- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ان باکس پیغام میں ایک محترم بھائی نے درج ذیل سوال کیا ہے :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جواب :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلامُ علیکم
شیخِ محترم کیا دعا قنوت جماعت کے ساتھ پڑیں تو
«اللهم اهدني فيمن هديت "
اے اللہ مجھے ہدایت دے لیکن جماعت میں تو سب ہوتے ہیں تو کیا امام جمع کے صیغے استعمال کر سکتا ہے
برائے مہربانی رہنمائی کرے
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
جواب :
پانچویں صدی کے نامور عظیم محدث اور مفسر امام محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفى: 516هـ) اپنی علمی کتاب شرح السنة میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے مروی قنوت وتر کی دعاء نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ققال الحسن بن علي: " علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات أقولهن في الوتر: اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنك تقضي ولا يقضى عليك، إنه لا يذل من واليت، تباركت ربنا وتعاليت ".
قال أبو عيسى: هذا حديث حسن، لا نعرفه إلا من حديث أبي الحوراء، واسمه ربيعة بن شيبان، ولا نعرف عن النبي صلى الله عليه وسلم في القنوت في الوتر شيئا أحسن من هذا.
ترجمہ : حسن بن علی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» ”اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔"
یہ حدیث شریف روایت کرکے لکھتے ہیں :
قلت: ويروى عن بريد بن أبي مريم، عن ابن عباس، ومحمد بن علي: هو ابن الحنفية، «كان النبي صلى الله عليه وسلم» يقنت في صلاة الصبح، وفي وتر الليل بهؤلاء الكلمات "
قلت: وإن كان إماما فيذكر بلفظ الجمع: اللهم اهدنا، وعافنا، وتولنا، وبارك لنا، وقنا، ولا يخص نفسه بالدعاء.
(شرح السنة للبغوي 3/129 )
دعاءِ قنوت کے یہ کلمات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا محمد بن علی ابن الحنفیہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اور صلاۃ الوتر میں پڑھتے تھے ،
اور میں کہتا ہوں کہ اگر دعاءؐ قنوت امام پڑھے تو جمع کے صیغہ میں (اللهم اهدنا، وعافنا، وتولنا ۔۔۔۔) پڑھے گا ، اور (جماعت میں ) صرف اپنے لیئے دعاء نہیں کرے گا ۔
___________________
اور نامور محدث اور اصولی امام أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم العراقي (المتوفى: 806هـ)
فرماتے ہیں
يقول العراقي رحمه الله :
" من أدب الدعاء أنَّ مَن دعا بمجلس جماعةٍ لا يخص نفسه بالدعاء مِن بينهم ، أو لا يخص نفسه وبعضَهم دون جميعهم ، ويتأكد استيعاب الحاضرين على إمام الجماعة ، فلا يخص نفسه دون المأمومين ، لما روى أبو داود ، والترمذي من حديث ثوبان رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( لا يؤم رجل قوما فيخص نفسه بدعوة دونهم ، فإن فعل فقد خانهم ) قال الترمذي : حديث حسن .
؛
والظاهر أن هذا محمول على ما لا يشاركه فيه المأمومون ، كدعاء القنوت ونحوه ، فأما ما يدعو كل أحد به كقوله بين السجدتين : ( اللهم اغفر لي ، وارحمني ، واهدني ) فإن كلا من المأمومين يدعو بذلك ، فلا حرج حينئذ في الإفراد ، إلا أنه يحتمل أن بعض المأمومين يترك ذلك نسيانا أو لعدم العلم باستحبابه ، فينبغي حينئذ أن يجمع الضمير لذلك " انتهى باختصار.
