• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باتھ روم سے بات کا جواب دینا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
نارمل حالت میں تو نہیں کرنا چاہئے البتہ انتہائی ضرورت یا ایمرجنسی ہو تو مختصر کلام کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں"۔
(سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن الاجتماع علیٰ الخلاء والحدیث عندہ، رقم الحدیث:۳۴۲، ۱/۷۸،مکتبة المعارف،الریاض)

اس حدیث میں قضائے حاجت کرتے ہوئے باتیں کرنے کو منع کیا گیا ہے۔ پہلے ادوار میں اور آج کل بھی بعض دیہات اور گاؤں میں متعدد لوگ مل کر ویرانوں اور جنگل میں رفع حاجت کے لئے جایا کرتے تھے۔ آج کل اس کا رواج کم ہے۔ عموماً گھروں میں بیت الخلا ہوتے ہیں۔ جہاں بیک وقت ایک ہی فرد فارغ ہوتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے اسے بھی رفع حاجت کے وقت بیت الخلا سے باہر کسی فرد سے بات چیت نہیں کرنی چاہئے۔ (ایمرجنسی صورتوں کے علاوہ کہ اس کی گنجائش ہر قانون میں ہوتی ہے)

ایک اہم بات اور بھی قابل غور ہے۔ بیت الخلا اور غسل خانہ میں فرق ہے۔ رفع حاجت بیت الخلا میں کیا جاتا ہے، لہٰذا صرف بیت الخلا میں گفتگو منع ہے، غسل خانہ میں نہیں۔ اسی طرح آج کل بیت الخلا + غسل خانہ ایک ساتھ بنا ہوتا ہے، جہاں رفع حاجت کے علاوہ غسل، وضو، برش، کپڑے دھونا جیسے کام ہوتے ہیں۔ ایسے کامن باتھ روم میں صرف رفع حاجت کے دوران گفتگو ممنوع ہے۔ دیگر کاموں کے دوران نہیں۔ بلکہ دیگر کاموں کے دوران تو کبھی کبھار کامن باتھ روم کا دروازہ چوپٹ کھلا بھی رہتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات
 

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ استدلال اپنی جگہ درست ہے لیکن قابل عمل تب ہے جب ہم انہی روایات پر عمل پیرا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھیں میری مراد یہ ہے کہ بیت الخلاء اور غسل خانہ کی تفریق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ستر ڈھانپ کر غسل کیا جاتا تھا جبکہ آج غسل خانہ + بیت الخلاء ہو یا صرف غسل خانہ ہو تو ستر کھلا ہوتا ہے جبکہ بات چیت کی ممانعت کی اصل وجہ بھی ستر کا کھلا ہونا ہے تو پھرغسل اور بیت الخلاء میں تفریق کیسے کی جاسکتی ہے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ استدلال اپنی جگہ درست ہے لیکن قابل عمل تب ہے جب ہم انہی روایات پر عمل پیرا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھیں میری مراد یہ ہے کہ بیت الخلاء اور غسل خانہ کی تفریق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ستر ڈھانپ کر غسل کیا جاتا تھا جبکہ آج غسل خانہ + بیت الخلاء ہو یا صرف غسل خانہ ہو تو ستر کھلا ہوتا ہے جبکہ بات چیت کی ممانعت کی اصل وجہ بھی ستر کا کھلا ہونا ہے تو پھرغسل اور بیت الخلاء میں تفریق کیسے کی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی بات درست ہے۔ غسل کرتے وقت اگر ستر کھلا ہو، تب بھی بات چیت نہیں کرنی چاہیئے۔ گویا بیت الخلا ہو یا کامن باتھ اگر رفع حاجت کر رہے ہوں یا ستر کھول کر غسل کر رہے ہوں، گفتگو سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ دیگر مواقع پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
باتھ روم میں ھوتے ھوءے کسی سے بات کرنا یا کسی بات کا جواب دینا شریعت کے مطابق اس کا کیا حکم ھے ؟
غسل خانہ ہو یا پیشاب خانہ جب ستر ننگا ہو تو بات کرنا نا پسندیدہ عمل ہے ، بلکہ اللہ کے غضب اور ناراضی کا باعث ہے ۔ جيساکہ اوپر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث گزری ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
البتہ انتہائی ضرورت کے وقت بات کرنا امید ہے اس وعید سے مستثنی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
کسی حدیث سے یا فتو'ی سے وضاحت کریں
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=158517
عربی زبان کے اندر موجود اس فتوی کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر ذکر کردیا گیا ہے ۔
 
Top