ اپریل مئی 2009ء)
یاد رہے کہ تحریک ختم نبوت کی اب چوبیس جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ الحمد للہ
( تحریک ختم نبوت )
کسی دور میں نصرت ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں لاہور سے فیصل آباد چلتی تھیں۔ فیصل آباد میں اس کمپنی کا بس اڈا کارخانہ بازار کے باہر ہوا کرتا تھا اور یہ بس کمپنی مرزائیوں کی تھی ۔ ایک بار مولانامحمد عبداللہ صاحب لاہور سے نصرت ٹرانسپورٹ کی بس کے ذریعے لائل پور آئے۔ رات کو اُنہو ں نے دورانِ تقریر تذکرہ کیا کہ میں لاہور سے نصرت بس پر بیٹھ کر ساڑھے تین گھنٹہ میں لائل پور پہنچا ہوں۔ قادیانیوں نے اس بات پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ مولانا عبداللہ صاحب پیشی پر عدالت میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان دیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد اُنہوں نے کہا کہ آئندہ پیشی پر میں یہ بھی بتاوں گاکہ نصرت بس کمپنی پر بیٹھ کر مجھے کتنا لطف آیا اور سفر کتنا آرام دہ رہا، ان کی یہ بات بھی مرزائیوں کو چبھ گئی۔ اب ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ اس مولوی سے جان چھڑا لو، ورنہ یہ آئندہ تمہیں عدالت میں بڑا رسوا کرے گا۔ لہٰذا مرزائیوں نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔
1974ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی بھرپور کردار ادا کیا اور بورے والا کی مذہبی قیادت میں ان کا کام اور نام نمایاں تھا۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ میں بھی مولانا محمدعبداللہ صاحب کی خدمات قابل قدر ہیں۔ جس طرح ان کی عمر طویل تھی اسی طرح ان کی خدمات کا دائرہ بھی وسعت پذیرتھا۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب بڑے وضع دار اور پُروقار عالم دین تھے۔ ہمیشہ اپنی عزت و وقار کا خیال رکھتے۔ ایک بار انہوں نے قصور کی جامع مسجد فریدیہ اہل حدیث میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ رات کو ان کا قیام بھی قصور میں ہی تھا۔ مشہور مغنیہ ملکہ ترنم نور جہاں کا تعلق بھی قصور سے ہے اور اس کا آبائی گھر بھی وہیں ہے۔ ان دنوں نور جہاں قصور میں تھی، اس کو مولانامحمد عبداللہ صاحب کی قصور آمد کا پتہ چلا تو اُس نے اپنا خادم بھیجا کہ باباجی !صبح ناشتہ ان کے ہاں کریں۔ مولانامحمد عبداللہ صاحب نے انکار کر دیا۔ بعض لوگ کہنے لگے آپ اس کی دعوت قبول کر لیتے اس میں حرج ہی کیا تھا؟ لیکن مولانا محمدعبداللہ صاحب فرمانے لگے میں نہیں جاوں گا۔ اور مولانا محمدعبداللہ صاحب نور جہاں کے لاکھ اصرار پر ان کے ہاں ناشتہ کرنے نہیں گئے اور ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے اپنے مقام و مرتبے کو بلند رکھا۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب کا اِمتحان لینے کے لئے بسا اَوقات انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا گیا۔ مولانا بتایا کرتے :’’ایک بار منڈی بہاؤالدین سے خط آیا کہ فلاں تاریخ کو آپ تشریف لائیں اور اپنے خطاب سے سامعین کو مستفید فرمائیں۔ خط پڑھ کر میں منڈی بہاؤالدین گیا، رات کو تقریر کی اور واپس آ گیا ، انہوں نے واپسی پر پوچھا تک نہیں۔ تھوڑے دن گزرے ان کی طرف سے پھر خط آیا کہ تشریف لائیں اور تقر یر کریں۔ مولانا بیان کرتے ہیں کہ خط پڑھ کر میں نے خود سے کہا :’’مولوی! یہ تیری آزمائش ہے۔ کہیں پھسل نہ جانا۔ وہ آزمانا چاہتے ہیں کہ کیا مولوی کرایہ کے بغیر بھی آ سکتے ہیں۔‘‘ چنانچہ میں وقت مقررہ پر منڈی بہاؤ الدین پہنچا اور تقریر کی۔ جن لوگوں نے مجھے بلایا تھا، ان کا صابن کا کارخانہ تھا۔ وہ صبح اپنی گاڑی میں مجھے بتی چوک لاہور چھوڑ گئے اور جاتے ہوئے ایک پیٹی صابن کی اور گیارہ سو روپے میری واسکٹ کی جیب میں ڈال گئے، یہ سستے زمانے کی بات ہے۔‘‘
اس واقعہ سے مولانامحمد عبداللہ صاحب کی تبلیغی مساعی میں خلوص کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لالچ، طمع و حرص سے کوسوں دور رہ کر انہوں نے خدمت دین کا فریضہ اَدا کیا اور اپنی عزت اور علما کی عظمت و وقار کو ہمیشہ قائم و دائم رکھا۔ اصل میں مولانا محمدعبداللہ صاحب نے جن لائق اَساتذہ کرام اور عالی قدر بزرگان دین کے زیر سایہ رہ کر تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کیں،یہ اسی کا اثر ہے۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب، شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امر تسری کے خاص ارادت مند اور شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔
بلا شبہ مولانامحمد عبداللہ صاحب پرانے دور کی یاد گار تھے۔ اُنہوں نے نیک لوگوں کا ساتھ پایا۔ وہ جس دور میں پلے بڑھے اور جس ماحول میں تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کیں، اسے سنہری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں مختلف تحریکیں اور جماعتیں میدان کارِ زار میں سرگرمِ عمل تھیں۔ ہندو سکھ عیسائی اور مسلمان اپنے اپنے مذہب کی اِشاعت میں لگے ہوئے تھے۔ اور اس سلسلے میں وہ ایک دوسرے سے مناظرے اور مباحثے بھی کرتے تھے اور دوسری طرف مل کر انگریزسے آزادی کے لئے کام بھی کر رہے تھے۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب نے ان حالات کا بغور جائزہ لیا اورپھر ان کا علاقہ بٹالہ بھی قادیانی فتنہ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ان حالات میں مولانا عبداللہ صاحب نے اِسلام کی نشر و اشاعت کے لئے اہل حدیث اسٹیج سے کام کرنا شروع کیا۔ قادیانی مذہب کے خلاف انہوں نے تقریر و تحریر سے کام کیا اور دیگر مذاہبِ باطلہ کے خلاف بھی انہوں نے زبان و بیان سے جہاد کیا۔ تقسیم ملک سے پہلے آپ ’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘ سے منسلک رہے جس کے ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ اَمر تسری تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب 24؍جولائی 1948ء کو ’مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان‘کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس سے منسلک ہو گئے اور تاحیات ’مرکزی جمعیت اہل حدیث‘ کے ساتھ ہی رہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ اَمر تسری، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی ان پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور ان اَکابرین جماعت کے ساتھ مل کر مولانامحمد عبداللہ صاحب نے جماعت کی تعمیر و ترقی کے لئے دن رات کام کیا۔
مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔ جن حضرات کے ساتھ ان کا ذرا سا بھی تعلق رہا ،انہیں یاد رکھتے۔ اپنے اَساتذہ کرام کا ذکر خیر عقیدت سے کرتے ، چھوٹوں پر شفقت فرماتے۔فیصل آباد تشریف لاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ دوستوں سے ضرور ملاقات کی جائے۔ ان کی خواہش پر کئی بار ہم ان کے اُستاد زادے حافظ سلیمان مرحوم کو ان کے گھر سمن آباد جا کر ملے۔ اس موقع پر ہمارے مرحوم دوست علی اَرشد چودھری اپنی گاڑی سمیت ہمراہ تھے۔
مولانامحمد عبداللہ صاحب بذلہ سنج اور باغ و بہار طبیعت کے انسان تھے۔ وہ اپنی گفتگو اور شرینی گفتار سے خوب محظوظ کرتے۔ ایک بار فیصل آباد تشریف لائے اور مجھے ٹیلی فون کیا۔ حال اَحوال پوچھ کر کہنے لگے :’’اَرشد مرشد کہاں ہیں؟’‘ میں نے عرض کیا:اس وقت تو وہ گھر پر سو رہے ہوں گے، نمازِ ظہر کے بعد ہی شہر آئیں گے۔ پھر پوچھنے لگے:’’ حکیم عبدالستار کے بیٹے حافظ حبیب الرحمٰن کہاں ہوں گے؟ ‘‘میں نے بتایا کہ حافظ صاحب نمازِ فجر کے بعد سو جاتے ہیں نماز ظہر میں ہی مسجد میں آئیں گے۔ بابا جی میرا یہ جواب سن کر برجستہ کہنے لگے:’’ یہ سارے اَصحابِ کہف ہی ہیں جو سوئے ہوئے ہیں۔‘‘ ان کی اس برجستہ گوئی نے بڑا لطف دیا۔
1957ء میں مولانا محمدعبداللہ صاحب نے مرکزی جامع مسجد اہل حدیث بورے والا میں’مدرسہ محمدیہ‘ کی بنیاد رکھی۔ بطل حدیث حضرت مولاناسید محمد داؤد غزنوی نے اس کا افتتاح فرمایا تھا۔مولانا محمد عبداللہ صاحب اس مدرسہ میں عرصہ دراز تک طلبہ اور طالبات کو ترجمۃ القرآن اور ناظرہ قرآن پڑھاتے رہے۔ شعبہ حفظ القرآن کے لئے بھی استاد تھا۔ اس مدرسہ سے حافظ عبدالستار شیخ الحدیث کوٹ ادو (وفات 19؍جنوری 2009ء)،قاری محمد رمضان سینئر مدرّس جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، پروفیسر عبدالرحمٰن لدھیانوی اور حافظ محمد لقمان سلفی(وفات 10جون 2002) جیسے نامور علما نے تعلیم حاصل کی۔