ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
برصغیر پاک و ہند میں تجوید و قراء ت کا آغاز واِرتقاء
قاری اظہار اَحمدتھانوی
فاروق احمدحسینو ی
فاروق احمدحسینو ی
زیرنظر مضمون ہمارے شیخ المشائخ، شیخ القراء قاری اظہار احمد تھانوی رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ خاص قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کی تصنیف قیم شجرۃ الأساتذۃ فی أسانید القراءات العشر المتواترۃسے ماخوذ ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی کے رکن محمد فاروق حسینوی نے اس مضمون کی تلخیص کے ساتھ ساتھ انتہائی عرق ریزی سے شیخ القراء قاری اظہار احمدتھانوی رحمہ اللہ کے ذاتی حالات اور پھر ان کے تلامذہ کے ضمن میں تجویدوقراءات کاارتقاء یوں پیش کردیا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اہل حدیث قراء کے تجوید و قراء ات کے فروغ و ارتقاء میں کردار پر بھی ایک تاریخی دستاویز تیارہوگئی ہے۔ہم استاذ القرا ء الشیخ قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ کے انتہائی شکرگزار ہیں کہ جنہوں نے اپنی طبیعت کی انتہائی علالت کے باوجود اس مسودے پرکئی دفعہ نظرثانی فرمائی اور بیشتر مقامات پر گراں قدر اِضافہ جات فرماتے ہوئے تاریخی اغلاط کی مکمل تصحیح بھی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ قاری صاحب حفظہ اللہ کو صحت کاملہ عاجلہ عطاء فرمائے اور ’رشد‘ سے علمی تعاون پر اجر عظیم عطاء فرمائے۔ آمین (ادارہ)
یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان جہادی جذبہ سے سرشار رہے ہیں۔ جس کی مثال ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف ایک عظیم جہادی تحریک کا نمایاں کردار ہے۔ اس جہادی تحریک کی خوبی اور وصف یہ تھا کہ اس تحریک میں شمولیت اختیار کرنے والی عوام نے کالے گورے، عربی و عجمی، رنگ و نسل اور علاقہ و وطن کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ جس کی بدولت شروع میں یہ تحریک فوز و کامیابی پر گامزن رہی، لیکن یہ بات قرونِ اولی سے چلی آ رہی ہے کہ ہرمضبوط ارادہ کی حامل تحریک و تنظیم میں غداروں اور منافقوں کا ٹولہ موجود ہوتا ہے۔ اس تحریک کا بھی یہی حال تھا۔ جس کی بنا پر یہ جہادی تحریک ناکام ٹھہری۔ جس کے بعد مسلمانوں پر مختلف قسم کے مصائب و آلام ڈھائے گئے۔ ان پر تکالیف و مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے اور ان کوسزاؤں اور ظلم و ستم کا تختہ مشق بنایا گیا۔ مسلمانوں کی عزتوں کو پامال، جائیدادوں کو ضبط اور کالے پانیوں کی سزائیں دی گئیں۔ گویا تہذیب ِمسلم کو غاصبوں اور ظالموں نے مسمار کرکے رکھ دیا۔ ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے بعض معزز خاندانوں نے ہجرت کا پروگرام بنایا۔ مکہ معظمہ کو کئی وجوہ کی بنا پر مناسب سمجھا اور اسی کی طرف حضرت مولانا حاجی امداداللہ فاروقی مہاجر مکی رحمہ اللہ نے تھانہ بھون سے اور رد عیسائیت کے پاسبان حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانی مہاجر مکی رحمہ اللہ نے کیرانہ سے اور جناب محمد بشیر خان رحمہ اللہ، ان کے بڑے بھائی اور ان کے خاندان سمیت سترہ افراد نے ہندوستان سے مکہ معظمہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
خاندان محمد بشیر رحمہ اللہ پر مشکلات اور مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ کی سرپرستی
