اس نماز کے اسرار راقم پر اس وقت منکشف ہوئے جب ماہنامہ کنزالایمان لاہور اگست 1997ء کے شمارے میں اس صلاۃ الاسرار کے فضائل نگاہ سے گزرے، ملاحضہ فرمایئے : ۔
’’امام ابوالحسن نور الدین علی بن جریر شطنونی قدس سرہ العزیز ’’بہجۃ الاسرار‘‘ شریف میں بسند صحیح حضور پر نور، قطبِ ربانی ، غوث صمدانی، محبوب سبحانی، پیر لا ثانی، قندیل نورانی، سیدنا مولانا ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہٗ عنّا، سے راوی فرماتے ہیں ’’جو کسی سختی میں میری دہائی دے تو اس سے وہ سختی دور ہو جائے، اور جو کوئی مشکل میں میرا نام لیکر ندا کرے ، وہ مشکل اس کی حل ہو جائے، اور جو کسی حالت میں اللہ عزوجل کی طرف مجھ سے توسل کرے تو اس کی وہ حاجت پوری ہو جاوے ، اور جو شخص دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں بعد سورئہ فاتحہ ، سورئہ اخلاص گیارہ بار پڑھے ، پھر بعد سلام نبی کریم رؤف و رحیم ﷺ پر درود بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر عراق شریف کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لیتا جاوے ، پھر اپنی حاجت کا ذکر کرے تو بے شک وہ حاجت باذن اللہ پوری ہو۔ یہ مبارک نماز اس سلطانِ بندہ نواز سے اکابر ائمہ دین مثل امام یافعی و ملا علی قاری و مولانا شیح عبدالحق محدث دہلوی وغیرہم رحمۃ اللہ تعالی علیہم نے نقل و روایت فرمائی اور امام اہلسنت مجدد ملت اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ایک مبسوط رسالہ اس کی تحقیق و اثبات و رد شکوک و شبہات میں مسمی بنام تاریخی ’’انہار الانوار من یم صلاۃ الاسرار‘‘ اور دوسرا رسالہ عربی مختصر اس کی ترکیب و کیفیت و طریقہ حضراتِ مشائخ قدست اسرارہم میں مسمی بنام تاریخی ’’ازھار الانوار من صبا صلاۃ الاسرار‘‘ تصنیف فرمایا …
ترکیب صلاۃ الاسرار، جسے دینی و دنیوی حاجت ہو وہ بعد سنن مغرب صلاۃ الاسرار کی نیت سے ربِ الہی کے لئے اور حضور پر نور محی الملت ، مقیم السنت ، ملاذ العلمائ، کاشف النعمہ، ملجاء الامۃ ، قطب الاعظم غوثنا الاعظم رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا حرزنا فی الدارین رضاہ کو ہدیہ پیش کرنے کے لئے دو رکعت نماز پڑھیں۔ اگر تازہ وضو کرلیں تو بہتر ہے ۔ نیز اگرپہلے کچھ صدقہ دے دیں تو جلد مطلب حل ہو اور ردِّ بلا کا سبب ہو ۔ نماز میں بعد سورئہ فاتحہ قرآن سے جو یاد ہو پڑھیں۔ اگر قل ھو اللہ احد یعنی سورئہ اخلاص شریف گیارہ بار پڑھے تو بہتر ہے۔ پھر حسبِ دستور نماز پوری کرے۔ پھر قبلہ رو کھڑے ہو کر سورئہ فاتحہ ایک بار ، آیت الکرسی سات بار پڑھے پھر درود شریف
’’ اَللّٰھُمَّ صَلّ عَلیٰ محمَّدٍ معدن الجودِ والکرمِ وَاٰلِہٖ وابْنِہٖ الکریمِ واُمَّتِہٖ الکریم یا اَکْرمَ الاَکْرَمِینَ و بارِکْ وَسَلَّمْ ‘‘ پڑھے ۔ پھر دل کو مدینہ کی طرف متوجہ کرکے گیارہ بار کہے …
یَا رَسُولَ اﷲِ یَا نَبیَّ اﷲ اَغثِنی وَامَرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجتی یا قاضی الْحاجاتِ
پھر عراق کی طرف گیارہ معتدل قدم چلے ، خضوع و ادب ملحوظ رہے اور یہ خیال رہے کہ گویا بغداد میں حاضر ہوں اور روضہ پاک میرے سامنے ہے اور سرکار اس میں قبلہ رو آرام فرما ہیں، اور چاہیئے کہ ان کے کرم پر اعتماد رکھے اور یہ سمجھے کہ وہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں اور ہر قدم پر یہ کہتا جائے …
