عبداللہ ابن آدم
رکن
- شمولیت
- ستمبر 05، 2014
- پیغامات
- 161
- ری ایکشن اسکور
- 59
- پوائنٹ
- 75
باغ فدک کے مسئلے کی حقیقت : (دلیل شیعوں کی معتبر کتابوں سے)
سب سے پہلےجانتے ہیں کہ فدک کیا ہے؟فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا۔(لسان العرب جلد2، صفحہ 473)
فدک کے مسئلے کی حقیقت:
آئیے اب ہم جانتے ہیں کہ فدک کے مسئلےکی حقیقت کیا ہے؟ جسے منافقین و فتنہ جو اور امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن، عرصۂ دراز سے بھڑکا رہے ہیں، اپنے ناپاک مقاصد اور خود غرضیوں کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر اک دھوم مچا رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت اور عام مسلمانوں کے درمیان بُعد و افتراق، پھوٹ اور اختلاف ثابت کر یں۔ دراصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اہلِ بیت ایک طرف تھے اور مہاجرین و انصار میں سے ’’السابقون الاولون“ اور پوری امت دوسری طرف۔
اللہ کی قسم! ایسی بات نہیں تھی یہ مسئلہ اتنا اختلافی نہیں تھاجتنا ان شیعوں نے صرف طعن وتشنیع کیلئےکردیا ہے بات صرف اتنی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وفات پا جانے کے بعدلوگوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خلافت اور مسلمانوں کی امارات کیلئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کےآپ رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا دیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا گیاکہ آپ رضی اللہ عنہ فدک میں سےاپنی میراث کا سوال کریں جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہاکہ رسول اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم (یعنی انبیاء علیھم السلام) میراث نہیں چھوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اورآل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی اس مال میں سے حصہ دیا جاتا ہے اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقات میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا تمام صدقات اسی طرح رہیں گےجس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد مبارک میں تھےمیں بھی ان صدقات کوانہی مصارف میں استعمال کروں گاجن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم استعمال کیا کرتے تھےمیں اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کرنے سےزیادہ یہ پسند کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقرباء سےصلہ رحمی کروں ۔جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔
مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔‘‘
(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)
اسی نے کہا تھا (اشعار)
’’میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘
’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘
’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘
’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے۔‘‘ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)
شیعہ ابن میثم نہج البلاغ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہاجو آپ کے والد محترم کا تھاوہ آپ کا ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھےباقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گاجیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھےیہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہ خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا۔(شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)
شیعہ حضرات کو یہ گوارا نہیں کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اتنی آسانی سے اس فیصلہ پر راضی ہوجائیں۔ انہوں نے صفحوں پر صفحے سیاہ کردیے، بیشمار کتابیں اس پر لکھ ماری ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں بکیں۔ طعن و تشنیع کے تیر برسائے، آپ کو کافر، فاسق، مرتد اور اسلام سے خارج کہا، لکھا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اہلِ بیت پر ظلم کرتے اور ستم ڈھاتے تھے۔ یہ معاملہ جن سے متعلق تھا، انہوں نے ایک دوسرے کو کچھ نہ کہا، زیادہ نہ کم۔ اور یہ بدبخت اپنی طرف سے ان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ ہم شیعہ حضرات کی اپنی کتابوں سے اس بات کو ثابت کریں گے بلکہ خود اُن کے ائمہ نے تسلیم کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف یہ بات زبان ہی سے نہیں کہی بلکہ اپنے عمل سے اس کو پورا کیا ہے ۔۔۔۔۔!
