• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کو سمجھیے-5: (دلیل عام، دلیل خاص، جو چیز بدعت نہ ہو وہ بدعت کیسے بنتی ہے)

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
دلیل عام، دلیل خاص
بدعت کے موضوع کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی عمل جو عبادت طور پر کیا جاتا ہے اس کے لیے شریعت سے دلیل درکار ہوتی ہے۔ صرف اتنی دلیل کافی نہیں ہوتی کہ شریعت میں اس پر منع نہیں آئی۔ نہ ہی کسی عام دلیل سے وہ خاص عمل جائز ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس کو اختیار کرنے کے لیے تفصیلی دلیل درکار ہوتی ہے۔ تفصیلی دلیل کے بغیر وہ عمل بدعت بن جائے گا۔ اس کو یوں بھی کہتے ہیں کہ عام احکامات سے خاص اعمال ثابت نہیں ہوتے۔ مثلا: اوپر چاشت کی نماز باجماعت ادا کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا اس کے جائز ہونے کے لیے یہ دلیل کافی نہیں کہ چاشت کی نماز شریعت سے ثابت ہے (یہ عام دلیل ہوئی)۔ اس واقعے میں چاشت کی نماز یا کسی نفل نماز کو جماعت سے ادا کرنے کا ثبوت درکار تھا (یہ تفصیلی دلیل ہوئی)۔ یقینا ایسی کوئی تفصیلی دلیل موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے جلیل القدر صحابیؓ نے اس عمل کو بدعت قرار دے دیا۔
ایک اور مثال سے اس کو سمجھیے۔ شریعت نے اذان کو نماز سے پہلے یا نومولود کے کان میں دینے کا حکم دیا ہے اب اگر کوئی شخص اسے دیگر موقعوں پر عمل میں لاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ شریعت سے اس موقع پر اذان کہنے کی دلیل پیش کرے (اس کو تفصیلی دلیل کہتے ہیں)۔ صرف اذان کی فضیلت بیان کرنے سے وہ عمل جائز نہیں ہوگا (یہ عام دلیل ہوئی) بلکہ بدعت کے دائرے میں آجائے گا۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز بدعت نہ ہو وہ بدعت کیسے بنتی ہے۔
جو چیز بدعت نہ ہو وہ بدعت کیسے بنتی ہے
بدعت صرف یہ نہیں کہ کوئی نئی عبادت اپنی طرف سے شروع کی جائے بلکہ اور بھی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کوئی عمل بدعت بن جاتا ہے۔
شریعت کے بتائے ہوئے کسی عمل کو اس کے موقع محل سے ہٹانا
حدیث

عن نافع ان رجلا عطس الى جنب ابن عمر فقال الحمد لله والسلام على رسول الله قال ابن عمر وانا اقول الحمد لله والسلام على رسول الله وليس هكذا علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم علمنا ان نقول الحمد لله على كل حال قال (سنن الترمذی، کتاب الادب)
ترجمہ: حضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ کے قریب چھینک ماری اور خود ہی کہا:’’الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا: ’’یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ الحمدللہ و السلام علی رسول اللہ لیکن ہمیں جناب رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم نہیں دی، ہمیں اس موقع پر اس کی تعلیم دی ہے کہ ہم الحمدللہ علی کل حال کہا کریں۔‘‘
کیونکہ چھینک کے بعد صرف الحمدللہ کہنا ہی شریعت سے ثابت ہے اس لیے سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ نے درود شریف کا اضافہ کرنا جائز قرار نہیں دیا۔ یہی شریعت کا اصول ہے کہ اعمال میں جو کچھ شریعت نے بتایا ہے اسی طرح کرنا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ نے الحمدللہ سے پہلے درود شریف پڑھنے سے منع فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے الفاظ تھے:
’’لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا کہنا نہیں سکھایا‘‘
یعنی رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر درود شریف پڑھنا نہیں سکھایا اس لیے یہاں درود شریف پڑھنا بے موقع تھا۔ غور فرمائیے درود شریف پڑھنے کے کس قدر فضائل ہیں لیکن حضرت ابن عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی اس کو بے موقع پڑھنے سے منع فرما رہے ہیں۔
بات وہی ہے کہ عبادات کے معاملے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ جب جہاں چاہیں اپنی طرف سے اضافہ کردیں۔ بلکہ ہمیں اتباع کا حکم ہے۔ جہاں شریعت نے جو حکم فرمایا ویسا ہی کرنا ہے۔ نہ کم نہ زیادہ!
شرعی دلیل کے بغیر اپنی طرف سے کسی کام کو نیکی کا سمجھ کر کرنا
حدیث

