ہمارے ہاں عام طور پر اہل علم خواتین کے لیے جوڑا بنانے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور اسے کفار عورتوں کے ساتھ مشابہت قرار دیتے ہیں لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کا جواز ہے کیونکہ اگر کوئی عادت مسلمانوں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کے معاشرے کا عرف بن جائے تو وہاں کفار کے ساتھ مشابہت کا اصول لاگو نہیں ہوتا ہے بشرطیکہ وہ عادت وعرف شریعت کے کسی مبین حکم سے ٹکرا نہ رہی ہو جیسا کہ چمچ کے ساتھ کھانا، میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا وغیرہ۔
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
سوال : شادى بياہ كے موقع پر عورت كا مختلف اشكال ميں اپنے بال بنوانے كا حكم كيا ہے، يعنى بالوں كو اوپر اٹھانا، اور دلہن كے ليے ايسا كرنے كا حكم كيا ہے، كيونكہ غالبا دلہن اپنى سہاگ رات كے ليے ايسا كرتى ہے ؟
الحمد للہ:
عورت كے ليے اپنى سہاگ رات ميں بال كنگھى كرنے اور مختلف اشكال بنانے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ ايك اچھا اور مطلوب امر ہے، اور اس ميں معاونت كرنے پر بھى كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں كفار يا فاجر قسم كى عورتوں سے مشابہت نہ ہوتى ہو.
اور مشابہت سے مقصود يہ ہے كہ بال اس شكل ميں نہ بنائے جائيں جو كافر عورتوں كے ساتھ مخصوص ہوں، يا پھر يہ كٹنگ كسى كافرہ يا فاجرہ عورت كے نام سے پہچانى جاتى ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كسى قوم كے ساتھ مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع الصغير ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ممنوعہ مشابہت كا ضابطہ اور قاعدہ سوال نمبر ( 32533 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا ماڈلنگ كرنے والى عورتوں كے بالوں جيسى كٹنگ كروانا جائز ہے ؟
اور كيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں شامل ہوتى ہے:
" جس كسى نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے " ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اسى طرح بالوں كا مسئلہ ہے، چنانچہ عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ كافرہ يا فاجرہ عورتوں كى كٹنگ اور شكال جيسے بال بنوائے، كيونكہ جو كوئى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرے تو وہ انہيں ميں سے ہے.
اس مناسبت ميں مسلمان مومن عورتوں اور ان كے اولياء و ذمہ داران كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ ان ميگزين اور رسالوں اور بالوں كى اس طرح كى اشكال سے دور رہيں جو انہيں كفار كى جانب سے حاصل ہوتى ہيں، اور كفار اور ان كے بے پردہ لباس كے ليے ان كے دلوں ميں محبت و دوستى پيدا كريں، جو شرم و حياء سے عارى ہيں، اور شريعتا سلاميہ كے ساتھ اس كا كوئى تعلق بھى نہيں، يا وہ نت نئے ماڈل جن پر نئے نئے بالوں كے فيشن ہوں، ان سے دور رہيں.
اور مسلمانوں كو دوسروں سے ممتاز رہنا چاہيے كيونكہ شريعت اسلاميہ كا تقاضا بھى يہى ہے، اور اسلامى طبيعت بھى يہى ہے، تا كہ امت مسلمہ كو اس كى عزت و كرامت اور بلندى واپس مل سكے، اور اللہ تعالى كے ليے يہ كوئى مشكل بھى نہيں. انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 ) سوال نمبر ( 188 ).
اور بال اوپر اٹھانے، يا پھر ان كو اكٹھا كر كے سر كے اوپر جوڑا بنانا، يا سر كى ايك جانب مانگ نكالنا بعض اہل علم نے اس سے منع كيا ہے اس كى علت كفار عورتوں سےمشابہت ہے، اور كچھ علماء نے تو جوڑا بنانے كو اس حديث كے تحت شامل كيا ہے جس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذمت فرمائى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا: وہ لوگ جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے اور وہ لوگوں كو مارتے پھريں گے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا ليكن وہ ننگى ہونگى، لوگوں كى طرف مائل ہونے والى اور لوگوں كو اپنى طرف مائل كرنے والى ہونگى، ان كے سر بختى اونٹوں كى طرح ہونگے، وہ جنت ميں داخل نہيں ہونگى اورنہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو تو اتنى اتنى مسافت سے آ جاتى ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2128 ).
اور اگر فرض كر ليا جائے كہ مثلا سر كى ايك سائڈ پر مانگ نكالنا كسى دور ميں كافرہ اور فاجرہ عورتوں كا شعار اور علامت رہى اور پھر يہ خصوصيت زائل ہو كر مسلمان عورتوں ميں عام ہو گئى كہ ايسا كرنے كرنے والى عورت كا كافر يا فاجرہ گمان نہ كيا جاتا ہو تو مشابہت ختم ہو گئى ہو تو پھر يہ حرام نہيں ہو گا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ المياسر الارجوان ( يہ تكيہ كى طرح ہوتا ہے جو گھڑ سوار سوارى كے وقت اپنے نيچے ركھتا ہے، اور يہ اعاجم استعمال كيا كرتے تھے ): كے متعلق كلام كرتے ہوئےكہتے ہيں:
" اگر ہم يہ كہيں كہ اعاجم كے ساتھ مشابہت كى بنا پر يہ ممنوع ہے، تو يہ دينى مصلحت كے ليے ہے، ليكن يہ ان كى علامت اس وقت تھى جب وہ كفار تھے، پھر جبكہ اب يہ علامت ان كے ساتھ مخصوص نہيں رہى تو يہ معنى زائل اور ختم ہو گيا، تو اس كى كراہت بھى ختم ہو گئى " واللہ تعالى اعلم. اھـ
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 307 ).
