• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت مکفرہ۔۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بدعت کی اقسام

اہل بدعت پر حکم کے اعتبار سے بدعت کی دو قسمیں :

(۱)۔بدعت مکفرہ۔(۲)۔بدعت غیر مکفرہ۔
بدعت مکفرہ
علامہ حافظ حکمی  فرماتے ہیں :

((ضابط البدعۃ المکفرۃ :من أنکر أمراً مجمعاً علیہ متواتراً من الشرع ، معلوماً من الدین بالضرورۃ من جحود مفروض ،أو فرض مالم یفرض ، أو تحلیل محرم ،أو تحریم حلال ،أو اعتقادہ ما ینزَّہ اللہ ورسولہ وکتابہ عنہ من نفي أو اثبات ،لأن ذلک تکذیب بالکتاب وبما أرسل اللہ بہ رسولہﷺ)) (معارج القبول :616,617/2)

'' بدعت مکفرہ کی تعریف یہ ہے کہ جس کسی نے بھی کسی ایسے امر کا انکار کیا جو متفق علیہ ہے شریعت سے متواتر ثابت ہے اور دین میں اس کا معلوم ہونا ضروری ہے چاہے وہ کسی فرض کا انکا رہو یا پھر کسی ایسی چیز کو فرض کرناہو جو فرض نہ تھی یا حرام کو حلال کرنا یا حلال کو حرام کرناہو یا پھر اللہ کی ایسی صفت بیان کرنا جس سے وہ پاک ہے یا ان صفات مذمومہ کو اللہ کی طرف منسوب کرنے کا اعتقاد رکھنا جن صفات سے پاک ہونا کتاب اللہ میں یا رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بیان کیاگیاہے چاہے وہ اثبات ہو یا نفی ' کیونکہ اس میں کتاب اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب ہوتی ہے ۔''(معارج القبول :616,617/2)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کفریہ بدعت کی دو صورتیں ہیں:اس مسئلہ کو ائمہ کرام نے امور خفیہ اور امور ظاہرہ کی تقسیم کرتے ہوئے بیان کیا ہے ۔

[1]المسائل الظاہرہ
وہ کفریہ بدعت جو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مدلول ہی سے براہ راست متصادم ہو ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو مسلمانوں کے عوام اور علماء سب جانتے ہیں یہ شریعت کے بنیادی عقائد ہیں۔امت کا ان مسائل میں اجماع ہو چکا اس لیے ان بنیادی امور میں تاویل یا غلط مبحث کا کوئی امکان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف قطعاً قابل برداشت نہیں کیونکہ اس سے دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ امور قطعی طور پر ثابت ہیں اس لیے انہیں قطعیات کہتے ہیں علماء اسلام کا ان پر اتفاق ہے ۔اور یہ تواتر عملی سے امت کے اندر رائج ہیں۔اس لیے ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لینا ہی واجب ہے ۔یہ قطعیات عقائد اور فروع دونوں میں پائے جاتے ہیں ان میں اجتہاد ،رائے یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ شریعت کے وہ عظیم الشان قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلامیہ سے خارج یعنی مرتد ہو گا۔اس کو لاعلمی ،جہالت ،شبہ یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا۔ان کفریہ بدعات کے حاملین کے بہت سے رخ ہیں کہیں یہ کلمہ پڑھ کر کیمونسٹ' سوشلسٹ اور ان سیکولر لوگوں کی شکل میں ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے نظام جمہوریت اور سوشلزم کو اللہ کے دین سے بہتر سمجھتے ہوئے لوگوں کو زبردستی اس کا پابند بناتے ہیں اور اسلامی احکامات کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اللہ کے نازل کردہ چورزانی اور قاتل کی سزائوں کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ اورکہیں ان نام نہاد مسلمانوں کی شکل میں ہیں جو اللہ کے تمام اسماء و صفات کا بغیر کسی تاویل کے انکار کرتے ہیں اور ایمان کو صرف معرفت سے تعبیر کرتے ہیں ان کو غلاۃ الجہمیہ کہا جاتا ہے۔ اورکہیں ان صوفیاء کی شکل میں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر عقیدہ وحدۃ الوجود (ماہیت کے اعتبار سے کائنات عین وجود باری تعالیٰ ہے)کے مبلغ ہیں اور شریعت کو طریقت سے الگ سمجھتے ہیںاور جو رسول اللہﷺ کو اللہ کے نور کا حصہ اور مشکل کشا مانتے ہیں ۔اپنی مشکلات میں اللہ کے نبی ﷺ اور سیدنا حسن و حسین؇ کو پکارتے ہیں' غیر اللہ کو مختار کل جان کر اپنی مشکلات کے حل کے لیے قبروں پرسجدہ کرتے ہیں ۔اور کہیں یہ احمدیوں کی شکل میں ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور آپ ﷺ کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو رسول کہتے ہیں اور کہیں یہ اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا' مامور من اللہ اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دینے اورامامت کو نبوت سے افضل قرار دیتے ہوئے 12 اماموں کی عصمت کا اعتقاد رکھنے ،قرآن کو بدلی ہوئی کتاب ماننے اورصحابہ کو کافر کہنے والے رافضیوںکی شکل میں ہیں ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

''بالخصوص عصر حاضر میں اسلام کا نام استعمال کرنے اور اس کے پردے میں کفر کی نشرو اشاعت کرنے والے باطل فرقوں کا یہی حکم ہے ۔جیسے البابیہ،بہایہ،قادیانیت، اشتراکیت،سوشلزم، علمانیت،قومیت، استشراق،وحدۃ الوجود،حلول و اتحاد،مادیت پرستی،روشن خیالی،وحدت ادیان،برابری کی بنیاد پر مکالمہ بین المذاہب وغیرہ۔یہ اہل بدعت نام کی حد تک بدعتی ہیں ، اصلاً یہ سب کفر کی شکلیں ہیں۔جیسے نفاق اور کفر میں صرف لفظی فرق ہے ،اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ان تمام بدعتوں کے دُعاۃ شر کھلے بندوں ہر قسم کے ذرائع ابلاغ میں کفر کی نشر واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔ بدعت کی اس نوع کے کفر اور اس کے مرتکبین کے کفار ہونے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے ۔ اہل ِ ایمان کو ان کے فریب سے نکالنا، سازشوں سے آگاہ رکھنا، ان کا حکم بیان کرنا، ممکن ہوتو انہیں نصیحت کرنا اور حق کی دعوت دینا، استطاعت ہو تو ان سے بحث کرکے حق واضح کرنا،بصورت دیگر ان سے مکمل قطع تعلقی اور اظہار بیزاری حضرات محدثین کا عقائدی منہج ہے، جس کی پیروی ان کی جماعت اہل الحدیث والسنہ کا فرض منصبی ہے ۔(مقالات تربیت،ص:۱۰۹)

شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

کافر و مشرک سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا کفر و شرک علمائِ امت کے نزد یک متفق علیہ ہے ۔ جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرنا ، اللہ اور اس کے رسول یا اسلام کا مذاق اڑانا۔ بشرطیکہ وہ خود با خبر ہوں یا ان پر حجت قائم ہو چکی ہو۔(وفاداری یا بیزاری،ص30)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:



''جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوںاور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ''شرک اکبر'' ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر موحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔'' [فتوی نمبر6972]

''جو شخص اللہ کی توحید اور نبیﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے ان کی تعظیم میں قربانی کرتا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ''[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]

اسی طرح جو شخص پانچ وقت کی نماز ،رمضان کے روزوں، عشر، زکوٰۃ یا حج وغیرہ میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو وہ بھی کافر ہو گا ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کیا ۔ حالانکہ وہ کلمہ پڑھتے اور نماز یںادا کرتے تھے۔ جب عمر فاروق؄ نے ابوبکر صدیق ؄ سے پوچھا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کر لیں اور جب وہ اس کا اقرار کریں تو انہوں نے اپنی جان اور اپنا مال میری تلوار سے محفوظ کر لیا مگر اسلام کا حق ان سے لیا جائے گا اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔سیدنا ابو بکر؄ نے فرمایا :اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ بےشک زکوٰۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹ کے گلے میں باندھنے والی رسی بھی روکی جو یہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے میں اس کے روکنے پر ان سے ضرور لڑوں گا۔ عمر؄ کہنے لگے اللہ کی قسم اللہ نے ابو بکر کا سینہ منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے لیے کھول دیا اور پھر میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے (بخاری: ۱۴۰۰۔مسلم: ۲۰)

گویا صحابہ کرام؇ نے شہادتین کا اقرار کرنے اور نماز پڑھنے والوں کو مرتدین میں شمار کیا اور ان سے جہاد کیا کیونکہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے اور ان میں سے بعض کا یہ موقف تھا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کسی اور کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔

نماز کے تارک اور دین یا سنت نبوی کا مذاق اڑانے والے کے بارے میں للجنہ نے یوں فتویٰ دیا۔

نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا اگر نماز کا منکر ہے تو اس کے متعلق علماء اسلام کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے اور اگر سستی کی وجہ سے ترک کرے تو اس کے متعلق بھی صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہے اور جو شخص دین اسلام کا مذاق اڑائے یا کسی ایسی سنت کو نشانہ تضحیک بنائے جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے مثلاً پوری داڑھی رکھنا ،کپڑا ٹخنوں سے اوپر یا آدھی پنڈلی تک رکھنا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ واقعی سنت ہے وہ کافر ہو جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کا محض اس لیے مذاق اڑائے کہ وہ اسلام کے احکام کا پابند ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہوتا ہے۔ (فتاویٰ دارالافتاء جلد دوم ص ۳۵)
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
غالباً انھوں نے زکوٰۃ کا انکار بالکلیہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ کہ صرف امیر المومنین کے ہاتھ میں زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔
پھر ان سے لڑنے میں یہ حکمت واضح ہے کہ خلیفہ وقت سے انکار کرنے والے اور ان کی اطاعت (معروفات میں) کتنی لازمی ہے ۔
فاعتبروا یا اولی الابصار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
مون صاحب یہ صرف آپ کا مفروضہ ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے ایسا سمجھا ہے۔
 
Top