• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" بدلتے حالات کیلیے سنہری اصول"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم الله الرحمن الرحيم

" بدلتے حالات کیلیے سنہری اصول"


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 10-ربیع الاول- 1438 کا خطبہ جمعہ " بدلتے حالات کیلیے سنہری اصول" کے موضوع پر ارشاد فرمایا :

جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ فانی دنیا کا لازمی حصہ ہے، جس میں تقدیر پر ایمان اور اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن ہمیں مایوسی اور ناامیدی سے روک کر رکھتا ہے اور ہمیں بہتری کیلیے عملی اقدام پر ابھارتا ہے، تقدیر پر ایمان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم مسلمان حالات کے اسیر بن جائیں بلکہ یہ ہمیں مایوسی سے بچا کر آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے، اسی طرح بدلتے حالت میں شکوہ شکایت، دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا اور صرف تجزیہ کاری میں لگے رہنا مومن کا کام نہیں، وہ عملی اقدامات سے حالات کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نبی ﷺ کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی مثبت سوچ رکھتے اور آگے پھیلاتے تھے، آپ ﷺ نے منفی تاثرات کی حامل اصطلاحات اور ناموں کو بھی تبدیل کر دیا تھا، بدلتے حالات کی بہتری کیلیے سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیں، علم سے آراستہ ہوں، نیت صاف رکھیں، اللہ تعالی سے اچھا گمان کریں، اور کسی بھی ایسی تبدیلی سے بچیں جو دین، جان، عزت آبرو، امن و امان اور لوگوں کے مال و دولت کیلیے نقصان دہ ثابت ہو، اپنے آپ کو کسی بھی منفی سرگرمی سے دور رکھیں، اور ہمیشہ اللہ تعالی پر اعتماد اور بھروسا کریں ۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے ہمارے لیے دلوں کی اصلاح اور تبدیلی کا طریقہ کار وضع فرمایا، میں اللہ تعالی کی تھوڑی یا زیادہ سب عنایتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ ہی سراج منیر اور بشیر و نذیر ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے ہمیں وسطیت، اعتدال اور راہِ آسانی پر گامزن کیا۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

تغیّر غیر ثابت زندگی کی امتیازی علامت ہے، صحت و بیماری، ترقی و تنزلی، عزت و ذلت، فاقہ اور افاقہ، غربت اور مالداری، نکاح اور طلاق، امن اور خوف، دکھ سکھ اور اقتصادی اتار چڑھاؤ یہ سب کچھ زندگی کا قانون ہے، اس سے کوئی بچ نہیں سکتا، ہم ان تمام چیزوں کو تاریخ کے اوراق میں پڑھتے آئے ہیں۔

جس وقت زندگی میں منفی تغیر پیدا ہو تو خستہ دل دکھ، تکلیف اور اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں، جن کی وجہ سے ہمت مزید کمزور پڑ جاتی ہے اور انسان کو بھر پور چستی کے ساتھ زندگی گزارنے سے روک دیتی ہے۔

مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ اچھی اور بری تقدیر پر کامل ایمان رکھتا ہے، مسلمان کا یقین ہوتا ہے کہ معاملات کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے، زندگی میں رونما ہونے والے تمام تغیّرات پروردگار کے کام ہیں کسی انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

تقدیر پر ایمان مصیبتوں سے آگے نکل جانے کیلیے سب سے بڑا معنوی سبب ہے، یہی پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھنے پر ابھارتا ہے، تلاشِ معاش کے ذریعے زندگی کو بے کار اور بے سود ہونے سے بچاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(ذہن نشین کر لو! اگر پوری قوم تمہیں معمولی فائدہ پہنچانے کیلیے متحد ہو جائے تو وہ تمہیں صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جتنا اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ اس بات پر متحد ہو جائیں کہ تمہیں معمولی نقصان پہنچانا ہے تو وہ تمہیں صرف اتنا ہی نقصان پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ) ترمذی نے اسے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

یہ وصیت تمام امور میں دل کو اللہ تعالی پر مضبوطی سے اعتماد کرنے کی ترغیب دیتی ہے چاہے وہ معاشی امور ہوں یا اخروی، اس لیے دل صرف اللہ تعالی سے ہی مانگتا ہے، صرف اسی کا فضل چاہتا ہے، مومن جس طرح اپنی زبان کے ذریعے صرف اللہ سے مانگتا ہے بالکل اسی طرح اس کا دل بھی صرف اللہ تعالی پر بھروسا کرتا ہے، اور انہی امور کی وجہ سے عزت و شرف پاتا ہے، جبکہ مخلوق پر بھروسا کرنے والا ذلت و گراوٹ ہی حاصل کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(اگر کسی شخص کو فاقہ کشی کا سامنا ہو اور وہ اسے لوگوں کے سامنے رکھے تو اس کی فاقہ کشی ختم نہیں کی جاتی، اور جو اپنی اس مشکل کو اللہ کے سامنے رکھے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے اس مصیبت سے بے نیاز کر دے، یا تو موت دے کر یا فوری تونگری دے کر۔) ابو داود، ترمذی