" طرح التثريب " (2/136-137)
ترجمہ :یعنی دعاء کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ اگر اجتماع اور مجلس میں دعاء کی جائے تو دعاء کرنے والا خاص اپنے لیئے ہی ،یا کچھ مخصوص لوگوں کیلئے دعاء نہ کرے ،بلکہ جماعت کے امام کی اقتدا میں حاضر تمام افراد کیلئے لازماً دعاء کرے ، نہ کہ مقتدیوں کو چھوڑ کر صرف اپنی ذات کیلئے ،کیونکہ سنن ترمذی میں حدیث وارد ہے کہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں: ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی ،امام ترمذیؒ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ،
اور ظاہر بات یہ ہے کہ یہ حکم کہ امام خاص اپنے لیئے دعاء نہیں بلکہ موجود تمام لوگوں کیلئے دعاء کرے گا ،یہ حکم صرف اس حالت پر لاگو ہوگا جب مقتدی اس دعاء میں شریک نہ ہوں یعنی وہ بھی اس وقت اپنے لیئے دعاء نہ کر رہے ہوں ، جیسے دعاءِ قنوت اور اس جیسی دیگر دعائیں ،
اور باقی وہ تمام مقامات جن میں سب دعاء کر رہے ہوں جیسے دو سجدوں کے درمیان دعاء (اللہم اغفرلی وارحمنی ۔۔۔ ) تو چونکہ سب اپنے لئے دعاء کر رہےہوتے ہیں تو ایسے مقامات میں امام کو مفرد صیغہ میں دعاء کرنے میں حرج نہیں ، سوائے اس احتمال کے کہ کچھ مقتدی نسیان یا عدم علم کے سبب اپنے لئے دعاء نہیں کررہے تو ایسی صورت میں جمع کی ضمیر کے ساتھ دعاء کرنی چاہیئے
اور شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں :
حكم القنوت في الوتر وصلاة الفجر
السؤال: من اليمن الشمالي، الحديدة هذه رسالة بعث بها أخونا عبده أبو الغيث مشهور، أخونا يسأل في رسالته عن قضيتين، الأولى يقول: إن أناسًا يدعون بدعاء القنوت في الركعة الثانية من الصبح، وأناس آخرون يدعون في الركعة الثالثة من الوتر؛ لأنهم يصلون الوتر ثلاثًا، ولكنهم يقولونه بعد الرفع من الركوع، فمن هم الذين على الطريق الصحيح، نرجو إفادتنا؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب: الوتر مشروع، ويشرع فيه القنوت، ومحله ما بين صلاة العشاء إلى طلوع الفجر، يعني: جميع الليل من بعد صلاة العشاء إلى طلوع الفجر، هذا محل الوتر، فإذا صلى واحدة ورفع من الركوع شرع له أن يدعو بالقنوت: اللهم اهدنا فيمن هديت.. إلى آخره.
وإن صلى ثلاثًا أو خمسًا أو أكثر من ذلك فإنه يصلي الركعة الأخيرة وحدها ويسلم من كل ثنتين؛ لقوله ﷺ: إن صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى فيصلي ركعتين ركعتين ويسلم، ثم إذا أراد النهاية صلى واحدة قبل الصبح، يقرأ فيها الفاتحة: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ويقرأ معها: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ هذا هو الأفضل، وإن قرأ بعد الفاتحة غير: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فلا بأس، لكن الأفضل: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ثم يركع ثم يرفع بعد ذلك ويقول: سمع الله لمن حمده- إذا كان إمامًا أو منفردًا- ربنا ولك الحمد، ثم يقنت: اللهم اهدني فيمن هديت وعافني .. إلى آخره.
وإن كان إمام جماعة قال: اللهم اهدنا فيمن هديت وعافنا.. إلى آخره.-------------------الخ
https://binbaz.org.sa/fatwas/
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ثلاث لا يحل لاحد ان يفعلهن: لا يؤم رجل قوما فيخص نفسه بالدعاء دونهم فإن فعل فقد خانهم، ولا ينظر في قعر بيت قبل ان يستاذن فإن فعل فقد دخل، ولا يصلي وهو حقن حتى يتخفف".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں: ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، دوسرا یہ کہ کوئی کسی کے گھر کے اندر اس سے اجازت لینے سے پہلے دیکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو گویا وہ اس کے گھر میں گھس گیا، تیسرا یہ کہ کوئی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھے، جب تک کہ وہ (اس سے فارغ ہو کر) ہلکا نہ ہو جائے“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۴۸ (۳۵۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۳۱ (۹۲۳)، (تحفة الأشراف: ۲۰۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۰) (ضعیف) (اس حدیث کا ایک راوی یزید ضعیف ہے، نیز وہ سند میں مضطرب بھی ہوا ہے، ہاں اس کے دوسرے ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)
ققال الحسن بن علي: " علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم كلمات أقولهن في الوتر: اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارك لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنك تقضي ولا يقضى عليك، إنه لا يذل من واليت، تباركت ربنا وتعاليت ".
