منکر حدیث کا کلام:
1-سند پر بات بعد میں کرتے ھیں۔سب سے پہلے اسکے متن اور اسکی شہرت پر نظر ڈالتے ھیں۔
صحاح ستہ کی چھ کتابوں اور موطا مالک میں تقریباً(36) ھزار احادیث ھیں۔ان میں یہ حدیث صرف بخاری میں ھے وہ بھی صرف ایک اور کوئ دوسری سند بخاری میں بھی موجود نہیں ھے۔ایسی روایت کو محدثین غریب حدیث کہتے ھیں ۔کچھ احادیث صحابہ کرام کے زمانے میں غریب ھوتی تھیں لیکن تابعین کے یا تابع تا بعین کے زمانے میں شہرت پا لیتی تھیں لیکن اس نے تو غربت کے سارے ریکارڈ تورڈ دیے۔ پانچ سو سال تک کسی بھی محدث نے اسکو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی۔ بعد میں بہیقی نے اسکی سند بخاری تک پہنچائی۔
ان منکریں حدیث کی سب سے بڑی چالاکی یہی ہے کہ یہ جو اعتراض کر رہے ہوتے ہیں اس اعتراض کو اصول کے طور پر نہیں مانتے کیونکہ اس طرح وہی اعتراض پھر قرٓن پر بھی ٓ جاتے ہیں جیسا کہ میرا منکر حدیث سے ایک مکالمہ چل رہا ہے اور ان سے مناظرے کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ یہ روایت پر جو بھی اعتراض کرنا چاہتے ہیں اس اعتراض کو ایک اصول کے طور پر ان سے منوا لیں
اب اوپر جو انہوں نے اعتراض کیا ہے ان سے کہیں کہ کیا وہ یہ اصول مانتے ہیں کہ جس بات پر شروع والے ایک دو زمانے کے لوگ متفق نہ ہو سکے ہوں وہ بات پھر لائق اتباع نہیں بنتی یا حجت نہیں ہو سکتی اگر وہ اس اصول کو مانیں تو پھر تو قرٓن بھی نہیں بچتا مگر وہ قرٓن کو مانتے ہیں وہ ایسے کہ قرآن ہمارے لئے ہدایت تب ہو سکتا ہے جب اس پر زبر زیر لگائے ہوئے ہوں ورنہ اگر کوئیسورۃ فاتحۃ میں انعمتَ کو انعمتُ علیھم پڑھ لے تو کیا مطلب ہو جائے گا اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ اعراب بہت بعد میں لگائے گئے یہ صرف سینہ بسینہ چلے پس یہ اعتراض انکے ہاں بھی درست نہیں کہ کوئی چیز بعد میں جا کر مشہور ہوئی ہو تو وہ لائق حجت نہیں ہو سکتی
منکر حدیث کا کلام:
2-متن کو غور سے پڑھو اور علی ولی اللہ کا عقیدہ سامنے رہے۔
ھمارے یہاں ولی کوئ منصب نہیں ھے ان کے یہاں ایک منصب (ولایت) ھے اور اذان اور ان کے کلمے میں بھی یہ منصب نظر آتا ھے۔
یہ بھی چالاکی کا مظہر ہے یہی بات جب قرآن میں بیان ہوتی ہے کہ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی تو وہاں انکو یہ خیال نہیں آتا کہ کوئی اس سے نبی کی ولایت یا علی کی ولایت کو ثابت کرے گا اسی طرح جب الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم والی آیت آتی ہے تو وہاں انکو یہ شکوک و شبہات نہیں ہوتے کہ یہ صوفی اور رافضی ملعون اس سے کوئی ایسا عقیدہ نکال لیں گے وہاں یہ خود اسکی وضاحت کر رہے ہوتے ہیں مگر محدثین کو وضاحت کی اجازت نہیں دیتے
