عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
باطل سے اتحاد کے لئے حق سے اختلاف
آج ہرچہار جانب سے امت مسلمہ میں اتحاد کے نعرے لگ رہے ہیں اور اس کے لئے ہرممکن ذریعہ کی تلاش اوراس پر عمل کی کوششیں جاری ہیں حالانکہ قران وحدیث میں واضح طور پر اختلاف کے اسباب اور اتحاد کے ذرائع کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے، لیکن افسوس کہ قرآنی ارشادات ونبوی تصریحات کی روشنی میں اختلاف دور کرنے اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کے بجائے اپنی عقل وتجربہ کی بنیاد پر اتحاد امت بلکہ اتحاد انسانیت کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔
اور آج مصلحت پرستوں نے اتحاد کاسب سے بہترین فارمولہ یہ اپنا لیا ہے کہ جو لوگ ہم سے اختلاف رائے رکھتے ہیں ان کی کچھ باتوں کو قبول کر لیا جائے گرچہ ان کا بطلان اظہر من الشمس ہو۔
اس میں شک نہیں اس فارمولہ سے بھی کسی حد تک اتحاد ممکن ہے مگر اتحاد کے خاطر ایسے سمجھوتے کی قران وحدیث میں قطعا کوئی گنجائش نہیں ،بلکہ صراحت کے ساتھ اس سے منع دیاگیاہے:
اللہ کاارشادہے:
{وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ} [البقرة: 120]
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے(البقرة120ترجمہ مودودی)۔
اس آیت میں اہل باطل کے ساتھ اتحاد اور ان کی رضا کے حصول کے لئے ایک کامیاب ذریعہ بتلایا گیا، اور وہ ہے اہل باطل کے باتیں قبول کرلینا۔
اللہ تعالی نے یہ کار آمد ذریعہ اس لئے نہیں بتلایا تھا کہ اس پر مکمل نہ سہی تو جزوی طور پر ہی عمل کرکے اغیار کی خوشنودی حاصل کی جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ ذریعہ گرچہ کار آمد ہے مگر اس پر عمل، اغیارکی خواہشات کی پیروی کرنا ہے، اور علم و حقائق کے واضح ہوجانے کے بعد یہ طرزعمل الہی نصرت وتائید سے محرومی کا ذریعہ بھی ہے، گرچہ دنیاوی اتحاد اس سے حاصل ہوجائے،فرمایا:
{ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ } [البقرة: 120]
اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے (البقرة120ترجمہ مودودی)۔
مگرافسوس کہ آج مدعیان اسلام کا ایک پورا گروہ ہے جو جزوی طور پر اس فارمولہ پر عمل پیرا ہے اور اغیار کی نصرت و حمایت کے حصول کی خاطر اللہ کی نصرت تائید کا سودا کررہا ہے، چنانچہ:
کوئی سزائے رجم کا انکار رہا ہے۔
کوئی بے پردگی کی حمایت کر رہا ہے۔
کوئی قربانی کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
کوئی شاتمین رسول کے تحفظ پر کتابیں لکھ رہا ہے۔
کوئی شراب نوشی، حرام خوری اور فحاشیت کو جائز بتلا رہا ہے۔
کوئی خواتین کو خطبہ جمعہ اور مردوں کے ساتھ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر نماز پڑھنے کی تعلیم دے رہاہے۔
اسی پر بس نہیں بلکہ مفتیان کرام نے تو موسیقی اورخواتین اسلام کے لئے اہل کتاب سے شادی تک کی اجازت دے دی، اوراس کے لئے قران وحدیث سے دلائل بھی فراہم کردئے۔
ان تمام گمراہیوں کی وجہ کم علمی نہیں بلکہ اغیارکی رضاجوئی ہے، آج دنیاوی ترقی یافتہ قوم کو خوش کرنے کے لئے اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لئے باطل کے ساتھ سمجھوتہ کیا جارہا۔
یہ طرز عمل عموما مفکرین کا ہوتا ہے لیکن ایسے علمائے دین کی بھی کمی نہیں ہے جو آئے دن اہل بدعت کی تائید وتصویب کرتے جاتے ہیں تاکہ وہ ان سے خوش رہیں، اورنتیجتا ہمارے اوران کے بیچ اتحاد اور امن ومان قائم ہو، چنانچہ اسی فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے :
٭کوئی حادث، عطائی اور محدود کا فلسفہ پیش کرکے انبیاء کے لئے بھی علم غیب کا اثبات کر رہا ہے۔
٭کوئی عقائد میں اشعری فکر کی حمایت میں سرگرم ہے۔
٭کوئی رفع الیدین میں جوازالامرین کا قائل ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی میں فہم ومعرفت میں تفاوت کی بنا پر بھی ان امور میں اختلافات ہوئے ہیں مگر آج قیام اتحاد کے پیش نظر ان اختلافی امور میں رائے قائم کی جارہی۔
مولانا مودودی صاحب بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اتحاد امت کے لئے کوششیں کی ہیں اور اس اتحاد کی خاطر بہت سارے دینی وشرعی مسائل میں جوازالامرین اور مباح کا تسلسل عام کر دیا، خواہ یہ مسائل اوامرومنہیات ہی کے قبیل سے کیوں نہ ہوں۔
اسی پر بس نہیں بلکہ موصوف نے شیعہ حضرات کے ساتھ بھی قدم سے قدم ملانے کی ٹھان لی اور انہیں بھی ساتھ لیکر ایک فلیٹ فارم پر متحد ہونے کی کوشش کی، اور ان کے ساتھ اتحاد کے لئے اسی فارمولے پر عمل کیا یعنی ان کے بعض گمراہ کن اور باطل افکار کی تائید وتصویب کردی اور ''خلافیت وملوکیت'' کے نام پرخیرالقرون کے مقدس گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم پر سب وشتم تک کو گورا کرلیا تاکہ اسی طرح شیعہ حضرات قریب ہوسکیں اور ان کے ساتھ متحد ہونے کی راہ ہموار ہو۔
الغرض یہ کہ آج ایسے بہت سے لوگ ہیں جو باطل کے ساتھ اس لئے سمجھوتہ کررہے ہیں تاکہ وہ ان سے قریب ہو سکیں اور آج کی بھولی بھالی عوام اسے اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھتی ہے مگردرحقیت یہ ''باطل کے ساتھ اتحاد کے لئے حق سے اختلاف'' کا فارمولہ ہے، دنیا کی چند عارضی کوڑیوں کے لئے آخرت کی نعمتوں کی قربانی ہے، ضلالت وگمراہی کے لے ہدایت ومغفرت کاسوداہے، حق ان کی نظروں میں روز روشن کی طرح عیاں ہے، مگر دنیاپرستی کی خاطر حق پوشی سے کام لے رہے ہیں:
{ إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (174) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ (175) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ (176) } [البقرة: 174 - 176]
یقینا جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹہرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے (البقرة: 174، 176)۔
اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کا بیان ہواہے جو حق جاننے کے باوجود محض دنیاوی مفاد کی خاطر واضح غلطیوں بلکہ گمراہیوں پر بھی سمجھوتہ کر لیتے تھے۔
اللہ ہم سب کو ایسے افکار اور ایسے افکار کے حامل افراد کے شر سے بچائے، آمین۔۔۔
اداریہ مجلہ ’’اہل السنہ‘‘ مئی 2012، از کفایت اللہ السنابلی
بشکریہ: اردو مجلس فورم