• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - اللہ کے لیے بچوں کی شادیاں جلدی کیجئے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - اللہ کے لیے بچوں کی شادیاں جلدی کیجئے

محمد عثمان فاروق اتوار 28 دسمبر 2014


والدین سے گزارش ہے کہ خدارا اسٹیٹس، نوکری، جہیز کی وجہ سے شادیوں میں دیر نہ کریں۔ ہمارے معاشرے میں اولاد ادب کی وجہ سے خاموش رہتی ہے لیکن آپ شادی میں تاخیر کرکے نہ صرف ظلم کررہے ہیں بلکہ اسکی حق تلفی بھی کررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

بچوں کی دیر سے شادی کرنا ہمارا معاشرتی رواج بنتا جارہا ہے ۔شادی میں دیر کے اصل ذمہ داری والدین ہوتے ہیں جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنی اولادوں کو بوڑھا ہونے تک بٹھائے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اوسط عمر تقریباً 65 سال ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں پہلے پچیس چھبیس سال تو تعلیم حاصل کرنے میں گزرجاتے ہیں جبکہ اگلے چار سال نوکری کی تلاش اور شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے میں گزرجاتے ہیں ۔

اسوقت تک انسان کے کنپٹیوں کے بال یا تو سفید ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر سر ویسے ہی ائیرپورٹ بن چکا ہوتا ہے۔( سر کے ائیرپورٹ بننے کا مطلب ویسا سر جیسا میاں نوازشریف صاحب کا 1999سے پہلے تھا) چہرے پر بڑھاپے کی لکیروں کی آمد آمد ہوتی ہے تب والدین اپنے ’’لڑکے‘‘ کے لیے چاند سی دلہن کی تلاش شروع کرتے ہیں گویا لڑکے کی آدھی سے زائد عمر گزر چکی ہوتی ہے جوانی کا عالم نزع شروع ہوچکا ہوتا ہے ایسے حالات میں خدا خدا کرکے شادی ہوتی ہے اور شادی کے چند دن بعد ہی والدین کی طرف سے شکایتیں آنی شروع ہو جاتیں ہیں کہ

’’آئے ہائے شادی کے بعد تو بیٹے نے ہم کو بھلا ہی دیا ۔شادی کے بعد تو دلہن نے بیٹے پر قبضہ کرلیا ‘‘ ۔

تو ایسے والدین سے گزارش ہے کہ اگر آپ نے وقت پر اپنے بیٹے کی شادی کی ہوتی تو شاید حالات مختلف ہوتے ۔آپ جب بیٹے کی آدھی عمر گزار کر شادی کریں گے تو بیٹا پھر دلی طور پر والدین کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ شادی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے انسان کو مکمل ہونے کے لیے ایک شریک حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا جب برسوں بعد انسان کی شادی ہوتی ہے اسکی زندگی میں ایک پیار کرنے والی بیوی آتی ہے جو اسکو عزت اور محبت دیتی ہے تو لازماً پھر والدین سے توجہ ذرا کم ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں والدین ان تمام ’’باریکیوں ‘‘ کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نئی آنے والی لڑکی کے دشمن ہو جاتے ہیں کہ اس نے ہمارے بیٹے کو ہم سے چھین لیا ۔ یہ تو لڑکوں کی شادی کے حالات ہیں آجکل بیٹیوں والے بھی کچھ مختلف نہیں ہیں ۔ایک طرف تو جہیز کی لعنت کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں دلوں میں پیا گھر کے لاکھوں ارمان سجائے بابل کے آنگن میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف اکثر بیٹی کے والدین آسمان سے اترے کسی شہزادے کی تلاش میں جان بوجھ کر بیٹی کو گھر میں بیٹھائے رکھتے ہیں۔

نواز حکومت کے پچھلے دور میں شادیوں میں کھانے پر پابندی لگانے کا ایک بہترین اقدام ہوا تھا جس کی وجہ سے بہت سے سفید پوش افراد عزت کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو بیاہنے کے قابل ہوئے تھے ۔آج ایک بار پھر حکومتی سطح پر ایسے کڑے قوانین کی ضرورت ہے کہ شادی پرکھانے اور جہیز پر مکمل اور سخت پابندی لگائی جائے ۔ ہوسکتا ہے اِس مطالبے پر بہت سے لوگ اعتراض کریں لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئیے کہ اس قانون سے کتنے ماں باپ کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ،کتنی بیٹیوں کے گھر آباد ہو جائیں گے ۔