یاد رکھیں اگر مجازی معنوں کو بالکل ہی پش پشت ڈال دیا جائے اور صرف ظاہری معنی کو دیکھ کر ہی اعتراض کر دیا جائے تو قرآن سے بھی بہت سی آیات نکل آئیں گی مثلا منفخ فیہ من روحی تو پھر تو عیسائی بھی ہمارے قرآن سے یہ ثابت کر دیں گے کہ مریم میں چونکہ اللہ کی روح ہے پس ہمارا اسکو الہ ماننا درست ہے جسکو اللہ نے کہا کہ قیامت میں پوچھا جائے گا کہ اانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ
پس روایات پر تو یہ اعتراض کہ اس سے صوفی یا رافضی جو امت اجابت میں ہیں حجت پکڑ سکتے ہیں تو اسی تناظر میں تو قرآن سے پھر عیسائی بھی مریم کے الہ یا ولی ہونے کی حجت پکڑ سکتے ہیں
اسی طرح فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ سے بھی تو مولا کا معنی نکل سکتا ہے
غرض ہزاروں اعتراض پھر قرآن پر آ جائیں گے
منکر حدیث کا کلام:
3-بلکہ اسی حدیث کے الفاظ سے ایک فرقہ ان میں ایسا بھی ھے جو کہتا ھے اللہ علی میں حلول کر گیا ھے۔ معاذاللہ
جی یہی حلول والی آیت اوپر فنفخ فیہ من روحی بیان کی ہے کہ اگر یہاں کوئی فرقہ حلولی بن جاتا ہے تو اس طرح کی ناقص عقل رکھنے والا منکر حدیث کو تو قرآن کو دیکھ کر معاذ اللہ پھر عیسائی بن جانا چاہئے
منکر حدیث کا کلام:
4-حدیث میں لکھا ہے دو امور فرض کیے ھیں لیکن کون سے امور؟؟؟ نوافل تو فرض نہیں ھوتے۔ صرف اللہ کے رسول پر تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں راوی یہ بتانا چاہ رہا ہو کہ نوافل علی رضی اللہ پر بھی فرض تھے۔ خیر۔۔۔
اس پر ایک لطیفہ سناتا چلوں
قلندر بخش جرات (نابینا شاعر) ایک دن بیٹھے سوچ رہے تھے کہ سید انشاء جی آ گئے کہا کیا سوچ رہے ہو کہا کہ کافی دیر سے ایک مصرع سوچا ہے دوسرا نہیں بن رہا کہا کہ مجھے بھی سناؤ جرات نے کہا نہیں تم دوسرا لگا کر شعر چھین لو گے خیر بڑی منت کے بعد سنایا کہ
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
(یعنی محبوب کی کالی سیاہ زلف پہ پھبتی یہ سوچی کہ وہ کالی سیاہ رات ہو حالانکہ یہ پھبتی تو نہیں تھی حقیقت تھی مگر وہ نابینا تھے تو اسکو پھبتی کہا)
انشاء جی نے فورا دوسرا مصرع لگایا کہ
اندھے کو اندھیرے میں بڑے دور کی سوجھی
تو ان ہوس کے اندھے منکر حدیثوں کو بھی ایسے ہی حدیث کے بارے سوچتا ہے
یہ پتا نہیں کہا سے مطلب نکال لیا بھئی حدیث میں پہلے کہا گیا ہے کہ فرض سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے قریب نہیں کرتی اور بعد میں کہا گیا کہ نوافل سے بھی انسان قریب ہوتا ہے اب فرائض تو کوئی مومن چھوڑ ہی نہیں سکتا پس اسکی وجہ سے مختلف مومن برابر اللہ کے قریب ہونے کا چانس رکھتے ہیں البتہ نوافل میں چونکہ اختیار ہے تو یہاں زیادہ مجاہدہ کر کے کوئی زیادہ قریب ہو سکتا ہے تو فرض کو نوافل سے تو یہاں ملایا ہی نہیں گیا اصل وجہ یہ ہے کہ ساری زندگی حدیث کو نہ دیکھنے والا جب اسکو کہیں دیکھے گا تو اسکو ایسے ہی نظر آئے گا
منکر حدیث کا کلام:
5-حدیث کے الفاظ کہ اللہ کو تردُد ھوتا ھے (استغفراللّٰہ) جو ایک امر محال ھے جسے بلا تاویل قبول کرنا ممکن نہیں۔
