ابو عبدالله
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 28، 2011
- پیغامات
- 723
- ری ایکشن اسکور
- 448
- پوائنٹ
- 135
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل حدیث پر ایک منکرِ حدیث کے (ترجمہ میں "ڈنڈیوں" سے بھرپور) اعتراض کا جواب درکار ہے. محترم اہلِ علم سے گذارش ہے کہ وہ اس پر سیر حاصل کلام کرکے عنداللہ ماجور ہوں.
جزاکم اللہ خیر
@اسحاق سلفی @خضر حیات @عبدہ
@ابن داود
نسبتِ حدیث: قدسی
سند: متصل
قسمِ حدیث: قولی
حکم: صحیح
تخریجصحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ؛ بَابُ التَّوَاضُعِ
6502 . حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ
صحیح بخاری: کتاب دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں؛
تواضع یعنی عاجزی کرنے کے بیان میں
مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے ، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے ، ان سے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے ، ان سے عطاءنے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیںجیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میںاس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔
منکر حدیث کا کلام:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا فرمان ھے کہ جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے گامیں اس سے اعلان جنگ کرتا ھوں۔ بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے مجھے ان میں سب سے زیادہ دو امور محبوب ھیں جو میں نے اپنے بندے پر فرض کۓھیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کر تا رہتا ھے حتی کے میرا محبوب بن جاتا ھے، ایسی صورت میں اس کے کان بن جاتا ھوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بنیائی بن جاتا ھوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ھاتھ بن جاتا ھوں جس کو وہ پھیلاتا ھے، پاؤں بن جاتا ھوں جس سے وہ چلتا ہے (استغفراللّٰہ)۔
اگر میرا ولی مجھ سے سوال کرتا ھے تو میں اس کا سوال پورا کرتا ھوں۔ اور اگر پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اس کو پناہ دیتا ھوں۔ اور جو مومن موت کو برا سمجھتا ہو مجھے اس کی جان لینے میں اتنا تردد ہوتا ہے اتنا کسی شے میں تردد نہیں ھوتا (استغفراللّٰہ)۔ میں اس کی براٸ کو پسند نہیں کرتا۔ (بخاری)
سند پر بات بعد میں کرتے ھیں۔سب سے پہلے اسکے متن اور اسکی شہرت پر نظر ڈالتے ھیں۔
صحاح ستہ کی چھ کتابوں اور موطا مالک میں تقریباً(36) ھزار احادیث ھیں۔ان میں یہ حدیث صرف بخاری میں ھے وہ بھی صرف ایک اور کوئ دوسری سند بخاری میں بھی موجود نہیں ھے۔ایسی روایت کو محدثین غریب حدیث کہتے ھیں ۔کچھ احادیث صحابہ کرام کے زمانے میں غریب ھوتی تھیں لیکن تابعین کے یا تابع تا بعین کے زمانے میں شہرت پا لیتی تھیں لیکن اس نے تو غربت کے سارے ریکارڈ تورڈ دیے۔ پانچ سو سال تک کسی بھی محدث نے اسکو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی۔ بعد میں بہیقی نے اسکی سند بخاری تک پہنچائی۔
متن کو غور سے پڑھو اور علی ولی اللہ کا عقیدہ سامنے رہے۔
ھمارے یہاں ولی کوئ منصب نہیں ھے ان کے یہاں ایک منصب (ولایت) ھے اور اذان اور ان کے کلمے میں بھی یہ منصب نظر آتا ھے۔
بلکہ اسی حدیث کے الفاظ سے ایک فرقہ ان میں ایسا بھی ھے جو کہتا ھے اللہ علی میں حلول کر گیا ھے۔ معاذاللہ
