بسم اللہ الرحمن الرحیم
بدعات اور ان کا پوسٹ مارٹم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم ، اما بعد فاعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم ’’ و ان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ (الاعراف ) و عن عائشۃ ؓ قالت قال رسول اﷲ ﷺ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (متفق علیہ )
ترجمہ :۔ حمدو ثناء رب العالمین اور صلوٰۃ و سلام علی رحمت للعالمین کے بعد (ارشاد الٰہی ہے ) اور جان لو کہ بے شک میرا ہی راستہ سیدھاہے پس تم اسی کی پیروی کرو اور دوسری راہوں پر نہ چلو وہ راہیں تمہیں اللہ کی سیدھی راہ سے ہٹا دیں گی ۔ نیز عائشہ ؓ ام المومنین نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی (دین سمجھ کر ) جو دین میں سے نہیں تو وہ مردود ہے ۔
سورہ الاعراف کی آیتِ مذکورہ بالا اور حدیثِ ام المومنین ؓ دونوں اس امر کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے تابعداروں پر یہ لازم اور فرض ہے کہ اللہ اوررسول کی دکھائی ہوئی راہ پر چلیں ، ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں ۔ انکے فرمائے ہوئے فرامین کو اپنائیں ، جن کاموں سے انھوں نے روک دیا ہے ان سے رک جائیں ۔ سوال یہ ہے کہ لوگ ایمان و اسلام کے دعوی کے ساتھ ساتھ یہی کچھ کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے ہیں ؟ یا صرف اسلام و ایمان کے دعوے ہی ان کے پاس ہیں اور عمل کسی اور چیز پر ہو رہا ہے ۔ جب اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہم نے امت مسلمہ پر ایک طائرانہ وغائرانہ نظر ڈالی تو اس امت کی ایک بڑی تعداد کو بالخصوص برصغیر پاک و ہند میںبسنے والے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو شرک و بدعات کی غلاظتوں میں لتھڑا ہوا پایا ۔ اسلام کا خالص چشمہ جو کہ قرآن و حدیث سے عبارت ہے برصغیر میں شرک و بدعات کی کثرت سے اب خالص نہیں بلکہ کثرتِ غلاظت کے سبب متعفن ہے اور اس کی شکل بالکل بدل دی گئی ہے وہ اسلام جو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر پیش کیا تھااس نام نہاد اسلام سے بالکل مختلف ہے جو آج برصغیر کے اہل بدعت کے ہاں رائج ہے ۔ وہ اسلام جسے رسول اللہ ﷺ نے لوگوں پر پیش کیا تھا وہ ایک اللہ کی بندگی و اطاعت اورایک رسول ﷺ کی اطاعت فرماں برداری تک محدود تھا لیکن موجودہ مسخ شدہ اسلام ایک اللہ کے ساتھ ڈھیر سارے معبودانِ باطلہ کی عبادت و اطاعت اور ایک رسول ﷺ کی اطاعت کے ڈھیر سارے خود ساختہ اور جعلی اماموں کی تقلید سے عبارت ہے شرک اور بدعت میں ڈوبے ہوئے لوگوں میں اللہ کی توحید ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ عوام ایک بار پھر جہالت اور گمراہی کے ان عمیق اندھیروں میں ڈوبتے جارہے ہیں جہاں سے انھیں نکالنے کے لئے حق تعالی نے نبی رحمت ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا ۔چنانچہ اس امر کی ضرورت ہے کہ سنت رسول اکرم ﷺ پر عمل کیا جائے شرک و بدعات کا قلع قمع کیا جائے، توحید الٰہی کو عوام الناس تک پہنچایا جائے اور انہیں برائی کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے یہ وہ جہاد ہے جس کا حکم خود نبی رحمت ﷺ نے ان الفاظ میں دیا ’
’من رای منکم منکرافلیغیرہ بدیہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ ذالک اضعف الایمان رواہ مسلم ‘‘ یعنی تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے پس چاہئے کہ وہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے ہٹا دے ۔اگر وہ ہاتھ سے ہٹانے کی قوت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے برا کہے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو کم از کم اپنے دل میں اسے برا جانے اور کمزور ایما ن کی علامت ہے ۔