اور اس تردُد کا حل شارحین بخاری نے نہیں نکالا یا وہ حضرات نکالیں جن پر ہر روایت کو قرآن پاک کی آیت کی طرح معتبر سمجھتے ھیں۔
یہاں تردد کا تعلق ارادہ سے ہے اور جہاں تک ارادوں کا معاملہ ہے تو یہ ایک لمبی بحث ہے کہ ارادہ کی کتنی اقسام ہوتی ہے اللہ ویسے تو جس چیز کا ارادہ کر لے وہ ہو کر رہتا ہے مگر قرآن میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ہے یا وہ چاہتا ہے کہ تم ایسے کرو مگر ایسے کیا نہیں جاتا تو اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ کے ارادہ کی خلاف ورزی ہو گئی بلکہ یہ دوسری قسم کا ارادہ ہے یعنی تکوینی ارادہ اور شرعی ارادہ میں فرق ہوتا ہے
اللہ کہتا ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر پس یہاں اللہ کا ارادہ تو ہمارے ساتھ آسانی کا ہے مگر اگر تنگی ہو جائے تو اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ اللہ کا ارادہ پورا نہیں ہوا
منکر حدیث کا کلام:
6-یہ روایت اپنے ظاہری معنی کے ساتھ تو قبول نہیں ھو سکتی جب تک تاویلات کا سہارا نہ لیا جاۓ۔ ھاں علی ولی اللہ عقیدے والے اور وحدت الوجود والوں کے کام کی حدیث ھے۔
یہی بات فنفح فیہ من روحی اور الا ان اولیاءاللہ والی آیت اور ومارمیت اذ رمیت جیسی آیات کے بارے اوپر کہی جا چکی ہے
منکر حدیث کا کلام:
7-باقی رہی سند تو اس روایت کے دو اھم راوی خالد بن مخلد القطوانی اور شریک بن عبداللہ بن ابی نمر کٹر شیعہ تھے۔اور اصول حدیث کا ایک اصول یہ بھی ہے اگر کوئی شیعہ راوی ایسی روایات پیش کرے جس سے اس کے شیعہ مسلک کی تائید ھوتی ھو ،تو اسے ھر گز قبول نہیں کیا جاۓگا۔ اور اس روایت میں نہ صرف ولایت ثابت کی جارہی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا جا رہا ہے ولی کے روپ میں اللہ پاک ظہور پذیر ھوتے ھیں۔
یہ اصول اگر اہل سنت کے ہیں تو پھر اسکی تشریح بھی وہی کریں گے یا جرات میاں کی طرح اندھے اسکی تشریح کرنے لگ جائیں گے کہا کون سا راوی شیعہ ہے اور کون سی اسکی روایت اسکی مذہب کی موافقت میں ہے
منکر حدیث کا کلام:
8-ابن سعد کہتے ھیں خالد منکراالحدیث اور غالی شیعہ ھے۔
ابن عدی نے اسکی دس روایات کو منکر قرار دیا اور یہ روایت ان شامل ھے۔
جوزجانی کہتے ھیں یہ کھلم کھلا شیعہ تھا اور بہت گالیاں دیا کرتا تھا(استغفراللّٰہ)۔
وغیرہ وغیرہ اور یہی حال شریک کاہے سباٸ المسلک تھا۔
حوالہ کے لۓ امام ذہبی کی المیزان۔۔
واللہ اعلم ۔ اللہ معاف فرماۓ۔
یہ بات بھی اوپر بتائی جا چکی ہے کہ اسکی وضاھت بھی اہل سنت ہی کریں گے واللہ اعلم
محترم
@خضر حیات بھائی اور باقی راسخ العلم بھائیوں سے اصلاح کی درخواست ہے کہ موضوع پیچیدہ ہے راسخ العلم نہ ہونے کی وجہ سے غلطی ہو گئی ہو تو ضرور اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا