• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کو سمجھیے-3: (شرعی مسائل کے حل کے ذرائع)

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
شرعی مسائل کے حل کے ذرائع
رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد آنے والے اپنے امتیوں کے لیے دینی مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے اور سنت کو بدعت سے الگ کرنے کے لیے بالکل واضح تعلیمات دی ہیں۔ ان تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اہلسنت و الجماعت دینی مسائل کے حل کے لیے مندرجہ ذیل ذریعوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اہلسنت و الجماعت کے نزدیک یہ ذریعے دینی مسائل کے حل کا ماخذ (ذریعے) اور حجت ہیں۔ مجموعی طور پر ان کو قرآن، سنت، اجماع، قیاس کہا جاتا ہے۔
قرآن و سنت
رسول اللہ ﷺ نے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے پہلے صحابہ کرامؓ کو دو چیزوں کو تھامنے کی ہدایت فرمائی تھی اور ضمانت دی کہ جب تک وہ ان دو چیزوں سے دین پر عمل کریں گے تو وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔ وہ دو چیزیں ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ۔ مؤطا امام مالک میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حدیث
تركت فيكم امرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنة نبيه ‏ ‏ (مؤطا امام مالک)
ترجمہ: میں نے دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑی ہیں جب تک ان (دونوں) کو مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے، وہ ہیں: کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت
مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حدیث
تركت فيكم ايها الناس ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا ابدا كتاب الله وسنة نبيه
ترجمہ: اے لوگو، میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں تم جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور (دوسری) اس کے رسول ﷺ کی سنت
خلفائے راشدین کے اقوال حجت ہیں
سنن ترمذی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حدیث
اني لا ادري ما بقائي فيكم فاقتدوا باللذين من بعدي واشار الى ابي بكر وعمر (سنن الترمذی کتاب الدعوات، صحیح)
ترجمہ: مجھ کو نہیں معلوم کہ تم لوگوں میں کب تک (زندہ) رہوں گا سو تم لوگ ان کی اقتدا (اتباع) کرنا جو میرے بعد ہوں گے۔‘‘ اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرف اشارہ فرمایا
صحابہ کرام معیار حق ہیں اور ان کا اجماع حجت ہے
حدیث

عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول اللہ وان بني اسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق امتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار الا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما انا عليه واصحابي (الحدیث) (سنن الترمذی، كتاب الايمان، حسن)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عمروؓ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اور یقینا بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی سب کے سب فرقے دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے‘‘ پوچھا گیا وہ کون سا فرقہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جو میرے طریقے پر ہوں گے اور میرے صحابہؓ کے طریقے پر۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جیسے رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کی سنت ہمارے لیے مشعل ہدایت ہے اسی طرح ما انا علیہ و اصحابیکے ارشاد کے تحت حضرات صحابہؓ کے اقوال و اعمال بھی اہلسنت و الجماعت کے لیے حق کا معیار ہیں (حاشیہ: [1]
خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے
صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ کی ایک روایت میں آتا ہے:
حدیث
سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم اى الناس خير قال ‏ ‏ القرن الذي انا فيه ثم الثاني ثم الثالث ‏ (صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابة رضى الله تعالى عنهم)
ترجمہ: ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ قرن بہتر ہے جس میں میں ہوں پھر دوسرا (قرن) اور پھر تیسرا (قرن)۔‘‘
حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حدیث
اوصيكم باصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشو الكذب (سنن الترمذی، كتاب الفتن)
ترجمہ: میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہو پھر ان کے بارے میں جو ان کے بعد ہوں گے (یعنی تابعی) پھر ان کے بارے میں جو ان کے بعد ہوں گے (یعنی تبع تابعی) پھر جھوٹ عام ہوجائے گا
حدیث
عن جابر بن سمرة قال خطبنا عمر بن الخطاب بالجابية فقال ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فينا مثل مقامي فيكم فقال احفظوني في اصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشو الكذب حتى يشهد الرجل وما يستشهد ويحلف وما يستحلف (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام، صحیح)
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے ایک دن ہم سے خطاب کیا اور فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ ایک بار کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے پسندیدہ لوگ ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے اس کے بعد جھوٹ کا ظہور ہو گا یہاں تک کہ ایک شخص گواہی دے گا بغیر اس کے کہ اس کو ایسا کرنے کے لیے کہا جائے اور ایک شخص قسم اٹھائے گا بغیر اس کے اس کو ایسا کرنے کے لیے کہا جائے‘‘
ان روایات سے معلوم ہوا کہ خیر القرون یعنی بہترین دور تین ہیں۔ پہلا قرن (صدی) صحابہ کرامؓ کا دوسرا ان کے شاگرد (تابعین) کا اور پھر ان کے شاگرد (تبع تابعین) کا۔ یہی وہ تین ادوار ہیں جن میں خیر غالب رہے گی اس کے بعد شر عام ہوجائے گا۔ ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ خودبخود گواہی دیتے پھریں گے اور امانت میں خیانت کریں گے۔
یہ تین دور 220ھ تک رہے۔ اور چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان تین زمانوں کے لوگوں کو خیرالقرون (بہترین زمانے) کے لوگ فرمایا اس لیے ان زمانوں میں بغیر کسی روک ٹوک کے جس چیز پر مسلمانوں کا عمل درآمد رہا وہ سنت کے دائرے میں آتی ہے۔ ‏ احادیث میں ان حضرات کی سلامتی کی نبوی دلیل ہے۔
یہاں اتنی وضاحت ضروری ہے کہ یہ ادوار اپنے غالب مزاج کے اعتبار سے خیر و سلامتی کے ادوار تھے۔ یہ نہیں کہ ان میں کسی برائی یا خرابی کا وجود ہی نہ تھا۔ مقصود ان روایتوں کا یہ ہے کہ ان ادوار کے علمائے کرام آنے والے زمانوں کی نسبت حق اور سچائی کے علمبردار ہوں گے۔ ‏حدیث عائشہؓ (دیکھیے خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے ) اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سوال کرنے والے نے اچھے لوگوں کے متعلق دریافت کیا تھا جس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے ان تمام ادوار کی طرف اشارہ فرما دیا جن میں خیر غالب ہوگی۔ ‏حدیث عمرؓ (دیکھیے خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے) میں بھی صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے خیر ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ نہ ان کے زمانے کے ہر ہر فرد کی۔ واللہ تعالی اعلم۔
اجماع امت بھی حجت ہے
خلفائے راشدینؓ کی سنت اور حضرات صحابہ کرامؓ کے اجماع کے بعد امت مسلہ کے جید علما کے اجماع و اتفاق کا درجہ ہے۔ اللہ تعالی نے اس امت کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا:
آیت
كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر (آل عمران: 110)
ترجمہ: (مومنو) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو
آیت
ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدىٰ ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولىٰ ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115)
ترجمہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے
اس تمہید کے بعد اب بدعت کی تعریف دیکھتے ہیں۔
(جاری ہے)​
---------------------------------------------
[1]: یہ حدیث اہلسنت و الجماعت کے نام کی بنیاد ہے۔
 
Top