عن مجاهد عن ابن عباس انه طاف مع معاوية بالبيت فجعل معاوية يستلم الاركان كلها فقال له لم تستلم هذين الركنين ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلمهما فقال معاوية ليس شيء من البيت مهجورا فقال ابن عباس لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب فقال معاوية صدقت (مسند احمد، مسند عبداللہ بن العباس، صحیح)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت معاویہؓ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ نے بیت اللہ کے تمام کونوں کو بوسہ دیا، حضرت عباسؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کونوں یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ کسی اور گوشے کو بوسہ نہیں دیا کرتے تھے۔‘‘ حضرت معاویۃؓ نے فرمایا: ’’اس مقدس گھر کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کو چھوڑا جائے۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (تمہارے لیے رسول کی ذات میں بہترین نمونہ ہے)۔‘‘ حضرت معاویہؓ نے فرمایا: ’’آپ کا فرمانا صحیح ہے۔‘‘ اگرچہ بیت اللہ کا ہر ذرہ متبرک ہے مگر ہمیں وہ عمل کرنا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے
گو اس عمل پر کوئی منع نہیں تھی لیکن حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے صرف ایک دلیل دی کہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں اس لیے ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت معاویہؓ کے عمل کے محرک پر آپ اگر غور کریں تو وہ حب بیت اللہ تھا۔ بہت سی بدعات جو ہمارے ہاں رائج ہیں ان کا سبب حب رسول ﷺ ہی ہے لیکن حضرت امیر معاویہؓ کے الفاظ پر غور فرمائیں:
’’اگرچہ بیت اللہ کا ہر ذرہ متبرک ہے مگر ہمیں وہ عمل کرنا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔‘‘
یعنی محبت کا سب سے بڑا اظہار اتباع ہے۔ صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کے احترام میں آپ ﷺ کے تشریف لانے پر کھڑا ہونا چاہتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا تو پھر اپنے جذبے کو چھوڑ کر اتباع اختیار کرلی۔
شریعت کے بتائے ہوئے کسی کام میں اپنی طرف سے قید بڑھانا
وہ کام جن کو شریعت نے کرنے کا حکم دیا ہے ان میں اپنی طرف سے قید لگائی جائے یا ان کی کیفیت بدل دی جائے یا اپنی طرف سے ان کے اوقات متعین کردیے جائیں ایسا کرنا بھی بدعت ہے۔ حضرت ابوہریرۃؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
حدیث
لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الايام الا ان يكون في صوم يصومه احدكم (صحیح مسلم، كتاب الصيام)
ترجمہ: جمعہ کی رات کو دوسری راتوں سے نماز اور قیام کے لیے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے روزہ کے لیے خاص نہ کرو، البتہ اگر کوئی شخص روزے رکھتا ہو اور جمعہ کا دن بھی اس میں آجائے تو الگ بات ہے
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن یقینا فضیلت والا ہے جو نماز جمعہ کی وجہ سے ہے جو شریعت نے مقرر کی ہے۔ لیکن اس دن کی فضیلت کی وجہ سے جمعہ کی رات کو اپنی طرف سے عبادت کی رات بنانا صحیح نہیں۔ یعنی اپنی طرف سے کسی دن یا رات کی فضیلت اور برکت متعین نہیں کی جاسکتی۔
حدیث
قال عبد الله لا يجعل احدكم للشيطان شيئا من صلاته يرى ان حقا عليه ان لا ينصرف الا عن يمينه لقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم كثيرا ينصرف عن يساره (صحیح البخاری، ابواب الصفۃ الصلاۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کے لیے کچھ حصہ نہ ٹھہرائے اس طور پر کہ نماز سے فارغ ہوتے وقت داہنی طرف ہی پھیرنے کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے اس واسطے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بعض اوقات بائیں طرف بھی مڑتے دیکھا ہے
اس روایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ باوجود یہ کہ رسول اللہ ﷺ بہت سارے امور میں داہنے پہلو کو ترجیح دیتے تھے، سلام کے بعد امام کا داہنی طرف بیٹھنے کو لازم سمجھ لینا شریعت میں زیادتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اعمال کی جو کیفیت، وقت وغیرہ شریعت نے متعین کیے ہیں اپنی طرف سے اس میں کسی قسم کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح شریعت نے کسی عمل کا جو درجہ مقرر کیا ہے اس کو اس درجے سے ہٹانا بھی بدعت ہے۔
بزرگان دین کے اعمال کو دینی اعمال بنانا
کسی اللہ والے کے اعمال کو دینی اعمال بنا کر پیش کرنا، اور سے ان سے بہت سا اجر و ثواب جوڑنا ہے وہ بھی بدعت میں شامل ہے۔ بڑی راتوں کے بہت سارے اعمال اسی طرح کے ہیں۔ حضور ﷺ کے وقت کی قائم شدہ سنتوں بعد اگر کسی کے عمل کو شریعت نے حجت مانا تو ہے تو وہ صرف خلفائے راشدینؓ کا عمل ہے اور وہ بھی اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا حکم فرمایا ہے (دیکھیے ‏ پیچھے شرعی مسائل کے حل کے ذرائع)۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں:
’’حضرات صوفیا کی بات حل و حرمت (حلال و حرام) میں سند نہیں ہے یہی کافی ہے کہ ہم ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔ اس جگہ امام ابوحنیفہؒ امام ابویوسفؒ اور امام محمد کا قول معتبر ہوگا نہ کہ شبلی اور ابوحسن نوری جیسے صوفیا کرام کا عمل۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول مکتوب 266)
(جاری ہے)
 
Top