عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
اس کی دلیل؟عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا :
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیں تو امتی نے اس کو کس دلیل سےشروع کیا؟٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں با جماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کر دیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری ٥٨٣ـ٥٩)
ایک امام کے پیچھے ۔۔۔ رمضان کی ابتدا سے ۔۔۔ سارا ماہ باجماعت ۔۔۔بدعت کیوں نہیں؟جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی،اور وحی کے بند ہو جانے کی وجہ سے اس کے فرض کر دیئے جانے کا اندیشہ ختم ہو گیا، تو عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کر دیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہو گیا۔
٭ا گر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کر لیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ :
پھر رمضان کا سارا ماہ تراویح باجماعت کیوں حجت ہے؟حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوئے کچھ کلمات کہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بہت زیادہ اجر بتایا۔ صحابی نے وہ الفاظ بغیر دلیل کے کہے تھے وہ بدعت کیوں نہ تھے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا اِن فرامین کے بعد دِین میں کِسی بھی نئے کام یعنی بدعت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، "ہر "بدعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی قرار دِیا ہے، کِسی بدعت کو اچھا یعنی بدعتِ حسنہ کہہ کر جائز کرنے کی کو ئی گنجائش نہیں،۔