برصغیرپاک و ہند کے سترہ باشندے جب مکہ معظمہ ، رباط اور برما میں جاکر رہائش پذیر ہوگئے، تو ان کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اشیاء خوردونوش کا فقدان اس قدر تھا کہ بسا اوقات آب ِزمزم پرہی گزارہ کرنا پڑتااور دوسری طرف رنج و الم کا یہ عالم کہ مکہ معظمہ گئے ہوئے ابھی تین سال ہوئے تھے کہ محمد بشیر خان رحمہ اللہ کے بردار اکبر خالق حقیقی سے جاملے اور پورے خاندان کی معاشی و اقتصادی ذمہ داری محمد بشیر خان رحمہ اللہ پرپڑگئی۔ ایسی بے بسی کے عالم میں محمد بشیر خان رحمہ اللہ کے خاندان کی سرپرستی کی ذمہ داری مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ نے سنبھال لی، محمد بشیر خان رحمہ اللہ چونکہ جلد سازی میں مہارت رکھتے تھے، لہٰذامولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے ارباب مال وزرسے محمد بشیر خان رحمہ اللہ کا رابطہ کرایا اور محمد بشیر خان رحمہ اللہ ان کے ہاں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خاندان کی ساکھ بچانے میں کامیاب ہوئے۔محمدبشیر خان رحمہ اللہ کے تین صاحبزادے تھے: بڑا بیٹا عبداللہ، اس سے چھوٹاعبدالرحمن اور سب سے چھوٹا بیٹاحبیب الرحمن تھا۔ محمد بشیر خان رحمہ اللہ نے مذکورہ تینوں صاحبزادوں کو مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں دے دیا۔ چند ماہ بعد محمد بشیر خان رحمہ اللہ کاانتقال ہوگیا تو بچے مکمل طور پر مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں آگئے۔ انہی ایام میں مولانا رحمت اللہ کیرانی رحمہ اللہ اور مولانا حاجی امداد اللہ رحمہ اللہ نے مل کر ایک درس گاہ کا سنگ بنیاد رکھا۔
قیام مدرسہ صولتیہ اور فروغ علم تجوید و قراء ت
۱۲۹۱ھ بمطابق ۱۸۷۶ء میں مولانا حاجی امداداللہ رحمہ اللہ اور مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ نے مل کر مکہ مکرمہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مدرسہ قائم کیا، جس کا نام مدرسہ صولتیہ رکھا، جس میں مکمل درس نظامی کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بچوں کے لیے قرآن کریم کی تعلیم کاباقاعدہ اہتمام فرمایا۔
مدرسہ صولتیہ کی وجہ تسمیہ
مدرسہ صولتیہ کا نام ایک نہایت نیک صولت النساء نامی خاتون کی طرف نسبت کرتے ہوے رکھا گیا ہے،جس کی وجہ یہ بنی کہ کلکتہ کی یہ نیک اور خوشحال خاتون اپنی بیٹی اورداماد کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادہ سے مکہ مکرمہ تشریف لائی اور وہاں بطور صدقہ جاریہ ’مسافر خانہ‘ بنانے کا ارادہ فرمایا۔ صولت النساء کے داماد مسجد حرام میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ سے اپنے پاکیزہ ارادہ کا ذکر کیا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ نے نہایت اہم مشورہ سے نوازتے ہوے فرمایا کہ یہاں مکہ مکرمہ میں مسافر خانے تو بہت ہیں، آپ کویہاں ایک مدرسہ تعمیر کروانا چاہیے، جس میں ہندستانی طریقہ کے مطابق تعلیم دی جاے، تاکہ ہندستانی بچے یہاں سے خوب استفادہ کرسکیں۔ مولانا کے اس مشورہ سے متفق ہوتے ہوئے صولت النساء نے مدرسہ کی زمین اورتعمیر کے تمام اخرجات پنے ذمہ لیے اور۱۲۹۱ ھ میں اس کی تعمیر فرمائی۔
مدرسہ صولتیہ کے قیام سے قبل مکہ معظمہ میں مدرسہ ہندیہ مولانا رحمت اللہ رحمہ اللہ کی سرپرستی میں چل رہا تھا، جس میں محدود پیمانے پر قرآن کریم کی علم تجوید کی تعلیم کا انتظام تھا۔ اس مدرسہ میں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کے فرائض مولانا قاری عبدالقادر مدارسی اَزہری رحمہ اللہ سر انجام دے رہے تھے۔ قاری عبداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ نے انہی سے قرآن کریم حفظ فرمایا اور تجوید کے بنیادی قواعد سیکھے۔ اس کے بعد قاری عبداللہ مہاجر مکیa نے مدرسہ صولتیہ میں حضرت ابراہیم سعد بن علی الازہری رحمہ اللہ سے تلمذ اختیار کیا اور علم تجوید و قراء ت میں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بیدار کیا۔