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعدعلی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران)
اور یہ لوگ اس پر راضی بھی کیوں ہوں؟ ان میں سے مجلسی نے لکھا ہے: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا اہلِ بیت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک کو غصب کرلینا سب سے بڑی آفت اور سب سے بڑا حادثہ ہے… المناک اور کرب انگیز بات یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کی خلافت غصب کرلی۔ مہاجرین اور انصار سے جبری بیعت لے لی۔ فدک اہل بیت سے اس اندیشہ کی بناء پر چھین لیا کہ اگر ان کے پاس رہے گا تو لوگ مال کے لالچ میں ان کی طرف میلان رکھیں گے اور ان ظالموں (یعنی ابوبکر اور ان کے ساتھیوں) کو چھوڑ دیں گے۔ ان کو اس حد تک فقر و غربت میں مبتلا کردیا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ بچا۔ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو ان کی طرف کوئی میلان و دلچسپی نہ رہے کہ کہیں لوگ ان کی باطل خلافت کو نہ توڑ دیں۔ اسی لیے یہ لوگ من گھڑت اور ناپاک یہ روایت پیش کرنے لگے کہ ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
(گالی گلوچ اور دشنام طرازی میں مجلسی جیسا بے باک کم ہی ہوگا۔ وہ نبی کے کسی بھی صحابی کا ذکر لعن طعن اور تکفیر و تفسیق کے بغیر نہیں کرتا۔ اس نے فدک کی بحث میں لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے فاطمہ سے اس بات پر گواہ طلب کیے کہ فدک ان کا ہے، تو علی نے ابوبکر سے کہا: کیا تو گواہ طلب کرتا ہے؟ کیا گواہ ہی سب کچھ ہیں؟ آپ نے کہا: ہاں، اس پر علی نے آپ سے کہا، اگر گواہ گواہی دے دیں کہ فاطمہ نے زنا کیا ہے تو تُو کیا کرے گا؟ آپ نے کہا: میں دوسرے تمام لوگوں کی طرح اس پر بھی حد قائم کروں گا (عیاذاً باللہ) (حق الیقین للمجلسی صفحہ ۱۹۳) دیکھئے کس قدر جرأت و بےباکی ہے۔ ذرا شرم نہیں آتی۔
”حق الیقین‘‘ فارسی للملا مجلسی صفحہ ۱۹۱ بعنوان ’’مطاعن ابی بکر‘‘)
کتنے ہی گمراہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلتے گئے؟ کینہ رکھتے ہوئے ان واقعات پر جو وقوع پذیر نہیں ہوئے۔ قوم کے بیوقوف افراد نہیں جانتے کہ جس گھر کو وہ مکڑی کے جال کی طرح بن رہے ہیں، حق کے ایک ہی جھکڑ کے سامنے اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
شیعہ کتب گواہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے۔۔۔۔۔۔؟؟
یہ روایت جسے ان شیعوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض وحسد کی بنا ء پررد کر دیا ہےیہ شیعہ نہیں جانتے کہ ان کے پانچویں امام نےاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کیا ہےاور خود ان شیعوں کی اپنی کتاب میں موجود ہے، جی ہاں!ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے… اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا۔‘‘
(’’الاصول من الکافی‘‘ کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)
جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: ’’علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں۔‘‘
(’’الاصول من الکافی‘‘ باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32)
مجلسی اور اس جیسے دیگر اصحابِ ضلال کے پاس ان روایات کا کیا جواب ہے؟ فارسی کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم ہے کہ: ’’اگر یہ گناہ کی بات ہے تو پھر تمہارا شہر بھی اس گناہ سے خالی نہیں۔“
اس کے علاوہ بھی دو روایتیں ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔۔۔!!
’’ابراہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔‘‘
( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)
دوسری روایت میں ہے: ’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔‘‘
(”کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)
مجلسی اور دیگر شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے تھے جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ قومِ شیعہ کے دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:
(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ۔
(’’الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸)
اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی۔۔۔۔؟؟
کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری مال کو اپنی ذاتی ملکیت بنالیا تھا؟ عقلِ سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ اِس دور میں بھی، جو لوٹ کھسوٹ کا دور ہے، دین سے بیگانگی اور حرام و حلال سے بے پرواہی کا دور ہے، اس دورِ پرفتن میں بھی بادشاہ اور حکام جب زمین کے کسی ٹکڑے کے حاکم بن جاتے ہیں یا اسے فتح کرلیتے ہیں تو دوسروں کو فراموش کرکے سب کچھ اپنی ذاتی ملکیت نہیں سمجھ لیتے، بلکہ مال کو ملک و ملت کے لیے، رعایا کی بہبود کے لیے اور عوام کی ہر قسم کی ضروریات پر صرف کرتے ہیں۔ میری جان اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ، کیا یہ لوگ انہیں ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو سب لوگوں پر ترجیح دیتے تھے؟ اللہ کی قسم! یہ افتراء و بہتان ہے۔ اللہ کا مہربان و عظیم رسول ان گھٹیا جذبات سے بلند تر اور پاک تھا۔
ایک اور چیز بھی قابلِ غور ہے کہ اگر فدک کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔
یہ بھی وضاحت کرتے چلیں دیں کہ یہ اعتراض کرنے والے بیچارے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔
ان کے چوتھے امام … ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔‘‘
(”الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:
’’ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ
میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔‘‘
(”من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷)
اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی۔
(مزید تفصیل کے لیے شیعہ کی دیگر فقہی کتب کی مراجعت کریں)
اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر پھر آئیں اور آخری دم تک ان سے بات نہ کی، ہاں! آپ اپنے مطالبہ سے پھر گئیں اور پھر اپنی پوری زندگی میں اس موضوع پر کبھی بات نہ کی … نیز جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:
’’سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا۔
(”حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی)
اس کمزور بنیاد پر وہ ماتمی مجلسوں، اہلِ بیت کے حقوق غصب ہوجانے کا واویلا، اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیت کے درمیان عداوت و کدورت کی اس عمارت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیادیں اول روز ہی منہدم ہوچکی تھیں، وہم وتخیلات کے جس تانے بانے کو بننا چاہتے تھے، ہواؤں کے تھپیڑوں سے اس کی دھجیاں فضا میں بکھر چکی ہیں۔ ابنِ سبا کی اس ذریت پر سربراہِ اہلِ بیت، فاطمہ کے شوہر، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ضربِ کاری لگائی تھی۔ دیکھیے امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:
’’جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا۔‘‘
(”الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱ ’’شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)
اسی لیے جب ابوجعفر محمد باقر سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جائوں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘
کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔‘‘
(”شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
دیکھو شیعوں کے امام تو شیعوں ہی کی کتابوں میں کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیاپھر یہ شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں دھرتے ہیں۔۔۔؟؟
باقر کے بھائی زید بن علی بن حسین نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ کہا تھا جو آپ کے دادا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، بحتری بن حسان کے پوچھنے پر آپ نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔‘‘