یَا غَوْثَ الثَّقْلَیْنِ یَا کَریْم الطَّرْفَیْنِ اَغِثْنِی وَامْرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجَتِی یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ
پھر اللہ سبحانہ وتعالی سے عرض کرے
یَا اَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ (۳ بار)
یَا بَدِیْعَ السَّمواتِ والارضِ یَا ذالْجَلاِ والاِکْرامِ بِجَاہِ سَیَّدِ الْمُرسَلِیْنَ وَ بِجَاہِ ابْنِہٖ ھَذا السَّیَّدَ الکَرِیْمِ غَوثِنَا الاَعظم رضی اﷲتعالی عنہ، پھر اپنا مدعا و حاجتیں بیان کرے۔ پھر تین بار آمین کہے پھر تین بار درود شریف پڑھے۔ بہتر ہے کہ
الصلاۃ والسلام علی خاتِمِ النبین والحمد ﷲ ربِّ العالمین پر ختم کرے اور بکوشش روئے اور رونا نہ آئے تو رونے الے جیسا منہ بنائے تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرما دے گا ‘‘ ۔ (ماہانہ کنز الایمان صفحہ ۳۷ تا ۳۹ اگست ۱۹۹۶ء مطبوعہ لاہور۔
قارئین کرام ! یہ امر کسی صاحبِ علم و دانش سے مخفی نہیں ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی اپنے وقت کے ایک بڑے صاحبِ علم ، صاحبِ کرامات اور ذی وقار شخصیت تھے۔ آپ کی تصنیفات فتوح الغیب اور غنیۃ الطالبین توحید و سنن کی دعوت پر مبنی ہیں۔ غنۃ الطالبین میںالبتہ کچھ موضوع اور ضعیف روایات موجود ہیں جوکہ کسی بدعتی صوفی کا کارنامہ ہے کہ اس نے اس کتاب میں تحریف کر دی اور شیخ سے وہ بدعات منسوب کریں وگرنہ ان کے مستند حالاتِ زندگی یہ بتاتے ہیں کہ وہ شرک و بدعات کے مخالف اور عمل بالحدیث والسنہ کے قائل اور اسی کے داعی و مبلغ تھے۔ فرقہ پرستی کے سخت مخالف تھے۔ فتوح الغیب جو ان کی تصنیفِ جمیل ہے ، اس میں آپ نے بکثرت اللہ رب العالمین کی توحید بیان کی ہے اور خود کو اللہ کا ایک عاجز و ناتواں بندہ قرار دیا ہے۔ لیکن لاہوری جریدے کنز الایمان کے مضمون نگار نے صلاۃ الاسرار کے فضائل میں جو کلام حضرتِ شیخ سے منسوب کیا ہے وہ آپ کی تعلیمات سے مکمل متصادم ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کلام حضرت شیخ کا نہیں ہے۔ نہ اس کلام کی کوئی روایت ہے نہ روایت کی کوئی سند ہے نہ کہنے والے کے پاس کوئی استشہاد ہے جبکہ اس کے مد مقابل ہم فتوح الغیب اور غنیۃ الطالبین کی عبارتوں پر انحصار کرتے ہیں گو کہ یہ کتب بھی بدعتیوں کے ہاتھوں تحریف کا نشانہ بن چکی ہیں لیکن امت مسلمہ کے اہلِ علم و دانش کے نزدیک محرف مواد کے اخراج کے بعد یہ کتب لائقِ اعتماد ہیں اس لئے کہ ان کا حضرتِ شیخ کا تصنیف کردہ ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ مقبول بھی ہے۔ چنانچہ ہم ان کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات برملا کہتے ہیں کہ لاہوری جریدے میں شائع ہونے والا یہ مضمون حضرت شیخ پر افتراء اور بہتان ہے اور جس نے اثبات صلاۃ الاسرار کے لئے تصدیقات بصورت کتب لکھی ہ یں وہ تو بدعات کا بانی، بدعتی مذہب کا بانی ، بدعتیوں کا امام، قافلہء اہل بدعات کا سالار، اہل توحید کا دشمن ، مجاہدین کا مخالف اور انگریزوں کا گماشتہ اور پروردہ تھا ۔ اس نے بدعتیوں کی تائید نہیں کرنی تھی تو اور کیا کرنا تھا ؟ برصغیر میں آج جتنی بھی بدعات دین کے نام پر رائج ہیں ان کی اکثریت ان ہی ’’اعلی حضرت‘‘ کی اور ان کے ہم عقیدہ افراد کی ایجاد کردہ ہیں ۔
