• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت۔ازسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بدعت
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ،از(اہل السنۃ والجماعۃ،ص۱۰،ط،مجلس نشریات اسلام)

سنت کا مقابل لفظ’’بدعت‘‘ہے۔بدعت کے لغوی معنی’’نئی بات‘‘کے ہیں،اصطلاح شریعت میں اس کے یہ معنی ہیں کہ مذہب کے عقائد یا اعمال میں کوئی ایسی بات داخل ہو جس کی تلقین صاحب مذہب نے نہ فرمائی ہو اور نہ ان کے کسی حکم یا فعل سے اس کا منشاء ظاہر ہوتا ہو اور نہ اس کی نظیر اس میں ملتی ہو،خود نبی کریمﷺاور صحابہ کرام نے ان دو لفظوں کو انہیں معنوں میں مستعمل فرمایا ہے اور کبھی سنت کی بجائے’’ہدی‘‘ اور بدعت کے بجائے’’مُحْدث‘‘فرمایا ہے لغت میں یہ الفاظ متزادف ہیں،ہدی طریقہ کو کہتے ہیں اور محدث کے معنی ’’نیا‘‘
صحیح مسلم میں آپ کا وہ خطبہ مذکور ہے جس کو دیتے ہوئے آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں،آواز بلند ہوجاتی تھی اور لہجہ غضبناک ہوجاتا تھا۔


أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
بعد اس کے،بہترین کلام اللہ کا کلام ہے،بہترین طریقہ محمدﷺکا طریقہ ہے،بدترین امور نئی باتیں ہیں اور ہر نئی بات گمراہی ہے‘‘

مسند احمد،ابو داؤد،ابن ماجہ اورترمذی میں ہے۔

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
’’تم میری سنت اور خلفائے راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘
ابوداؤد،ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے۔

وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ
نئی باتوں سے بچنا،ہر نئی بات گمراہی ہے۔

اس قسم کی روایتیں حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ہیں،ان روایات میں نبی کریمﷺ نے’’نئی بات‘‘کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔بخاری ومسلم دونوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد
’’ہمارے اس مذہب یا تعلیم میں جو ایسی نئی بات داخل کرے گا جو اس میں نہیں تو وہ بات مردود ہے‘‘
صحیح مسلم میں ہے:

من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد‘‘
جو کوئی ایسا کام کرے گا جس پر ہمارا مذہب نہیں وہ رَد ہے‘‘
ابو داؤد میں بایں الفاظ ہے۔

من صنع امراً علی غیر امرنا فھو رد
جس نے ہمارے عمل یا مذہب کے خلاف کوئی کام کیا وہ رد ہے

ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ نبی کریمﷺجو تعلیم دنیا میں لائے،جن عقائد کی تلقین آپﷺنے امت کو فرمائی،مذہب کا جو طریقہ عمل آپ نے متعین فرمایا اس میں باہر سے اضافہ ’’بدعت‘‘ہے،اس سے بدعت کی حقیقت ظاہر ہوئی اور وہ یہ ہے کہ بدعت دین حق کے اندر کسی ایسی چیز کا باہر سے اضافہ ہے جو رسول اللہﷺکے لائے ہوئے اور بتائے ہوئے دین میں نہیں،نہ اس کی اصل موجود ہے اور نہ اس کی نظیر موجود ہے اور نہ وہ قرآن وحدیث سے مستنبط ہے اور چونکہ دین کے ہر کام میں اجر وثواب کا وعدہ ہے اس لیے جب کسی چیز کو دین یا داخل دین سمجھا جائے گا تو اس پر ثواب بھی مرتب سمجھنا ضروری ہے،اس لیے اگر کوئی چیز بدعت ہو تو یقیناً ثواب سے خالی ہوگی،بلکہ بوجہ اس کے مردود ہونے اور ضلالت ہونے کے اس کے کرنے سے ثواب کی بجائے گناہ ہوگا،اب غور کیجیے کہ مسلمانوں کے عقیددوں میں،اعمال میں،عبادت میں اور غمی وخوشی کی تقریبات میں جو مراسم ثواب سمجھ کر ادا کیے جاتے ہیں وہ کہاں تک موجب ثواب ہوسکتے ہیں۔

اس تشریح سے ظاہر ہوا کہ کسی امر کے بدعت قرار پانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اضافہ امور دین میں ہو اگر وہ امور دین سے نہیں ہے تو مذہبی حیثیت سے اس کو بدعت نہیں کہیں گے۔مثلا کسی نئی طرز کی کوئی عمارت بنائے،کوئی نئی مشین بنائے،کوئی نیا آلہ ایجاد کرے،سائنس کے کسی مسئلہ کی نئی تحقیق کرے،کوئی نیا طریقہ علاج ایجاد کرے وغیرہ۔

بدعت کی پہچان یہ ہے کہ اس کا کرنے والا اپنے اس کام میں ثواب کا اعتقاد رکھتا ہے اور ظاہر ہے کسی کام کے ثواب یا عذاب کا ہونا عقل سے دریافت نہیں ہوسکتا،اس کی دریافت کی راہ صرف ایک ہے اور وہ وحی نبوی ہے۔
 
Top