• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کو سمجھیے-4: (بدعت کی تعریف، فی الدین، للدین کا فرق، بدعت کی قسمیں )

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
بدعت کی تعریف
لغت کے اعتبار سے لفظ بدعت، بدع سے نکلا ہے جس کے معنی نئی چیز ایجاد کرنے کے ہیں خواہ وہ عبادت سے متعلق ہو یا عادات (دنیاوی امور) سے۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں بدعت کا معنی ہے دین میں کوئی نیا طریقہ نکالنا ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے زمانے میں اس کا سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولا ثابت ہو نہ فعلا نہ صراحتا اور نہ اشارتا اور اسے دین بنایا جائے اور نیکی و ثواب سمجھ کر کیا جائے۔ یہی وہ بدعت ہے جسکو بدعت ضلالہ، بدعت قبیحہ یا بدعت سئیہ کہا جاتا ہے۔ اس کی پھر دو قسمیں ہیں جو آگے بیان ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ فرما گئے ہیں:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صحیح البخاری، كتاب الصلح)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
البتہ جو چیز رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہو خواہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کو کیا ہو یا صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ کے روبرو کیا ہو اور آپ ﷺ نے منع نہ کیا ہو وہ سنت ہے اور جو چیز آپ ﷺ کے زمانے میں نہیں ہو اس میں بھی ہر چیز بدعت نہیں بلکہ اس کی تفصیل یوں ہے کہ اگر دنیاوی ضرورتوں سے اس کا تعلق ہو وہ بھی بدعت نہیں بشرطیکہ شریعت کی کسی اور دلیل سے وہ منع ہوجائے۔ جیسے شربت پینا منع نہیں کہ وہ دنیا سے متعلق ہے۔ سگریٹ نوشی بھی دنیاوی چیز ہے لیکن منع ہے اس لیے کہ وہ نقصان دہ چیز ہے اور شریعت نقصان دہ چیزوں کے استعمال سے منع فرماتی ہے۔
لیکن اگر اس چیز کا تعلق عبادت سے ہے تو اگر وہ صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے دور میں پیدا ہوئی اور ان حضرات نے اطلاع ہونے پر اس سے منع نہیں فرمایا تو وہ بھی بدعت نہیں۔ اگر ان حضرات نے اس سے منع فرمایا تو پھر وہ عمل بدعت ہوگا۔
فی الدین، للدین کا فرق
سنت و بدعت کی بحث میں ایک اہم نکتہ فی الدین اور للدین کا فرق ہے۔ فی الدین اور للدین کا فرق اگر پیش نظر نہ رہے تو بدعت کے تعین میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔ یہ نکتہ ‏حدیث کے الفاظ فی امرنا(ہمارے دین میں) سے واضح ہوتا ہے۔ حوالے کے لیے حدیث شریف دوبارہ پیش خدمت ہے۔
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صحیح البخاری، كتاب الصلح)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من احدث فی دیننا ما لیس منہ فھو رد
ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو وہ مردود ہوگی
جاننا چاہیے کہ ہر نئی بات کو بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو عمل فی الدین (دین کے اندر) یعنی دین قرار دے کر اور عبادت کی طرح اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو، نہ قرآن و سنت سے نہ قیاس سے نہ اجتہاد سے، جیسے عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت کا اضافہ کرنا تو یہ بدعت ہے۔ البتہ وہ کام اس شکل میں شریعت میں موجود نہ ہو لیکن اس کی اصل دین میں موجود ہو اور یہ کام اس سے مستنبط (اخذ) ہو اس صورت میں وہ بدعت شمار نہ ہوگا۔ سیدنا عمرؓ کا تراویح کی نماز جاری کرنا اس کی مثال ہے۔ تراویح رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارک میں باجماعت ادا فرمائی تھی، سیدنا عمرؓ نے فقط رسول اللہ ﷺ کے عمل کا ازسر نو اجرا فرمایا۔ یہاں سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو عبادت رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرامؓ سے قولا ثابت ہو یا فعلا یا صراحتا یا اشارتا وہ بھی بدعت نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح جو نیا کام للدین(دین کے لیے، نہ کہ دین کے اندر) ہو یعنی دین کے استحکام اور مضبوطی اور دینی مقاصد کی تکمیل اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہو اسے بدعت ممنوعہ نہیں جاسکتا۔ جیسے قرآن شریف جمع کرنے کا مسئلہ، قرآن میں اعراب لگانا، کتب حدیث کی تالیف، اسی طرح احکام فقہ کا مدون کرنا، مدارس کا قیام، خانقاہوں کی تعمیر، تعلیمی اور تبلیغی انجمنوں کا قیام، جدید ہتھیاروں کا حاصل کرنا وغیرہ بدعت نہیں۔ یہ سب احداث فی الدین (دین کے اندر نئی بات) نہیں بلکہ احداث للدین (دین کے لیے نئی بات)ہیں۔ مثلا رسول اللہ ﷺ کے دور میں مدارس کا وجود نہیں تھا۔ لیکن دینی علوم کی حفاظت کے تقاضوں نے علما کی تیاری کا تقاضا پیدا کردیا جس کی وجہ سے مدارس کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن اس طرح کے کام خود اپنی ذات میں عبادت نہیں ہیں۔ یہ کام اس اعتبار سے عبادت ہیں کہ ان سے حفاظت دین میں مدد ملتی ہے۔ اگر آج کوئی اور ذریعہ وجود میں آجائے جس سے دینی علوم کی حفاظت ہوسکے تو پھر مدارس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ غرض یہ کہ کہ کسی دینی تقاضے اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے بضرورت زمان و مکان کوئی نئی صورت اختیار کرلینا منع نہیں ہے۔ یہ احداث فی الدین نہیں بلکہ احداث للدین ہے اور منع احداث فی الدین ہے نہ کہ احداث للدین۔
اسی طرح عادات اور دنیوی ضروریات کے لیے جو نئے نئے آلات اور طریقے روزمرہ ایجاد ہوتے رہتے ہیں یہ لغوی اعتبار سے بدعت ہیں ان کا شرعی بدعت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ایسے اعمال بطور عبادت اور ثواب کی نیت سے اختیار نہیں کیے جاتے یہ سب جائز ہیں جب تک وہ کسی شرعی حکم کے مخالف نہ ہوں۔ مثلا کوئی انسان سفر کے لیے گاڑی کے بجائے ہوائی جہاز اس لیے اختیار نہیں کرتا کہ اس میں زیادہ ثواب ملے گا۔
للدین اور فی الدین یہ کا فرق اگر اوجھل ہوجائے تو پھر انسان کو بدعت کو سمجھنے اور ماننے میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔
بدعت کی قسمیں
1) بدعت اعتقادی
2) بدعت عملی
بدعت اعتقادی: بدعت اعتقادی یہ ہے کہ کوئی شخص یا جماعت ایسے نظریات رکھے جو رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ و تبع تابعینؒ کے خلاف ہوں۔ عقیدے کی بدعت بعض اوقات کفریہ ہوتی ہے جس کی ایک مثال قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ بعض اعتقادی بدعتیں کفر تو نہیں مگر گمراہی ضرور ہیں۔
عملی بدعت: عملی بدعت یہ ہے کہ عقیدے میں تو تبدیلی نہ ہو مگر بعض ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جو رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہؓ سے منقول نہ ہوں۔
اعمال کی بدعت کی اور قسم ہے کہ اعمال کے ڈھانچے تو وہی ہوں جو شریعت سے ثابت ہیں لیکن ان کا رکھ رکھاؤ اور ظاہری اہتمام پہلے سے کچھ بدل جائے جو پچھلوں کے عمل سے ثابت نہ ہو۔ مثلا تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں عام طور پر گھروں میں پڑھی جاتی تھی۔ اب اگر اسے اعلان و اہتمام کے ساتھ باجماعت مسجد میں پڑھا جانے لگے تو یہ ایک نیا عمل سمجھا جائے گا۔ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد میں حضرت ام المؤمنین کے حجرے کی طرف بیٹھے تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ چاشت کی نماز جماعت سے پڑھ رہے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ بدعت ہے۔‘‘
چاشت کی نماز (صلوۃ الضحی) رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے لیکن لوگوں نے جب اسے مسجد میں اہتمام سے باجماعت پڑھنا شروع کیا، جو ایک مسنون عمل کی شکل میں اپنی طرف سے تبدیلی کرنا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اس کے اس اہتمام کی وجہ سے اس کے بدعت ہونے کا فتوی دے دیا۔
(جاری ہے)​
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
بدعت کی تعریف
لغت کے اعتبار سے لفظ بدعت، بدع سے نکلا ہے جس کے معنی نئی چیز ایجاد کرنے کے ہیں خواہ وہ عبادت سے متعلق ہو یا عادات (دنیاوی امور) سے۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں بدعت کا معنی ہے دین میں کوئی نیا طریقہ نکالنا ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے زمانے میں اس کا سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولا ثابت ہو نہ فعلا نہ صراحتا اور نہ اشارتا اور اسے دین بنایا جائے اور نیکی و ثواب سمجھ کر کیا جائے۔ یہی وہ بدعت ہے جسکو بدعت ضلالہ، بدعت قبیحہ یا بدعت سئیہ کہا جاتا ہے۔ اس کی پھر دو قسمیں ہیں جو آگے بیان ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ فرما گئے ہیں:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صحیح البخاری، كتاب الصلح)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
البتہ جو چیز رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہو خواہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس کو کیا ہو یا صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ کے روبرو کیا ہو اور آپ ﷺ نے منع نہ کیا ہو وہ سنت ہے اور جو چیز آپ ﷺ کے زمانے میں نہیں ہو اس میں بھی ہر چیز بدعت نہیں بلکہ اس کی تفصیل یوں ہے کہ اگر دنیاوی ضرورتوں سے اس کا تعلق ہو وہ بھی بدعت نہیں بشرطیکہ شریعت کی کسی اور دلیل سے وہ منع ہوجائے۔ جیسے شربت پینا منع نہیں کہ وہ دنیا سے متعلق ہے۔ سگریٹ نوشی بھی دنیاوی چیز ہے لیکن منع ہے اس لیے کہ وہ نقصان دہ چیز ہے اور شریعت نقصان دہ چیزوں کے استعمال سے منع فرماتی ہے۔
لیکن اگر اس چیز کا تعلق عبادت سے ہے تو اگر وہ صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے دور میں پیدا ہوئی اور ان حضرات نے اطلاع ہونے پر اس سے منع نہیں فرمایا تو وہ بھی بدعت نہیں۔ اگر ان حضرات نے اس سے منع فرمایا تو پھر وہ عمل بدعت ہوگا۔
فی الدین، للدین کا فرق
سنت و بدعت کی بحث میں ایک اہم نکتہ فی الدین اور للدین کا فرق ہے۔ فی الدین اور للدین کا فرق اگر پیش نظر نہ رہے تو بدعت کے تعین میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔ یہ نکتہ ‏حدیث کے الفاظ فی امرنا(ہمارے دین میں) سے واضح ہوتا ہے۔ حوالے کے لیے حدیث شریف دوبارہ پیش خدمت ہے۔
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صحیح البخاری، كتاب الصلح)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من احدث فی دیننا ما لیس منہ فھو رد
ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو وہ مردود ہوگی
جاننا چاہیے کہ ہر نئی بات کو بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو عمل فی الدین (دین کے اندر) یعنی دین قرار دے کر اور عبادت کی طرح اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو، نہ قرآن و سنت سے نہ قیاس سے نہ اجتہاد سے، جیسے عیدین کی نماز میں اذان اور اقامت کا اضافہ کرنا تو یہ بدعت ہے۔ البتہ وہ کام اس شکل میں شریعت میں موجود نہ ہو لیکن اس کی اصل دین میں موجود ہو اور یہ کام اس سے مستنبط (اخذ) ہو اس صورت میں وہ بدعت شمار نہ ہوگا۔ سیدنا عمرؓ کا تراویح کی نماز جاری کرنا اس کی مثال ہے۔ تراویح رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیات مبارک میں باجماعت ادا فرمائی تھی، سیدنا عمرؓ نے فقط رسول اللہ ﷺ کے عمل کا ازسر نو اجرا فرمایا۔ یہاں سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو عبادت رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرامؓ سے قولا ثابت ہو یا فعلا یا صراحتا یا اشارتا وہ بھی بدعت نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح جو نیا کام للدین(دین کے لیے، نہ کہ دین کے اندر) ہو یعنی دین کے استحکام اور مضبوطی اور دینی مقاصد کی تکمیل اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہو اسے بدعت ممنوعہ نہیں جاسکتا۔ جیسے قرآن شریف جمع کرنے کا مسئلہ، قرآن میں اعراب لگانا، کتب حدیث کی تالیف، اسی طرح احکام فقہ کا مدون کرنا، مدارس کا قیام، خانقاہوں کی تعمیر، تعلیمی اور تبلیغی انجمنوں کا قیام، جدید ہتھیاروں کا حاصل کرنا وغیرہ بدعت نہیں۔ یہ سب احداث فی الدین (دین کے اندر نئی بات) نہیں بلکہ احداث للدین (دین کے لیے نئی بات)ہیں۔ مثلا رسول اللہ ﷺ کے دور میں مدارس کا وجود نہیں تھا۔ لیکن دینی علوم کی حفاظت کے تقاضوں نے علما کی تیاری کا تقاضا پیدا کردیا جس کی وجہ سے مدارس کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن اس طرح کے کام خود اپنی ذات میں عبادت نہیں ہیں۔ یہ کام اس اعتبار سے عبادت ہیں کہ ان سے حفاظت دین میں مدد ملتی ہے۔ اگر آج کوئی اور ذریعہ وجود میں آجائے جس سے دینی علوم کی حفاظت ہوسکے تو پھر مدارس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ غرض یہ کہ کہ کسی دینی تقاضے اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے بضرورت زمان و مکان کوئی نئی صورت اختیار کرلینا منع نہیں ہے۔ یہ احداث فی الدین نہیں بلکہ احداث للدین ہے اور منع احداث فی الدین ہے نہ کہ احداث للدین۔
اسی طرح عادات اور دنیوی ضروریات کے لیے جو نئے نئے آلات اور طریقے روزمرہ ایجاد ہوتے رہتے ہیں یہ لغوی اعتبار سے بدعت ہیں ان کا شرعی بدعت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ایسے اعمال بطور عبادت اور ثواب کی نیت سے اختیار نہیں کیے جاتے یہ سب جائز ہیں جب تک وہ کسی شرعی حکم کے مخالف نہ ہوں۔ مثلا کوئی انسان سفر کے لیے گاڑی کے بجائے ہوائی جہاز اس لیے اختیار نہیں کرتا کہ اس میں زیادہ ثواب ملے گا۔
للدین اور فی الدین یہ کا فرق اگر اوجھل ہوجائے تو پھر انسان کو بدعت کو سمجھنے اور ماننے میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔
بدعت کی قسمیں
1) بدعت اعتقادی
2) بدعت عملی
بدعت اعتقادی: بدعت اعتقادی یہ ہے کہ کوئی شخص یا جماعت ایسے نظریات رکھے جو رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ و تبع تابعینؒ کے خلاف ہوں۔ عقیدے کی بدعت بعض اوقات کفریہ ہوتی ہے جس کی ایک مثال قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ بعض اعتقادی بدعتیں کفر تو نہیں مگر گمراہی ضرور ہیں۔
عملی بدعت: عملی بدعت یہ ہے کہ عقیدے میں تو تبدیلی نہ ہو مگر بعض ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جو رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہؓ سے منقول نہ ہوں۔
اعمال کی بدعت کی اور قسم ہے کہ اعمال کے ڈھانچے تو وہی ہوں جو شریعت سے ثابت ہیں لیکن ان کا رکھ رکھاؤ اور ظاہری اہتمام پہلے سے کچھ بدل جائے جو پچھلوں کے عمل سے ثابت نہ ہو۔ مثلا تہجد کی نماز رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں عام طور پر گھروں میں پڑھی جاتی تھی۔ اب اگر اسے اعلان و اہتمام کے ساتھ باجماعت مسجد میں پڑھا جانے لگے تو یہ ایک نیا عمل سمجھا جائے گا۔ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد میں حضرت ام المؤمنین کے حجرے کی طرف بیٹھے تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ چاشت کی نماز جماعت سے پڑھ رہے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ بدعت ہے۔‘‘
چاشت کی نماز (صلوۃ الضحی) رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے لیکن لوگوں نے جب اسے مسجد میں اہتمام سے باجماعت پڑھنا شروع کیا، جو ایک مسنون عمل کی شکل میں اپنی طرف سے تبدیلی کرنا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اس کے اس اہتمام کی وجہ سے اس کے بدعت ہونے کا فتوی دے دیا۔
(جاری ہے)​
محترم بھائی
السلام علیکم

ایک بھائی جو عمرہ کر کے آئے ہیں ان کے مطابق مسجد نبوی میں تہجد کی اذان بھی ہوتی ہے اور نماز بھی باجماعت ہوتی ہے۔
 
Top