ترکیبِ صلاۃ الاسرار پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے، پھر اس بدعتی مکتبِ فکر کی جانب سے شائع شدہ پنجگانہ نمازوں کی کتب ملاحظہ فرمائیں جس قدر خشوع و خضوع، ادب و احترام ، انکساری اور خاکساری کی تاکید اس نام نہاد نماز میں کی گئی ہے اس کا عشرِ عشیر بھی نمازِ پنجگانہ کی بابت بیان نہیں کیا گیاہے۔ گویا بدعتیوں کے نزدیک نماز پنجگانہ کی وہ اہمیت نہیں جو صلاۃ الاسرار یا نماز غوثیہ کی ہے۔ نماز پنجگانہ میں اس امر کی تاکید نہیں ہے کہ نماز ایسے پڑھو جیسے کہ تم اللہ کے حضور حاضر ہو لیکن صلاۃ الاسرار میں واضح حکم ہے کہ ’’یہ خیال رہے کہ گویا بغداد میں حاضر ہوں اور روضہ پاک میرے سامنے ہے اور سرکار اس میں قبلہ رو آرام فرما ہیں اور چاہیئے کہ ان کے کرم پر اعتماد رکھے اور یہ سمجھے کہ وہ رضی اللہ عنہ دیکھ رہے ہیں‘‘ ۔
اس واضح حکم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صلاۃ الاسرار کے پڑھنے والوں کو اہل بدعات صوفیاء نے اس قدر دینِ اسلام اور اس کی تعلیمات سے درو کر دیا ہے کہ انہوں نے حضرتِ شیخ کا درجہ اللہ تعالی سے بھی بڑھا دیا ہے (نعوذ باللہ من ذٰلک) اس کا ثبوت یہ ہے کہ نماز کے اندر ان کا قبلہ کعبۃ اللہ ہے اور نماز کے باہر بغداد شریف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر بدعتی ائمہ نماز سے سلام پھیر کر شمال کی سمت بغداد کی طرف منہ کرکے بیٹھتے ہیں، اسی حالت میں اوراد پڑھتے اور اسی حالت میں دعائیں مانگتے ہیں۔ نیز صلاۃ الاسرار پڑھ کر بغداد کی سمت گیارہ قدم چلتے ہیں لیکن نماز پنجگانہ پڑھ کر کعبۃ اللہ کی سمت ایک قدم بھی نہیں چلتے (حالانکہ ان کا یہ چلنا بدعت ہی ہو گا چونکہ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت نہیں ہے) ۔
پھر اس کے بعد حضرت شیخ کو آوازیں دی کر ان سے مدد و نصرت مانگتے ہیں جو کہ سراسر شرک ہے۔ اسی عقیدہ کی تردید کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے اور آسمانوں سے مقدس کتب نازل فرمائیں۔ قرآن مجید میں ایسی بے شمارآیات ہیں جن میں اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کیساتھ کسی اور کو پکارنے کی ممانعت کی گئی ہے ان ہی آیات قرآنیہ اور بے شمار احادیث شریفہ کی روشنی میںیہ بات کسی ریب ، شک اور ترددّ کے کہی جا سکتی ہے کہ صلاۃ الاسرار ایک کھلی بدعی نماز ہے اس کے ایجاد کرنے والے ، اسے پڑھنے والے ، اس کی نشرو اشاعت کرنے والے اور اس کی طرف دعوت دینے والے سب کے سب بدعتی اور پکے دوزخی ہیں تا وقتیکہ یہ توبہ کرکے اس بدعت سے رجوع نہ کر لیں ۔
]
یہ ایک ایسی نماز ہے جس کی ترکیب میں اللہ کی گستاخی ہے ، رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہے اور عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی گستاخی ہے۔