بندہ اپنے پروردگار کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہے، اور اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے تقدیری فیصلے حکمت ، عدل اور رحمت پر مبنی ہوتے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے فقیر بنا دے، جسے چاہے امیر بنا دے، جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔

مؤمن ہر حالت میں خوش رہتا ہے، چنانچہ جس وقت مومن اپنے آپ اور اپنے پروردگار سے خوش ہو تو اپنے حال پر بھی مطمئن ہو جاتا ہے، اور جب اللہ تعالی کے بارے میں یقین رگ و پے میں سرایت کر جائے تو اپنے مستقبل کیلیے بھی مطمئن ہو جاتا ہے۔

تقدیری فیصلوں پر ایمان رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ حالات کے ہاتھوں قید ہو کر رہ جائیں، خود کو معمول کی زندگی کے تابع کر لیں، مایوسی اور خستہ دلی پر راضی ہو؛ بلکہ تقدیری فیصلوں کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حالات کا مقابلہ تقدیر سے کریں، صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ اسباب اپنائیں، اور حالات سنوارنے کیلیے بھر پور محنت کریں، کتنے ہی غریب لوگ تھے جن کو اللہ تعالی نے دولت سے نوازا، کتنے ہی مصیبت زدہ تھے اللہ تعالی نے انہیں خوشیوں سے نوازا، کتنے ہی دکھی تھے اللہ تعالی نے انہیں سکھی بنا دیا، کتنے ہی مریض تھے اللہ تعالی نے انہیں صحت و عافیت سے نوازا، کتنے ہی مظلوم ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے ظالموں کا انجام دنیا ہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

انسان کو زندگی میں اچانک کوئی تبدیلی نظر آئے تو گھبرا جاتا ہے، لیکن اپنی نمازوں پر پابندی کرنے والے نمازی نہیں گھبراتے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا (19) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا (20) وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا (21) إِلَّا الْمُصَلِّينَ(22)اَلَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُوْنَ}

بے شک انسان کم حوصلہ پیدا کیا گیا ہے [19]جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے [20] اور جب اسے کوئی فائدہ پہنچے تو بخیل بن جاتا ہے[21] سوائے نمازیوں کے۔[المعارج: 19 - 22]

بسا اوقات انسان اپنے حالات سدھانے کی بجائے معاملات کی تجزیہ کاری میں مشغول ہو جاتا ہے، اس کے اسباب ہی تلاش کرتا رہتا ہے، امیدوں کی سراب میں سر گرداں پھر کر اپنا وقت اور زندگی برباد کر دیتا ہے؛ کیونکہ ان چیزوں میں حد سے زیادہ مشغولیت لا یعنی اور بے سود ہوتی ہے، حالانکہ ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ نے ہمیں فرمایا:

(صرف اسی بات پر توجہ دو جو تمہیں فائدہ دے) مسلم

لیکن شکوہ شکایت کو ہی اپنی عادت بنا لینا، زمانے کو کوستے رہنا، معاشرے میں منفی سوچ پروان چڑھانا امید کی کرن کا خون کرتا ہے، اس سے عزائم میں رخنے پڑتے ہیں اور ترقی کا خاتمہ ہوتا ہے۔

مؤمن اپنی سمجھ کے مطابق دو ٹوک فیصلوں کے ذریعے تغیرات کا مقابلہ کرتا ہے؛ چنانچہ کتنے ہی اذیت بھرے تغیرات نعمت بن جاتے ہیں اور کتنی ہی بلائیں ٹھنڈی ہوائیں ثابت ہوتی ہیں۔

مومن کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ زندگی کے اتار چڑھاؤ بھی کسی نعمت سے کم نہیں، ان کی وجہ سے نیک شگون اور امیدوں کے دروازے اور دریچے کھلتے ہیں، ان میں کامیابی اور تعمیر و ترقی کے مواقع میسر آتے ہیں۔

جب تکلیف اور مصیبت حد سے بڑھ جاتی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس وقت بھی بشارتیں سناتے تھے اور دلوں میں اللہ تعالی کے کئے ہوئے وعدے اجاگر کرتے ، جیسے کہ :

"عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی نے آ کر فاقہ کشی کی شکایت کی، پھر دوسرا آیا اس نے رہزنی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: (عدی! تم نے حیرہ جگہ دیکھی ہے؟) میں نے کہا: دیکھی تو نہیں ہے لیکن اس کے بارے میں سنا ہے، تو پھر آپ ﷺ نے فرمایا: (اگر تم زندہ رہے تو تم دیکھو گے کہ ایک سوار خاتون حیرہ سے سواری پر سفر کرے گی اور آ کر کعبہ کا طواف کرے گی، اسے اللہ کے سوا کسی کا کوئی خوف نہیں ہوگا) میں نے دل ہی دل میں کہا: قبیلہ طی کے بد معاش کہاں ہوں گے جنہوں نے اس خطے کو آگ لگا رکھی ہے! [آپ نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا](اگر تم زندہ رہے تو کسری کے خزانے بھی فتح ہوں گے) میں نے کہا : [آپ کی مراد] کسری بن ہرمز ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ([ہاں]کسری بن ہرمز، اور اگر تم مزید زندہ رہے تو تم دیکھو گے کہ ایک آدمی مٹھی بھر سونا یا چاندی لیکر نکلے گا اور انہیں قبول کرنے والے کو تلاش کرے گا ، لیکن کوئی اس ایسا نہیں ملے گا جو اسے لے لے) " بخاری

مسلمان کو اپنے نفس، سلوک اور زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کا حکم دیا گیا ہے؛ اس کیلیے خیر و بھلائی کے راستے اختیار کرے اور منفی تبدیلیوں سے بچے ، تبدیلی کیلیے نبی ﷺ کی اتباع کرے؛ کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی اور صحابہ کرام کی زندگی میں بہت سی قولی اور فعلی مثبت تبدیلیاں رونما فرمائیں: (آپ ﷺ نے حرب [جنگ] نامی شخص کا نام سلم [سلامتی] رکھا، شعب الضلالہ [گمراہ گھاٹی] کا نام شعب الہدی [رہنما گھاٹی] رکھا اسی طرح قبیلہ کا نام مغویہ [اغوا کار] سے رِشدہ [بھلائی] رکھا) ابو داود نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

آپ ﷺ کو ایسی جگہوں سے کراہت تھی جن کے نام اچھے نہ ہوں، چنانچہ جس وقت آپ ﷺ نے مدینہ تشریف لائے تو اس وقت اس کا نام "یثرب" تھا، آپ نے اس کا نام "طیبہ "رکھ دیا، آپ ﷺ نے بہت سے غلط مفاہیم کی بھی اصلاح فرمائی، مثلاً: "جس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: (تم "رقوب" کسے کہتے ہو؟)صحابہ نے کہا: جس کی اولاد نہ ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ( وہ رقوب نہیں ہے، بلکہ وہ شخص رقوب ہے جو اپنی اولاد میں سے کسی کو [اللہ کی راہ میں]پیش نہ کر سکے) پھر آپ نے فرمایا: (تم اپنے ہاں پہلوان کسے کہتے ہو؟) تو صحابہ کرام نے کہا: جسے کوئی پچھاڑ نہ سکے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اسے پہلوان نہیں کہتے، پہلوان وہ ہے جو غصے کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھے) مسلم

بسا اوقات مسلمان منفی رویے کا اسیر بن جاتا ہے، منفی رویہ اس کی سوچ اور فکر پر مکمل تسلط اختیار کر لیتا ہے کہ اب وہ اپنے اندر بہتری پیدا نہیں کر سکتا، یہ بہت ہی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، یہ انسان کو پیچھے کی جانب دھکیل دیتا ہے، ایسے منفی رویے کو مثبت رویے سے بدلنا ضروری ہے، جو قلب و ذہن میں یہ بات نقش کر دے کہ زندگی میں عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، اور مشکلات کس قدر بڑی ہوں ان کا حل لازمی ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عزمِ مصمم کے حاملین افراد اپنی زندگی کے گوشوں میں مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں؛ لہذا وہ لڑائی جھگڑے کو بھی محبت، اخوت اور دوستی میں تبدیل کر دیتے ہیں، وہ بری صحبت بدل کر اچھے دوست بناتے ہیں، بری عادتوں اور دین سے متصادم رسم و رواج کا خاتمہ کر دیتے ہیں وہ ایسی حرکتوں کے مدار میں نہیں گھومتے۔

انسانی زندگی میں تبدیلی کیلیے سب سے اہم ترین اقدام یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لائیں، یہیں سے امت کے حالات سنورنے کی ابتدا ہو گی جو کہ تنزلی، غربت اور پسپائی کی شکایت کر رہی ہے، پھر اس کے بعد علم سے آراستہ ہونے کا مرحلہ آئے گا جو کہ حقیقی معنوں میں تعمیر و ترقی کا ستون ہے؛ کیونکہ ہر دور میں علم ہی کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ}

اللہ تعالی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔[الرعد: 11]

بہتری کی جانب رواں دواں ہونے کا تقاضا ہے کہ نیت صاف ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ

تم نے جو اپنے رب کے ساتھ گمان کیا تھا وہی تمہاری تباہی کا باعث ثابت ہوا اور اسی کی وجہ سے تم خسارہ پانے والوں میں شامل ہوئے } [فصلت: 23]

اور ایک حدیث میں ہے:

(فرمانِ باری تعالی ہے: میرے بارے میں گمان کے مطابق میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے) بخاری ، مسلم

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے جس نے پیدا کیا اور سدھارا، جس نے درست تخمینہ لگایا اور رہنمائی بھی فرمائی، میں اللہ تعالی کی انگنت اور بے شمار نعمتوں پر اسی کے لیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بلند و بالا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو نور و ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل و صحابہ کرام پر اور آپ کے پیروکاروں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

اللہ کے بندو!

یہ بات ذہنوں میں نقش ہونی چاہیے کہ اسلام انسان کو ہر ایسی تبدیلی سے منع کرتا ہے جس سے انسان کی زندگی تباہ ہو جائے، دین کمزور پڑے اور دینی شعائر کی ہتک ہو، چنانچہ کسی کے مال و جان پر حملہ کرنا، امن وا مان خراب کرنا، لوگوں کا مال غلط طریقوں اور رشوت کے ذریعے ہڑپ کرنا، اور اداروں میں بد نظمی، بے حیائی کی نشر و اشاعت، اور فتنہ پروری اسی کی صورتیں ہیں۔

مسلمان بدیہی طور پر کسی بھی ایسی تبدیلی کو تسلیم نہیں کرتا جو نقصان دہ ہو، مسلمان اپنی زبان حال یا قول سے ایسی کوئی حرکت نہیں کرتا جس سے نعمتیں زائل ہونے کا خدشہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ}

کیا آپ نے ان کی طرف نظر نہیں ڈالی جنہوں نے اللہ کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا۔ [ابراہیم: 28]

ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ اسوۂ حسنہ ہیں؛ آپ ﷺ اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور اللہ تعالی سے ہی مدد مانگتے تھے کسی بھی ایسی تبدیلی سے جس میں نقصان ہو یا آزمائش ہو، آپ ﷺ اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہوئے ان چیزوں کا خصوصی ذکر فرماتے: غربت، ذلت، بزدلی، بے بسی، سستی، قرضوں کا بوجھ، لوگوں کا دبدبہ اور موذی بیماریاں، اسی طرح آپ ﷺ اللہ تعالی سے دنیا و آخرت میں عافیت اور معافی کا سوال کرتے تھے، آپ اللہ تعالی سے یہ بھی دعا کرتے کہ مسلمانوں کو فتنوں اور آزمائشوں سے بچا لے۔

ہم اللہ تعالی کی طرف سے عنایت شدہ ثابت قدمی کے بغیر لمحہ بھر بھی نہیں رہ سکتے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ}

ایمان والوں کو اللہ تعالی قولِ ثابت کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی [ابراہیم: 27]

اللہ کے بندو!

رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56]

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر اور مدد گار بن جا۔

یا اللہ! وہ بھوکے ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست فرما، وہ ننگے پاؤں ہیں انہیں جوتے فراہم فرما، انہیں تن ڈھانپنے کیلیے کپڑے عطا فرما، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کا بدلہ چکا دے۔

یا اللہ! کتاب نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، لشکروں کو پچھاڑنے والے دشمنانِ اسلام کو شکست سے دوچار فرما، یا قوی! یا عزیز! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، تونگری اور عفت مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم جنت کا تجھ سے سوال کرتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک ہر قسم کی جامع خیر کا سوال کرتے ہیں، شروع سے لیکر اختتام تک ، اول سے آخر تک ، ظاہری ہو یا باطنی سب کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لیے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ہم پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر اور تیرے لیے ہی مر مٹنے والا بنا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور تجھ ہی سے توبہ مانگنے والا بنا۔

یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہ معاف فرما، ہمارے دلائل ثابت فرما، ہماری زبانوں کو درست سمت عطا فرما، اور ہمارے سینوں کے میل نکال باہر فرما۔

یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما، خفیہ اور اعلانیہ بھی معاف فرما، بلکہ جنہیں توں ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے وہ بھی معاف فرما دے، تو ہی ترقی و تنزلی دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔

یا اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، تجھے معاف کرنا پسند بھی ہے، لہذا ہمیں معاف فرما دے۔

یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، بیماروں کو شفا یاب فرما، اور ہمارے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال ، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے ، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ!ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں اچھے مشیر عطا فرما جو انہیں خیر و بھلائی کے مشورے دیں اور رہنمائی کریں۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] }

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پڑھنے کیلیے کلک کریں

عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ سمیت انگلش ترجمہ کیلیے کلک کریں
 
Last edited:
Top