قال أبو عيسى: هذا حديث حسن، لا نعرفه إلا من حديث أبي الحوراء، واسمه ربيعة بن شيبان، ولا نعرف عن النبي صلى الله عليه وسلم في القنوت في الوتر شيئا أحسن من هذا.
ترجمہ : حسن بن علی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» ”اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔"
یہ حدیث شریف روایت کرکے لکھتے ہیں :
قلت: ويروى عن بريد بن أبي مريم، عن ابن عباس، ومحمد بن علي: هو ابن الحنفية، «كان النبي صلى الله عليه وسلم» يقنت في صلاة الصبح، وفي وتر الليل بهؤلاء الكلمات "
قلت: وإن كان إماما فيذكر بلفظ الجمع: اللهم اهدنا، وعافنا، وتولنا، وبارك لنا، وقنا، ولا يخص نفسه بالدعاء.
(شرح السنة للبغوي 3/129 )
دعاءِ قنوت کے یہ کلمات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا محمد بن علی ابن الحنفیہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اور صلاۃ الوتر میں پڑھتے تھے ،
اور میں کہتا ہوں کہ اگر دعاءؐ قنوت امام پڑھے تو جمع کے صیغہ میں (اللهم اهدنا، وعافنا، وتولنا ۔۔۔۔) پڑھے گا ، اور (جماعت میں ) صرف اپنے لیئے دعاء نہیں کرے گا ۔
___________________
اور نامور محدث اور اصولی امام أبو الفضل زين الدين عبد الرحيم العراقي (المتوفى: 806هـ)
فرماتے ہیں
يقول العراقي رحمه الله :
" من أدب الدعاء أنَّ مَن دعا بمجلس جماعةٍ لا يخص نفسه بالدعاء مِن بينهم ، أو لا يخص نفسه وبعضَهم دون جميعهم ، ويتأكد استيعاب الحاضرين على إمام الجماعة ، فلا يخص نفسه دون المأمومين ، لما روى أبو داود ، والترمذي من حديث ثوبان رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( لا يؤم رجل قوما فيخص نفسه بدعوة دونهم ، فإن فعل فقد خانهم ) قال الترمذي : حديث حسن .
؛
والظاهر أن هذا محمول على ما لا يشاركه فيه المأمومون ، كدعاء القنوت ونحوه ، فأما ما يدعو كل أحد به كقوله بين السجدتين : ( اللهم اغفر لي ، وارحمني ، واهدني ) فإن كلا من المأمومين يدعو بذلك ، فلا حرج حينئذ في الإفراد ، إلا أنه يحتمل أن بعض المأمومين يترك ذلك نسيانا أو لعدم العلم باستحبابه ، فينبغي حينئذ أن يجمع الضمير لذلك " انتهى باختصار.
" طرح التثريب " (2/136-137)
ترجمہ :یعنی دعاء کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ اگر اجتماع اور مجلس میں دعاء کی جائے تو دعاء کرنے والا خاص اپنے لیئے ہی ،یا کچھ مخصوص لوگوں کیلئے دعاء نہ کرے ،بلکہ جماعت کے امام کی اقتدا میں حاضر تمام افراد کیلئے لازماً دعاء کرے ، نہ کہ مقتدیوں کو چھوڑ کر صرف اپنی ذات کیلئے ،کیونکہ سنن ترمذی میں حدیث وارد ہے کہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں: ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی ،امام ترمذیؒ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے ،
اور ظاہر بات یہ ہے کہ یہ حکم کہ امام خاص اپنے لیئے دعاء نہیں بلکہ موجود تمام لوگوں کیلئے دعاء کرے گا ،یہ حکم صرف اس حالت پر لاگو ہوگا جب مقتدی اس دعاء میں شریک نہ ہوں یعنی وہ بھی اس وقت اپنے لیئے دعاء نہ کر رہے ہوں ، جیسے دعاءِ قنوت اور اس جیسی دیگر دعائیں ،
اور باقی وہ تمام مقامات جن میں سب دعاء کر رہے ہوں جیسے دو سجدوں کے درمیان دعاء (اللہم اغفرلی وارحمنی ۔۔۔ ) تو چونکہ سب اپنے لئے دعاء کر رہےہوتے ہیں تو ایسے مقامات میں امام کو مفرد صیغہ میں دعاء کرنے میں حرج نہیں ، سوائے اس احتمال کے کہ کچھ مقتدی نسیان یا عدم علم کے سبب اپنے لئے دعاء نہیں کررہے تو ایسی صورت میں جمع کی ضمیر کے ساتھ دعاء کرنی چاہیئے
اور شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں :
حكم القنوت في الوتر وصلاة الفجر
السؤال: من اليمن الشمالي، الحديدة هذه رسالة بعث بها أخونا عبده أبو الغيث مشهور، أخونا يسأل في رسالته عن قضيتين، الأولى يقول: إن أناسًا يدعون بدعاء القنوت في الركعة الثانية من الصبح، وأناس آخرون يدعون في الركعة الثالثة من الوتر؛ لأنهم يصلون الوتر ثلاثًا، ولكنهم يقولونه بعد الرفع من الركوع، فمن هم الذين على الطريق الصحيح، نرجو إفادتنا؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب: الوتر مشروع، ويشرع فيه القنوت، ومحله ما بين صلاة العشاء إلى طلوع الفجر، يعني: جميع الليل من بعد صلاة العشاء إلى طلوع الفجر، هذا محل الوتر، فإذا صلى واحدة ورفع من الركوع شرع له أن يدعو بالقنوت: اللهم اهدنا فيمن هديت.. إلى آخره.
وإن صلى ثلاثًا أو خمسًا أو أكثر من ذلك فإنه يصلي الركعة الأخيرة وحدها ويسلم من كل ثنتين؛ لقوله ﷺ: إن صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى فيصلي ركعتين ركعتين ويسلم، ثم إذا أراد النهاية صلى واحدة قبل الصبح، يقرأ فيها الفاتحة: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ويقرأ معها: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ هذا هو الأفضل، وإن قرأ بعد الفاتحة غير: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فلا بأس، لكن الأفضل: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ثم يركع ثم يرفع بعد ذلك ويقول: سمع الله لمن حمده- إذا كان إمامًا أو منفردًا- ربنا ولك الحمد، ثم يقنت: اللهم اهدني فيمن هديت وعافني .. إلى آخره.
وإن كان إمام جماعة قال: اللهم اهدنا فيمن هديت وعافنا.. إلى آخره.-------------------الخ
https://binbaz.org.sa/fatwas/
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ثلاث لا يحل لاحد ان يفعلهن: لا يؤم رجل قوما فيخص نفسه بالدعاء دونهم فإن فعل فقد خانهم، ولا ينظر في قعر بيت قبل ان يستاذن فإن فعل فقد دخل، ولا يصلي وهو حقن حتى يتخفف".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں: ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، دوسرا یہ کہ کوئی کسی کے گھر کے اندر اس سے اجازت لینے سے پہلے دیکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو گویا وہ اس کے گھر میں گھس گیا، تیسرا یہ کہ کوئی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھے، جب تک کہ وہ (اس سے فارغ ہو کر) ہلکا نہ ہو جائے“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۴۸ (۳۵۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۳۱ (۹۲۳)، (تحفة الأشراف: ۲۰۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۰) (ضعیف) (اس حدیث کا ایک راوی یزید ضعیف ہے، نیز وہ سند میں مضطرب بھی ہوا ہے، ہاں اس کے دوسرے ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)