• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باجماعت نماز تراویح کی حقیقت

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,587
پوائنٹ
791
باجماعت نماز تراویح کی حقیقت


سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین یا چار دن اس نماز تراویح کو باجماعت ادا کیا ہے،وہ بھی لوگ اتفاق سے جمع ہوگئے توآپ نے انہیں باجماعت نمازتراویح پڑھائی،ایسی حالت میں اس نماز کے متعلق اس قدر اہتمام چہ معنی دارد؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محدثین عظام کا اس امر میں اختلاف ہے کہ نماز تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے یا گھر میں اکیلے پڑھنابہتر ہے،ہمارے رجحان کے مطابق نماز تراویح مسجدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ افضل ثابت ہے۔اگرچہ بعد ازاں آپ نے ان کے فرض ہونے کے اندیشے سے انہیں باجماعت ادا کرنا ترک کردیا تھا لیکن جب آپ کی وفات کے بعد یہ اندیشہ نہ رہا تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا، اس کے بعد یہ عمل آج تک امت میں رائج ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےمروی ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے،آپ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن آدھی رات مسجد میں تشریف لے گئے،اور وہاں نماز اداکی،لوگوں نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی،اگلے دن لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو لوگ پہلے سے زیادہ جمع ہوگئے اور انہوں ے رات کے وقت آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی،اگلے دن لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا تو لوگ پہلے سے زیادہ جمع ہوگئے اور انہوں نے رات کے وقت آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔اگلی صبح اس امر کا لوگوں میں چرچا ہواتو تیسری رات اہل مسجدکی تعداد بہت زیادہ ہوگئی،ان تمام حاضرین نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔جب چوتھی رات ہوئی تو اس قدر لوگ جمع ہوگئے کہ مسجد کی وسعت تنگ پڑ گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات تشریف نہ لائے۔جب صبح کی نماز کا وقت ہوا تو آپ نے نماز فجر پڑھائی ،نماز سے فراغت کےبعد لوگوں سے متوجہ ہوکرفرمایا:"آپ حضرات کاشوق وذوق مجھ سے مخفی نہیں تھا لیکن مجھے اندیشہ تھاکہ مبادا یہ نماز فرض ہوجائے پھر تم لوگ اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ۔"[1]
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا۔[2]بخاری کی روایت میں ہے کہ"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پاگئی لیکن یہ معاملہ اسی طرح رہا،حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کےدوران بھی معاملہ اسی طرح رہا،حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی دور حکومت میں اسی طرح چلتا رہا۔[3]اس کے بعد کیا ہوا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے ،چنانچہ عبدالرحمان بن عبدالقاری فرماتے ہیں:میں ایک رات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا،وہاں دیکھا کہ سب لوگ منتشر ومتفرق تھے،کوئی اکیلا نمازپڑھ رہا تھ اور کوئی کسی کےپیچھے کھڑا تھا،یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کردوں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
چنانچہ انہوں نے اسی عزم وارادہ کے ساتھ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا امام مقرر کردیا پھر ایک رات میں جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نکلاتو دیکھا کہ تمام لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز تراویح پڑ ھ رہے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:یہ نیا طریقہ بہت بہتر اور مناسب ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں یہ لوگ سوجاتے ہیں اس حصےسے بہتر ہے جس میں یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔
آپ کی مراد رات کی آخری حصے کی تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع میں ہی پڑھ لیتے تھے۔[4]
مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ قیام رمضان یعنی صلوۃ تراویح باجماعت مشروع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس اندیشے کی وجہ سے چوتھی رات جماعت سے گریز کیا تھا کہ یہ نماز مسلمانوں پر فرض نہ کردی جائے ،شاید بعد میں یہ لوگ بارہ خاطر خیال کر کے ترک کردیں،پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خائف تھے،اس سے امن ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے نماز تراویح باجماعت ادا کرنے کا اہتمام فرمایا اور اسے باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا،اس بنا پر سوال میں جومفروضہ قائم کیا گیا ہے،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔صحیح بخاری الجمعۃ:924۔
[2] ۔صحیح بخاری التھجد:1129۔
[3] ۔صحیح بخاری صلواۃ التراویح:209۔
[4] ۔صحیح بخاری التراویح:2010۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد3۔صفحہ نمبر 252
محدث فتویٰ
 

Asif Ahmad

رکن
شمولیت
اگست 20، 2012
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم اب مسلہ یہ رہا کہ بریلوی ،حنفی حضرات دو طرح کے سوال پوچھتے ہے
ایک یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ نیا طریقہ بدعت حسنہ تو بن گیا
اور دوسرا یہ کہ آپ نے بیس رکعت کا حکم دیا نا کہ آٹھ کا ۔۔

Sent from my Redmi Note 5 Pro using Tapatalk
 
شمولیت
دسمبر 25، 2019
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
10
سنت کو بدعت حسنہ کا نام دینا صحیح نہیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اندیشہ کہ تراویح فرض نہ ہو جائے، درست تھا.
 
Top