حدیث میں لکھا ہے دو امور فرض کیے ھیں لیکن کون سے امور؟؟؟ نوافل تو فرض نہیں ھوتے۔ صرف اللہ کے رسول پر تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں راوی یہ بتانا چاہ رہا ہو کہ نوافل علی رضی اللہ پر بھی فرض تھے۔ خیر۔۔۔
حدیث کے الفاظ کہ اللہ کو تردُد ھوتا ھے (استغفراللّٰہ) جو ایک امر محال ھے جسے بلا تاویل قبول کرنا ممکن نہیں۔
اور اس تردُد کا حل شارحین بخاری نے نہیں نکالا یا وہ حضرات نکالیں جن پر ہر روایت کو قرآن پاک کی آیت کی طرح معتبر سمجھتے ھیں۔
یہ روایت اپنے ظاہری معنی کے ساتھ تو قبول نہیں ھو سکتی جب تک تاویلات کا سہارا نہ لیا جاۓ۔ ھاں علی ولی اللہ عقیدے والے اور وحدت الوجود والوں کے کام کی حدیث ھے۔
باقی رہی سند تو اس روایت کے دو اھم راوی خالد بن مخلد القطوانی اور شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کٹر شیعہ تھے۔اور اصول حدیث کا ایک اصول یہ بھی ہے اگر کوئی شیعہ راوی ایسی روایات پیش کرے جس سے اس کے شیعہ مسلک کی تائید ھوتی ھو ،تو اسے ھر گز قبول نہیں کیا جاۓگا۔ اور اس روایت میں نہ صرف ولایت ثابت کی جارہی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا جا رہا ہے ولی کے روپ میں اللہ پاک ظہور پذیر ھوتے ھیں۔
ابن سعد کہتے ھیں خالد منکراالحدیث اور غالی شیعہ ھے۔
ابن عدی نے اسکی دس روایات کو منکر قرار دیا اور یہ روایت ان شامل ھے۔
جوزجانی کہتے ھیں یہ کھلم کھلا شیعہ تھا اور بہت گالیاں دیا کرتا تھا(استغفراللّٰہ)۔
وغیرہ وغیرہ اور یہی حال شریک کاہے سباٸ المسلک تھا۔
حوالہ کے لۓ امام ذہبی کی المیزان۔۔
واللہ اعلم ۔ اللہ معاف فرماۓ۔
صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل حدیث پر ایک منکرِ حدیث کے (ترجمہ میں "ڈنڈیوں" سے بھرپور) اعتراض کا جواب درکار ہے. محترم اہلِ علم سے گذارش ہے کہ وہ اس پر سیر حاصل کلام کرکے عنداللہ ماجور ہوں.
جزاکم اللہ خیر
@اسحاق سلفی @خضر حیات @عبدہ
@ابن داود
نسبتِ حدیث: قدسی
سند: متصل
قسمِ حدیث: قولی
حکم: صحیح
تخریجصحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ؛ بَابُ التَّوَاضُعِ
6502 . حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، يَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ
صحیح بخاری: کتاب دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں؛
تواضع یعنی عاجزی کرنے کے بیان میں
مجھ سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے ، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے ، ان سے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے ، ان سے عطاءنے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اورکوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے ( یعنی فرائض مجھ کو بہت پسندہیںجیسے نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میںاس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتاہے۔
منکر حدیث کا کلام:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا فرمان ھے کہ جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے گامیں اس سے اعلان جنگ کرتا ھوں۔ بندہ جن چیزوں کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے مجھے ان میں سب سے زیادہ دو امور محبوب ھیں جو میں نے اپنے بندے پر فرض کۓھیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کر تا رہتا ھے حتی کے میرا محبوب بن جاتا ھے، ایسی صورت میں اس کے کان بن جاتا ھوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی بنیائی بن جاتا ھوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ھاتھ بن جاتا ھوں جس کو وہ پھیلاتا ھے، پاؤں بن جاتا ھوں جس سے وہ چلتا ہے (استغفراللّٰہ)۔
اگر میرا ولی مجھ سے سوال کرتا ھے تو میں اس کا سوال پورا کرتا ھوں۔ اور اگر پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اس کو پناہ دیتا ھوں۔ اور جو مومن موت کو برا سمجھتا ہو مجھے اس کی جان لینے میں اتنا تردد ہوتا ہے اتنا کسی شے میں تردد نہیں ھوتا (استغفراللّٰہ)۔ میں اس کی براٸ کو پسند نہیں کرتا۔ (بخاری)
سند پر بات بعد میں کرتے ھیں۔سب سے پہلے اسکے متن اور اسکی شہرت پر نظر ڈالتے ھیں۔
صحاح ستہ کی چھ کتابوں اور موطا مالک میں تقریباً(36) ھزار احادیث ھیں۔ان میں یہ حدیث صرف بخاری میں ھے وہ بھی صرف ایک اور کوئ دوسری سند بخاری میں بھی موجود نہیں ھے۔ایسی روایت کو محدثین غریب حدیث کہتے ھیں ۔کچھ احادیث صحابہ کرام کے زمانے میں غریب ھوتی تھیں لیکن تابعین کے یا تابع تا بعین کے زمانے میں شہرت پا لیتی تھیں لیکن اس نے تو غربت کے سارے ریکارڈ تورڈ دیے۔ پانچ سو سال تک کسی بھی محدث نے اسکو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی۔ بعد میں بہیقی نے اسکی سند بخاری تک پہنچائی۔
متن کو غور سے پڑھو اور علی ولی اللہ کا عقیدہ سامنے رہے۔
ھمارے یہاں ولی کوئ منصب نہیں ھے ان کے یہاں ایک منصب (ولایت) ھے اور اذان اور ان کے کلمے میں بھی یہ منصب نظر آتا ھے۔
بلکہ اسی حدیث کے الفاظ سے ایک فرقہ ان میں ایسا بھی ھے جو کہتا ھے اللہ علی میں حلول کر گیا ھے۔ معاذاللہ
حدیث میں لکھا ہے دو امور فرض کیے ھیں لیکن کون سے امور؟؟؟ نوافل تو فرض نہیں ھوتے۔ صرف اللہ کے رسول پر تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں راوی یہ بتانا چاہ رہا ہو کہ نوافل علی رضی اللہ پر بھی فرض تھے۔ خیر۔۔۔
حدیث کے الفاظ کہ اللہ کو تردُد ھوتا ھے (استغفراللّٰہ) جو ایک امر محال ھے جسے بلا تاویل قبول کرنا ممکن نہیں۔
اور اس تردُد کا حل شارحین بخاری نے نہیں نکالا یا وہ حضرات نکالیں جن پر ہر روایت کو قرآن پاک کی آیت کی طرح معتبر سمجھتے ھیں۔
یہ روایت اپنے ظاہری معنی کے ساتھ تو قبول نہیں ھو سکتی جب تک تاویلات کا سہارا نہ لیا جاۓ۔ ھاں علی ولی اللہ عقیدے والے اور وحدت الوجود والوں کے کام کی حدیث ھے۔
باقی رہی سند تو اس روایت کے دو اھم راوی خالد بن مخلد القطوانی اور شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کٹر شیعہ تھے۔اور اصول حدیث کا ایک اصول یہ بھی ہے اگر کوئی شیعہ راوی ایسی روایات پیش کرے جس سے اس کے شیعہ مسلک کی تائید ھوتی ھو ،تو اسے ھر گز قبول نہیں کیا جاۓگا۔ اور اس روایت میں نہ صرف ولایت ثابت کی جارہی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا جا رہا ہے ولی کے روپ میں اللہ پاک ظہور پذیر ھوتے ھیں۔
ابن سعد کہتے ھیں خالد منکراالحدیث اور غالی شیعہ ھے۔
ابن عدی نے اسکی دس روایات کو منکر قرار دیا اور یہ روایت ان شامل ھے۔
جوزجانی کہتے ھیں یہ کھلم کھلا شیعہ تھا اور بہت گالیاں دیا کرتا تھا(استغفراللّٰہ)۔
وغیرہ وغیرہ اور یہی حال شریک کاہے سباٸ المسلک تھا۔
حوالہ کے لۓ امام ذہبی کی المیزان۔۔
واللہ اعلم ۔ اللہ معاف فرماۓ۔
Last edited: