عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,403
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
پروفیسر محمدبشیر متین فطرت
بازگشتِ اعتزال و اِرتداد
اس نظم کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
بر خلاف نصِ قرآں، یہ مذاقِ اجتہاد
دیدنی ہے باز گشتِ اعتزال و اِرتداد !
مکر و فن کا کھیل ہے ان کی بساطِ استناد
دامنِ رنگیں ہے جس کا مصدرِ شرّ و فساد
مدعی تو گویا ’دانشور‘ ہیں سب اسلام کے
رنگِ دانش نے کیا لیکن عیاں کذب و عناد
حاشیہ بردار ہیں طاغوت کے یہ ’دیدہ ور‘
اَوّلیں ترجیح ان کی جاہ و منصب کا مفاد
گمرہی میں پیش قدمی، ان کو ہے وجہ ِ نشاط
کہہ رہے ہیں اہل شر، ہر آن اُن کو زندہ باد !
پیروانِ نفس ہیں، فرزانِ گانِ رنگِ رنگ
ان کے ہر تارِ نفس کا زیر و بم ہے ’اجتہاد‘
شور افزودہ رہی ان کی بنائے تربیت
اختلالِ فکر نے کی ثبت اس پر مہر صاد
ان کا اندازِ نظر، برگشتہ منظر ہو گیا
وجۂ تسکین ان کو ہیں اب کج رَوی کے گرد باد
لائق مشق جراحت ہے یقینا وہ دماغ
جس کے کل پُرزوں میںہو ایسا خلل، ایسا فساد
ان کے رشحاتِ قلم کا تجزیہ تو کیجئے
کس قدر مسموم ہے الفاظ کا بست و کشاد
فکر باطل سے یہ شوقِ اشتراک، آخر ہے کیا؟
مظہر فہم سقیم و مورَدِ صد انتقاد!
اَخذ و استنباط ان کا، شرپسندی کا نقیب
طرزِ استدلال و تاویل، اس پر اَمرِ مستزاد
ان کی تحقیقی روش ہے اک جہانِ طُرفہ تر
ہر خزف ریزے کو ہے کیا کیا جنونِ اجتہاد!
ترجمانِ دشمناں ہیں یہ محقق، یہ ادیب
خانہ براندازِ ملت، ننگِ دین و کج نہاد!
سیکڑوں برخود غلط، ایسے’سکالر‘ ہیں یہاں
جن کی تحریریں اُگلتی ہیں عجب زہرِ فساد
بے خطر محو ِ سفر ہیں، صاحبانِ صد نقاب
کس قدر عیار ہیں یہ شاطرانِ اقتصاد
گاہے تصنیفِ کتب، گاہے جرائد میںمگن
گاہے یہ کرتے ہیں علمی مجلسوں کا انعقاد
شوشہ خیز و فتنہ پرور، نکتہ چین و رخنہ گر
در پئے مسلم تشخص، ایں گروہِ شر نہاد!
وحدتِ اَدیان بھی ہے ان کا سرابِ زر نگار
بر بناے کہنگی ہے گو رہینِ امتداد
یہ بنام اجتہاد، ایسی مہم کے ہیں نقیب
جلوہ گر ہیں خود سری کے جس میں صدہا گرد باد
ایسے استشراق پیشہ گرم رَو ہیں ہر طرف
آرزو جن کی یہ ہے، اسلام ہو زیر خراد
شاہ سے دو ہاتھ آگے، افسرانِ خوش خرام
یہ نگہداران غایاتِ خفی، باطل نژاد!
مفسدہ پرداز وطالع آزما ہیں یہ مگر
بارہا اسلام نے دیکھے ہیں ایسے گُرگ زاد
کیا تعجب ہے تماشائی ہیں اہل اقتدار
کیا نہیں منظور انہیں شرّوفتن کا انسداد!
بے قرارِ دُزد خواہی،جب متاع خویش ہو
پھر تہی دامن معانی سے نہ کیوں ہو اعتماد
فتنہ و آشوب سے ہر دم بچا،پروردگار!
یہ متینؔ بے نوا ہے مستغیث خوش معاد
دیدنی ہے باز گشتِ اعتزال و اِرتداد !
مکر و فن کا کھیل ہے ان کی بساطِ استناد
دامنِ رنگیں ہے جس کا مصدرِ شرّ و فساد
مدعی تو گویا ’دانشور‘ ہیں سب اسلام کے
رنگِ دانش نے کیا لیکن عیاں کذب و عناد
حاشیہ بردار ہیں طاغوت کے یہ ’دیدہ ور‘
اَوّلیں ترجیح ان کی جاہ و منصب کا مفاد
گمرہی میں پیش قدمی، ان کو ہے وجہ ِ نشاط
کہہ رہے ہیں اہل شر، ہر آن اُن کو زندہ باد !
پیروانِ نفس ہیں، فرزانِ گانِ رنگِ رنگ
ان کے ہر تارِ نفس کا زیر و بم ہے ’اجتہاد‘
شور افزودہ رہی ان کی بنائے تربیت
اختلالِ فکر نے کی ثبت اس پر مہر صاد
ان کا اندازِ نظر، برگشتہ منظر ہو گیا
وجۂ تسکین ان کو ہیں اب کج رَوی کے گرد باد
لائق مشق جراحت ہے یقینا وہ دماغ
جس کے کل پُرزوں میںہو ایسا خلل، ایسا فساد
ان کے رشحاتِ قلم کا تجزیہ تو کیجئے
کس قدر مسموم ہے الفاظ کا بست و کشاد
فکر باطل سے یہ شوقِ اشتراک، آخر ہے کیا؟
مظہر فہم سقیم و مورَدِ صد انتقاد!
اَخذ و استنباط ان کا، شرپسندی کا نقیب
طرزِ استدلال و تاویل، اس پر اَمرِ مستزاد
ان کی تحقیقی روش ہے اک جہانِ طُرفہ تر
ہر خزف ریزے کو ہے کیا کیا جنونِ اجتہاد!
ترجمانِ دشمناں ہیں یہ محقق، یہ ادیب
خانہ براندازِ ملت، ننگِ دین و کج نہاد!
سیکڑوں برخود غلط، ایسے’سکالر‘ ہیں یہاں
جن کی تحریریں اُگلتی ہیں عجب زہرِ فساد
بے خطر محو ِ سفر ہیں، صاحبانِ صد نقاب
کس قدر عیار ہیں یہ شاطرانِ اقتصاد
گاہے تصنیفِ کتب، گاہے جرائد میںمگن
گاہے یہ کرتے ہیں علمی مجلسوں کا انعقاد
شوشہ خیز و فتنہ پرور، نکتہ چین و رخنہ گر
در پئے مسلم تشخص، ایں گروہِ شر نہاد!
وحدتِ اَدیان بھی ہے ان کا سرابِ زر نگار
بر بناے کہنگی ہے گو رہینِ امتداد
یہ بنام اجتہاد، ایسی مہم کے ہیں نقیب
جلوہ گر ہیں خود سری کے جس میں صدہا گرد باد
ایسے استشراق پیشہ گرم رَو ہیں ہر طرف
آرزو جن کی یہ ہے، اسلام ہو زیر خراد
شاہ سے دو ہاتھ آگے، افسرانِ خوش خرام
یہ نگہداران غایاتِ خفی، باطل نژاد!
مفسدہ پرداز وطالع آزما ہیں یہ مگر
بارہا اسلام نے دیکھے ہیں ایسے گُرگ زاد
کیا تعجب ہے تماشائی ہیں اہل اقتدار
کیا نہیں منظور انہیں شرّوفتن کا انسداد!
بے قرارِ دُزد خواہی،جب متاع خویش ہو
پھر تہی دامن معانی سے نہ کیوں ہو اعتماد
فتنہ و آشوب سے ہر دم بچا،پروردگار!
یہ متینؔ بے نوا ہے مستغیث خوش معاد
اسلامی نظریاتی کونسل کے مجلہ اجتہادfکی تقریب ِرونمائی لاہور ۹؍اپریل ۲۰۱۰ء کے موقع پر ایک تاثراتی نظم