• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:26۔ حاکم کے لئے مجلس شوریٰ سے مشورہ ضروری ہے۔ ۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:26۔ حاکم کے لئے مجلس شوریٰ سے مشورہ ضروری ہے
امیر، ولی الامر، حاکم کے لیے مشورہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم فرمایا: وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۔ اور جو لوگ مشورہ لیتے ہیں ان کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے:
وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔ (شوریٰ:38)
ولی الامر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشورہ لیا کرے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم فرمایا ہے:

فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o (آل عمران:159)
آپ ﷺ ان کے قصور معاف کر دو اور اللہ سے بھی ان کے گناہوں کی معافی کی درخواست کرو، اور معاملات صلح و جنگ میں ان کو شریک مشورہ کر لیا کرو۔ پھر مشورے کے بعد تمہارے دل میں ایک فیصلہ پختہ ہو جائے تو بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہی رکھنا، جو لوگ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں، اللہ ان کو دوست رکھتا ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:

لَمْ یَکُنْ اَحدًا اَکْثَرَ مُشَاوَرَۃً لِّاَصْحَابِہٖ عَنْ رَّسُوْلِ اللہﷺ
رسول اللہ ﷺسے زیادہ اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺکو صحابہ کی تألیف قلبی کی غرض سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس غرض سے کہ آپ ﷺکے بعد آپ کی قتداء کی جائے۔ اور جس امر کے متعلق وحی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، مثلاً حرب و جنگ وغیرہ اور جزئی امور میں لوگوں کی رائے اور مشورہ لیا جائے، جب رسول اللہ ﷺمشورہ لیا کرتے تھے تو غیر بدرجہ اولیٰ مشورہ کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مشورہ کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔ فرماتا ہے:

وَمَا عِنْدَاللہِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبَآئِرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ وَاِذا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ o وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (شوری36 تا 38)۔
اور جو اللہ کے ہاں ہے اس سے کہیں بہتر اور پائیدار ان ہی لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور جب ان کو غصہ آ جاتا ہے تو درگذر کرتے ہیں، اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور ان کے کام آپس کے مشورے سے ہوتے ہیں، اور جو ہم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ولی الامر جب مشورہ لے، اور کتاب اللہ، کتاب الرسول ﷺ اور اجماع سے حکم اور فیصلہ معلوم ہو جائے تو ولی الامر کا فرض ہے کہ اس کے خلاف کسی کی اتباع نہ کرے اگرچہ وہ دین و دنیا کا کتنا ہی بڑا امر اور معاملہ کیوں نہ ہو، غیر کی اتباع جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ
مسلمانو! اللہ کا حکم مانوا اور اس کے رسول کا حکم مانو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کا بھی۔ (نساء:59)۔

اور اگر معاملہ ایسا ہے کہ اس میں مسلمانوں میں باہم تنازع ہے تو ضروری ہے کہ لوگوں سے رائے اور مشورہ طلب کرے اور جو رائے، جو مشورہ کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺ کے قریب اور مشابہ ہو اس پر عمل کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذَالِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاًo (النساء:59)
پھر اگر کسی امر میں تم آپس میں جھگڑ پڑو تو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ اس امر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے۔

اولی الامر کی دو قسمیں ہیں، ایک امراء اور دوسرے علماء۔ یہ لوگ جب صالح اور نیک ہوں گے تو عوام بھی صالح اور نیک بن جائیں گے۔ ان ہر دو فریق کا فرض ہے کہ ہر قول و فعل کی جانچ کریں، جب کتاب اللہ اور کتاب الرسول ﷺ کا حکم واضح ہو جائے تو اس پر عمل واجب ہو گا، مشکل اور دشوار معاملہ کی اچھی طرح جانچ کرے کہ اللہ کی اطاعت اور رسول ﷺ کی اطاعت کس طریقہ سے ممکن ہے، کتاب و سنت کس چیز پر دلالت کرتی ہے، خوب جانچ لیں اور جانچ کے بعد فیصلہ کریں، اگر تنگی وقت یا طالب کی کوتاہی، یا دلائل باہم متعارض ہیں یا کسی اور وجہ سے فوری فیصلہ ممکن نہیں ہے، تو ولی الامر کا فرض ہے کہ اس کی پیروی کرے جس کا علم و دین مُسَلَّم ہے، اور یہی قوی ترین قول ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے، کہ پیروی جائز نہیں ہے اور تینوں قول مذہب امام احمد وغیرہ میں موجود ہیں۔ اور جو شرط جج اور والیان امر کے متعلق ہے اس پر حسب امکان عمل کیا جائے، بلکہ ہمہ قسم کی عبادتیں نماز، جہاد وغیرہ میں یہی حکم ہے، قدرت و طاقت کے مطابق عمل واجب ہے، جب قدرت نہ ہو، عاجزی اور مجبوری ہے تو اللہ تعالیٰ کسی کو طاقت و قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اسی کلیہ کے مطابق طہارت و پاکی کا معاملہ ہے، پانی سے پاکی حاصل کرے، اگر پانی معدوم ہو یا اس کے استعمال سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو، مثلاً سخت ترین سردی ہے، یا پانی کے استعمال سے زخم بڑھ رہا ہے تو تیمم کر لے اور اسی بناء پر نبی کریم ﷺنے، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

صَلِّ قَائِمًا فَاِنْ لَّمْ یَستَطِعْ فَقَاعِدًا فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلٰی جَنْبٍ
نماز کھڑے ہو کر پڑھا کرو، اگر کھڑ ہونے کی طاقت نہیں ہے تو بیٹھ کر، اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں تو لیٹے لیٹے پڑھا کرو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
غرض یہ کہ اللہ نے نماز وقت پر ادا کرنے کا حکم فرمایا: جس طرح اور جس حال میں ممکن ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلہِ قَانِتِیْنَ o فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ رُکْبَانًا، فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ o (البقرۃ:239-238)
مسلمانو! تمام نمازوں کی عموماً اور درمیانی نماز (عصر) کی خصوصاً محافظت کرو اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے رہو۔ اور پھر اگر تم کو دشمن کا ڈر ہو تو پیدل یا سوار جس حالت میں جیسے بن پڑے نماز ادا کر لو، پھر جب تم مطمئن ہو جاؤ تو پھر جس طرح اللہ نے تم کو سکھایا ہے کہ تم پہلے نہیں جانتے تھے، اسی طریقے سے اللہ کو یاد کرو۔

نماز اللہ تعالیٰ نے پرامن، دشمن سے خوفزدہ، صحیح و تندرست، مریض، غنی، فقیر، مقیم و مسافر تمام پر فرض کر دی جیسا کہ کتاب اللہ، کتاب الرسول میں وارد ہے، اسی طرح نماز کے لیے طہارت، ستر پوشی، استقبال قبلہ بھی فرض کر دیا اور جو اس سے قاصر ہو اس سے ساقط کر دیا، اگر کسی کی کشتی ٹوٹ گئی اور ڈاکوؤں اور چوروں نے انہیں لوٹ لیا۔ کپڑے وغیرہ اتروا لئے، تو اس وقت ننگے حسب حال نماز ادا کریں اور جو امام ہو وہ درمیان میں کھڑا رہے، تاکہ ستر کوئی نہ دیکھ پائے، اگر قبلہ ان پر مشتبہ ہو جائے تو حسب طاقت کوشش کریں اور کوشش کے بعد نماز ادا کر لیں۔ اگر کسی جانب ترجیح کی دلیل نہیں ہے تو جس طرح جس جہت امکان ہو نماز ادا کریں، جیسا کہ عہد نبوی ﷺمیں نماز گذاری گئی تھی۔

یہی حال جاد و ولایات اور تمام دینی امور کا ہے، اور ان امور کے متعلق قرآن حکم کا یہ قاعدہ و کلیہ ہے:

فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (تغابن:16)
تو مسلمانو! جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔

اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِاَمْرٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ
جب میں کسی چیز کا تمہیں حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس پر عمل کرو۔

جیسے اللہ تعالیٰ نے خبیث اشیاء کے کھانے پینے کو حرام قرار دیا۔ تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ:

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ (البقرۃ:173)
تو جو بھوک سے بے قرار ہو جائے اور عدول حکمی کرنے والا اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو تو اس پر کسی بھی چیز کے کھا لینے کا گناہ نہیں ہے۔

مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج (الحج:78)
دین کے بارے میں تم پر کسی قسم کی سختی نہیں ہے۔

اور فرما دیا:

مَا یُرِیْدُ اللہُ لِیْجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ (مائدہ:6)
اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی کرنا نہیں چاہتا۔

پس اللہ تعالیٰ نے وہی فرض فرمایا جو انسانی طاقت میں ہو، اور جو طاقت و قدرت سے خارج ہے وہ واجب نہیں ہے، حالت اضطراری میں ضرورت کے وقت جس کے بغیر چارہ نہیں ہے، حرام نہیں کیا، اضطرار کی حالت میں بندے نے حرام چیز پر بلا معصیت عمل کر لیا تو جائز ہے، کوئی گناہ نہیں۔
 
Top