• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بازار جانے اور وہاں کھانے پینے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بازار ضرورت کی جگہ ہے جہاں کچھ لوگ کاروبار کرتے ہیں تو کچھ لوگ ان کاروبار سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ یہاں فائدہ خرویدوفروخت کرنے والے دونوں فریق کو ہوتا ہے ۔فروخت کرنے والے کا سامان بکتا ہے اور خریدنے والے کی ضرورت پوری ہوتی ہے ۔ بازار جانا ایک فطری چیز ہے مگر پرانے زمانے میں غریب و مسکین بازار جایا کرتے اور مالدار بازار جانا کبروعناد میں اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے مگر اسلامی شریعت کی رو سے بازار جانے کی ممانعت نہیں۔ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ رب العزت نے نبی ﷺ کے متعلق قرآن میں بازار جانے کا تذکرہ فرمایا ۔

ارشاد ربانی ہے :

(وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا) [الفرقان: 7]

ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیوں نازل نہیں کیا گیا اس کے پاس کوئی فرشتہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا۔

اور احادیث کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے بازار جانے کی دعا کی سکھائی ہے ۔

بازار میں داخل ہونے کی دعا:

لا إلٰهَ إلاَّ اللّٰهُ وَحدَهُ لَا شَريكَ لَهُ، لهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيءٍ قَدِير۔

ترجمہ: الله کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت اور سب تعریف اسی کے لیے ہے، وہی زندگی دیتا اور وہی مارتا ہے اور وہ زندہ ہے مرتا نہیں، اس کے ہاتھ میں سب بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے۔

(صحیح ابن ماجہ للالبانی 2/21 ، صحیح الترمذی للالبانی 3/152)


جس حدیث میں بازار کو بدترین جگہ بتلایا گیا ہے جیساکہ یہ حدیث :

خيرُ البقاعِ المساجدُ ، و شرُّ البقاعِ الأسواقُ (صحيح الجامع للالباني : 3271)

ترجمہ : سب سے بہترین جگہ مسجد ہے اور بدترین جگہ بازار ہے۔

اس حدیث سے بازار جانے کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے بازار جانا اور بازار کی مسجد میں نماز پڑھنا ثابت ہے یہاں تک کہ بازار جانے کی دعا بھی ثابت ہےجیساکہ اوپر گذرا۔


دوسرا مسئلہ بازار میں کھانے پینے کا ہے ۔ تو اس سلسلے میں بھی نبی ﷺ سے کوئی ممانعت ثابت نہیں ہے ۔ ایک ضعیف حدیث سے بعض لوگ ممانعت ثابت کرتے ہیں، حدیث اس طرح ہے ۔

الْأَكْلُ فِي السُّوقِ دَنَاءَةٌ ( رواه الطبراني فيی الکبیر وابن عساكر في تاريخه)

ترجمہ: بازار میں کھانا خسیس (گھٹیا پن) حرکت ہے۔

٭ اس حدیث پر ابن العربی، قرطبی اور شوکانی رحمہم اللہ نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے۔

٭ شیخ البانی نے اسے سلسلہ ضعیفہ میں درج فرمایا ہے ۔(السلسلۃ الضعیفہ : 2465)

٭عراقی نے تخریج الاحیاء میں اور بوصیری نے اتحاف الخیرۃ میں ضعیف قرار دیا ہے ۔

٭ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بازار میں کھانے کی ممانعت سے متعلق ساری حدیث باطل ہیں، معیقلی نے کہا کہ اس باب میں نبی ﷺ سے کوئی چیز ثابت نہیں ۔(المنار المنیف ص : 130)

٭ ذھبی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سلسلے میں کچھ آثار بیان کئے جاتے ہیں مگر ان میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ (سیراعلام النبلاء 12/472)


مذکورہ بالا نصوص کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بازار جانا یا بازار میں کھانا پینا منع نہیں ہے ، مگرآج کے حالات کے تناظر میں بازار سے متعلق چند باتیں ملحوظ رکھنی بے حد ضروری ہیں ۔


(1) بلا ضرورت بازار نہیں جانا چاہئے ۔

(2) عورت کا جیسے بلا ضرورت اور بلا غیر محرم سفر کرنا منع ہے ویسا ہی طریقہ بازار کے لئے بھی لازم پکڑے ۔

(3) اس وقت بازار اور راستوں کے ہوٹلوں میں شرعی اعتبار سے بڑی قباحتیں ہیں ، اس لئے ان ہوٹلوں میں کھاتے ہوئے شرعی مخالفات سے پرہیز کرے، مثلا رقص ، زنا ، جوا، شراب اور کھانے پینے کی حرام اشیاء بیچنے والے ہوٹلوں سے بچے۔

(4)آج کے حالات کے تئیں بلاضرورت ہوٹلوں میں ہمیشہ کھانا صحیح نہیں ہے ۔

(5) مسافر ہو یا کسی جگہ اکیلا مقیم ہو اور پکانا دشوار ہو تو ایسے حالات میں برابر کھانے کے لئے صحیح ہوٹل کا انتخاب کرے ۔

(6) اگر ممکن ہو تو میری نظر میں سب سے افضل طریقہ بازار کے ہوٹل سے کھانا خرید لے اور اپنی رہائش پہ کھائے ۔



نوٹ : اسے میں نے اپنے علم کی روشنی میں لکھا ہے مگراہل علم کی طرف سے اس پہ مزید بحث کی گنجائش ہے ۔ (مقبول احمد سلفی)
 
Top