محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِىْ قِيْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاۗءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ۵۹ۧ وَاِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ۰ۭ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَيْنًا۰ۭ قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ۰ۭ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۶۰
۱؎ جنگل میں بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آئے تھے۔ وہ بے آب وگیاہ جنگل تھا۔ پانی کی سخت تکلیف تھی، اس لیے ان کی درخواست پرموسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی ۔حکم ہوا۔ پتھر پر معجزطراز لٹھ رسید کرو۔ تعمیل کی گئی اور بطور اعجاز کے بارہ چشمے پتھر سے پھوٹ نکلے جو بنی اسرائیل کے بارے قبائل کے لیے کافی تھے۔
قرآن حکیم کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہ تھا، درخواست تھی ۔پھر تکمیل درخواست کو اس معجزانہ شکل میں پیش کیا۔ وہ لوگ جو اس کی تاویل کرتے تھے، صحیح مسلک پر نہیں ہیں۔ قرآن حکیم کے الفاظ کسی تاویل کے مستحق نہیں اور نہ متحمل۔
{القریۃ}شہر۔ {رِجْزٌ}عذاب۔ تکلیف۔{اِضْرِبْ}مار۔امر ہے ضرب سے ۔ چلنے کے معنی اس وقت ہوتے ہیں جب اس کا صلہ فی ہو۔ جیسے ضرب فی الارض۔ جب اس کا صلہ با ہوتو اس کے معنی بجز مارنے کے اور کچھ نہیں ہوتے۔ {عَیْنٌ} متعدد معانی ہیں۔ یہاں مراد ہرچشمہ ہے ۔
مگرظالموں نے بتائی ہوئی بات کو دوسری بات سے بدل دیا۔تب ہم نے ظالموں پر ان کی نافرمانی کے سبب آسمان سے عذاب بھیجا۔(۵۹) اور جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ تب اس میں سے بارہ چشمے۱؎ بہہ نکلے اور سب آدمیوں نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ اللہ کی طرف سے رزق کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ (۶۰)
بارہ چشمے
۱؎ جنگل میں بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آئے تھے۔ وہ بے آب وگیاہ جنگل تھا۔ پانی کی سخت تکلیف تھی، اس لیے ان کی درخواست پرموسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے درخواست کی ۔حکم ہوا۔ پتھر پر معجزطراز لٹھ رسید کرو۔ تعمیل کی گئی اور بطور اعجاز کے بارہ چشمے پتھر سے پھوٹ نکلے جو بنی اسرائیل کے بارے قبائل کے لیے کافی تھے۔
قرآن حکیم کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہ تھا، درخواست تھی ۔پھر تکمیل درخواست کو اس معجزانہ شکل میں پیش کیا۔ وہ لوگ جو اس کی تاویل کرتے تھے، صحیح مسلک پر نہیں ہیں۔ قرآن حکیم کے الفاظ کسی تاویل کے مستحق نہیں اور نہ متحمل۔
حل لغات