القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
لیں جی ، بروسا جی ۔ آپ کی گفتگو سے میں کافی دیر سے لطف اندوز ہو رہا تھا ، کیونکہ میں اس موضوع پر آپ کی پہلے ایک کی گئی عبد اللہ عبدل سے بحث کو پڑھ چکا ہوں ، جس میں آپ کی اس مسئلہ پر بوکھلاہت سب نے ملاھظہ فرمائی تھی۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ، ہمیں یاد ہے سب زرا زرا !!!
اب زرا اپنے ہی اس اقتباس کو دیوبندیوں کے اکابرین ، مقلدین پر بھی فٹ کر کے بتائیں کہ کیا حکم بنتا ہے؟؟؟
اب زرا اپنے ہی اس اقتباس کو دیوبندیوں کے اکابرین ، مقلدین پر بھی فٹ کر کے بتائیں کہ کیا حکم بنتا ہے؟؟؟
اب "حق" کا دامن نہ چھوٹنے پائے میرے بھیا!
""ان آیات میں الٰہ کا ایک اور مفہوم ملتا ہے جو پہلے مفہومات سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں فوق الطبعی اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہے جسے الٰہ بنایا گیا ہے وہ یا تو کوئی انسان ہے یا انسان کا اپنا نفس ہے۔ اور الٰہ اسے اس معنی میں نہیں بنایا گیا ہے کہ اس سے دعا مانگی جاتی ہو یا اسے نفع و نقصان کا مالک سمجھا جاتا ہو، اور اس سے پناہ ڈھونڈی جاتی ہو۔
بلکہ وہ اس معنی میں الٰہ بنایا گیا ہے کہ اس کے حکم کو قانون تسلیم کیا گیا ، اس کے امرونہی کی اطاعت کی گئی ، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مان لیا گیا، اور یہ خیال کر لیا گیا کہ اسے بجائے خود حکم دینے کا اور منع کرنے کا اختیار حاصل ہے، کوئی اور اقتدار اس سے بالاتر نہیں ہے جس سے سند لینے اور جس سے رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔
پہلی آیت(( اتخذوا احبارھم۔۔۔الخ)) میں علماء اور راہبوں کو الٰہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس کی واضح تشریح ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب اس آیت کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز کو تمہارے علماء اور راہبوں نے حلال کیا اسے تم لوگ حلال مان لیتے تھے، اور جسے حرام قرار دیا اسے تم حرام تسلیم کر لیتے تھے اور اس بات کی کچھ پروا نہ کرتے تھے کہ اللہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے۔""
ہر عبادت اطاعت کے تحت ہے لیکن ہر اطاعت عبادت کے تحت نہیں۔