آپﷺ کی اس حدیث مبارکہ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ برائی کو دیکھ کر چپ نہ رہا جائے بلکہ اسے ختم کرنے کی ہر ممکن تدبیر ہاتھ اور زبان سے کی جائے بدعت ، جس کے رد میں یہ تحریر لکھی جارہی ہے برے کامون میں سب سے برا کام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بدعت کے بارے میں فرمایا کہ وہ مردود ہے یعنی اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہے اور بدعتی کو اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا بلکہ بدعات میں گرفتار ہونے کے سبب بدعتی لوگ جہنم میں داخل کئے جائیں گے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے ۔ کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار ۔ رواہ النسائی۔
یعنی ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کا ٹھکانہ دوزخ ہے ۔علاوہ ازیں بدعت کی مذمت کرتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا ۔
مابتدع قوم بدعۃفی دینھم الا نزع اﷲ سنتھم مثلھا ثم لا یعیدھا الیھم الی یوم القیامۃ (رواہ الدارمی ) یعنی نہیں نکالتی کوئی قوم اپنے دین میں بدعت مگر یہ کہ اللہ تعالی اسی قدر سنت ان کے درمیان سے اٹھا لیتا ہے اور پھر وہ اسی سنت کو قیامت کے دن تک ان کی طرف نہیں لوٹائے گا ۔ معلوم ہوا کہ بدعت اتنی بڑی برائی ہے جس کے اپنانے سے اللہ رب العالمین ناراض ہو جاتا ہے اور اپنے نبی علیہ السلام کی سنتوں کوبدعتی بندوں کے درمیان سے اٹھا لیتا ہے تاکہ جس بھلائی سے انہوں نے دوری اختیار کی ہے اس کی سزا میںا نہیں مستقلاً اس بھلائی سے محروم کر دیا جائے اور جس برائی کو انہوں نے اپنے سروں پر لادا ہے ہمیشہ ہمیشہ اس میں گرفتار رہیں پھر یہ بدعتی اللہ کے نزدیک اتنے بڑے مجرم ہیں کہ ان کی تعظیم اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کی زبانی منع فرمائی اور آپ ﷺ نے فرمایا ’’ من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان الی ھدم الاسلام ‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان ) یعنی جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی تو گویا اس نے اسلام کے ڈھا دینے پر مدد کی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بدعتی کو سلام کرنا ، بدعتی کے ساتھ رشتہ داری کرنا ، بدعتی کو اپنا امام بنانا اور اس کی اقتداء میںنماز پڑھنا یہ سب کے سب عمل غلط ہیںاور اسلام کو ڈھا دینے کے مترادف ہیں اس لئے کہ ان تمام کاموں سے بدعتی کی تعظیم ہوتی ہے جبکہ ہمیں اس کی تعظیم کرنے سے منع کیا گیا ہے اب وہ موحد بھائی ذرا غور کریں جو اپنی نمازیں بدعتیوں کی اقتداء میں پڑھ کر نہ صرف ضائع کر رہے ہیں بلکہ بدعتیوں کواپنا امام بنا کر اسلام ڈھانے میںان کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں ۔ جب ان بھائیوں کو ان کاموں سے منع کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف جماعت سے نماز پڑھنے کی خاطر ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز ہوتی ہی نہیں ہے کجا یہ کہ نماز باجماعت کا اجر و ثواب ملے
اور اس پر دلیل یہ فرمان رسول ہے
’’لا یقبل اﷲ لصاحب بدعۃ صوما ولا صلاۃولا صدقۃ ولا حجا ولا عمرۃ ولا جھادا ولا صرفا ولا عدلا یخرج من الاسلام کما تخرج الشعرۃ من العجین ۔ (رواہ ابن ماجہ ) یعنی اللہ تعالیٰ بدعتی شخص کا نہ روزہ قبول کرتا ہے نہ نماز، نہ صدقہ ، نہ حج ،نہ عمرہ، نہ جہاد، نہ اللہ کی راہ میں اس کا خرچ اور نہ اس کا انصاف ، وہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔
نیز ابن ماجہؔ ہی میں بروایت ابن عباسؓ اللہ کے رسولؐ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے ’
’ اَبٰی اﷲُ اَنْ یُّقْبِلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ حَتّٰی یَدَعَّ البِدْعَۃَ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ بدعتی کے کسی بھی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ بدعت کو ترک نہ کردے اور مجمع الزوائد میں ہے