کیونکہ بدعتی لوگ ہی کہا کرتے ہیں کہ جناب منزل (چھت) پر چڑھنے کے لئے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ملک کے صدر کو ملنا ہو تو پہلے کسی تھانیدار، اے ایس پی، ڈی ایس پی، کسی صوبائی اسمبلی کے ممبر یا کسی قومی اسمبلی کے ممبر سے ملاقات کرتے ہوئے جناب صدر سے ملا جاتا ہے یعنی سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ راستے میں ایک Channel ہے ایک ترکیب ہے جسے لازمی طور پر اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اب اس مثال کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ بدعتی لوگ اللہ تک پہنچنے کے لئے کسی مولوی ، کسی پیر فقیر، کسی مرشد ، کسی قطب ، کسی قلندر ، کسی غوث ، کسی فلاں ، کسی فلاں تک ہوتے ہوئے عبدالقادر جیلانی تک پھر عبدالقادر جیلانی سے علی رضی اللہ عنہ تک پھر علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ تک پھر رسول اللہ ﷺ سے اللہ تک پہنچنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ اور عقل کے اندھوں نے ایسی نماز ایجاد کی ہے جس میں یہ اپنی ان تمام منزلوں کوگراتے ہوئے سیڑھیوں کو تہہ و بالا کرتے ہوئے پہلے بڑے کے پاس پھر اس سے چھوٹے کے پاس ، پھر اس سے چھوٹے کے پاس جاتے ہیں ۔
سچ ہے کہ کسی بدعتی نے استنجاء کرنے کے لئے لوٹا پانی سے بھر لیا۔ لوٹا نیچے سے بہتا تھا۔ اور بدعتی کو پتہ نہیں تھا۔اب یہ بدعتی جب قضائے حاجت سے فارغ ہوا تو لوٹے میں پانی نہ ملا تو لوٹے کو برا بھلا کہتا ہوا اٹھا اور چل دیا۔ دوسری دفعہ جب لوٹے کو بھر کر بیت الخلاء میں گیا تو اس بدعتی نے پہلے استنجاء کیا پھر بعد میں قضائے حاجت سے فارغ ہوا اور باہر آ گیا۔ یعنی بدعتی کا ہر کام الٹا ہوا کرتا ہے ۔ اب اس نمازِ غوثیہ یا صلاۃ الاسرار کو لے لیجئے کہ پہلے سب سے بڑے (یعنی اللہ تعالی کی طرف گیا لیکن دل میں کھوٹ اور میل رکھی کہ اس نماز کو میں نے اپنے خود ساختہ مشکل کشا عبدالقادر جیلانی کے قرب کا ذریعہ بنانا ہے واہ ارے بدعتی تیرے اندر شیطان نے کیسی منافقت پیدا کر رکھی ہے۔ تیری عقل کے اوپر پیشاب کر کے بدبودار بنا رکھا ہے۔ کہ اللہ احکم الحاکمین کے گھر کی طرف منہ کر کے جو نماز ادا کر رہا ہے اس میں بھی اللہ ذوالجلال والاکرام کا رعب اور دبدبہ تیرے اوپر طاری نہیں ہوا بلکہ تو نے خشوع و خضوع کو بھی عبدالقادر جیلانی کے لئے خاص کر رکھا ہے۔ یہ ستم ظریفی دیکھ کہ بیت اللہ کی طرف منہ کر ملعون طریقے سے ملعون نماز ادا کرتا ہے اور وہ بھی غیر اللہ کے لئے ۔ کیا یہ اللہ تعالی کی گستاخی نہیں ؟ کیا تو اللہ کو ’’الجبار اور القہار‘‘ نہیں جانتا؟ کیا تو اللہ تعالی کو المنتقم نہیں جانتا کہ اللہ تعالی تجھ سے انتقام لینا چاہے تو لے سکتا ہے؟ ارے تیری عقل کہاں گئی ہے؟ ۔ مرغی تیری کسی اور کے گھر میں انڈہ دیدے تو اس کو ہلاک کرنے کو پھرتا ہے ۔ تیری ماں تجھ کو روئے ، اللہ تعالی کے ساتھ تیرا یہ کیسا سلوک ہے کہ دکھانے کو نماز اور منہ طرف قبلہ شریف اور اندر غیراللہ کو پکارنے کی نیت تیرا ستیاناس ہو کیا تو مسلمان کہلانے کے لائق ہے ۔
ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سوچ تو سہی۔ کیا تو اشرف المخلوقات یعنی انسان کہلانے کا حقدار ہے؟ ارے کتا بھی اپنے مالک کا وفا دار ہوتا ہے اور تو اپنے آپ کو سگِ مدینہ کہنے والا، سگِ بغداد کہنے والا یعنی مدینے اور بغداد کی گلیوں کا کتا کہنے والا نہ مدینے کا رہا اور نہ بغداد کا ۔ ارے کسی ایک کا تو بن ۔ یا تو اللہ کا بن ۔ اس کے لئے نماز ادا کر۔ اسی کے لئے خالص ہو کر ، اسی کا خشوع و خضوع دل میں رکھ کر، اسی کو حاضر و ناظر جان کر اسی کو اپنے سامنے دیکھتا ہوا نماز ادا کر۔ اگر یہ تیرے بدعتی مذہب نے تجھے نہیں سکھایا تو اپنے قول یعنی ’’مدینہ و بغداد کا کتا‘‘ اسی پر قائم رہتے ہوئے کسی ایک کی طرف منہ کر اور ان کا خشوع و خضوع ، ان کا خیال اپنے دل میں رکھتے ہوئے صرف ان سے مانگنے کے لئے نماز ادا کر۔ لیکن تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا۔
اللہ کا قرآن سچ کہتا ہے
یُخٰدِعُوْنَ اﷲوَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلآَّ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ (البقرۃ آیت نمبر ۹) ارے تم اللہ کو دھوکا دیتے ہو کہ تیری طرف منہ کر کے خود ساختہ نماز تو پڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہو کہ تمہارے قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں اے بدعتیو ! سن لو کہ تم کسی کو دھوکا نہیں دیتے ہاں تم تو صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے ہو ۔ پھر ان بدعتیوںکا سالارِ اعظم کہتا ہے کہ ’’تازہ وضو کر لیں تو بہتر ہے۔ نیز اگر پہلے کچھ صدقہ دے دیں تو جلد مطلب حل ہو اور ردِّ بلا کا سبب ہو‘‘ تیرا برا ہو جس طرح تو بادشاہوں سے ملنے کے لئے صدر اور وزیر اعظم سے ملنے کے لئے ان کے گماشتوں کو رشوت دیتا ہے اسی طرح مذہب کی پاکیزہ چادر اوڑھ کر رشوت کے طور پر کچھ صدقہ و خیرات کرتا ہے تاکہ نعوذ باللہ اللہ تعالی بھی عبدالقادر جیلانی کو اس نماز کا واسطہ دے اور مطلب جلد حل ہو جائے ۔ کیونکہ ایسی رشوت نہ تو وزیرِ اعظم تک پہنچائی جاتی ہے اور نہ صدر تک بلکہ یہ رشوت تو ملاقات کرانے والا خود اپنے پاس ہی رکھتا ہے۔ یعنی تو اللہ کے نام کا صدقہ و خیرات کرکے نعوذ باللہ اللہ کی مٹھی بھی گرم کر کے اپنے مطلب کو جلد حل کروانا چاہتا ہے ۔ او ظالموں کے سپہ سالار تو نے یہ کیوں نہ سوچا کہ اس طریقے میں تو تُو نے اللہ احکم الحاکمین کی الصمد ذات کوایک راشی گماشتے کے درجے پر رکھ دیا ہے کیا یہ اللہ تعالی کی گستاخی نہیں ہے؟
ارے او اللہ کے مقابلے میں طاغوت کو کھڑا کرنے والے بدعتیوں کے امام اب تو اس خود ساختہ صلاۃ الاسرار کی ترکیب میں رسول اللہ کی گستاخی کرتا ہے اپنے رب سے بھی زیادہ ان کو رسوا کرتا ہے کہ درود شریف پڑھتا ہے ۔ پھر دل کو مدینہ کی طرف متوجہ کرکے گیارہ مرتبہ یہ شرکیہ کلمات کہتا ہے
یَا رَسُولَ اﷲِ یَا نَبیَّ اﷲ اَغثِنی وَامَرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجتی یا قاضی الْحاجاتِ کیا یہ اللہ کے رسول ﷺ کی گستاخی نہیں ہے کہ تو نے ان کو بھی قاضی الحاجات کہہ دیا جو صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے۔ تجھے اللہ کا ذرا بھی خوف نہیں آتا کہ وہ مقامِ عبادت جو صرف اللہ کے لئے خاص ہے تو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ کے لئے اختیار کر رہا ہے۔ تو اللہ کے رسول ﷺ کے مدینے کا کتا تو بنتا ہے لیکن یہاں بھی تیرا گذرا نہیں ہوتا اور تو کسی رنڈی کی طرح یہاں بھی داغِ جدائی دیتے ہوئے اپنی اصل منزل کی طرف جاتا ہے ۔ ارے عقل کے اندھے جاہل سپہ سالارِ بدعات اب تو اپنے ماننے والوں کو عراق کی طرف گیارہ معتدل قدم چلاتا ہے ۔ یہاں تجھے خشوع و خضوع اور ادب بھی یاد آتا ہے اور جہاں اللہ کو اپنے سامنے رکھنا چاہیئے تھا وہاں اب تو بغداد کو اپنے ذہن میں سمایا ہوا ہے اور اس میں بھی عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی قبر کو اور اس پر بنے ہوئے قبے کو اپنے سامنے رکھ رہا ہے اور یہ بھی خیال کر رہا ہے کہ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تیرے ذہن میں سمائے ہوئے ہیں۔ ارے یہاں تو اللہ تعالی کی ذات کا حق ہے کہ ’’گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو‘‘ اور تیرے شرک کی کوئی حد نظر نہیں آتی کہ تو اللہ تعالی کی ذات کے اس حق کو اس کے بندے اور غلام عبدالقادر جیلانی کو دے رہا ہے ۔ بتا کیا یہ گستاخی نہیں ہے ؟ بتا کیا یہ شرک نہیں ہے کہ اللہ کا حقِ عبادت تو اللہ کے سوا اوروں میں بانٹ رہا ہے ؟ ارے بتا تو سہی ظالم اور شرک کیا ہے ؟ ارے ابو جہل سے ابو لہب سے زیادہ گندہ عقیدہ رکھنے والے نام نہاد مسلمان بتا کہ جب ان دشمنانِ دین کو دریا میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے بھنور گھیر لیتا تو یہ کیا کہتے تھے ؟ کیا یہ کہتے تھے کہ لات ، منات اور عُزّٰی کو بلاؤ یا یہ کہتے تھے کہ ’’اب صرف اللہ جو عرشِ معلی پر مستوی ہے اس کو بلاؤ‘‘ ارے او عتبہ شیبہ سے پرلے درجے کے مشرک تو کیا کہتا ہے کہ ’’لے گیارہویں والے کا نام تو ڈوبی ہوئی تیر جائیگی‘‘ ؟ ہائے ظالم ! غیروں سے تجھ کو امیدیں اللہ سے نا امیدی ۔ بتا تو سہی ظالم اور کافری کیا ہے ؟ تو کیا کہتا ہے کہ ’’ان کے (یعنی عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے) کرم پر اعتماد رکھے اور یہ سمجھے کہ وہ رضی اللہ تعالی عنہ دیکھ رہے ہیں اور ہر قدم پر یہ کہتا جائے
یَا غَوْثَ الثَّقْلَیْنِ یَا کَریْم الطَّرْفَیْنِ اَغِثْنِی وَامْرُدْنِی فِی قَضَآئِ حَاجَتِی یَا قَاضِیَ الْحَاجَاتِ ۔ ارے ظالم تو اللہ کو کیا منہ دیکھائے گا کہ اگر اسی پر تیری جان نکل گئی تو تُوغیراللہ کو پکارتے پکارتے مر گیا ہو گا ان سے مرادیں مانگتا ہوا ، اپنی حاجتیں ان سے روا کرواتا ہوا۔ ان کو اللہ تعالی کی ذات کی صفات عطا کرتا ہو مر گیا ہے تو کیا تُو اللہ کو اپنے محبوب ﷺ کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دے سکے گا ؟ کیا تو اللہ کو اپنا رب یعنی پالنے والا (ماں کے پیٹ سے لیکر قبرتک) ماننے والا بتا سکے گا ؟ تف ہے تجھ پر کہ نبی کو جو چاہیں خدا کر دیکھائیں ، ولیوں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں ، شہیدوں سے جاجا کے مانگے دعائیں ؟ ارے ظالم کیا اسلام تیرے گھر کی لونڈی ہے کہ تُو جس طرح چاہے اس کو چلائے ؟ ارے تُو تو مدینے کا کتا بنتے بنتے جنگل کا خنزیر بن گیا ہے جو کہ جانوروں میں سے سب سے زیادہ بے غیرت جانور ہے۔