اور طيلسان ( سبز رنگ كا لباس جو عجمى استعمال كرتے ہيں ) زيب تن كرنے كو مشابہت قرار دينے والے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں، كيونكہ يہ يہوديوں كا لباس تھا، جيسا كہ دجال والى حديث ميں بيان ہوا ہے، ابن حجر رحمہ اللہ ا سكا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس سے استدلال كرنا اس وقت صحيح ہو گا جب طيالسہ يعنى برانڈى يہوديوں كا شعار ہو، اور اس دور ميں يہ ختم ہو چكا ہے تو يہ چيز عمومى مباح ميں داخل ہو گئى ہے " اھـ
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 274 ).
ابھى اوپر ہم نے جس سوال نمبر كے جواب كى طرف اشارہ كيا ہے اس ميں ہم ان كے علاوہ دوسروں سے بھى كلام بيان كر چكے ہيں جس سے اس كى تائيد ہوتى ہے. واللہ تعالى اعلم.
ذيل ميں ہم جوڑے اور عورت كے ليے سر كى ايك جانب مانگ نكالنے كے متعلق علماء كرام كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
سوال:سر كى ايك جانب مانگ نكالنے، اور صرف ايك چٹيا اور بالوں كا جوڑا بنانے كا حكم كيا ہے، عورت كا مقصد صرف اپنے خاوند كے ليے بناؤ سنگھار اور خوبصورتى اختيار كرنا، يا پھر اچھا اور لائق مظہر ظاہر كرنا ہے ؟
جواب:
" سر كے ايك جانب مانگ نكالنے ميں كفار كى عورتوں سے مشابہت ہوتى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كفار كى مشابہت كرنے كى حرمت ثابت ہے.اور رہا مسئلہ ايك يا ايك سے زائد چٹيا كرنے اور چٹيا كر كے يا بغير چٹيا كيے بال كمر كے پيچھے لٹكانا اگر تو بال چھپے ہوں تو پھر اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں.ليكن بالوں كا جوڑا بنانا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ اس ميں كافرہ عورتوں سےمشابہت ہوتى ہے، اور ان سے مشابہت اختياركرنا حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا: " دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا: وہ لوگ جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے اور وہ لوگوں كو مارتے پھريں گے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا ليكن وہ ننگى ہونگى، لوگوں كى طرف مائل ہونے والى اور لوگوں كو اپنى طرف مائل كرنے والى ہونگى، ان كے سر بختى اونٹوں كى طرح ہونگے، وہ جنت ميں داخل نہيں ہونگى اورنہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو تو اتنى اتنى مسافت سے آ جاتى ہے"
اسے امام احمد اور مسلم نے روايت كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 126 ).
اور شيخ الفوزان حفظہ اللہ سے سوال كيا گيا:
سر كے وسط سے نہيں بلكہ ايك سائڈ سے مانگ نكالنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" عورت كے ليے سر كى ايك جانب سے مانگ نكالنا جائز نہيں شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس دور ميں بعض مسلمان عورتيں اپنے سر كى ايك جانب مانگ نكالتى ہيں، اور بالوں كو گدى كى طرف جمع كر ليتى ہيں، يا پھر سر كے اوپر اكٹھے كر ليتى ہيں، جس طرح انگريزوں كى عورتيں كرتى ہيں، تو يہ جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں كفار كى عورتوں سے مشابہت ہے " انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 1 / 47 ).
انتہى. ماخوذ از: المنتقى ( 3 / 321 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
سر كے بالوں كا جوڑا بنانے كا حكم كيا ہے، يعنى بالوں كو سر كے اوپر جمع كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر تو بال سر كے اوپر جمع كيے جائيں تو اہل علم كے ہاں يہ ممانعت يا تحذير ميں شامل ہے جو درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں آئى ہے:
" دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا: وہ لوگ جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے اور وہ لوگوں كو مارتے پھريں گے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا ليكن وہ ننگى ہونگى، لوگوں كى طرف مائل ہونے والى اور لوگوں كو اپنى طرف مائل كرنے والى ہونگى، ان كے سر بختى اونٹوں كى طرح ہونگے، وہ جنت ميں داخل نہيں ہونگى اورنہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو تو اتنى اتنى مسافت سے آ جاتى ہے" اس ليے اگر تو بال اوپر ہوں تو اس ميں ممانعت ہے، ليكن اگر مثال كے طور پر بال گردن پر ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر عورت نے بازار جائيگى تو اس حالت ميں يہ بےپردگى ميں شامل ہوگا، كيونكہ اس كے عبايا كے پيچھے علامت ظاہر ہو رہى ہوگى، اور يہ بےپردگى اور فتنہ كے اسباب ميں شامل ہو گى اس ليے جائز نہيں"
ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب الشيخ المسند ( 218 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب