• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابا جی سے ملاقات(نجم ولی خان)

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
اس وقت ہمارے معاشرے میں بابے پوری طرح ’ ان‘ ہیں، پڑھے لکھے لوگ روایتی پیری فقیری کی طرف نہیں جاتے مگربابوں کی ذہانت، فطانت اور دانش کے ڈنکے بجاتے نظر آتے ہیں، ایسے میں ایک دوست نے ایک بڑے معروف باباجی سے ایک اچھے ریستوران میں ہائی ٹی پر ملاقات کی دعوت دی ، وہ ٹی وی پروگراموں میں بھی نظر آتے ہیں اور مختلف جگہوں پر لیکچر دیتے ہوئے بھی ، یہ بھی علم ہوا کہ ان کی زبان میں تاثیر تو ہے ہی ، ان کے ہاتھ میں شفا بھی ہے ،سوچاشاید اپنی بھی قسمت کھل جائے، علامہ اقبال نے کہا تھا :تمنا دردِ دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کینہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میںنہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کوید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میںاور اسی جگہ ارشاد فرمایا،’جلاسکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی، الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں‘۔ میں ایک صحافی کے طور پر جانتا ہوں کہ وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے بیٹے اور داماد ان بابوں کے خاص مرید ہیں اور میرے جیسے ہما شما کس شمار قطار میں آتے ہیں ، یہی وہ وجہ تھی کہ میں کچھ سینئر صحافی دوستوں اور بہت سارے سوالوں کے ساتھ باباجی کی خدمت میں حاضر ان کی آستینوں میں چوری چوری یدِ بیضا ڈھونڈ رہا تھا۔ میں ایک گناہ گار انسان ہوں، اپنے رب اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان کے باوجود قرآن سے ہی سوال کرنے کی اجازت پاتا ہوں جب حضرت ابراہیم علیہ سلام نے برگزیدہ نبی ہونے کے باوجود اپنے دل کی تسلی کے لئے سوال کئے اور جواب پائے۔ میں نے پوچھا ، حضرت ہم سب اپنے اپنے اس دین پر چلتے ہیں جو ہمارے والدین نے ہمیں تعلیم اور تربیت کے ذریعے دیا، مسیحیت اور یہودیت سمیت میں کسی بھی دوسرے مذہب کا مطالعہ نہیں کرتا، کیا ہوتا اگر میں کسی ہندو گھرانے میں پیدا ہوتا او رتمام تر دیانت داری کے ساتھ میری کوشش ایک مسلمان کی بجائے ایک اچھا ہندو بننے کی ہوتی۔ انہوں نے قرار دیا کہ ہر کسی پر حق کی جستجو فرض ہے اور ہر بستی میں حق بات پہنچانے والا بھیجا گیا ہے، بہت پرانے صحیفوں میں بھی نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی نوید دی گئی تھی ۔ میرا سوال تھا کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کے اس دور میں اگر کوئی اسلام قبول نہ کرے تو وہ کس حد تک ذمہ دار ہے۔ دوسرا علمی نوعیت کا سوال تھا کہ ہمارا ایمان ہے کہ کوئی نبی کوئی گناہ نہیں کرسکتا مگر سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک شخص کو قتل کیوں کیا کہ قتل بہرحال ایک بڑا گناہ ہے، باباجی نے جواب دیا کہ نبی ارادے کے ساتھ گناہ نہیں کر سکتا مگر اس سے خطا ہو سکتی ہے، عطاء الرحمان صاحب سینئر صحافی ہیں، انہوں نے لقمہ دیا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام نبی معصوم عن الخطا ہیں مگر باباجی کا خیال کچھ اور تھا۔ مجھے یہ جواب زیادہ بہتر طورپر عطاء الرحمان صاحب سے ملا ، کہا ،یہ واقعہ تب ہوا ہو گا جب حضرت موسیٰ کو نبوت ودیعت نہیں ہوئی ہو گی مگر حضرت یوسف علیہ السلام نے وہ برتن کیوں چھپایا جس کے گم ہونے کے الزام میں انہوں نے اپنے بھائی کو روکا۔ باباجی کا جواب تھا کہ گناہ اور جرم نہیں تھا بلکہ حکمت عملی تھی، جرم وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے مگر یہاں سگے ہی نہیں سوتیلے بھائیوں کو بھی فائدہ پہنچا۔ میں چاہتا ہوں کہ جو بھی بابا جی ہوں وہ علم کے سمندر ہوں، سوال یہ تھا کہ جب عزازیل نے تکبر کی بنیاد پرآدم کو سجدے سے انکار کیا تو وہ راندہ درگاہ ٹھہرا، جب وہ جنت سے نکالا جا چکا تھا آدم اور حوا کو گمراہ کرنے کے لئے دوبارہ جنت میں کیسے داخل ہوا؟ مجھے باباجی کی طرف سے کوئی ٹھوس جواب یاد نہیں ، یہاں بھی جناب عطاء الرحمان بولے ، کہا،ابلیس نے اپنے رب سے مہلت مانگی کہ وہ اس کے بندوں کی راہ میں بیٹھ سکے اور انہیں گم راہ کر سکے اور یہی اس کا جواز بنتا ہے۔ میرے ایک مزید سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ جمہوریت کے حامی نہیں کہ ہر ایرے غیرے سے رائے نہیں لی جا سکتی، رائے صرف صاحب الرائے ہی دے سکتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے عمر کی حد چالیس سال بتائی مگر یہاں بھی عطاء الرحمان صاحب نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کہ جب مشاورت کا حکم آیا تو اس میں عمر سمیت دیگر حدود نہیں لگائی گئیں۔ میں نے سوال کیا کہ کیا عمر اور تقوے کی بنیاد پر مشاورت سے محروم کردینا بدترین تکبر کی علامت نہیں، باباجی نے فرمایا،ہرگز نہیں، ان سے پوچھا کہ آپ کی ایسے بابوں بارے کیا رائے ہے جو داڑھی جیسی سنت سے بے نیاز ہیں، بڑے بڑے عہدے داروں کے ساتھ ناشتوں اور کھانوں پر پائے جاتے ہیں، ایسے ہی ایک معروف باباجی جامعہ پنجاب کی تقریب میں پہنچے تو میری گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ ان کی گاڑی دو، تین کروڑ روپے مالیت کی تھی، باباجی نے رائے دی کہ ایسے بابوں کو ماننا درست نہیں ہے۔ باباجی نے کہا کہ قرآن پڑھو اور کسی استاد کو پکڑو،بہت سارے سوالوں کے جواب وقت کے ساتھ مل جائیں گے اور میں نے اتفاق کیا۔ میرا کہنا تھا کہ اگر آج سے سو ،د وسو برس پہلے کوئی کہتا کہ میری انگلی کی پوریں میری گواہی دے سکتی ہیں تو یہ بات نہ مانی جاتی۔ آج ڈی این اے ٹیسٹ بتا سکتا ہے کہ کون کس کی اولاد ہے اورعزت اسی میں ہے کہ پھر اسے ماں کے نام سے پکارا جائے۔موبائل کمپنیاں ہی نہیں، آج گوگل میپ آن ہوتو جانتا ہے کہ میں کب ،کدھر گیا۔ فیس بک کے پاس بھی میری تمام تر نقل و حرکت اور خیالات کے اظہار کا برس ہابرس کا ریکارڈ موجود ہے ۔آج مجھے جن باتوں کے جواب نہیں مل رہے مجھے یقین ہے کہ سائنس کبھی اتنی ترقی کرے گی کہ باقی جواب بھی پیش کر دے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ پیشین گوئیاں کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ وہ از خود نہیں کرتے مگر ان کو جو دکھائی دے جاتا ہے وہ بیان کر دیتے ہیں حالانکہ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایک معروف سیاستدان کا علاج کیا تھا ، جس نے دو برسوں میں ٹھیک ہونا تھا وہ پندرہ دنوں میں ٹھیک ہو گیا تھا، میں نے پوچھا کہ آپ اس سیاستدان کے کردار بارے کیا کہتے ہیں انہوں نے اس کے ایماندار اورباکردار ہونے کی گواہی دی کہ وہ کرپشن نہیں کرتا۔ انہوں نے ایک سوال پر بتایا کہ وہ آنے والے وقت میں دونوں شریفوں کو ہی نہیں دیکھ رہے۔ میں نے سوال کیا کہ ایک شریف تو ریٹائر ہوسکتے ہیں مگر دوسرے شریف کدھر جائیں گے تو اس کا جواب تھا کہ وقت بتا دے گا، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ تو فطری عمل ہے کہ ہر کسی نے دنیا سے پر دہ کر جانا ہے گویا یہ پیشین گوئی تو ہر صورت کبھی نہ کبھی درست ثابت ہو ہی جائے گی، باباجی نے نظروں ہی نظروں میں میری جہالت اور ہٹ دھرمی پر افسوس کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ یہ نظر نہ ہونا اگلے دو برسوں کے دوران یعنی عام انتخابات تک ہوجائے گا۔ نجانے مجھے کیوں محسوس ہوتاہے کہ میں بھی ایک بابا ہوں، ہمارے ٹی وی چینل کے میک اپ روم میں ایک میک اپ آرٹسٹ سات، آٹھ برسوں سے کام کر رہی تھی اور اس مدت میں آنے والی باقی تمام میک اپ آرٹسٹ نوکری پر نہیں رہیں، ایک نئی لڑکی نے جوائننگ دی تو میں نے ہنستے ہوئے سینئیر میک اپ آرٹسٹ سے کہا کہ آج تک تم سب کو چھٹی کرواتی رہی ہو مگر یہ تمہاری چھٹی کروا دے گی، نئی میک اپ آرٹسٹ ممیائی کہ وہ اپنی سینئر کے خلاف ایسا کچھ نہیں کرے گی، بات مذاق سمجھی گئی مگر ایک مہینے کے بعد سینئرمیک اپ آرٹسٹ مرضی کے خلاف دوسرے چینل منتقل کی جا چکی جبکہ نئی لڑکی وہاں چھوٹی بہن کو بھی لا چکی ہے۔زندگی ،موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ، بات اگر پیشین گوئیوں کی ہی ہے مجھے کہنا ہے کہ نواز شریف اگلے انتخابات بھی بھاری اکثریت سے جیت لیں گے۔ مجھے یاد آیا کہ ماموں، عالیہ نذیر اور ایک اور ستارہ شناس نے میرے پروگرام میں گذشتہ عام انتخابات سے پہلے پیشین گوئیاں کی تھیں کہ نواز شریف کا ستارہ ڈوب چکا، عمران خان کا ستارہ عروج جبکہ شہباز شریف کا یکساں پوزیشن پر ہے، انہیں انتخابات کی بجائے اس برس وسیع خون خرابہ بھی نظر آ رہا تھا جو بغاوت کی علامت بیان کیا جا رہا تھا مگر سیاست اور صحافت کے طالب علم کے طور پر میری پیشین گوئی اس سے بالکل مختلف تھی۔ملاقات کے بعد میں نے سوچا اصل بابا تو وہ ہے جس کے پاس قرآن کا زیادہ علم ہے اور اگر پیشین گوئیوں کو بھی شامل کرلیں تو عطاء الرحمان صاحب اور میں بابوں کے طورپر، جوائنٹ وینچر میں، دوسروں سے بہتر اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں۔
 
Top