’’اِنَّ اﷲَ حَجَبَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب بدعت سے توبہ کو چھپا دیا ہے یعنی بدعتی کو اللہ توبہ کی توفیق ہی نہیں دیتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل بدعت اپنی اپنی بدعات کو گناہ سمجھتے ہی نہیں بلکہ بدعات پر عمل پیرا ہو کر اپنے زعم باطل میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اس سے ثواب حاصل ہو گا لہٰذا نہ وہ ارتکابِ بدعت پر توبہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے توبہ کرنا کبھی نصیب ہو گی ۔ الغرض حق تعالیٰ اہل بدعت کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتا انکے اچھے ا عمال بھی بدعت کے سا تھ اور بدعت کے سبب ضائع ہو جاتے ہیں اسی طرح اہل بدعت کی تعظیم کرنے والے مسلمانوںکی عبادات جو وہ اہل بدعت کی اقتداء میں ادا کرتے ہیں انہیں کوئی فائدہ نہیں دیں گی اس لئے کہ بدعتی کی تعظیم کر کے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ مبارک کو ٹھکرایا ۔
آپؐ کی حدیث پر بدعتی کی تعظیم کو ترجیح دی اس کی اقتداء میں نماز پڑھ کر صرف نماز ہی ضائع نہیں کی بلکہ اپنے دینِ اسلام کو ڈھانے پر اس نے بدعتی کی مدد کی ۔ ہمارے سامنے سیدنا عمرؓ بن خطاب کے صاحبزادے سیدنا عبداللہؓ کا فیصلہ اس سلسلے میں موجود ہے جب انہوں نے ایک مسجد میں اذان کے بعد تثویب سنی یعنی مؤذن پکار پکار کر لوگوں کو نماز کی ترغیب دلانے لگا، سیدنا عبداللہؓ اس وقت کافی بوڑھے تھے اور ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی یہ تثویب سن کر آپؓ نے اپنے شاگرد سے فرمایا تھا ’’اَخْرِجْ بِنَا فَاِنَّ ہٰذِہٖ بِدْعَۃٌ‘‘ (ابو داؤد)
یعنی ہمیں یہاں اس مسجد سے لے چل کیونکہ یہ تو بدعت ہے ۔ دیکھئے صحابئ رسول نے ایک بدعتی کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے کراہیت کی اور معذور ہو نے کے باوجود اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جہاں ارتکاب بدعت ہو رہا تھا آج وہ لوگ جو بدعتیوں کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں وہ ذرا اپنے کردار کا صحابئ رسولؐ کے کردار سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ صحابۂ کرام بدعات سے کس قدر نفرت کیا کرتے تھے ۔ سیدناابن مسعودؓ کے سامنے ایک بار چند ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا جو مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھتے اور ایک خاص انداز سے ذکر کرتے تھے آپؓ ان لوگوں کے پاس گئے اور فرمایا
’’مَنْ عَرَفَنِیْ فَقَدْ عَرَفَنِیْ وَمَنْ لَّمْ عَرَفَنِیْ فَاَنَا عَبْدُ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ تُعْلَمُوْنَ اَنَّکُمْ لَاَہْدٰی مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ وَاَصْحَابِہٖ اِلٰی اَنْ قَالَ لَقَدْ جِئتُم بِِبدْعَۃٍ عُظْمٰی اَوْ لَقَدْ فَضَلْتُمْ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ عِلْمًا (احکام الاحکام) یعنی جو مجھے جانتا ہے وہ تو مجھے جانتا ہی ہے لیکن جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں عبداللہ ہوں مسعود کا بیٹا ۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم لوگ محمدﷺ کے صحابہ سے زیادہ ہدایت یاب ہو (پھر آپ نے انہیں اس بدعت پر کافی ڈانٹنے کے بعد فرمایا) اے لوگو تم نے ایک بہت بڑی بدعت پیدا کی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تم علم میں صحابہ کرام سے بڑھ چکے ہو۔ اور ایک روایت میں یہاں تک آتا ہے کہ ابن مسعودؓ نے ان لوگوں کو دھکے دے کر مسجد سے نکال دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم بدعتی ہو ۔ (ملاحظہ فرمائیے فتاویٰ قاضی خان)
نیز حبر الامّۃ سیدنا ابن عباسؓ نے آیتِ قرآنی
’’فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ‘‘ کی تشریح و تفسیر میں ارشاد فرمایا ’’دَخَلَ فِیْ ہٰذِہٖ الآیۃِ کُلُّ مُحْدَثٍ فِیْ الدِّیْنِ وَکُلُّ مُبْتَدِعٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘‘ (معالم برخازن بحوالہ شب برات ایک تحقیقی جائزہ)
یعنی اس آیت کی رو سے ہر بدعتی اور دین میں نئے امور ایجاد کرنے والے کے ساتھ قیامت تک کے لئے بیٹھنے کی ممانعت ہے حالانکہ ظاہری طور پر اس آیت میں بدعتیوں کا ذکر نہیں ہے لیکن مفسر قرآنؓ فرماتے ہیں کہ بدعتی بھی اس کے حکم میں داخل ہیں اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں چاہئیے بھلا بتائیے کہ جب بدعتی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہی درست نہیں تو اس کو سلام کرنا ، اس سے رشتہ داری کرنا ، اس کا احترام کرنا، اور اس کی اقتداء میں نمازیں پڑھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ ’’لَعَنَ اﷲُ مَنْ اٰ وٰی مُحْدِثًا‘‘ (خطبات توحید)یعنی جو کوئی بدعتی کو اپنے گھر میں ٹھکانہ دیتا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بدعتی کا کام اسلام کو ڈھانا ہے اور ایسے شخص کو ٹھکانہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ ٹھکانہ دینے والا بھی اس کام میں بدعتی کا شریک ہے وگرنہ ہر مسلمان کا فریضہ ہے ان خبیثوں کو جوتے مار مار کر اپنے گھروں سے نکال دے ۔ ٹھکانہ دینا تو بہت دور کی بات ہے یہ لوگ مسلمانوں کی محبت کے نہیں بلکہ نفرت اور غضب کے مستحق ہیں ان سے نفرت کرنا ایمان کی تکمیل کی علامت ہے ، جو لوگ اپنے گھروں میں بدعتی مولویوں اور پیروں کو ٹھہراتے ہیں وہ سب کے سب اس روایت کی رو سے اللہ تعالیٰ کے لعنت کردہ ہیں بھلا اس سے بڑھ کر بھی کائنات میں کوئی ذلیل ہو سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہو ۔
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مَنْ دَعَا اِلٰی ہُدًی کَانَ لَہٗ مِنَ الاَجْرِ مِثْلَ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہٗ لاَ یَنْقُضُ ذَالِکَ مِنْ اُجُوْرِہِمْ شَیْئًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلاَلَۃٍ کَانَ عَلَیْہٖ مِنَ الاِثْمِ مِثْلُ اٰ ثَامِ مَنْ تَبِعَہٗ لاَ یَنْقُضُ ذَالِکَ مِنْ اٰ ثامِہِمْ شَیْئًا (بحوالہ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنتہ) یعنی جو شخص ہدایت کی طرف بلائے تو اس کے لئے وہی اجر ہے جو ا سکی اتباع کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرر ہیں اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے،اور جوشخص گمراہی کی طرف بلائے (واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدعت کو ضلالۃ قرار دیا ہے اور یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے ۔ )
تو اس کے لئے وہی گناہ ہے جو اس کی اتباع کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں مقرر ہیں اور انکے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے ۔ یہ ایک دستور چلا آرہا ہے کہ اہل بدعات تو پہلے تو بدعات ایجاد کرتے ہیں پھر لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں پھر لوگ ان بدعات کے حامل ہو کر دوسروں کو دعوت دیتے ہیں اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قرآن خوانی ایک بدعت ہے اس کا موجد تو کب کا مر کھپ گیا لیکن یہ بدعت ابھی تک موجود ہے اب اگر کوئی شخص اپنے یہاں قرآن خوانی کا اہتمام کرتا ہے تو اس بدعت میں شریک ہونے والے سب افراد گناہ گار ہوں گے باوجودیکہ قرآن کی تلاوت کار ثواب ہے مگر اسی طریقے جو کہ مسنون ہے باقی تمام طریقے باطل ہیں ۔ پھر ان گناہ گاروں کے گناہوں میں وہ شخص بھی حصہ دار ہے جس نے انھیں اس بدعت کی طرف دعوت دی اور اس کے گناہ میںرب العالمین کوئی کمی نہیں فرمائے گا کیونکہ سب سے بڑا گناہ گار بدعت کی طرف دعوت دینے والاہوتا ہے پھر ان تمام بدعتیوں کے گناہوں میں وہ شخص بھی حصہ دار ہے جس نے یہ بدعت ایجاد کی تھی اور جب تک اس بدعت کا وجود روئے زمین پر رہے گا ایجاد کنندہ کو اس کا گناہ ملتا رہے گا ۔