• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بت گری پیشہ کیا، بت شکنی کو چھوڑا :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بت گری پیشہ کیا، بت شکنی کو چھوڑا
اوریا مقبول جان پير 24 اگست 2015


شاید یہ خبر اس قدر عام نہ ہوتی اگر کامیابی کے نشے میں چور، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے ٹوئٹر پر اس کا اعلان نہ کرتا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ایک ہندو مندر بنانے کے لیے دبئی میں زمین فراہم کر دی ہے۔ یہ خبر دنیا والوں کے لیے حیران کن ہو گی کہ وہ جزیرہ نمائے عرب جہاں آج سے چودہ سو سال قبل سید الانبیاءﷺ نے شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کر دیا تھا، اس کے ایک حصے میں انھیں کے ماننے والے مورتیوں کے گھر کی تعمیر کے لیے زمین عطا کریں گے۔

لیکن وہ جو سرکار دو عالمؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ان کے یقین و ایمان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ اس ہادی برحقؐ نے کس طرح کھول کھول کر وہ سب کچھ بتایا اور ان سب علامات قیامت کی خبر دی جو انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی۔ صحیح بخاری میں درج سرور عالمؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ’’قیامت قائم نہیں ہو گی، یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتیں ذوالخصلہ کے بت خانہ میں چکر نہ لگائیں‘‘۔(بخاری)۔ عرب میں جاہلیت کے زمانے میں جگہ جگہ بہت سے بت خانے قائم تھے اور لوگ پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔

ان میں عرب کے جنوب مغرب میں دوس قبیلہ رہتا تھا جن کا بت خانہ ذوالخصلہ کے مقام پر تھا۔ دین حق پھیلا تو اس کا نام و نشان تک ختم ہو گیا۔ یوں تو دبئی ایک ایسا شہر ہے جہاں آپ کو دنیا میں موجود تقریباً ہر بڑے مذہب کی عبادت گاہیں مل جائیں گی جن میں ہندو مندر بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ دبئی کی معیشت تو مدتوں سے ایک ایسے ماحول سے وابستہ ہو چکی ہے جس میں خطے کی پیداوار کچھ ہو نہ ہو، وہ خطہ خوشحال ضرور ہوتا ہے۔ یہ کاروبار یا معیشت کی زبان میں ’’آزادانہ تجارتی منڈی،، کا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں صرف تجارت ہی نہیں بلکہ اخلاقیات و اقدار تک سب آزاد ہو جاتے ہیں۔

دبئی سے پہلے اس طرح کا ماحول ان شہروں میں پیدا کیا گیا جنھیں یا تو امریکا یا دیگر عالمی طاقتوں نے فتح کیا تھا یا پھر وہ امریکا کی کسی جنگ میں اس کے حلیف تھے اور ان ملکوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جنگی مراکز قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ فلپائن کا شہر منیلا اس ’’ماحول‘‘ کی اولین تجربہ گاہوں میں سے ایک تھا۔ 1901ء کے ’’شکاگو ٹرابیون‘‘ میں ایک صحافی نے منیلا شہر کی روداد بیان کی ہے، جہاں امریکی فوجی فلپائن کے عوام کو اسپین کے ظالم کیتھولک عیسائی حکمرانوں سے آزادی دلوانے پہنچے تھے۔

فلپائن کی آزادی کی جنگ کے ہیرو ’’رزال‘‘ نے اس ظلم و جبر کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح یہاں کی مقامی آبادی کو عیسائی بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لیکن امریکی وہاں پہنچے، ان کی آزادی کی جنگ میں مدد کی، اپنی چھاؤنیاں بنائیں، اور پھر انھیں ایک اور بدترین غلامی کا شکار کر گئے۔ صحافی اپنی روداد میں لکھتا ہے کہ ایک پوری امریکی فوجی یونٹ کے ذمے ’’آرمی ویلفیئر‘‘ کے نام پر ایک ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض سے غریب گھرانوں کی تیرہ سے سولہ سترہ سال کی بچیوں کو بہلا پھسلا کر منیلا کے بازاروں میں لا بٹھائے تا کہ امریکی فوجیوں کی تفتن طبع کا انتظام ہو سکے۔ دنیا بھر میں ایسے ماحول کو ’’نائٹ لائف‘‘ یعنی رات کی زندگی کہا جاتا ہے۔ آپ آج دنیا کے کسی بھی بڑے شہر کا سیاحتی معلوماتی کتابچہ نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ’’نائٹ لائف‘‘ کے نام سے ایک علیحدہ باب اس میں نظر آئے گا۔

منیلا جیسے کئی شہر اس دنیا کے نقشے پر آباد کیے گئے۔ ان میں سے کئی بڑے بڑے تجارتی مراکز کے طور پر آج بھی موجود ہیں اور کئی صرف اورصرف اپنی خوبصورتی یا تاریخی حیثیت کی وجہ سے سیاحتی مرکز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں جنگ عظیم اول کے بعد بیروت کو خاص طور پر ان مقاصد کے لیے سجایا اور سنوارا گیا۔ عالمی طاقتوں نے وہاں کی مخلوط آبادی عیسائی، شیعہ اور سنی کو اس طرح آئینی طور پر تقسیم کیا کہ ’’میرو نائٹ عیسائیوں‘‘ کو اقتدار میں بالا دستی رہے۔

صدیوں سے روم کے زیر نگیں رہنے والے اس شہر کے مخصوص تاریخی پس منظر اور پڑوس میں یہودی ریاست کے قیام کی وجہ سے اس کا اسلامی تشخص مٹانے کے لیے اس کو اس طرح کے ’’آزادانہ ماحول‘‘ کا تحفہ دیا گیا۔ ایسے ماحول کو کاروبار کے لیے ساز گار ماحول کہا جاتا ہے۔ یہ کاروبار بھی عجیب ہوتا ہے۔ نہ وہاں کوئی کھیت ہوتے ہیں اور نہ کار خانے۔ معدنیات بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ ملکی معیشت کا پیٹ پال سکیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے تاجروں، سٹے بازوں، جواریوں، عیاشیوں، اوباشوں اور نام نہاد سیاحوں کو اس شہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔

دبئی بھی انھی شہروں میں سے ایک ہے جس کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں، یہاں تک کہ وہ تیل کی دولت سے بھی محروم ہے۔ تیل کی پیداوار اس کی پوری معیشت کا 2 فیصد ہے۔ لیکن 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اس نے سونے کی آزادانہ تجارت کا آغاز کیا اور نوے کی دہائی میں یہ بھارت کو سونا اسمگل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اسمگلنگ کی اس دولت سے دبئی کو ایک سیاحتی مرکز میں بدلنے کے لیے وہاں تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا اور پام جمیرہ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا انسانوں کا بنایا ہوا جزیرہ سمندر کے بیچوں بیچ تعمیر کیا گیا۔ ہیروں کے کاروبار کا آغاز ہوا اور اس وقت یہ تجارت 35 ارب ڈالر تک ہے۔

سیاحتی مرکز کو ایک شاندار ایئر لائن اور ایئر پورٹ کی ضرورت تھی۔وہ ضروریات بھی پوری کیں اور دبئی ائر پورٹ شاید وہ واحد ایئر پورٹ ہے جو کسی مسلم ملک میں واقع ہے اور وہاں آپ کھانے کی دیگر ڈشوں کے درمیان عربی میں ایک چٹ نظر آئے گی جس پر لکھا ہو گا ’’لحم الخنزیر‘‘ اور انگریزی میں “Pork”۔ مسلم امہ میں صدیوں سے اسٹور کے گوشت سے ایک کراہت موجود تھی۔ غالبؔ پکڑا گیا تو انگریز نے پوچھا تم مسلمان ہو؟ کہا آدھا، کہا کیسے؟ کہنے لگا شراب پیتا ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتا‘‘۔ سیاحت کے عالمی مرکز نے اس مسلمان شہر کا یہ تشخص بھی ختم کر دیا۔ سیاحت وہاں کونسی ہے نہ آبشار ہیں نہ پہاڑ اور نہ ہی تاریخی مقامات، البتہ ’’نائٹ لائف‘‘ کے نام آپ کو سیاحتی کتابچے ضرور میسر آ جائیں گے۔

روس کے سائبریریا سے لے کر جاپان کے اوساکا اور بمبئی، کراچی، تہران، پیرس، بغداد، نیو یارک، لندن، بنکاک، غرض ہر شہر سے آنے والی فلائٹوں میں آپ کو مخصوص خواتین نظر آئیں گی جو ایک ماہ کے سیاحتی ویزے پر آتی ہیں اور اس ایک ماہ کے بعد وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹتی ہیں تو خوشحالی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو اس ’’نائٹ لائف‘‘ کی داستانیں ملیں گی۔ یورپ کے اخبارات اس شہر کو مشرق کا ایمسٹرڈیم کہتے ہیں۔ اس سارے کاروبار اور رنگا رنگی کو چلانے اور ’’ماحول‘‘ بنانے کے لیے افرادی قوت چاہیے اور دنیا بھر سے لوگ وہاں اس کاروباری ماحول کا ایندھن بنتے ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد بھارتیوں کی ہے جو 26 لاکھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مودی امارات کی بڑی مسجد دیکھنے گیا تو وہ جگہ جہاں صرف اللہ کے نام کو سر بلند ہونا چاہیے تھا، وہاں مودی مودی کے نعرے لگائے گئے کہ وہاں ایک کثیر تعداد بھارتیوں کی جمع تھی۔

ذوالخصلہ کے بت خانے کا چکر تو میرے آقا ﷺ نے ایک علامت کے طور بیان کیا ہے۔ اس باب کی احادیث پڑھیں تو ایسا لگتا ہے ہم اس دور میں زندہ ہیں جو قیامت کے قریب معرکوں کا دور ہے۔ غزوہ ہند کی پیش گوئیوں کے بارے میں پڑھتا تھا کہ کیا بھارت دنیا میں اس قدر اہمیت اختیار کر جائے گا کہ اس سے جہاد امت مسلمہ کی بقا اور شرک کے خاتمے کے لیے ضروری ہو جائے گا۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی نشانیوں کی جانب غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معرکہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

معرکوں کے میدان صرف دو ہیں۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ شام سیدنا امام مہدی کا ہیڈکوارٹر اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا مقام۔ دونوں لشکروں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن جہاد ہند کے بارے میں تو رسول اکرمؐ نے صحابہ سے حصہ لینے کا وعدہ لیا (مسند احمد) اس غزوہ کے وقت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ’’ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے (الفتنن)۔ معرکہ قریب ہو تو صف بندیاں ہو جاتی ہیں۔ صف بندیاں شروع ہیں دفاعی، تجارتی اور سیاحتی معاہدے جاری ہیں۔ ایران ہو یا دبئی، امریکا ہو یا اسرائیل، مودی کے لیے چشم براہ۔ لیکن نصرت الٰہی کا اندازہ تو اسی وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کمزور ہوں، تعداد میں کم ہوں اور وہ آپ کو فتح و کامیابی عطا کرے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بت گری پیشہ کیا، بت شکنی کو چھوڑا
اوریا مقبول جان پير 24 اگست 2015


ذوالخصلہ کے بت خانے کا چکر تو میرے آقا ﷺ نے ایک علامت کے طور بیان کیا ہے۔ اس باب کی احادیث پڑھیں تو ایسا لگتا ہے ہم اس دور میں زندہ ہیں جو قیامت کے قریب معرکوں کا دور ہے۔ غزوہ ہند کی پیش گوئیوں کے بارے میں پڑھتا تھا کہ کیا بھارت دنیا میں اس قدر اہمیت اختیار کر جائے گا کہ اس سے جہاد امت مسلمہ کی بقا اور شرک کے خاتمے کے لیے ضروری ہو جائے گا۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی نشانیوں کی جانب غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معرکہ ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

معرکوں کے میدان صرف دو ہیں۔ ایک شام اور دوسرا ہند۔ شام سیدنا امام مہدی کا ہیڈکوارٹر اور حضرت عیسیٰ کے نزول کا مقام۔ دونوں لشکروں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے لیکن جہاد ہند کے بارے میں تو رسول اکرمؐ نے صحابہ سے حصہ لینے کا وعدہ لیا (مسند احمد) اس غزوہ کے وقت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا ’’ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔ پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے (الفتنن)۔ معرکہ قریب ہو تو صف بندیاں ہو جاتی ہیں۔ صف بندیاں شروع ہیں دفاعی، تجارتی اور سیاحتی معاہدے جاری ہیں۔ ایران ہو یا دبئی، امریکا ہو یا اسرائیل، مودی کے لیے چشم براہ۔ لیکن نصرت الٰہی کا اندازہ تو اسی وقت ہی ہوتا ہے جب آپ کمزور ہوں، تعداد میں کم ہوں اور وہ آپ کو فتح و کامیابی عطا کرے۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

اوریا مقبول جان صاحب کی عادت ہے کہ ہر حدیث نبوی کو جس میں قیامت کی نشانیاں بیان کی گئیں ہوں وہ ان کو زبردستی دور حاضرکے تناظر میں ثابت کرنے کی نا کام کوشش کرتے ہیں اور عوام کو یہ باآور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی فتح اور ان کا دنیا پرعروج صرف چند دنوں کی بات ہے- ان کو مفید مشوره یہی ہے کہ اس قسم کے بے تکے خواب دیکھنے کے بجاے کسی سیاسی معاملے کو اسلامی تناظر میں ثابت کرنے کے لئے پہلے احادیث نبوی کو صحیح طور پر پڑھیں اور سمجھیں اور کسی مستند عالم کی خدمات حاصل کرلیں تو زیادہ بہتر ہو گا-

قارئین کے لئے غزوہ ہند سے متعلق روایات کا صحیح تجزیہ یہاں پرموجود ہے-

مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث یہ ہے:

أخبرنا يحيى بن يحيى أنا إسماعيل بن عياش عن صفوان بن عمرو السكسكي عن شيخ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند فقال ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلغلين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح بن مريم بالشام قال أبو هريرة رضي الله عنه فإن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارد وتالد لي وغزوتها فإذا فتح الله علينا انصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيلقى المسيح بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه (نمبر 462)

ایک نامعلوم بزرگ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہندوستان کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ ایک لشکر ہندوستان میں جہاد کرے گا اور اللہ انہیں فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ ، سندھ کے بادشاہوں کو وہ زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہ معاف فرما دے گا، پھر وہ پلٹیں گے تو شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کو پائیں گے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر میں اس وقت ہوا تو اپنا سب کچھ بیچ کر اس میں شریک ہوں گا۔ اگر اللہ نے ہمیں فتح دی اور ہم واپس آئے تو میں آزاد ابوہریرہ ہو کر شام آؤں گا۔ میں سب سے زیادہ لالچی ہوں کہ وہاں حضرت عیسی بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام سے ملوں۔

اب اس حدیث کی سند میں وہ نامعلوم بزرگ کون ہیں اور کس حد تک لائق اعتبار ہیں، ہم نہیں جانتے۔ اس وجہ سے سند کے اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے۔

درایت کے پہلو سے بھی دیکھیے کہ اس روایت کی رو سے جنگ تو ہندوستان سے ہو رہی ہے اور بادشاہ سندھ کے قید کر کے لائے جا رہے ہیں۔ عہد رسالت میں سندھ، ہندوستان کا حصہ تھا اور موجودہ پاکستان کا تقریباً پورا علاقہ سندھ ہی کہلاتاتھا۔ اس اعتبار سے حدیث کا تعلق اس زمانے سے معلوم ہوتا ہے جب پاکستان اور ہندوستان ایک ہی ملک ہوں ۔ یہ کم از کم موجودہ دور تو نہیں ہو سکتا کہ جنگ ہندوستان میں ہو، اور مسلم فوجیں پاکستان یا سندھ کے کسی بادشاہ کو قید کر کے شام لے جائیں۔ شاید حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت دونوں ایک ہی ملک ہوں۔ اس حدیث کو مان بھی لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے کچھ پہلے اہل ہند کے ساتھ جنگ ہو گی جس میں سندھ کے حکمران قید ہوں گے۔

غزوہ ہند سے متعلق روایات پر مزید تحقیق اس لنک میں ملاحظه کریں -

http://www.mubashirnazir.org/QA/000300/Q0227-Ghazwa.htm
 
Top