محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
زانی کی سزا۔ شادی شدہ زانی کو پتھروں سے رجم کیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ لواطت کی سزا، فاعل و مفعول دونوں کو قتل کیا جائے۔
شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے یہاں تک کہ وہ مرجائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماعز بن مالک الاسلمی رضی اللہ عنہ اور غامدیہ عورت اور بعض یہودیوں کو رجم کرایا تھا۔ اور آپ ﷺکے بعد بھی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں نے زنا کی سزا میں رجم کیا ہے۔
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ رجم سے پہلے سو کوڑے لگائے جائیں پھر رجم کیا جائے؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں دو قول ہیں۔ اگر زانی شادی شدہ نہیں ہے تو کتاب اللہ سے ثابت ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔ اور سنت نبوی ﷺسے ثابت ہے کہ سو کوڑوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک سال جلا وطن کیا جائے۔ اگرچہ بعض علماء سال بھر جلاوطن کرنا واجب نہیں کہتے۔
زانی پر اس وقت تک حد قائم نہ کی جائے جب تک چار گواہوں کی گواہی اس پر نہ گذرے یا چار دفعہ خود اقرار نہ کرے۔ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں چار دفعہ اقرار کی ضرورت نہیں ہے، ایک دفعہ اقرار کر لینا کافی ہے۔ اگر کسی نے اقرار کر کے پھر انکار کر دیا تو بعض علماء کا قول ہے کہ حد اس سے ساقط ہو جائے گی اور بعض کہتے ہیں حد ساقط نہیں ہو گی۔
اور شادی شدہ اس شخص کو کہیں گے جو آزاد، مکلف ہو اور صحیح نکاح سے اپنی بیوی سے جماع و وطی کر چکا ہو، اگرچہ ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ہو۔
اور جس سے جماع و وطی کی گئی ہے، مذکورہ صفات میں محصن کے مساوی ہے یا نہیں، اس میں علماء کے دو قول ہیں، عورت قریب البلوغت ہو، اور بالغ مرد سے زنا کیا ہو۔ یا مرد قریب البلوغت ہو اور عورت بالغہ ہے۔
اور یہی حکم ذمیوں کا ہے۔ اگر وہ شادی شدہ ہوں تو اکثر علما کے نزدیک رجم کیا جائے گا۔ مثلاً امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے اپنی مسجد کے دروازے کے سامنے یہودیوں کو رجم کرایا ہے۔ اور اسلام میں یہ پہلا رجم تھا۔
اگر کوئی عورت حاملہ پائی گئی اور اس کا شوہر نہیں ہے اور نہ اس کا سید و آقا ہے (یعنی وہ کسی کی لونڈی بھی نہیں)، اور حمل میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، تو امام احمد وغیر کے مذہب میں اس کے بارے میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس پر حد جاری نہیں جا سکتی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ زبردستی اس سے زنا کیا گیا ہو اور اس سے یہ حاملہ ہو گئی ہو۔ یا اُسے اٹھا کر لے گئے ہوں، یا بیوی کے شبہ کی بنا پر جماع کیا گیا ہو کہ یہ اس کی بیوی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد جاری ہو گی اور یہی قول خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے ماثور ہے۔ اور اصول شریعت کے موافق یہی ہے۔ اور یہی مدینہ والوں کا مذہب ہے۔ کیونکہ یہ شاذ و نادر احتمالات ہیں۔ اور شاذ و نادر احتمالات کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی جیسے کہ اس نے اقرار کیا اور وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہو۔ یا گواہوں کی گواہی جھوٹی ہو۔
شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے یہاں تک کہ وہ مرجائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ماعز بن مالک الاسلمی رضی اللہ عنہ اور غامدیہ عورت اور بعض یہودیوں کو رجم کرایا تھا۔ اور آپ ﷺکے بعد بھی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں نے زنا کی سزا میں رجم کیا ہے۔
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ رجم سے پہلے سو کوڑے لگائے جائیں پھر رجم کیا جائے؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب میں دو قول ہیں۔ اگر زانی شادی شدہ نہیں ہے تو کتاب اللہ سے ثابت ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔ اور سنت نبوی ﷺسے ثابت ہے کہ سو کوڑوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک سال جلا وطن کیا جائے۔ اگرچہ بعض علماء سال بھر جلاوطن کرنا واجب نہیں کہتے۔
زانی پر اس وقت تک حد قائم نہ کی جائے جب تک چار گواہوں کی گواہی اس پر نہ گذرے یا چار دفعہ خود اقرار نہ کرے۔ اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں چار دفعہ اقرار کی ضرورت نہیں ہے، ایک دفعہ اقرار کر لینا کافی ہے۔ اگر کسی نے اقرار کر کے پھر انکار کر دیا تو بعض علماء کا قول ہے کہ حد اس سے ساقط ہو جائے گی اور بعض کہتے ہیں حد ساقط نہیں ہو گی۔
اور شادی شدہ اس شخص کو کہیں گے جو آزاد، مکلف ہو اور صحیح نکاح سے اپنی بیوی سے جماع و وطی کر چکا ہو، اگرچہ ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ہو۔
اور جس سے جماع و وطی کی گئی ہے، مذکورہ صفات میں محصن کے مساوی ہے یا نہیں، اس میں علماء کے دو قول ہیں، عورت قریب البلوغت ہو، اور بالغ مرد سے زنا کیا ہو۔ یا مرد قریب البلوغت ہو اور عورت بالغہ ہے۔
اور یہی حکم ذمیوں کا ہے۔ اگر وہ شادی شدہ ہوں تو اکثر علما کے نزدیک رجم کیا جائے گا۔ مثلاً امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے اپنی مسجد کے دروازے کے سامنے یہودیوں کو رجم کرایا ہے۔ اور اسلام میں یہ پہلا رجم تھا۔
اگر کوئی عورت حاملہ پائی گئی اور اس کا شوہر نہیں ہے اور نہ اس کا سید و آقا ہے (یعنی وہ کسی کی لونڈی بھی نہیں)، اور حمل میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، تو امام احمد وغیر کے مذہب میں اس کے بارے میں دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس پر حد جاری نہیں جا سکتی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ زبردستی اس سے زنا کیا گیا ہو اور اس سے یہ حاملہ ہو گئی ہو۔ یا اُسے اٹھا کر لے گئے ہوں، یا بیوی کے شبہ کی بنا پر جماع کیا گیا ہو کہ یہ اس کی بیوی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد جاری ہو گی اور یہی قول خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے ماثور ہے۔ اور اصول شریعت کے موافق یہی ہے۔ اور یہی مدینہ والوں کا مذہب ہے۔ کیونکہ یہ شاذ و نادر احتمالات ہیں۔ اور شاذ و نادر احتمالات کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی جیسے کہ اس نے اقرار کیا اور وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہو۔ یا گواہوں کی گواہی جھوٹی ہو۔