(”شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
میرے خیال میں معاملہ صاف ہوچکا ہے اور اب مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
یہ سلسلۂ گفتگو ختم کرنے سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر کلینی کی نقل کردہ دو روایات اور پیش کردیں۔ پہلی روایت ابو عبداللہ جعفر کی ہے، آپ نے کہا: ’’مالِ غنیمت وہ ہے کہ اس پر کسی بخیل کا دل نہ ڈگمگایا ہو، یا قوم نے مصالحت نہ کرلی ہو، یا کسی قوم نے خود اپنے ہاتھوں سے نہ دیا ہو، ہر بنجر زمین اور جنگلات کے مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامِ وقت، جس مصرف میں چاہیں استعمال کریں۔‘‘
(”الاصول من الکافی‘‘ کتاب الحجۃ، باب الفتی والانفال ،جلد ۱ ،صفحہ ۵۳۹)
مطلب صاف واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام وقت سب لوگوں سے زیادہ اس میں تصرف کا حق دار ہے۔
دوسری روایت ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ اسے بھی ’’الاصول من الکافی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے۔
روایت سنیے! شیعہ حضرات کے ساتویں امام ابو الحسن موسیٰ، مہدی کے پاس آئے، دیکھا کہ وہ مظالم دور کر رہے ہیں، ان سے کہنے لگے: اے امیر المومنین! ہمارے مظالم کیوں دور نہیں کیے جاتے؟
وہ پوچھنے لگے: ابو الحسن کون سے مظالم؟ کہا کہ فدک ، مہدی نے ان سے کہا: اے ابوالحسن اس کا حدودِ اربع بتاؤ، آپ کہنے لگے: اس کی ایک حد جبل احد ہے، ایک حد عریش مصر ہے، ایک حد سیف البحر ہے اور ایک حد دومۃ الجندل ہے۔
( ”الاصول من الکافی “باب الفتی والانفال ،جلد 1 ،صفحہ 543)
گویا کہ پوری آدھی دنیا! کہاں چھوٹا سا خیبر کا گاؤں اور کہاں آدھی دنیا؟ ذرا دیکھیے! یہ قوم کس قدر جھوٹ بولتی ہے، ان کی مبالغہ آرائیاں دیکھیے، کس طرح یہ لوگ اتنی سی بات کو افسانہ بنا دیتے ہیں۔ بس اسی سے ان حضرات کی مبالغہ آرائیوں کا اندازہ کرلیجیے۔
اس پر ہم فدک، امیر المومنین، خلیفۂ رسولِ صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کی افضلیت و حقانیت اور شیعہ حضرات کی اپنی کتابوں سے نقل کردہ روایات کی روشنی میں اہلِ بیت سے آپ رضی اللہ عنہ کی محبت کی بحث ختم کرتے ہیں۔ اور اب خلیفۂ راشد خلیفہ ثانی فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتگو کریں گے جو حق و باطل کو جدا جدا کردینے والے ہیں، جو اللہ پر راضی ہیں اور اللہ ان پر راضی ہے۔
----------------------------------------------------------------
سب سے پہلےجانتے ہیں کہ فدک کیا ہے؟فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا۔(لسان العرب جلد2، صفحہ 473)
فدک کے مسئلے کی حقیقت:
آئیے اب ہم جانتے ہیں کہ فدک کے مسئلےکی حقیقت کیا ہے؟ جسے منافقین و فتنہ جو اور امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن، عرصۂ دراز سے بھڑکا رہے ہیں، اپنے ناپاک مقاصد اور خود غرضیوں کے لیے اسے بڑھا چڑھا کر اک دھوم مچا رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، بالخصوص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت اور عام مسلمانوں کے درمیان بُعد و افتراق، پھوٹ اور اختلاف ثابت کر یں۔ دراصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اہلِ بیت ایک طرف تھے اور مہاجرین و انصار میں سے ’’السابقون الاولون“ اور پوری امت دوسری طرف۔
اللہ کی قسم! ایسی بات نہیں تھی یہ مسئلہ اتنا اختلافی نہیں تھاجتنا ان شیعوں نے صرف طعن وتشنیع کیلئےکردیا ہے بات صرف اتنی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وفات پا جانے کے بعدلوگوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خلافت اور مسلمانوں کی امارات کیلئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کےآپ رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا دیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا گیاکہ آپ رضی اللہ عنہ فدک میں سےاپنی میراث کا سوال کریں جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہاکہ رسول اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم (یعنی انبیاء علیھم السلام) میراث نہیں چھوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اورآل محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی اس مال میں سے حصہ دیا جاتا ہے اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صدقات میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا تمام صدقات اسی طرح رہیں گےجس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد مبارک میں تھےمیں بھی ان صدقات کوانہی مصارف میں استعمال کروں گاجن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم استعمال کیا کرتے تھےمیں اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کرنے سےزیادہ یہ پسند کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقرباء سےصلہ رحمی کروں ۔جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔
مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔‘‘
(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)
اسی نے کہا تھا (اشعار)
’’میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘
’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘
’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘
’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے۔‘‘ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)
شیعہ ابن میثم نہج البلاغ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ سے کہاجو آپ کے والد محترم کا تھاوہ آپ کا ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھےباقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گاجیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھےیہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہ خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا۔(شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)
شیعہ حضرات کو یہ گوارا نہیں کہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اتنی آسانی سے اس فیصلہ پر راضی ہوجائیں۔ انہوں نے صفحوں پر صفحے سیاہ کردیے، بیشمار کتابیں اس پر لکھ ماری ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالیاں بکیں۔ طعن و تشنیع کے تیر برسائے، آپ کو کافر، فاسق، مرتد اور اسلام سے خارج کہا، لکھا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اہلِ بیت پر ظلم کرتے اور ستم ڈھاتے تھے۔ یہ معاملہ جن سے متعلق تھا، انہوں نے ایک دوسرے کو کچھ نہ کہا، زیادہ نہ کم۔ اور یہ بدبخت اپنی طرف سے ان پر الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ ہم شیعہ حضرات کی اپنی کتابوں سے اس بات کو ثابت کریں گے بلکہ خود اُن کے ائمہ نے تسلیم کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف یہ بات زبان ہی سے نہیں کہی بلکہ اپنے عمل سے اس کو پورا کیا ہے ۔۔۔۔۔!
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے
’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعدعلی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران)
اور یہ لوگ اس پر راضی بھی کیوں ہوں؟ ان میں سے مجلسی نے لکھا ہے: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا اہلِ بیت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک کو غصب کرلینا سب سے بڑی آفت اور سب سے بڑا حادثہ ہے… المناک اور کرب انگیز بات یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کی خلافت غصب کرلی۔ مہاجرین اور انصار سے جبری بیعت لے لی۔ فدک اہل بیت سے اس اندیشہ کی بناء پر چھین لیا کہ اگر ان کے پاس رہے گا تو لوگ مال کے لالچ میں ان کی طرف میلان رکھیں گے اور ان ظالموں (یعنی ابوبکر اور ان کے ساتھیوں) کو چھوڑ دیں گے۔ ان کو اس حد تک فقر و غربت میں مبتلا کردیا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ بچا۔ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو ان کی طرف کوئی میلان و دلچسپی نہ رہے کہ کہیں لوگ ان کی باطل خلافت کو نہ توڑ دیں۔ اسی لیے یہ لوگ من گھڑت اور ناپاک یہ روایت پیش کرنے لگے کہ ہم انبیاء کی جماعت وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
(گالی گلوچ اور دشنام طرازی میں مجلسی جیسا بے باک کم ہی ہوگا۔ وہ نبی کے کسی بھی صحابی کا ذکر لعن طعن اور تکفیر و تفسیق کے بغیر نہیں کرتا۔ اس نے فدک کی بحث میں لکھا ہے کہ جب ابوبکر نے فاطمہ سے اس بات پر گواہ طلب کیے کہ فدک ان کا ہے، تو علی نے ابوبکر سے کہا: کیا تو گواہ طلب کرتا ہے؟ کیا گواہ ہی سب کچھ ہیں؟ آپ نے کہا: ہاں، اس پر علی نے آپ سے کہا، اگر گواہ گواہی دے دیں کہ فاطمہ نے زنا کیا ہے تو تُو کیا کرے گا؟ آپ نے کہا: میں دوسرے تمام لوگوں کی طرح اس پر بھی حد قائم کروں گا (عیاذاً باللہ) (حق الیقین للمجلسی صفحہ ۱۹۳) دیکھئے کس قدر جرأت و بےباکی ہے۔ ذرا شرم نہیں آتی۔
”حق الیقین‘‘ فارسی للملا مجلسی صفحہ ۱۹۱ بعنوان ’’مطاعن ابی بکر‘‘)
کتنے ہی گمراہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلتے گئے؟ کینہ رکھتے ہوئے ان واقعات پر جو وقوع پذیر نہیں ہوئے۔ قوم کے بیوقوف افراد نہیں جانتے کہ جس گھر کو وہ مکڑی کے جال کی طرح بن رہے ہیں، حق کے ایک ہی جھکڑ کے سامنے اس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
شیعہ کتب گواہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے۔۔۔۔۔۔؟؟
یہ روایت جسے ان شیعوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض وحسد کی بنا ء پررد کر دیا ہےیہ شیعہ نہیں جانتے کہ ان کے پانچویں امام نےاسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کیا ہےاور خود ان شیعوں کی اپنی کتاب میں موجود ہے، جی ہاں!ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے… اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا۔‘‘
(’’الاصول من الکافی‘‘ کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)
جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: ’’علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں۔‘‘
(’’الاصول من الکافی‘‘ باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32)
مجلسی اور اس جیسے دیگر اصحابِ ضلال کے پاس ان روایات کا کیا جواب ہے؟ فارسی کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم ہے کہ: ’’اگر یہ گناہ کی بات ہے تو پھر تمہارا شہر بھی اس گناہ سے خالی نہیں۔“
اس کے علاوہ بھی دو روایتیں ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔۔۔!!
’’ابراہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔‘‘
( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)
دوسری روایت میں ہے: ’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔‘‘
(”کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)
مجلسی اور دیگر شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے تھے جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ قومِ شیعہ کے دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:
(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ۔
(’’الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸)
اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی۔۔۔۔؟؟
کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری مال کو اپنی ذاتی ملکیت بنالیا تھا؟ عقلِ سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ اِس دور میں بھی، جو لوٹ کھسوٹ کا دور ہے، دین سے بیگانگی اور حرام و حلال سے بے پرواہی کا دور ہے، اس دورِ پرفتن میں بھی بادشاہ اور حکام جب زمین کے کسی ٹکڑے کے حاکم بن جاتے ہیں یا اسے فتح کرلیتے ہیں تو دوسروں کو فراموش کرکے سب کچھ اپنی ذاتی ملکیت نہیں سمجھ لیتے، بلکہ مال کو ملک و ملت کے لیے، رعایا کی بہبود کے لیے اور عوام کی ہر قسم کی ضروریات پر صرف کرتے ہیں۔ میری جان اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ، کیا یہ لوگ انہیں ایسا سمجھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو سب لوگوں پر ترجیح دیتے تھے؟ اللہ کی قسم! یہ افتراء و بہتان ہے۔ اللہ کا مہربان و عظیم رسول ان گھٹیا جذبات سے بلند تر اور پاک تھا۔
ایک اور چیز بھی قابلِ غور ہے کہ اگر فدک کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔
یہ بھی وضاحت کرتے چلیں دیں کہ یہ اعتراض کرنے والے بیچارے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔
ان کے چوتھے امام … ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔‘‘
(”الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:
’’ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ
میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔‘‘
(”من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷)
اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی۔
(مزید تفصیل کے لیے شیعہ کی دیگر فقہی کتب کی مراجعت کریں)
اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر پھر آئیں اور آخری دم تک ان سے بات نہ کی، ہاں! آپ اپنے مطالبہ سے پھر گئیں اور پھر اپنی پوری زندگی میں اس موضوع پر کبھی بات نہ کی … نیز جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:
