- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,476
- پوائنٹ
- 964
إنا لله و إنا اليه رجعون ۔
میں نے چند دن پہلے کسی جگہ چند سطریں لکھی تھیں ، کہ انسان کی تحریر و تقریر ، خوشی و غمی کے اظہار سے اس کی ۤلچسپیوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔
آج اردو ادب کی ایک معروف لکھاری خاتون پر میں کچھ لوگوں کےسٹیٹس دیکھ رہا ہوں تو یہی بات ذہن میں آرہی ہے ۔
مجھے اپنے بعض طالبعم ساتھیوں پر حیرانی ہوتی ہے ، کہ ساری عمر قال اللہ و قال الرسول میں وقت گزارنے والے کئی ’ چچا ‘ فوت ہوجائیں ، تو ان کی دیوار پر ایک لفظ بھی کنندہ نہیں ہوتا ، لیکن ادب و آرٹ کی خدمت کرنے والی کسی ’ آپا ‘ کی وفات کی خبر سنتے ہی یہ لوگ حرکت میں آجاتے ہیں ۔
غلط بات یہ نہیں کہ کسی ادیب کو خراج تحسین کیوں پیش کیا ، مسئلہ یہ ہے کہ اگر مدارس میں پڑھنے والے ہی علماء کی وفات پر ’ گونگے بہرے ‘ بن جائیں گے ، تو پھر کون ان پر لکھے گا ؟
ادب و اہل ادب کے نام پر دین اور اہل دین سے یہ دوری کسی فتنہ سے کم نہیں ، اللہ تعالی ہمیں ہر قسم کے فتنے سے بچائے ۔
نوٹ : بعض دوستاس پر ایک نئے انداز سے بحث شروع کرلیتے ہیں کہ جناب علماء کرام بھی ادب سے گہرا تعلق رکھتے تھے ، فلاں کو دیکھیں ، اس کی مثال لیں ۔ کرنے والی بات یہ ہے کہ ان علماء کا ادیب ہونا اس طرح نہیں تھا کہ وہ دین اور اہل دین سے غافل ہو چکے تھے ، ذرا ان کی دینی و مسلکی خدمات پر بھی نگاہ کرنی چاہیے کہ انہوں نے کس طرح اس پر توجہ دی ہے ۔
لیکن آج کل کے ہمارے فضلاء کا یہ حال ہے وہ دین جس کو پہنچانے کے لیے یہ زبان و ادب سیکھنا چاہتے ہیں ، اس کے بنیادی اصول و مبادی سے غافل ہیں ، نصاب دینی ہے ، صدقات و خيرات اور مراعات دین کے نام پر ليتے اور کھاتے ہیں ، جبکہ اوقات غل غپاڑے اور شعر و ادب میں صرف کرتے ہیں ۔ ألا فليبك على العلم من كان باكيا ۔
میں نے چند دن پہلے کسی جگہ چند سطریں لکھی تھیں ، کہ انسان کی تحریر و تقریر ، خوشی و غمی کے اظہار سے اس کی ۤلچسپیوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔
آج اردو ادب کی ایک معروف لکھاری خاتون پر میں کچھ لوگوں کےسٹیٹس دیکھ رہا ہوں تو یہی بات ذہن میں آرہی ہے ۔
مجھے اپنے بعض طالبعم ساتھیوں پر حیرانی ہوتی ہے ، کہ ساری عمر قال اللہ و قال الرسول میں وقت گزارنے والے کئی ’ چچا ‘ فوت ہوجائیں ، تو ان کی دیوار پر ایک لفظ بھی کنندہ نہیں ہوتا ، لیکن ادب و آرٹ کی خدمت کرنے والی کسی ’ آپا ‘ کی وفات کی خبر سنتے ہی یہ لوگ حرکت میں آجاتے ہیں ۔
غلط بات یہ نہیں کہ کسی ادیب کو خراج تحسین کیوں پیش کیا ، مسئلہ یہ ہے کہ اگر مدارس میں پڑھنے والے ہی علماء کی وفات پر ’ گونگے بہرے ‘ بن جائیں گے ، تو پھر کون ان پر لکھے گا ؟
ادب و اہل ادب کے نام پر دین اور اہل دین سے یہ دوری کسی فتنہ سے کم نہیں ، اللہ تعالی ہمیں ہر قسم کے فتنے سے بچائے ۔
نوٹ : بعض دوستاس پر ایک نئے انداز سے بحث شروع کرلیتے ہیں کہ جناب علماء کرام بھی ادب سے گہرا تعلق رکھتے تھے ، فلاں کو دیکھیں ، اس کی مثال لیں ۔ کرنے والی بات یہ ہے کہ ان علماء کا ادیب ہونا اس طرح نہیں تھا کہ وہ دین اور اہل دین سے غافل ہو چکے تھے ، ذرا ان کی دینی و مسلکی خدمات پر بھی نگاہ کرنی چاہیے کہ انہوں نے کس طرح اس پر توجہ دی ہے ۔
لیکن آج کل کے ہمارے فضلاء کا یہ حال ہے وہ دین جس کو پہنچانے کے لیے یہ زبان و ادب سیکھنا چاہتے ہیں ، اس کے بنیادی اصول و مبادی سے غافل ہیں ، نصاب دینی ہے ، صدقات و خيرات اور مراعات دین کے نام پر ليتے اور کھاتے ہیں ، جبکہ اوقات غل غپاڑے اور شعر و ادب میں صرف کرتے ہیں ۔ ألا فليبك على العلم من كان باكيا ۔