محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
بارہ ربیع الاول،غوروفکر
بارہ ربیع الاول،غوروفکر
بیگم عطیہ انعام الٰہی
ربیع الاوّل کے بابرکت مہینے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ مشیتِ الٰہی کے تحت اس دنیا
سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ یہ صرف ایک اتفاق ہی نہیں بلکہ ربُ العزّت کی طرف سے ہم مسلمانوں کا ایک خاص قسم کا امتحان بھی ہے۔ اس امتحان کی اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی پیدائش کا دن اور آپ کا یومِ رحلت بھی ایک ہی یعنی بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہم اس وقت ایک عجیب قسم کے دوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہم آج کے دن آپ کی پیدائش کی خوشی منائیں یا آپ کی وفات کا دُکھ اور صدمہ!
ایک بارہ ربیع الاوّل وہ تھا جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔بے شک اس موقع پر کئی بابرکت اُمور ظاہر ہوئے مگر کلی طور پر کوئی بھی اس بات کا اِحاطہ نہیں کرسکتا تھا کہ یہ پیدا ہونے والی ہستی کون ہے اور انسانیت کے کس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والی ہے، کیونکہ مستقبل کا کامل علم اللہ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔
پھر درجہ بدرجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کی منازل طے کرتے گئے حتیٰ کہ عمر عزیز کے چالیسویں سال آپ کو مقامِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا اور دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا اصل مشن آپ کے سپرد کیا گیا۔ یہ مشن تھا بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس کے خالق سے ملانا اور اس کی عبادت اور اِطاعت کے ذریعے اسی کے ساتھ وابستہ کرنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مشن کو توفیقِ ایزدی کے ساتھ اس شان سے کمال تک پہنچایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرض کماحقہ پورا کردیا۔ حج کے انہی ایام میں ،منیٰ میں ہی سورۃ النصر نازل ہوئی تو جہاں یہ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکمیل مشن کی بشارت تھی، وہیں اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اب دنیا سے رخصتی کا اشارہ بھی تھا۔ سمجھ دار صحابہ اس اشارے کو سمجھ گئے تھے اور غمگین اور افسردہ ہوگئے۔ پھر بارہ ربیع الاوّل کا وہ دن بھی آگیا جب آپ اس دنیاے فانی سے تشریف لے گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون!
اس دن صحابہ کرام کے غم و الم کا کیا عالم تھا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ جیسے جری او ربہادر صحابی غم کے اس کوہِ گراں کو برداشت نہ کرسکے اور تلوار لے کر کھڑے ہوگئے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تو اس کی گردن اُڑا دوں گا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بڑی ہوش مندی اور تدبر کے ساتھ سب کے سامنے حقیقت بیان کی۔ فرمایا :
”جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں او رجو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے او رکبھی مرنے والا نہیں۔”
پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 144 تلاوت فرمائی: وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ
”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے۔اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ (یعنی اسلام چھوڑ دوگے)”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا ہم لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہوئی پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”اللہ کی قسم!مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں نے یہ آیت ابوبکررضی اللہ عنہ کے تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی او رجب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اُٹھ رہے تھے۔ زمین پر گر گیا او رجب میں نے ابوبکررضی اللہ عنہ کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے۔” (صحیح بخاری: 4454)
بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ موذّنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چپ لگ گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ اذان نہ دے سکے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد فقط دو دفعہ اذان دی۔ ایک دفعہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے مجبور کرنے پر اَذان دینا شروع کی مگر أشھد أن مُ مُ محمد تک پڑھا اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے۔صد حیرت اور افسوس ہے ہم پر کہ بارہ ربیع الاوّل کو ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کی خوشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ وصال کو ہم قطعاً بھول جاتے ہیں۔ قارئین!اگر ایسا ہو کہ ہمارا کوئی بہت ہی پیارا عزیز اسی تاریخ پرفوت ہوجائے جس تاریخ پر وہ پیدا ہوا تو آپ دل پر ہاتھ رکھ کر انصاف سے بتائیے کہ کیا اس تاریخ کو پیدائش کی خوشیاں منائیں گے یا وفات کا غم !
جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، کسی کو کامل ادراک نہیں تھا کہ کیسی ہستی دنیا میں تشریف لائی، لیکن اپنی بے مثال زندگی گزار کر جب آپ 63سال کے بعد وفات پاتے ہیں تو صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے عرب کو اندازہ تھا کہ کون سی ہستی ہم سے جدا ہوگئی ہے۔ اسی لئے ان کے غم و اَندوہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے اُن پر پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔
ہم اگر چند دہائیاں پیچھے کو جائیں تو بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ہمارے ہاں بارہ ربیع الاوّل کو بارہ وفات کا نام دیا جاتاتھا اور اس دن لوگوں کے احساسات و جذبات افسردہ اور اُداس ہوتے تھے۔ اس دن ان کی سرگرمیاں ایسے ہی جذبات کی عکاسی کرتیں۔ نجانے کس روشن خیالی کے تحت ایسی سب سوچوں پر پہرہ لگا دیا گیا او راس کو صرف اور صرف خوشیوں اور مسرتوں کا ایک ایسا موقع سمجھ لیا گیا کہ ‘عید’سے کم کسی نام پر اطمینان ہی نہیں۔ حالانکہ ایسی مذہبی ، ملی او راجتماعی خوشیوں کے مواقع مقرر کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور ان دو ہستیوں نے ہمارے لئے سال بھر میں دو عیدیں مقرر فرمائیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ۔ عیدین کے فلسفہ پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ دونوں عیدوں کے ساتھ اسلام کے دو بنیادی فرائض وابستہ ہیں:رمضان اور حج،او ران کی ادائیگی کی خوشی اور شکرانے میں اللہ تعالیٰ ہمیں مسرت کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ اللہ کے بندوں نے اللہ کی رضا پانے کے لئے اللہ کے عائد کردہ فرائض بجا لانے میں محنت کی۔ آخرت میں اللہ نے حسن قبولیت کا پروانہ دیا اور دنیا میں اجتماعی ملّی خوشی کا دن مقرر کردیا۔ عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا کوئی فریضہ وابستہ نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ رب العزّت کا بے پایاں کرم ہے کہ اس نے ہمیں امام الانبیاء رحمۃ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا۔اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباعِ کامل کا عہد و اقرار کریں تو اللہ رب العزّت کی اس نعمتِ عظمی کا کچھ حق ادا ہوسکتا ہے۔
کسی بھی عمل کو بطورِ ایک شرعی فریضے کے ادا کرنے کے لئے ہمارے پاس دو بنیادیں ہوتی ہیں:قرآن کریم اور سنت مطہرہ میں اس کے بارے میں شرعی حکم ۔جس کے بارے میں دورِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے دور کے بعد ہمیشہ سے اُمتِ مسلمہ کا اجتماعی عمل بھی ہمارے شوقِ عمل کو مہمیز دیتا ہے۔
عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہم قرآن و سنت میں غور کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ اَحادیث میں ہمیشہ ‘عیدین’یعنی دو عیدوں کے احکام اور تفاصیل ہی ملتی ہیں نہ کہ تین عیدوں کی۔رہ گیا اُمت کا تعامل تو سب سے پہلے ان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کا نمبر ہے ، دوسرے نمبر پر تابعین کا او رپھر تبع تابعین کا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا ہے: ” سب سے بہترین میرا زمانہ ہے پھر اس کے ساتھ کا او رپھر اس کے ساتھ کا۔” (صحیح بخاری:2651)
اگر ہم ان تینوں ادوار کو دیکھیں تو ان پاکیزہ نفوس نے بارہ ربیع الاوّل کےحوالے سے ہمارے لئے کوئی نمونہ قائم نہیں کیا۔ ہمارے لئے ان اَدوار کے صالحین کا عملی نمونہ بن سکتا ہے،کیونکہ انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین قرار دیا۔پھر بعد کے اَدوار میں دین پر عمل کے حوالے سے لوگوں میں ویسی پابندی اوراہتمام نہ رہا، اس لئے بعد کے لوگوں کا عمل ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ میلاد کے سلسلے میں ایک تاریخی پہلو سے بھی جائزہ لیں۔مسلمانوں میں معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 22/اپریل 571ء میں بروز سوموار پیدا ہوئے۔ جبکہ اسلامی مہینے کے لحاظ بارہ ربیع الاوّل عام الفیل کے اگلے سال بروز سوموار صبح کو پیدا ہوئے۔
محققین کی تحقیق کے مطابق 22/اپریل 571ء ، 12 ربیع الاوّل سن1 ہجری عام الفیل میں پیر کا دن نہیں بنتا بلکہ جمعرات کا دن بنتا ہے۔پیر کا دن 9 ربیع الاوّل میں پڑتا ہے۔اس لئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش 9 ربیع الاوّل ہے، نہ کہ 12ربیع الاوّل۔ یہ تحقیق سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عالمی انعام یافتہ کتاب ‘الرحیق المختوم’کے مصنف علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری کی ہے۔اُنہوں نے اپنی اس کتاب میں علامہ محمد سلیمان منصورپوری اور محمود پاشا فلکی کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے۔
قارئین!غور فرمائیں اگر منشائے الٰہی یہ ہوتا کہ اُمتِ محمدیہ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش بطورِ عید منائے تو کم از کم اس کی تاریخ کے بارے میں اختلاف نہ ہوتا۔ دوسری طرف 12 ربیع الاوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم رحلت ہونے کے بارے میں اُمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا بارہ ربیع الاوّل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ میلاد ہو یا نہ ہو مگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم رحلت ضرور ہے۔ مگر ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ اس سنگ دل اُمت نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم رحلت کو’یومِ عید’بنا ڈالا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے یومِ پیدائش کو بطورِ عید مناتے ہیں تو مسلمانوں نے بھی اُن کی دیکھا دیکھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ پیدائش کو عید بنا ڈالا۔مگر جوشِ نقالی میں وہ یہ بھی غور نہ کرسکے کہ یومِ پیدائش کو عید منا رہے ہیں یا یوم ِوصال کو۔
پھر اس عید کو منانے کے لئے نئے سے نئے انداز اختیار کرلیے۔ پہلے تو صرف جلوس نکلتے تھے۔جس کی قیادت ہاروں سے لدے پھندے کچھ ‘پير’ کرتے ہیں۔ ساتھ میں کچھ ڈھول بجانے او ربھنگڑا ڈالنے والے بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر میں سب پیٹ بھر کر اعلیٰ کھانا کھاتے ہیں۔نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور شان اپنی دوبالا کرتے ہیں۔کام و دہن کی لذت خود حاصل کرتے ہیں۔ اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جنہوں نے کبھی پیٹ بھر کر اچھا کھانا نہیں کھایا تھا اور کئی کئی دن تک اُن کے ہاں چولہا ہی نہیں جلتا تھا۔
ہر سال اس عید کو منانے میں جدت پیدا کرلی جاتی ہے۔ اس دفعہ کی خبر یہ ہے کہ عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشعل بردار جلوس نکالا جائے گا۔ یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ یہ مشعلیں خوشی کی علامت ہوں گی یا غم کی؟کیونکہ مغرب میں تو غم کے موقع پر مشعلیں جلا کر خاموشی اختیا رکی جاتی ہے۔ نوائے وقت میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ مدینہ منورہ سے اشیا حاصل کرکے یہاں پاکستان میں تین من کیک تیار کیا جائے گا۔ اگریہ کیک ‘برتھ ڈے’کیک ہے تو پھر اس کو 63 من کا ہونا چاہئے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 63 سال تھی اور اگر یومِ رحلت کے لئے ہے تو خود ہی اپنے عمل کی سنگینی پر غور فرمالیں۔
”یہ اُمت روایات میں کھوگئی!”
یہ بات واضح ہے کہ عوام الناس اپنے آباء اَجداد او رنام نہاد ‘مولویوں’کو دیکھتے سنتے ہوئے یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر ان کی غلطی اور کوتاہی یہ ہے کہ دین کے معاملات کو کم اہم سمجھتے ہوئے اُن میں خود سمجھ پیدا نہیں کرتے اور کچھ نہیں تو اُنہیں علمائے حق سے ہی راہنمائی لے لینی چاہئے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر … اظہارِ عقیدت و محبت کے لئے ہمارے سامنےکتاب و سنت او راُسوہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہونا چاہئے نہ کہ مروّجہ رسوم و رواج!
کتاب و سنت اور اُسوہ صحابہ کرام کی روشنی میں حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے سامنے واضح احکام اور ہدایات ہیں جن پرپورا اُترنے سے ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ اظہار ہوسکتا ہے۔جس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں، ہم رک جائیں او رجس کام کو کرنے کا حکم دیں، پوری رضا و رغبت سے اس پر عمل پیرا ہوں، یہی ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اتباع رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ اطاعت سے آگے بڑھ کر رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر معاملے میں اتباع اور پیروی کو اختیارکیا جائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو اپنی پسند اورناپسند بنا لینا۔
آپ سے محبت کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرمسنون طریقے سے مسنون الفاظ میں زیادہ سے زیادہ درود و سلام پڑھا جائے۔اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقامِ وسیلہ کی دعا کی جائے ۔اس کے لئے مسنون دعا کو ہی اختیار کیا جائے او راللہ تعالی سے اُمید رکھی جائے کہ وہ روزِ قیامت ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائیں گے۔
http://www.ahlehadith.org/بارہ-ربیع-الاول،غوروفکر/