پھر اپنی بنائی ہوئی خود ساختہ نمازپڑھنے والے کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ اب ’’ پھر اللہ سبحانہ و تعالی سے عرض کرے
یَا اَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ (۳ بار)
یَا بَدِیْعَ السَّمواتِ والارضِ یَا ذالْجَلاِ والاِکْرامِ بِجَاہِ سَیَّدِ الْمُرسَلِیْنَ وَ بِجَاہِ ابْنِہٖ ھَذا السَّیَّدَ الکَرِیْمِ غَوثِنَا الاَعظِ رضی اﷲتعالی عنہ، پھر اپنا مدعا و حاجتیں بیان کرے۔ پھر تین بار آمین کہے پھر تین بار درود شریف پڑھے۔ بہتر ہے کہ
الصلاۃ والسلام علی خاتِمِ النبین والحمد ﷲ ربِّ العالمین پر ختم کرے اور بکوشش روئے اور رونا نہ آئے تو رونے والے جیسا منہ بنائے تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرما دے گا ‘‘
سن لو اس ظالم (اعلی جاہل) کی روحانی اولاد کے گماشتو ! اگر تم میں غیرت ہو تو اپنی بیوی کی نسبت کسی اور کی طرف برداشت نہیں کر سکتے حالانکہ وہ تمہاری لونڈی نہیں ہے۔ غلام نہیں ہے۔ صرف تمہارے ساتھ نکاح میں شریک ہے۔ تو تم یہ کیسے بھول جاتے ہو کہ جو اللہ خود غیرتوں کو پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ جاہ و جلال اور عزت کا مالک ہے وہ اپنی چیز کسی اور کی طرف برداشت کر لے گا ۔ آج کا نام نہاد مسلمان تو بے غیرت ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالی کی ذات اس سے بہت اعلی اور بہت ہی پاکیزہ ہے۔ وہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والے کو کبھی نہیں بخشتا ۔ اسی لئے اس نے اپنے پاک کلام میں فرما دیا تھا کہ :
اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّ الزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ (سورہ النور آیت نمبر ۳)
یعنی ’’زانی مرد زانیہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے یا مشرک عورت سے اور اسی طرح زانیہ عورت صرف زانی مرد سے ہی نکاح کرتی ہے یا مشرک مرد سے ۔ اور یہ (مشرک اور زانی کا رشتہ اللہ نے) مؤمنوں پر حرام کر دیا ہے‘‘۔
اب بتاؤ ! جس طرح ایک زانی مرد کا ایک عورت سے گزارا نہیں ہو سکتا ، اسی طرح ایک مشرک کا ایک اِلہٰ (اللہ ) کے ساتھ گزار نہیں ہو سکتا ، تو کیا تم ایک اِلہٰ کے ساتھ گزارا کر رہے ہو ؟ کیا صلاۃ الاسرار ادا کرکے تم ایک معبود کی بندگی کر رہے ہو ؟ کیا تم صرف ایک اللہ کو پکار رہے ہو یا کہ کبھی اس در ، کبھی اس در ، اور پھر در بدر ، دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ذرا سوچو ! کہ تمہارا ’’اعلی حضرت مدینے کے کتوں میں سے ایک کتا‘‘ تمہیں کس طرف لے جا رہا ہے ؟ نماز کے بہانے کبھی مصلی پر ، کبھی اللہ کو ، کبھی (غیراللہ ) مدینے کو، کبھی (غیراللہ) عراق شریف کو ، کبھی کہیں کبھی کہیں ؟ کیا کسی ناپاک اور پلید مشرک کا یہی حال نہیں ہے ؟ کیا کسی زانی مرد اور عورت کا یہی حال نہیں ہے کہ وہ کسی ایک کا ہو کر نہیں رہ سکتا ؟ اللہ کے لئے کچھ تو سوچو اور قرآن کو بیسویں پارے سے ہی کم از کم ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کر دو۔ امید ہے کہ تمہیں ہدایت کا سورج (محمد عربی ﷺ) ایک در پر جھکانے کے لئے بے تاب کھڑا نظر آ ئے گا۔ اور تم ان بدعات سے بچ جاؤ گے جو تم کر رہے ہو
[۔ ص ۱ :۔ از افادات ابو عبداللہ محمد آصف