’’سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا۔
(”حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی)
اس کمزور بنیاد پر وہ ماتمی مجلسوں، اہلِ بیت کے حقوق غصب ہوجانے کا واویلا، اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیت کے درمیان عداوت و کدورت کی اس عمارت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیادیں اول روز ہی منہدم ہوچکی تھیں، وہم وتخیلات کے جس تانے بانے کو بننا چاہتے تھے، ہواؤں کے تھپیڑوں سے اس کی دھجیاں فضا میں بکھر چکی ہیں۔ ابنِ سبا کی اس ذریت پر سربراہِ اہلِ بیت، فاطمہ کے شوہر، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ضربِ کاری لگائی تھی۔ دیکھیے امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:
’’جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا۔‘‘
(”الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱ ’’شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)
اسی لیے جب ابوجعفر محمد باقر سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جائوں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘
کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔‘‘
(”شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
دیکھو شیعوں کے امام تو شیعوں ہی کی کتابوں میں کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیاپھر یہ شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں دھرتے ہیں۔۔۔؟؟
باقر کے بھائی زید بن علی بن حسین نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ کہا تھا جو آپ کے دادا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، بحتری بن حسان کے پوچھنے پر آپ نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔‘‘
(”شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
میرے خیال میں معاملہ صاف ہوچکا ہے اور اب مزید وضاحت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
یہ سلسلۂ گفتگو ختم کرنے سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر کلینی کی نقل کردہ دو روایات اور پیش کردیں۔ پہلی روایت ابو عبداللہ جعفر کی ہے، آپ نے کہا: ’’مالِ غنیمت وہ ہے کہ اس پر کسی بخیل کا دل نہ ڈگمگایا ہو، یا قوم نے مصالحت نہ کرلی ہو، یا کسی قوم نے خود اپنے ہاتھوں سے نہ دیا ہو، ہر بنجر زمین اور جنگلات کے مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امامِ وقت، جس مصرف میں چاہیں استعمال کریں۔‘‘
(”الاصول من الکافی‘‘ کتاب الحجۃ، باب الفتی والانفال ،جلد ۱ ،صفحہ ۵۳۹)
مطلب صاف واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام وقت سب لوگوں سے زیادہ اس میں تصرف کا حق دار ہے۔
دوسری روایت ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ اسے بھی ’’الاصول من الکافی‘‘ میں نقل کیا گیا ہے۔
روایت سنیے! شیعہ حضرات کے ساتویں امام ابو الحسن موسیٰ، مہدی کے پاس آئے، دیکھا کہ وہ مظالم دور کر رہے ہیں، ان سے کہنے لگے: اے امیر المومنین! ہمارے مظالم کیوں دور نہیں کیے جاتے؟
وہ پوچھنے لگے: ابو الحسن کون سے مظالم؟ کہا کہ فدک ، مہدی نے ان سے کہا: اے ابوالحسن اس کا حدودِ اربع بتاؤ، آپ کہنے لگے: اس کی ایک حد جبل احد ہے، ایک حد عریش مصر ہے، ایک حد سیف البحر ہے اور ایک حد دومۃ الجندل ہے۔
( ”الاصول من الکافی “باب الفتی والانفال ،جلد 1 ،صفحہ 543)
گویا کہ پوری آدھی دنیا! کہاں چھوٹا سا خیبر کا گاؤں اور کہاں آدھی دنیا؟ ذرا دیکھیے! یہ قوم کس قدر جھوٹ بولتی ہے، ان کی مبالغہ آرائیاں دیکھیے، کس طرح یہ لوگ اتنی سی بات کو افسانہ بنا دیتے ہیں۔ بس اسی سے ان حضرات کی مبالغہ آرائیوں کا اندازہ کرلیجیے۔
اس پر ہم فدک، امیر المومنین، خلیفۂ رسولِ صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کی افضلیت و حقانیت اور شیعہ حضرات کی اپنی کتابوں سے نقل کردہ روایات کی روشنی میں اہلِ بیت سے آپ رضی اللہ عنہ کی محبت کی بحث ختم کرتے ہیں۔ اور اب خلیفۂ راشد خلیفہ ثانی فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتگو کریں گے جو حق و باطل کو جدا جدا کردینے والے ہیں، جو اللہ پر راضی ہیں اور اللہ ان پر راضی ہے۔
----------------------------------------------------------------