والدین اس بات کی تو اجازت دے سکتے ہیں کہ انکے بیٹے یا بیٹیاں بیس سال کی عمر میں بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ بنالیں لیکن اس بات سے انکی جان جاتی ہے کہ بیس سال کی عمر میں بچوں کا نکاح کردیا جائے ۔اگر ہمارے معاشرے میں اس روایت کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ بیس سال عمر ہوتے ہی بچے یا بچی کا مناسب رشتہ دیکھ کر یا بچوں کی پسند سے ہی انکا نکاح کردیا جائے اور جب وہ مناسب سمجھیں انکی رخصتی کردی جائے اس سے نہ صرف معاشرتی برائیاں کم ہوں گی بلکہ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی دوستیوں نے جو شریف گھروں کا سکون برباد کیا ہوا ہے اس کا بھی سدباب بھی ہوسکے گا ۔

یہ تحریر لکھنے کی بنیادی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ میرے اکثر دوستوں کے ساتھ بھی پیش آرہا ہے کہ انکے والدین انکی شادیاں لیٹ کررہے ہیں حالانکہ اب وہ کماو پوت بھی ہیں ۔ بقول میرے ایک دوست کہ اُس کی عمر اگلے سال ستائیس سال ہوجائے گی مگر اُس کے والدین اُس کی شادی کے بارے میں ابھی نہیں سوچ رہے کہ وہ اُسے کہتے ہیں کہ پہلے کوئی اعلی سرکاری نوکری کرو تمھارے لیے ’’ ڈاکٹربہو‘‘ لانی ہے۔ اب اُسکے والدین کی اس ’’ننھی ‘‘ سی خواہش کو پورا کرتے کرتے نہ جانے وہ عمر تک پہنچ جائے گا۔

یادرکھیئے یہ نوجوانوں کا معاشرہ ہے آپ غور کرلیجئے دنیا کے آدھے فسادات انسانی کی اسی نفسانی خواہش کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔ایسے حالات میں میری تمام والدین سے اپیل ہے کہ خدا کا واسطہ ہے اسٹیٹس کو ، نوکری، جہیز وغیرہ کے چکر میں اپنے بچوں کی شادیوں میں دیر نہ کریں بے شک آپکی اولاد شرم اور ادب کی وجہ سے کچھ نہیں بولتی لیکن آپ اسکی شادی میں دیر کرکے نہ صرف اس پر ظلم کررہے ہیں اسکی حق تلفی کررہے بلکہ اسکو برائی کی طرف لے جانے کے ذمہ دار بھی بن رہے ہیں ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
نکاح جیسے معاملات میں لڑکے کے مالی استحکام کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا ۔مالی استحکام کی عدم موجودگی میں ایسا قدم رحمت کی بجائے زحمت ثابت ہوتا ہے ۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
نکاح جیسے معاملات میں لڑکے کے مالی استحکام کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا ۔مالی استحکام کی عدم موجودگی میں ایسا قدم رحمت کی بجائے زحمت ثابت ہوتا ہے ۔
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته

مالی استحکام سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر استحکام سے مراد آپ استطاعت لے رہے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے تو آپ کی بات درست ہے کیونکہ اگر بیوی کو پالنے کی استطاعت نہ ہو تو ایسی صورت میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔

اور اگر مالی استحکام سے آپ کی مراد وہی ہے جو آج کل معاشرے میں عام ہے کہ لڑکا خوب پیسے کماتا ہو، گھر، گاڑیاں وغیرہ ہو تو آپ کی بات سے میں متفق نہیں ہوں، کیونکہ یہ بات قرآن، حدیث اور سلف صالحین کے عمل سے ٹکراتی ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته

مالی استحکام سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اگر استحکام سے مراد آپ استطاعت لے رہے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے تو آپ کی بات درست ہے کیونکہ اگر بیوی کو پالنے کی استطاعت نہ ہو تو ایسی صورت میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔

اور اگر مالی استحکام سے آپ کی مراد وہی ہے جو آج کل معاشرے میں عام ہے کہ لڑکا خوب پیسے کماتا ہو، گھر، گاڑیاں وغیرہ ہو تو آپ کی بات سے میں متفق نہیں ہوں، کیونکہ یہ بات قرآن، حدیث اور سلف صالحین کے عمل سے ٹکراتی ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
آپ کی سابق الذکر عبارت ہی میرے مؤقف کی ترجمانی ہے جبکہ مؤخر الذکر کے حق میں ،میں بھی نہیں ہوں۔لیکن جس شخص کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ بمشکل چلتا ہو اس کو نکاح کا مشورہ دینا اس کو فتنے میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔
 
Top